آئی ڈی پیز یا بنوں کے غریب

عراق کے شہر موصل میں داعش کے دہشت گردوں نےحضرت یونس علیہ السلام کا مزار دھماکے سے شہید کردیا، اسی مزارکے احاطے میں ایک مسجد کو بھی شہید کردیا گیا جوآٹھویں صدی عیسوی میں تعمیرکی گئی تھی۔ داعش دہشت گردوں نے گذشتہ ایک ماہ کےدوران 45 مزارات، مساجد اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا۔ اہل بصیرت مسلمان بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ "داعش" کو بنانے والے کون کون سے اسلامی وغیراسلامی ممالک ہیں ۔ جب شام پر کثیرالملکی حملہ نہ کیا جاسکا تو داعش کو متعارف کروایا گیا ۔اس حقیقت کو پاکستان میں بھی سب جانتے ہیں،مگر کچھ امن کے دشمن حضرت یونس علیہ السلام کے مزارکو گرانے کی اسی طرح ترید کرتے نظر آتے ہیں جیسے طالبان کی دہشت گردی کی واردات کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد یہ طالبانی حمایتی دہشت گردی کی ترید کرتے ہیں ۔ دہشت گرد تنظیم داعش کا سربراہ ابو بکر البغدادی خودساختہ خلیفہ بھی ہے مگر ابو بکر بغدادی کی نام نہاد خلافت کو کئی دوسری دہشت گرد تنظیموں نے مسترد کردیا ہے۔ مسلم مبصرین کا کہنا ہے کہ ابو بکر بغدادی اور اسکی تنظیم داعش امریکی اور اسرائیلی ایجنٹ ہیں اور ابوبکر بغدادی خود ایک مشکوک انسان ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے اس دہشت گرد تنظیم داعش نےبیت المقدس کو فتح کرنے کے بجائے کلیسائے روم کو فتح کرنے کا مشکوک نعرہ لگایا ہے۔ داعش دہشت گرد تنظیم کے مشکوک نعروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں سے اسرائیل غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے لیکن القاعدہ سے لیکر داعش تک کسی بھی ایک دہشت گرد تنظیم نے دنیا بھر میں کہیں بھی امریکی یا اسرائیلی مفادات کومعمولی سا بھی نقصان نہیں پہنچایا اور یہ ہی حال باقی تمام دہشت گرد تنظیموں کا ہے، ان میں آئی ایس آئی ایس بھی شامل ہے اور پاکستانی اور افغانی دہشت گرد تنظیم طالبان بھی شامل ہے۔ آج جو کام داعش عراق میں کررہی ہے وہ ہی کام طالبان دہشت گرد پاکستان اور افغانستان میں کرتے رہے ہیں۔ ان دہشت گردوں کا بھی یہ ریکارڈ ہے کہ انہوں بھی پورئے پاکستان میں کہیں بھی امریکی ، مغربی یا اسرائیلی مفادات کومعمولی سا بھی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔

