عید الفطر کے احکام ومسائل

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

مسئلۂ رویت ہلال (چاند کا مسئلہ):
اسلامی مہینوں کا آغاز چاند کی رویت پر مبنی ہے، یعنی چاند کے نظر آنے پر مہینہ ۲۹ دن ورنہ ۳۰ دن کا شمار ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے رمضان کے روزہ کے متعلق امت مسلمہ کو حکم دیا: فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْےَصُمْہُتم میں سے جو شخص ماہ رمضان کو پالے اس پر لازم ہے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔ لہذا ماہِ رمضان ودیگر مہینوں کی ابتداء اور ان کے اختتام کو احادیث نبویہ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں:
٭ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: چاند دیکھ کر روزہ رکھواور چاند دیکھ کر ہی عید کے لئے افطار کرو۔ (بخاری)
٭ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مہینہ (کم از کم) انتیس راتوں کا ہوتا ہے، اس لئے جب تک انتیس کا چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور اگر چاند تمہیں نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرکے روزے رکھو۔ (بخاری)
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ ہمیں چاند دیکھ کر روزہ شروع کرنا چاہئے ورنہ تیس شعبان کے بعد سے روزہ شروع کیا جائے گا، اسی طرح چاند دیکھ کر عید کرنی چاہئے ورنہ تیس روزے رکھ کر عید الفطر منائی جائے گی۔ البتہ دیگر متعدد احادیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہر ہر شخص کا چاند دیکھنا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کچھ باشرع حضرات نے چاند دیکھ لیا اور ان سے باقاعدہ طور پر شہادت لے کر رویت ہلال کمیٹی نے چاند کے نظر آنے کا اعلان کردیا تو ہر شخص کو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ مگر بعض ملکوں میں اقلیت میں ہونے نیز مختلف جماعتوں میں منقسم ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس ایسی بااثر رویت ہلال کمیٹی موجود نہیں ہوتی کہ جس کے اعلان کرنے پر سب کے ذمہ اسکی پابندی لازم ہوجائے ۔ اس وجہ سے کبھی کبھی ایک ہی شہر اور محلہ میں ایک سے زیادہ عید نظر آتی ہیں، جس سے دوسروں کو غلط پیغام پہونچتا ہے، اگرچہ دینی اور سائنسی دونوں نقطۂ نظر سے پوری دنیا میں ایک ہی دن عید کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ خیرالقرون میں بھی ملکِ شام میں مدینہ سے ایک روز قبل رمضان شروع ہوا۔ نیز مکہ یا مدینہ منورہ میں ایک جگہ چاند نظر آنے پر ۴۵۰ کیلومیٹر کی دوری کے باوجود دوسری جگہ اس کو تسلیم کیاگیا۔ سائنس کے اعتبار سے بھی تحقیقی بات یہی ہے کہ چاند کے نکلنے کی جگہیں (مطالع) مختلف ہوتی ہیں اور ۲۹ کا چاند ہر جگہ نظر نہیں آتا ہے خواہ موسم بالکل صاف ہی کیوں نہ ہو بلکہ ہر ماہ چاند کے طلوع ہونے کی جگہ مختلف ہوتی ہے۔

لہذا اگر تجربات اور تحقیق سے معلوم ہو کہ فلاں علاقہ کے حضرات ایک مطلع کے تحت ہیں تو ایک جگہ چاند نظر آنے پر اسی مطلع کے ضمن میں آنے والے تمام حضرات کو چاند کی شہادت اور اس شہادت کی بنیاد پر چاند کی پہلی تاریخ تسلیم کرلینی چاہئے کیونکہ نبی اکرمﷺ کے اقوال وافعال اور صحابۂ کرام کے تعامل سے ہر ہر شخص کا چاند دیکھنا ضروری نہیں ہے۔

