اندھیر نگری چوپٹ راج !!!

سورت کے ملزموں کا چھوٹ جاتا، اقلیت کا پویس پر سے اعتماد اٹھ جانا اور مودی بنام ویدک

بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی، ’اندھیر نگری ،چوپٹ راج۔ ‘لب لباب یہ تھا کہ جب کہیں کوئی کوئی جرم ہوجاتا تو پولیس کچھ لوگوں کو گرفتار کرلاتی اور پھانسی کا پھندہ جس کے گلے میں فٹ بیٹھ جاتا ، اندھیر نگری کا راجا اسی کو لٹکوادیتا۔دلیل یہ دی جاتی کہ جب جرم ہوا ہے تو اس کی سزا کسی نہ کسی کو تو ملنی ہی چاہئے۔اسی کا نام انصاف رکھ لیا گیا۔ دہشت گردی کے متعدد معاملوں میں بے قصور لوگوں کو پھنسائے جانے پر پولیس اور انتظامیہ پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلوں میں لگاتار ریمارکس کودیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہماری سرکاروں پر بھی کہانی کا یہ عنوان بخوبی چسپاں کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ کا حالیہ کیس سورت بم دھماکوں کا ہے، جس میں 18جولائی کو عدالت عالیہ نے تمام 11ملزمان کو الزامات سے بری کردیا ۔ اس سے قبل 16جون کو اکشردھام مندرکیس کے باقی ماندہ تمام 6 ملزمان کو بری کردیا تھا۔ عدالت عالیہ کے ان فیصلوں کا لب لباب یہ ہے کہ پولیس نے فرضی کیس بنائے، اعلا حکام نے جن میں ریاست کے وزیرداخلہ کا نام بھی آیا ہے، ملزمان پر ٹاڈا ایکٹ نافذ کرنے میں اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کیا ۔ یہ دونوں کیس گجرات کے ہیں۔ اکشردھام کا فیصلہ جس دن آیا اسی دن نریندرمودی نے وزیراعظم کے منصب کا حلف اٹھایا تھا۔ دوسرا فیصلہ اس دن آیا جب وہ اپنے پہلے غیرملکی دورے سے وطن واپس لوٹے۔ان دونوں جعلی مقدموں کے درج کئے جانے کے دوران وہی ریاست کے وزیر اعلا تھے ۔ان کی ہی منظوری سے ملزمان پر ٹاڈا لگا۔ مگر اس طرح کی دھاندلیاں گجرات تک محدود نہیں۔ مہاراشٹرا، اندھرا پردیش ،یوپی ،دہلی، کشمیر، بہاراور کرناٹک وغیرہ میں قائم مقدمات میں بھی عدالتوں کے اسی طرح کے فیصلے آچکے ہیں اور یہ حقیقت پوری تحقیق کے ساتھ آشکارا ہوگئی کہ پولیس بے قصور افراد کے خلاف الزام عائد کرنے،ان کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالنے اور سرکاریں ان کے خلاف سخت قوانین کے تحت مقدمات قائم کرنے کی منظوری دینے میں ’راج دھرم‘ کا پالن نہیں کرتیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس طرح کے مقدمات لمبے کھنچتے ہیں ۔ ان میں ملزمان کو ضمانت نہیں دی جاتی ۔چنانچہ بے قصور ہونے کے باوجود ان کو سالہا سال جیل میں گزارنے پڑتے ہیں۔اس طرح انکے شہری اور انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔
اتنا ہی نہیں ،سالوں جیل میں رہنے کے بعد جب بے قصور لوگ رہا ہوتے ہیں تو ان کی زندگی کے بیش قیمت سالوں کے ضائع ہونے، خاندان کے تباہ ہونے اور دہشت گردی جیسے الزام سے دامن کے داغدار کئے جانے پر ان لوگوں سے باز پرس تک نہیں ہوتی جو قانونی منصبوں پر فائز ہیں اور قانون کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں۔
شکایت یہ بھی ایک مخصوص طبقہ کے افراد کوخاص طور سے اس بدنیتی سے پھنسایا جاتا ہے کہ پورا طبقہ دہشت زدہ ہوجائے۔ اس حربہ کو اگر سرکاری دہشت گردی نہ کہا جائے تواور کیا کہا جائے؟ لیکن اس صورت کو عوام کی نمائندہ سرکاریں ، جو آئین اور قانون کی وفاداری کا حلف اٹھاکر اقتدار میں آتی ہیں، بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ آخر کیوں؟