طالبان دہشت گردوں نے کافی تعداد میں پاکستان میں مزاروں، مسجدوں اور امام باگاہوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسکے علاوہ طالبان دہشت گردوں کی دہشت گردی سے گذشتہ دس سال میں جون 2014ء تک پاکستان میں 52ہزار409 افراد شہید ہوئے، سیکورٹی فورسز کے 5ہزار775 اہلکار شہید ہوئے، 396 خود کش حملے ہوئے جس میں 6ہزار21 افراد جاں بحق اور 12ہزار558 افراد ذخمی ہوئے، 4ہزار932 بم دھماکے ہوئے۔ گذشتہ سال سے مسلم لیگ نون کی حکومت نے مذاکرات مذاکرات کا کھیل رچایا ہوا تھا، اور اس مذاکرات کے کھیل میں مسلم لیگ نون، جماعت اسلامی اورطالبان کے نام نہاد باپ مولانا سمیع الحق شامل تھے جبکہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمان بلواسطہ شامل تھے، اور یہ تمام جو مذاکرات کا کھیل کھیل رہے تھے آپریشن کی مخالفت میں آگے آگے تھے۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم تو مجبور ہیں ورنہ وہ کافی عرصہ پہلے طالبان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امیر المومنین بن چکے ہوتے۔ جماعت اسلامی اور دونوں جمیت علمائے اسلام، فضل الرحمان اور سمیع الحق گروپ مذہب کی آڑ لیکر آپریشن کی مخالفت کررہے تھے، جبکہ عمران خان جو یو ٹرن کے چیمپین ہیں آپریشن سے لوگوں کو ڈراتے رہے اور جب آپریشن شروع ہوا تو فوج کے حامی بن گے۔ آٹھ جون کو کراچی ایئرپورٹ پر طالبان دہشت گردوں کے حملے کے بعداتوار 15 جون کو افواج پاکستان نے طالبان دہشت گردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے مرکزی حکومت اور خیبر پختوخوا کی صوبائی حکومت ملکر یہ پروگرام بناتے کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد کیا کیا مشکلات پیش آینگیں اور اُنکا سامنا کیسے کیا جائے گا؟ لاکھوں آئی ڈی پیز کے رہنے، کھانے پینے اور اُنکی صحت کا خیال کیسے رکھا جائے گا؟ بدقسمتی سے ان مسائل سے نبٹنے کےلیے کوئی ہوم ورک نہیں ہوا، اب صورتحال یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کےنتیجے میں گھربار چھوڑنے والوں کی تعداد9لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے ارکان نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے استفسارکیا کہ شمالی وزیرستان کی کل آبادی تو 6لاکھ رجسٹرڈ ہے یہ 9 لاکھ متاثرین کہاں سے آگئے۔ اگر پہلے سے یہ سروئے کروالیا جاتا تو یہ پچاس فیصد کا جو اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ سے متاثرین کی مشکلات میں کمی تو دور کی بات، الٹا اس میں اضافہ ہورہا ہے۔گھروں سے دربدر ہونے والے متاثرین کو روزے کی حالت میں کڑی دھوپ ہرکام کے لیے الگ الگ قطار میں لگنا پڑتا ہے۔پہلے رجسٹریشن ،پھر راشن اور پھر مالی امداد والی موبائل فون سمز کے حصول کے لیے قطار۔پریشانی صرف لائنوں میں لگنا ہی نہیں ، بلکہ مالی امداد کی فراہمی کے طریقہ کار سے بھی لوگ پریشان ہیں، شمالی وزیرستان کے اکثر رہائشی موبائل فون کے استعمال سے ناواقف ہیں ، ان متاثرین کو امدادی رقم موبائل فون سمز کے ذریعے دی جارہی ہے ، جبکہ وہ موبائل فون سم کےاستعمال اور اسے ایکٹی ویٹ کرنے سے بھی ناواقف ہيں۔ متاثرین کا کہنا ہےکہ اگر پہلے سے منصوبہ بندی کرلی جاتی تو یہ سارا کام ایک ہی جگہ پر ہوسکتا تھا ۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اس آپریشن کے موقعہ پر جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا اسکا دور دور پتہ نہیں، تحریک انصاف جس کی خیبر پختونخوا میں حکومت ہے اُسکے سربراہ عمران خان کو آئی ڈی پیز سے زیادہ 14 اگست کو اسلام آباد فتح کرنے کی فکر ہے، لندن کے بھی دو چکر لگا آئے ہیں جبکہ وزیراعظم نواز شریف نو لاکھ بےگھروں کےلیے کچھ کرنے کے بجائے سعودی عرب عبادت کرنے گئے ہوئے ہیں اور یہاں اُنکے وزیروں کو آئی ڈی پیز سے زیادہ 14 اگست کی فکر کھارہی ہے، شاید وزیراطلات کو تو طوطے کی طرح سے رٹا دیا گیا ہے کہ صبح سے شام تک اُنکو 14 اگست اور عمران خان کےلیے کیا کہنا ہے۔ علامہ طاہرالقادری بھی ہر روز اپنے انقلاب کے پرچار میں لگے ہوئے ہیں، آصف زرداری امریکہ میں ہیں، ائے این پی اور ایم کیوایم آپریشن کے تو بہت زبردست حامی ہیں لیکن آئی ڈی پیز کے ساتھ وہ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ جماعت اسلامی آئی ڈی پیز کے ساتھ اپنی این جی او کے گشتی دواخانوں کے زریعے موجود ہے، جہاں تک مولانا فضل الرحمان یا مولانا سمیع الحق کا تعلق ہے ، آئی ڈی پیز سے چونکہ کوئی سیاسی یا مالی فاہدہ نہیں ہے لہذا وہ دور ہیں۔ پاکستانی میڈیا شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی مشکلات کی پوری کوریج نہیں کررہا ہے اُسکو رمضان بازار سے فرصت نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول نے شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے لئے عید کے پر مسرت موقع پر عید گفٹ بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور بھی کچھ ایسا ہی کرینگے ، لیکن میں ایک مرتبہ پھر یہ ہی کہونگا کہ یہ نہ تو بھکاری ہیں اور نہ ہی غیرملکی مہاجرین یہ ہمارئے اپنے ہی بھائی ہیں۔مشکل کی اس گھڑی میں ان متاثرین بھایئوں کے حالات کو واضع طور پر سمجھنے کےلیے آیئے مبشر علی زیدی کی 100 لفظوں کی کہانی "انکشاف" پڑھ لیں۔۔۔۔

سو (100) لفظوں کی کہانی ۔۔۔۔۔۔انکشاف ۔۔۔۔۔۔مبشر علی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا گھر گاؤں میں تھا۔ ہم نے کبھی شہر نہیں دیکھا تھا۔
مکان میں صرف ایک کمرہ تھا جس میں اندھیرا بھرا رہتا تھا۔
بارشوں میں چھت ٹپکتی تھی، دروازہ گرمی سردی کو گھسنے سے نہیں روکتا تھا۔
ماں کبھی آلو کا بھرتا، کبھی ٹماٹر کی چٹنی بناتی تھی،
کبھی ہم پیاز کے ساتھ روٹی کھاتے تھے۔
خاندان میں آٹھ افراد تھے لیکن چارپائیاں صرف تین، کوئی تکیہ نہیں تھا۔
رات کو سب زمین پر چٹائی بچھاکر سوتے تھے۔
اس کے باوجود ہم خوش تھے، خود کو امیر سمجھتے تھے۔
یہ ہمیں بنوں آکر پتہ چلا کہ ہم غریب ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
سو (100) لفظوں کی کہانی بشکریہ روز نامہ جنگ
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 443785 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More