ریاست، سماجیت اور نوجوان نسل

 اقوامِ متحدہ کی وضاحت کے مطابق 15سے 24سال تک کے افراد کو ’نوجوان‘ کہا جاتا ہے۔ اور اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں نوجوانوں کی بہت بڑی آبادی موجود ہے۔ پاکستان میں اس وقت 60% سے زائد آبادی 25 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ اور پاکستان کی یہ ساٹھ فیصد سے زائد آبادی جسے حرفِ عام میں نوجوان کہا جاتا ہے آج تک کرکٹ میچ اور نئی آنے والی فلم پر تبصرے کرنے سے آگے بڑھ ہی نہیں سکی۔ اس ملک کے نوجوان پاکستانی ٹیم کی میچ فکسنگ پر توکئی کئی گھنٹے بول سکتے ہیں، مگر ملک میں آئے سیلاب کے اسباب اور اس کی وجہ سے ہونے والی تباہیوں پر بات کرنے کے لئے ان کے پاس الفاظ اور وقت نہیں ہے۔ دوسری جانب خصوصیات کی حامل جدید ٹیکنالوجی اور سوشل نیٹ ورک کی ویب سائٹس نے جہاں رابطے میں آسانیاں پیدا کیں ہیں ‘وہیں ان کے بے تحاشہ استعمال نے نوجوان نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ نوجوان اپنے اوقاتِ کار کا اکثر حصہ سماجی نیٹ ورک کی ویب سائٹس پر ایک دوسرے کی تصاویر پر’کمنٹس‘ کرنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ لیکن ملک میں معاشی بحران اور دہشت گردی کے واقعات پر اپنی رائے دینے سے کتراتے ہیں۔

لیکن بات اگر بلوچستان کے نوجوانوں کی ہو تو قصہ کچھ مختلف ہو جاتا ہے۔ بلوچستان صرف اپنے جغرافیے میں ہی نہیں بلکہ اپنے ثقافتی،سیاسی اور سماجی رویوں میں بھی انفرادیت کا حامل ہے۔منظم اور باضابطہ اداروں کے فقدان کے باوجود یہاں کی سیاسی جدوجہد کے باعث بلوچ نوجوان سیاسی شعور میں بالغ و سیع نظر ہیں۔ یہ شعور ان تاریخی تجربات اور تاریخی جدلیات کے تناظر میں انہیں حاصل ہوا ہے جو 1948ء سے ان کے اجتماعی قومی شعور کا حصہ ہے۔میربزنجو سے لے کر ،گل خان نصیر اور سردار مری تک اس خطے کو ایسے افراد میسر آئے جو بذاتِ خود اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں۔اس لئے بلوچستان کا نوجوان خطے کی دیگر اقوام کی نوجوان نسل کی نسبت زیادہ باشعور،سیاسی، اور انقلابی اور تبدیلی کے لئے متحرک نظر آتا ہے۔

بلوچستان میں اس وقت بہت ہی کم مقامی سماجی تنظیمیں ’یوتھ ڈیولپمنٹ‘ پر کام کر رہی ہیں۔ کیونکہ بلوچستان اور اس صوبے کے عوام کی طرح یہاں کی مقامی تنظیمیں بھی ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے نظر اندازی کا شکار رہی ہیں۔ بہت کم وسائل کی وجہ سے ان سماجی تنظیموں کے کام بھی بہت ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ریاست کی جانب سے بلوچستان میں دہشت گردی کے الزام کی وجہ سے بہت ہی کم ڈونر یہاں کی سماجی تنظیموں کو فنڈنگ کرتے ہیں، اور ان بہت کم میں صرف چند ایک ہی ایسے ڈونر ادارے ہیں جو یوتھ ڈیولپمنٹ کے لئے یہاں کی مقامی سماجی تنظیموں کو فنڈنگ کرتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے کچھ نوجوان خود ’یوتھ ڈیولپمنٹ‘ پر کام کرنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت سرگرم ہیں مگر وسائل کی کمی کے باعث بہت سے مسائل کا شکار ہیں اور ملکی و بین الاقوامی اداروں کی جانب سے نظر انداز کئے جارہے ہیں۔ نوجوانوں کے نظر انداز ہونے کی ایک بڑی وجہ این جی اوز کا غیر سیاسی اور غیر جانبداری کا نعرہ بھی ہے۔اور جیسا ہم نے بیان کیا کہ اس خطے کے نوجوان سیاسی طور پر باشعور ہیں اور بلوچستان میں نوجوانوں کی جانب سے بنائے گئے اکثر سماجی اداروں کا نصب العین ’نوجوان نسل میں پختہ سیاسی شعور کی بیداری ہے‘۔ جبکہ ملکی اور عالمی ڈونر و این جی اوز انہی مقامی اداروں اور لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں جوسماجی تبدیلی کے لئے غیر سیاسی ہونے کا دعویٰ کریں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی حقیقی سماجی تبدیلی سیاسی عمل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتی اور ’کارل مارکس‘ کے بقول ’’ ایک طبقاتی سماجی میں غیر جانبداری منافقت کا دوسرا نام ہے۔‘‘

پاکستان میں بھی نوجوانوں کو سیاسی و سماجی عمل میں حصہ لینے کے لئے ’غیر جانبداری‘ کے اس حصار سے باہر آنا ہوگا اور طاہر ہے کہ یہ خود رْو طور پر ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ کام ایسے آزاد و خودمختار ادارے کر سکتے ہیں جن کی وفاداری و جانبداری سرکاری و ریاستی نہیں بلکہ عوامی ہونی چاہیئے۔ افراد اور ادارے جب سرکار اور ریاست کی بجائے عوام کے حق میں جانبدار ہو کر کام کریں گے تبھی عوامی اْمنگوں کی ترجمانی کر سکیں گے اور عوامی مسائل کے حل کی جانب پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔ ایسے ہی ادارے نوجوانوں کو ان کے اصل کام اور کردار سے آشنا کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو ولگیرڑی اور ٹائم کِلر مشاغل سے نکل کر اپنے اردگرد کے سیا سماجی عمل کا حصہ بننا ہوگا، کیونکہ یہ سیاسی عمل ہی ہے جو نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں مستقبل کا معمار بننے کی صلاحتیں عطا کرتا ہے۔ لیکن ذات مفادات سے بالا تر ہو ایسا خالص نظریاتی و انقلابی سیاسی عمل جو نہ صرف سماج کے نقائص کی نشاندہی کرے بلکہ اسے بدلنے کا ادارک بھی دے۔ بلا شْبہ ایسے سچے نظریاتی سیاسی و سماجی عمل میں نوجوانوں کی شرکت کے بغیر کسی قسم کے جمہوری معاشرے کا خواب ایک سراب ہی رہے گا۔
Khalid Mir
About the Author: Khalid Mir Read More Articles by Khalid Mir: 2 Articles with 2053 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.