ستم ظریفی یہ بھی ہے اکثرایسے معاملوں میں زیریں عدالتیں اس طرح کام کرتی نظرآتی ہیں گویا وہ پویس اور انتظامیہ کی آلہ کار ہیں۔ استغاثہ کی کہانی اور ثبوتوں میں ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کو جو خامیاں کھلی نظرآجاتی ہیں آخروہ نچلی عدالتوں کے لائق جج صاحبان کی نظر میں کیوں نہیں آتیں؟ عام تاثر یہ ہے کہ ایک مخصوص ذہنیت کی قانونی برادری اور میڈیانے مل کر نچلی عدالتوں میں ایسا ماحول بنادیا ہے جس میں مجسٹریٹ اور جج صاحبان بھی متاثر ہوجاتے ہیں اور یہ وہ طبقہ ہے جو دھرم کے نام پر سرگرم ہے۔گزشتہ ساٹھ ستر سال سے تعلیم کے دوران ایک خاص منصوبہ کے تحت ذہین نوجوانوں کی اس طرح ذہن سازی کی جارہی ہے وہ جب اعلا مناصب پر پہنچیں تو ان کے کام آئیں۔ ہماری سیکولر سرکاروں نے اس سے چشم پوشی کی ہے۔

سورت کے اس تازہ کیس میں دوملزمان تو مقدمہ کی سماعت کے دوران جیل میں ہی چل بسے۔ زیریں عدالتوں سے سزایا ب پانچ بے قصور ملزمان دس سال کی جیل کاٹ کر رہا ہوگئے اور باقی پانچ اب 12 برس بعد رہا ہوئے ہیں جن کو ذیلی عدالتوں نے 20سا ل تک کی سزا سنائی تھی۔ ان میں ریاست کے ایک سابق وزیر محمد سورتی بھی ہیں، جن کی عمر ستر سال سے اوپر ہے۔ماہ رمضان کے آخری عشرے میں ان کی گھر واپسی سے ان کے خاندانوں کو راحت ضرور ملی مگر اس ظلم وزیادتی کا تدارک نہیں ہوا، جس سے ان کو گزرنا پڑا۔

اس طرح کے کیسوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اصل مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں یا ن کو بچانے کے لئے ہی دوسرے لوگوں کو پھنسایا جاتا ہے۔سورت دھماکوں میں تو جانی نقصان معمولی تھا مگراکشردھام مندر پر حملہ بڑاسفاکانہ تھا جس میں مندر میں حاضری دینے والے 33بے قصور افراد کی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان معاملات میں پولیس نے اصل ملزمان کوگرفتار نہیں کیا۔ اکشردھام جیسابڑا حملہ بغیر بڑی سازش کے نہیں ہو سکتا۔ یہ پولیس کی ناکامی ہے کہ وہ سازش میں شریک لوگوں تک نہیں پہنچ سکی۔ بے قصور لوگوں کوذیلی عدالتوں سے سزادلانے میں کامیاب رہنے کی بدولت وہ اپنی نااہلی کو چھپانے میں یا سازش پر پردہ ڈال دینے میں کامیاب ہوگئی۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بے قصور افراد کو خاطر خواہ معاوضہ دیا جائے جو خطاکار افسران سے وصول کیا جانا چاہئے اور معاملہ کی از سرجانچ کرکے اصل مجرموں کو سزا دلائی جانی چاہئے۔

ہمارے ملک میں 2002کے بعد خانہ ساز دہشت گرد حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا، ان کی جو کچھ بھی تفصیلات اب تک منظرعام پرآئی ہیں، ان سے ایک چیز واضح ہے کہ یہ حملے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ،ایک کمزور فرقہ کو نشانہ بنانے اور ملک کو فرقہ ورانہ بنیاد پرتقسیم کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہیں۔ اس سازش میں کس کس نے کیا کچھ کھیل کھیلا ،مہاراشٹرا پولیس کے سابق آئی جی مسٹر ایس ایم مشرف اپنی دستاویزی کتاب ’کرکرے کے قاتل کون؟ ‘ میں اس کا کچا چٹھا کھول چکے ہیں،مگر ابھی تک اس میں عائد الزام کا کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے گزشتہ دس سال کے دوران مرکز میں یوپی اے سرکار اور یوپی، مہارشٹرا، اندھرا سمیت کئی ریاستوں میں نام نہاد سیکولر سرکاریں، اس سازش کو اپنی کم نظری یا فطری رجحان کی وجہ سے تقویت پہچاتی رہیں۔ نتیجہ گزشتہ اسمبلی انتخابات اور حالیہ پارلیمانی چناؤ میں سامنے آچکا ہے۔ لگتا ہے رہی سہی کسر عنقریب متعدد ریاستی اسمبلیوں کے چناؤ پوری ہوجائیگی۔