عید الفطر کی رات میں بھی عبادت کرنی چاہئے:
٭ عید الفطر کی شب میں عبادت کرنا مستحب ہے جیساکہ حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے متعلق میری امت کو خاص طور پر پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ کیا یہ شب ِمغفرت شب ِقدر ہی تو نہیں ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد، بزار ، بیہقی، ابن حبان) معلوم ہوا کہ عید کی رات میں بھی ہمیں عبادت کرنی چاہئے اور اِس بابرکت رات میں خرافات میں لگنے اور بازاروں میں گھومنے کے بجائے عشاء اور فجر کی نمازوں کی وقت پر ادائیگی کرنی چاہئے، نیز تلاوتِ قرآن ، ذکر واذکار اور دعاؤں میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا چاہئے یا کم از کم نمازِ عشاء اور نماز فجر جماعت کے ساتھ ادا کریں۔

عید الفطر کے بعض مسائل اور احکام:
اسلام نے عید الفطر کے موقع پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے مل جل کر خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے۔ احادیث میں وارد ہے کہ حضور اکرم ﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں دیکھا کہ لوگ دو دنوں کو تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ آپ ﷺنے جب اہل مدینہ سے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیسے ہیں جن میں وہ کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں، تو انصار نے جواب دیا کہ ہم لوگ زمانۂ قدیم سے ان دونوں دنوں میں خوشیاں مناتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان دودنوں سے بہتر دو دن مقرر فرمائے ہیں،ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔ (ابوداود)
٭ عید الفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے جیساکہ حضور اکرم ﷺ کے ارشادات میں وارد ہوا ہے۔
٭ عید کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا، حسب ِاستطاعت عمدہ کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، صبح ہونے کے بعد عید کی نماز سے پہلے کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا، عید کی نماز کیلئے جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا، ایک راستہ سے عیدگاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا، نماز کے لئے جاتے ہوئے تکبیر کہنا (اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر،لَا اِلہَ اِلَّا اللّٰہ، وَاللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر، وَلِلّٰہِ الْحَمْد)، یہ سب عید کی سنتوں میں سے ہیں۔
٭ حضور اکرم ﷺ عید الفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھاکر جاتے تھے اور عید الاضحی میں بغیر کھائے جاتے تھے۔ (ترمذی)
٭ عید الفطر کے روز نماز عید سے قبل نماز اشراق نہ پڑھیں۔ (بخاری ومسلم)
٭ عید الفطر کے دن دو رکعت نماز جماعت کے ساتھ بطور شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔
٭ عید الفطر کی نماز کا وقت طلوع ِآفتاب کے بعد سے شروع ہوجاتاہے۔
٭ عید الفطراور عید الاضحی کی نماز میں زائد تکبیریں بھی کہی جاتی ہیں جنکی تعداد میں فقہاء کا اختلاف ہے، البتہ زائد تکبیروں کے کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں امت مسلمہ نماز کے صحیح ہونے پر متفق ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور فقیہ ومحدث حضرت امام ابوحنیفہؒ نے ۶ زائد تکبیروں کے قول کو اختیار کیا ہے، جس کے متعدد دلائل میں سے تین دلائل پیش خدمت ہیں:
٭ حضرت سعید بن العاص رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ اور حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اﷲ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اﷲ ﷺ عیدالاضحی اور عید الفطر میں کتنی تکبیریں کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا: چار تکبیریں کہتے تھے جنازہ کی تکبیروں کی طرح۔حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ نے (حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ کی تصدیق کرتے ہوئے) کہا کہ انہوں نے سچ کہا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ نے بتایا کہ جب میں بصرہ میں گورنر تھا تو وہاں بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد۔باب التکبیر فی العیدین، السنن الکبری للبیہقی ۔باب فی ذکر الخبر الذی قد روی فی التکبیر اربعاً)
٭ احادیث کی متعدد کتابوں میں جلیل القدر صحابی حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے عیدین کی چار تکبیریں (پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ اور دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر کے ساتھ) منقول ہیں۔یاد رکھیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے شاگردوں کے خصوصی شاگرد ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ ہی حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کی قرآن وحدیث فہمی کے حقیقی وارث بنے ۔
٭ امام طحاوی ؒ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد تکبیراتِ جنازہ کی تعداد میں اختلاف ہوا ۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں حضرات صحابۂ کرام نے باہمی غوروخوض کے بعد اس امر پر اتفاق کیا کہ جنازہ کی بھی چار تکبیریں ہیں نماز عیدالاضحی اور عید الفطر کی چار تکبیروں کی طرح (پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ اور دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر کے ساتھ) ۔ (طحاوی ۔ التکبیر علی الجنائز کم ہو؟) غرضیکہ عہد فاروقی میں اختلافی مسئلہ"تکبیراتِ جنازہ" کو طے شدہ مسئلہ "تکبیراتِ عید" کے مشابہ قرار دے کر چار کی تعیےن کردی گئی۔
٭ عید کی نماز کے بعد امام کا خطبہ پڑھنا سنت ہے، خطبہ شروع ہوجائے تو خاموش بیٹھ کر اُس کا سننا واجب ہے۔ جو لوگ خطبہ کے دوران بات چیت کرتے رہتے ہیں یا خطبہ چھوڑکر چلے جاتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔

شوال کے ۶ روزے:
حضرت ابوایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اُس کے بعد چھ دن شوال کے روزے رکھے تو وہ ایسا ہے گویا اُس نے سال بھر روزے رکھے۔ (صحیح مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ) اس مذکورہ حدیث میں دہر کا لفظ آیا ہے جس کے اصل معنی زمانے کے ہیں لیکن دیگر احادیث کی روشنی میں یہاں سال مراد ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امت کو بشارت دی ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے والا اس قدر اجر وثواب کا حقدار ہوتا ہے کہ گویا اس نے پورے سال روزے رکھے، اﷲ تعالیٰ کے کریمانہ قانون کے مطابق ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ملتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: جو شخص ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ (سورۂ الانعام ۱۶۰) تو اس طرح جب کوئی ماہ رمضان کے روزے رکھے گا تو دس مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا اور جب شوال کے چھ روزے رکھے گا تو ۶۰ دنوں کے روزوں کا ثواب ملے گا تو اس طرح مل کر بارہ مہینوں یعنی ایک سال کے برابر ثواب ہوجائے گا۔

مذکورہ فضیلت کے علاوہ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں، شوال کے ان چھ روزوں سے اﷲ تعالیٰ اس کوتاہی اور کمی کو دور فرمادیتے ہیں۔ اس طرح ان چھ روزوں کی رمضان کے فرض روزوں سے وہی نسبت ہوگی جو سنن ونوافل کی فرض نمازوں کے ساتھ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سنن ونوافل کے ذریعہ فرض نمازوں کی کوتاہیوں کو پورا فرمادیتا ہے جیساکہ واضح طور پر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔

شوال کے ۶ روزے مسلسل رکھنا ضروری نہیں ہیں:
احادیث میں چھ روزے مسلسل رکھنے کا ذکر نہیں ہے، لہذا یہ چھ روزے ماہ ِشوال میں عید الفطر کے بعد لگاتار بھی رکھے جاسکتے ہیں اور بیچ میں ناغہ کرکے بھی۔غرضیکہ رمضان کے فوراً بعد یا لگاتار رکھنا کوئی شرط نہیں ہے، ماہ شوال میں کبھی بھی مسلسل یا بیچ میں ناغہ کرکے ۶ روزے رکھنے سے یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔

شوال کے ۶ روزے شروع کرنے کے بعد ان کا مکمل کرنا ضروری نہیں:
اگر کسی شخص نے ان چھ روزوں کو رکھنا شروع کیا، لیکن کسی وجہ سے ایک یا دو روزہ رکھنے کے بعد دیگر روزے نہیں رکھ سکا تو اس پر باقی روزوں کی قضا ضروری نہیں ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص ہر سال ان روزوں کے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے مگر کسی سال نہ رکھ سکے تو وہ گناہگار نہیں ہے اور نہ ہی اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہے۔
Muhammad Najeeb Qasmi
About the Author: Muhammad Najeeb Qasmi Read More Articles by Muhammad Najeeb Qasmi: 25 Articles with 30839 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.