فوڈ انسپکٹر کی گشت

آپ کو بھی کبھی کھبار موقع ملتا ہوگا فرصت سے بیٹھنے کا ،یا پھر دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے کا، لطیفے سنے سنانے کا موقع بھی ملتا ہوگا،اپ نے یہ عام سا لطیفہ بھی سنا ہوگا کہ ایک بچہ اپنی مٹھی میں ٹافی بند کر کے دوسرے بچے سے پوچھتا ہے میری مٹھی میں ٹافی ہے تم بتاو اس میں کیا ہے۔،خیر اس سے توبچے کی معصومیت ظاہر ہوتی ہے، اسی طرح کی معصومیت اکثر پرائیویٹ اور سرکاری دفاتر کے لوگ بھی کرتے ہیں جب انہوں نے کسی دوسرے آفیس کا دورا کرنا ہوتا ہے تو پہلے بتا دیتے ہیں کہ ہم فلاں دن چھاپا مارے گئے،یا پھر کسی سینئر اہلکار نے اپنے کسی کام کا مائینہ کرنے جانا ہو تو وہ پہلے ٹھیکیدار کو آگاہ کر دیتا ہے ،اس سے وہ تمام دونمبریاں،یا اصل حقائق کو چھپا دیا جاتا ہے ،جس کی غرض سے یہ کام کیا جاتا ہے،دوسرے دن خبر لگی ہوتی ہے فلاں نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں بڑی فرض شناسی کا مظاہرہ کیا،اور کام کو بڑی باریکی سے چیک کیا، ایسا ہی حال ہمارے فوڈ انسپکٹر کا ہے دوپہر کا وقت تھا گرمی اور،روزے کے باوجود بھی بازاروں میں رش تھا، ہر ایک دکان چائے وہ سبزی فروٹ کی ہو یا کسی پرچون کی، یا پھر کوئی گفٹ شاپ خریداروں کا ہجوم ہی نظر آتا، رمضان اور خریداری کی اس رش سے دکاندار بھی آنکھیں بند کر کے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ مال جو کبھی نہیں بکتا،وہ بھی بک جاتا ہے ،جو کپڑا ،یا کوئی اور چیز کسی نہ کسی طرح سے ڈیمج،یا نقص والی ہے جس کو عام حالت میں کوئی آدھی قیمت پر بھی نہ خریدے وہ بھی گول مول کر کے نکال دی جاتی ہے،روزہ کیا سیکھاتا ہے کیا نہیں اس سے قطع نظر،عید کو سامنے رکھ کے کوئی مال بنا رہا ہے تو کوئی لٹا رہا ہے، میں ایک دوست کے فروٹ کی دکان پر بیٹھا تھا،کہ تھوڑی دیر بعد دکان کے سیل مینوں میں حرکت آئی انہوں نے ادھر اودھر دیکھا،کچھ مال سیٹ کیا،ریٹ لسٹ پرکپڑا مارہ ،اور فروٹ صاف کرنا شروع کر دیا،اتنی دیر میں چار پولیس اہلکار بندوقیں تانی، اور ایک ہاتھ میں بک لئے ملازم کے ساتھ فروٹ انسپکٹر نمودار ہوئے،انہوں نے آتے ہی پوچھا کہ ہاں جی آپ کیا بیچ رہے ہیں ،کیسا ہے یہ مال ،کدھر ہے آپ کی ریٹ لسٹ،دکان والے نے بتایا یہ لگی ہے اور مال بھی ٹھیک ہے،فوڈانسپکٹر نے نارمل انداز میں کہا کے اس طرف کی پوزیش بہتر ہے ، ساتھ والے نے حامی بھری اور کہا ہاں ہاں یہ لوگ ٹھیک ہیں،میں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا ،جب وہ جانے لگے تو میں نے ان کو روکا اور مخاطب کر کے کہا کہ سر اتنی بڑی فوج کے ساتھ آپ کو کبھی بھی اصل بات کا یا اصل حقائق کا پتہ نہیں چلے گا آپ تو ایک میل دور سے آرہے ہوتے ہیں تو سب الررٹ ہو جاتے ہیں،آپ عام آدمی بن کر ،گاہک بن کر چھاپا ماریں تو پتہ چلے گا کے آلو،پیاز کا کیا بھاو ہے ۔میری یہ بات سن کر فوڈ انسپکٹر نے غور سے میری طرف دیکھا اور کہا ،،اچھا جی،، اور پھر اگے چل دیے،یہ کوئی لطیفہ بھی نہیں تھا ،اور نہ کوئی دفتری دورہ ۔یہ عام آدمی کے مسائل کو کم کرنے ،اشائے خور نوش کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے،اور عوام کو معیاری قیمتوں پر معیاری چیزوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے دکان داروں کو چیک کیا جا رہا تھا۔