معیاری صحت کا نظام؟

ملک میں صحت کا شعبہ ایک کلیدی حثییت رکھتا ہے جس طرح بنیادی سہولتوں کی فراہمی عوام کا حق ہے اسی طرح میعاری صحت کا نظام سرفہرست ہے مگر صد افسوس کہ ملک میں صحت کا شعبہ اس قدر بہتر نہیں جس قدر ہو نا چا ہیے نااہلی کی حد یہ ہے کہ طاہر خلیل سندھو کے استعفیٰ کے بعد پنجاب میں ابھی تک ہیلتھ منسٹر مقرر نہیں ہو سکا ۔ ۔ یہاں غریب کو کھانے سے زیادہ اپنی صحت و علاج کی زیادہ فکر ہو تی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بعد اس کے خاندان کی کفالت کرنے والا کو ئی نہیں ہو گا مگر رواں دور میں غریبوں اور عام عوام کے ساتھ ہسپتالوں میں جوغیر انسانی سلوک و بر تاؤ کیا جا تا ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے ہمارے ہاں اکثر علاقائی ہسپتالوں میں کو ئی ٹیسٹ وغیر ہ کروانے جائیں تو ببانگ دہل کہہ دیا جاتا ہے کہ باہر سے کر وا کر لا ئیں مشین خراب ہے اور بے بسی کے عالم میں باہر سے بھاری فیس کے ساتھ پرائیویٹ لیب سے ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں ۔آج بھی ہسپتالوں کی اکثریت ایسی ہے جہاں انفراسٹراکچر کی کمی ہے جس سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کر ناپڑتا ہے ۔ایک قریبی دوست کو ڈینگی کی شکایت ہوگئی ،وہ لاہور کے ایک بڑے ہسپتال میں ٹیسٹ کروانے گیا خون کے نمونہ حاصل کرنے کے بعد اسے چار گھنٹے کے بعد آ نے کو کہا گیا چو نکہ اس کی طبیعت زیادہ خراب تھی اس لئے وہ ٹیسٹ اسی وقت درکار تھے وہ لیب کے اندر گیا اور ایک سو روپے کا سرخ نوٹ دیا اور دس منٹ میں ٹیسٹ رپورٹس حاصل کر لیں ،سو چتا ہوں جہاں اصولوں اور میرٹ اور انسانی صحت کی بجائے نوٹ چلتے ہوں وہاں صحت کا نظام کیسے بہتر ہو سکتا ہے ،صحت و صفائی کے معیار کو دیکھا جا ئے تو آج بھی کسی بڑے ہسپتال کا وزٹ کرلیا جائے صفائی کے ناقص انتظام کی بدولت صحت خانہ کم اور کباڑ خانہ زیادہ نظر آتے ہیں وہ مسیحاؤ ں کی بجائے خطرناک مچھروں کی آماجگاہ نظر آتے ہیں،ایک معیاری ہسپتال میں صحت وصفائی کے جو انتظامات ہو نے چا ہیے وہ تمام انتظامات تو درکنار کئی روز کا کوڑا کرکٹ دکھائی دیتاہے انفراسٹرکچر کی کمی اور خستہ حالی کا عالم یہ ہے کہ اکثر بڑے ہسپتالوں میں لگائی گئیں لفٹیں ناکارہ ہو چکی ہیں۔ ۔
غرضیکہ صحت کے تمام ادارے جن میعاری اور بنیادی سہولتوں سے آراستہ ہونے چا ہیے تھے وہ سٹینڈرز دور دور تک نظر نہیں آ تے ۔ ۔ اس وقت ان تمام صورتحال کے پیش نظر ایک ایسے ادارے کی ضرورت درپیش ہے جو بنیادی و ذاتی طور پر خود مختار ہو اور سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں میں تمام بنیادی سٹینڈرز کو فالو (Follow)کر وائے اور انہی کی بنیاد پر میرٹ پر انہیں لا ئنسز جاری کرے اور اِن میں رونما ہونے ہونے والی بد مزگیوں کا سختی سے نوٹس لے سکے ۔اس سلسلے میں جب متجسس ہو کر نظر دوڑائی تو پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن (PHC)کے نام سے ایک ادارہ میرے علم میں آیا جس پر دل کو تسلی ہوئی کہ یہ ادارہ خود مختار حثییت سے قائم ہے مزید جاننے کا موقع ملا تو پتا چلا کہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں تمام میعاری سہولتوں اور میرٹ کے بالادستی کے لئے یہ سرتوڑ کوششیں کررہاہے ۔اس حوالے سے ہیلتھ کی تنظیموں کا ردعمل جاننے کا موقع ملا جو کہ انتہائی مضحکہ خیز تھا کہ اس طرح کا ادارہ دوسرے ممالک میں تو چل سکتا ہے لیکن پاکستان میں چلانا ناممکنات میں سے ہے اس وقت اگر کوئی ادارہ نیک نیتی سے کام کررہاہے تو اس وقت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے حوصلہ کہ ضرورت ہے نہ کہ بے جا تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حوصلہ شکنی کی جائے۔ ۔

پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن (PHC)جاری کردہ میعارکے مطابق سرکار ی و نجی ہسپتالوں کی لا ئسنسنگ کے تحت انہیں لائسنس جاری کرتا ہے ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2013سے جون 2014تک 800سے زائد سرکاری و نجی ہسپتال رجسٹرڈ کیے گئے ۔401ہسپتالوں کو پراونشنل لائسنس اور 131جو کہ 50یا اس سے زائد بیڈز پر مشتمل تھے ان کی انسپکشن کی گئی اور ان میں جو معیار پر پوراترے وہ 17ہسپتال تھے جن کو لائسنس جاری کیے گئے ۔۔۔

اس کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ جو عوام کو پیش آرہاہے وہ ہسپتا ل انتظامیہ کا غیر اخلاقی رویہ ہے مریضوں کی اکثریت بیماری کی بجائے ڈاکٹروں کے ناروااور غیر اخلاقی رویہ کی بدولت امید کادامن ہاتھ سے چھوڑ دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام کا اعتماد ہسپتالوں بالخصوص سرکاری ہسپتالوں سے اٹھتا جا رہا ہے اور یہ ادارے بدنام ہو تے جا رہے ہیں اس موقع پر ہسپتال انتظامیہ کو پروفیشنل ٹریننگ کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کی طرف سے اب تک تقریبا ً 300ہسپتال کے ڈاکٹرز اور سٹاف کی کم از کم طے شدہ طبعی سہولیات (MSDS)پر عمل درآمد کے لئے ٹریننگ کی جا چکی ہیں جس میں مریضوں کو کم از کم بنیادی سہولیات کی فراہمی اور بہتر رویے کی تلقین کی گئی ہے جو کہ نہایت ہی خوش آئند امر ہے۔ اس موقع پر پی ایچ سی کو عوام کے لئے قائم کیے گئے شکایت سیل کو اس قدر فعال کرنا ہو گا کہ جس سے عوام کا اعتماد بحال ہو۔ تاکہ صحت کے تمام شعبوں میں احتساب کا نظام منظم ہو سکے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ali Raza shaAf
About the Author: Ali Raza shaAf Read More Articles by Ali Raza shaAf: 29 Articles with 24327 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.