ہمارے ادارے

تر قی یافتہ ممالک کی سب بڑی نشانی یہ ہے کہ آپ جس کسی ادارے میں بھی چلے جائے وہاں پر ایک طریقہ کار متعین ہو گا جس پر سب کو عمل کر نا ہوتا ہے ‘ وہاں پر یہ نہیں ہوتا کہ آپ امیر ہے تو آپ کا کام جلد ہو جائے گا یا آپ کا تعلق کسی ایم پی اے یا ایم این اے کے خاند ان سے ہیں یا ان کی سفارش آپ کے ساتھ ہیں تو آپ کی عزت بھی کی جائے گی اور آپ کاکام جلدی بھی ہو جائے گا۔ تر قی یافتہ ممالک میں میرٹ ، اصول قاعدہ و ضوابط سب کے لیے یکساں ہو تے ہیں جبکہ پاکستان جیسے تر قی پذیر ملکو ں میں اداروں کا حال تقر یباًٍایک جیسا ہو تا ہے ‘بے شک آپ کا ملک ایک ایٹمی ملک کیوں نہ ہو ‘آپ کی فوجی دنیا کی بہتر ین فوج میں شمار کیوں نہ ہو لیکن جب ادااروں میں کار کردگی کی بات آتی ہو تووہاں پر میرٹ ،اصول کوئی شے نہیں ہو تی ۔

ہمارے ملک میں پبلک سروس اداروں میں نظم وضبط انتہائی خراب ہے۔ رشوت ، سفارش کا کلچر عام ہو نے سے میر ٹ کی دھجیاں اُڑ ائی جاتی ہے ۔ اﷲ سے دُ عاکیا کر یں کہ آپ کا واسط کسی ادارے کے ساتھ نہ پڑے ۔ گزشتہ روز پشاور میں پاسپورٹ آفس جانے کا اتفاق ہو ا وہی حال جو پانچ سال پہلے تھا‘ کو ئی بہتری د یکھنے کو نہیں ملی یعنی بے انتہا رش ‘باہر لائینیں جبکہ اندار قدم رکھنے کی جگہ نہیں ‘ ہجوم کی وجہ سے گرمی اور حبس میں اﷲ بہت جلد یا د آجاتا ہے ۔خدا خدا کر کے آفس کے اند ر قدم تو رکھا لیکن جب پاسپورٹ رنیو کرانے کے بارے میں پوچھا تو وہی طر یقہ کار جو آپ نئے پاسپورٹ کے لیے کر تے ہیں یعنی پہلے دور بنک میں جاکر رقم جمع کر یں گے جو آپ نئے پاسپورٹ کے لیے کر تے ہیں ‘ اپ یہ خیال دل میں بالکل نہ لائیں کہ آپ بنک کے اند ر چلے جائیں گے اور پیسوں کا سلب بھر کر رقم جمع کر کے جلد پا سپورٹ آفس آجائیں گے بلکہ رقم جمع کرا نے کیلئے آپ بنک کے اندر نہیں جاسکتے بلکہ باہر کھڑ کی سے آپ لا ئن میں کھڑے ہو جائیں گے جہاں پر آپ سے پہلے پچاس آدمی کھڑے ہوں گے ۔ آپ یہ ہر گز نہ سو چیں کہ بنک یہ کام ثواب کے لیے فری میں کر تا ہے بلکہ رقم کے مطابق اپ سے اچھی خاصی سروس کے نام پر پیسے چارج کیے جا تے ہیں یعنی پاسپورٹ کے لیے رقم جمع کر انے کے ساتھ دو تین سو روپے بنک کو بھی دینے پڑ تے ہیں چو نکہ یہ رقم صرف سر کاری بنک میں جمع کر ائے جاتے ہیں تو اپ خود انداز ہ کر یں کہ ان کی سروس کیا ہو گی‘ دو دو قطاروں میں اشرف المخلوقات کھڑی ہوتی ہے جبکہ رقم لینے کے لیے صرف ایک بزرگ کیشر بیٹھا ہو گا جو اندر بھی ٹیلنگ کر تا ہو تا ہے اور باہر سے بھی پیسے لاتا ہے اس طرح صرف پیسے جمع کرانے میں اپ کے دو تین گھنٹے