مگر یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ جب اتنی بڑی فوج لے کر آپ سرعام جاو گئے تو کون ایسا بے وقوف ہوگا کہ وہ آپ کو اپنی اصلی حالت بتائے گا ۔یا اصلی قیمت بتاے گا،دکاندار کی چار انکھیں ہوتیں ہیں،وہ نہ صرف گاہکوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے بلکہ دور سے آنے والے کسی بھی اہلکار کو دیکھ کر وہ اپنی پوزیشن سنبھال لیتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر بہت اچھی ہے اس میں کوئی تنقید نہیں ایسا ہونا چاہیے،اور یہ حکومت کی زمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ اس مہنگائی اور ناقص اشاء کی روک تھام کے لئے ایسے اقدامات کرے جس سے عام آدمی کو کچھ ریلیف ملے،مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اس انداز سے جاو گے تو یہ اعلان کر کے آنے کے مترادف ہے کہ میں آرہا ہوں بچ کے رہنا، ہر ایک کو یہ پتہ چلے گا کہ چیکنگ والے آرہے ہیں اپنا بندوبست کر لو،یہ حال ہمارے شہر باغ کا نہیں بلکہ ملک بھر میں یہی طریقہ کار ہے پوری فوج ساتھ رکھنی ہے تاکہ کسی کو پتہ چلے کہ کوئی آرہا ہے ،دوسرا اس سے اپنی ٹور بھی بنتی ہے کہ آفیسر آرہے ہیں،یہ بات تو اب بچہ بچہ جانتا ہے ہر کوئی عام گفتگو میں بھی ایسی باتیں کرتا ہے کہ حضرت عمر فاروق جب راتوں کو عوامی مسائل جاننے کے لئے گشت کیا کرتے تھے تو وہ عام آدمی بن کر جاتے تھے اکثر لوگ ان سے ان ہی کی باتیں کیا کرتے انہیں یہ نہیں پتہ ہوتا تھا کہ یہ کون ہے جب وہ عوامی مسائل جاننے کے بعد عملی اقدامات کرتے تو لوگوں کو پتہ چلتا کہ یہی تھے عمر فاروق، آج کے کسی بھی حکمران کو ان سے ملانا تو کسی طرح بھی مناسب نہیں مگر مثال دے کر یہ بتانا مقصود ہے کہ جب عوام کے مشکلات کا ازالہ کرنا ہی ہے تو ایسے کرو کہ پتہ بھی چلے،کسی بھی دکان پر چلے جاو فہرست کے مطابق کوئی بھی سودہ نہیں بیچتا،فہرست کی قیمت کم اور اشائے خور نوش کی قیمت دگنی ہوتی ہے مگر کون پاگل ہے جو ان کو دیکھ کر گاہک کا ریٹ لگائے گا۔جناب چلے اس حد تک تو آپ اچھا کرتے ہیں کہ اپنی کرسی سے اٹھ کر بازار تک آتے ہیں،گرمی میں دو قدم چلتے ہیں اکثر دکاندار کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ آپ دیہاڑی لگانے آتے ہیں ان کی بات کو دو منٹ کے لئے جھوٹ مان لیتے ہیں مگر آپ کا آنکھوں دیکھا حال تو لطیفے والی مثال ہی ہے۔آئے روز خبارات مہنگائی کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں، عوام سرے عام پیٹ رہی ہوتی ہے، جلسے جلوسوں میں ،جمعہ کے خطابات میں مہنگائی کے چرچے ہوتے ہیں مگر آج تک یہ نہیں سنا کہ آپ نے کوئی ایسی کاروائی کی ہو جس سے مہنگائی کرنے والے باز آئے ہوں سوائے اس کے کہ مہینے بعد آپ آپنا حصہ نہ ملنے پر دو چار ریڑھی والوں کا سامان خراب کرتے ہیں، آپ کارروائی بھی نہیں کرتے اور پھر یہ چار چار پولیس والے گنوں سمت ساتھ رکھنے کی کیا ضرورت ہے،یہاں سب کو پتہ ہے کہ جان کیسے چھڑائی جاتی ہے ،اور حصہ کیسے دیا جاتا ہے ۔رمضان کے اس مہینے میں آپ مصنوعی مہنگائی پر کنڑول کر کے عوام کی بڑی دعائیں لے سکتے ہیں۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 68934 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.