لگ جاتے ہیں یعنی عوام خوار اور پر یشان ہو تے رہیں تو ہو جا ئیں‘ کو ئی فر ق نہیں پڑ تا جبکہ جو لوگ اپنے پیسے سر کار کے کھاتے میں جمع کر لیتے ہیں تو ان کی خو شی د یکھنے والی ہوتی ہے جسے وہ کے ٹو کا پہاڑ عبور کر کے آیا ہو بہر کیف کا ر سر کار میں اپ مداخلت بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ نہ اس کا کو ئی فائد ہ ہو تا ہے اور نہ ان لوگ پر اس کا کو ئی اثر ہو تا ہے کیوں کہ اپ مجبور ہے کہ اپ نیشنل بنک میں ہی رقم جمع کر یں گے ۔ اگر اپ ان تما م ایکسر سائز سے پچانا چاہتے ہیں تو باہر ایجنٹ مو جود ہو تے ہیں جو دو تین سو روپے ایکسٹرا لے کر اپ کا کام یعنی رقم جلدی جمع کر ا دیں گے ‘ اسی طرح پاسپورٹ بنانے کے ایکسر سائز میں بھی وہ اپ کی مد د کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے اپ کو اضافی پیسے دینے ہوں گے ۔ رنیو پاسپورٹ کا بھی وہی طر یقہ کار ہو تا ہے جس طرح نیا پاسپورٹ بنا یا جا تا ہے ‘ ایک فی صد بھی اس میں کو ئی فر ق نہیں ہو تا جبکہ کمپیوٹرائز سسٹم ہو نے کے باوجود بار بار ایک ہی طر یقے سے آپ کو گزرنا پڑ تا ہے ۔ پہلے تو میرا خیال تھا کہ شاید پشاور پاسپورٹ آفس اور نیشنل بنکو ں کا یہ حال ہے لیکن تحقیق کر نے پر معلوم ہوا کہ یہ حال پورے ملک میں پاسپورٹ د فتروں اور بنکوں کا ہے ‘ جہاں پرمعلوم ہو تا ہے کہ بنک رقم جمع نہیں بلکہ شاید مفت رقم لو گوں میں تقسیم کر رہی ہے اس وجہ سے لمبی لمبی لائنیں کھڑی ہے۔ ہماری بد قسمتی دیکھیں کہ رقم بھی اپ سے لی جاتی ہے اور سر کاری فیس کے علاوہ سروس چارجز کے نام پر اضافی پیسے بھی لیے جاتے ہیں لیکن نہ اپ کو آسان سروس دی جاتی ہے اور نہ کوئی سہو لت بلکہ پیسے لے کر اپ پر احسان کر تے ہیں ۔ سر کاری اداروں میں کمیو نیکشن کر نا سب سے مشکل کام ہے ۔ون ونڈ وآپر یشن توکہی پر بھی موجود نہیں ۔پیسے بھی اپ سے لیے جاتے ہیں ،دفتروں کے چکر اور قطاروں میں بھی کھڑا ہو نا پڑتاہے لیکن پھر بھی ہمارے ادارے نقصان میں جارہے ہیں جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میر ٹ کہی پر موجود نہیں ‘ تقر یباً ہر جگہ پیسے اور سفارش کلچر پروان چڑھ رہا ہے اگر یہ دو چیز یں ہے توآپ کا کام جلدی بھی ہو جاتا ہے اور اپ کو پر یشانی کا سامنا بھی نہیں کر نا پڑ تا ہے۔ اداروں کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا احتساب بھی کر نا ہو گا کہ ہم خود قانون پر کتنا عمل کر تے ہیں۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 201460 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More