پولیس اوراقلیت
جس دن سورت کیس کا فیصلہ صادر ہوا ،اسی دن ایک آئی بی آفیسر اور تین ریاستوں مہاراشٹرا،یو پی اور تمل ناڈو کے انسپکٹر جنرلس کی ایک مشترکہ رپورٹ میڈیا میں آئی ۔ لب لباب اس کا یہ ہے کہ پولیس کے جانبدارانہ اور ظالمانہ رویہ کی وجہ سے اقلیتی فرقہ کا اس پرسے اعتماداٹھ گیا ہے، جس کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ رپورٹ سنہ 2013ء میں مرکزی وزارت داخلہ کے سپرد کی گئی تھی، لیکن دبادی گئی اور اس دوران یو پی اے کے دم آخر تک خصوصاً مسلم اقلیت کے ساتھ پولیس اور انتظامیہ کے اس رویہ میں مطلق سدھار نہیں ہوا، بلکہ اعلا ترین سطح پرپے درپے ایسے اقدام کئے جاتے رہے جن سے اقلیت کا اعتماد اور متزلزل ہوا۔ مثال کے طور پر افضل گرو کا معاملہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر میں ہزاروں افراد کے بے نشان قبریں بھی اسی سمت اشارہ کرتی ہیں۔

اس رپورٹ کا خلاصہ انڈین ایکسپریس نے 18جولائی کو بعنوان "Police, minorities and perception management" شائع کیا۔ اس میں خاص طور سے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران پولیس کی ظلم و زیادتیوں کی طرف اشارہ ہے۔لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ پولیس کے اعلا افسران نے اپنی فورس کے اس جانبدارانہ رویہ کا اعتراف کیا ہو۔ اس سے قبل ملک کے ایک نامورپولیس آفیسر ’وبھوتی نارائن رائے‘ کی ایک تحقیقی کتاب شائع ہوچکی ہے( جس کا اردو ترجمہ’’ ’فرقہ ورانہ فسادات اورہندستانی پویس‘ ‘عنوان سے ’خبردار پبلی کیشنز،Z-103، تاج انکلیو، دہلی نے شائع کیا ہے)۔مسٹر رائے یوپی کے کئی حساس اضلاع میں ایس پی اور ایس ایس پی رہے اورریاست کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل پولیس بھی رہے۔ان کے تجربات، مشاہدات اور تحقیق پر مشتمل اس چشم کشا کتاب کو شائع ہوئے بھی تقریبا دس سال گزر چکے ہیں۔ اس میں مرض کی تشخیص کے ساتھ اس کا علاج بھی تجویز کیا گیا ہے، مگر یوپی سرکار یا مرکزی وزارت داخلہ نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔

مذکورہ بالا رپورٹیں پولیس کے اعلا افسران نے مرتب کی ہیں،جس سے ظاہر ہوتا ہے پولیس میں فرض شناس افسران کا قحط نہیں۔ مگر جب اس طرح کے مواقع آتے ہیں تو ان کی چلنے نہیں دی جاتی۔اکثراوقات فرض شناس افسران کا تبادلہ کردیا جاتا ہے اور ان کو فیلڈسے ہٹاکر کسی نمائشی منصب پر بٹھادیا جاتا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ سارا دوش پولیس کے سرمنڈھنا زیادتی ہے۔ اصل معاملہ اس ماحول کا ہے جو آزادی کے بعد ہمارے سیاست دانوں نے ملک میں بنادیا ہے اور جس سے سیاسی طور پر فائدہ اٹھانامقصود ہوتاہے۔اسی لئے ہمارے ملک کے سول اور پولیس افسران قانون پر پاپند رہنے کے معاملے میں دن بدن کمزور ہوتے جاتے ہیں اور اس کی ذمہ داری بھی بہت کچھ سیاست دانوں پر ہے۔ اس طرح کی ذہنیت پر اس وقت تک قابو نہیں پایا جاسکتا جب تک کہ’ راج دھرم‘ کا پالن سیاستدانوں کی گھٹی میں شامل نہ ہوجائے۔ایسی صورت میں جب راج دھرم کی خلاف ورزی کرنے والے ہی راج پاٹ کے مالک بن گئے ہوں، کسی اصلاح کی امید کس طرح کی جائے؟ موجودہ صورت حال کرپشن کی ایک سنگین قسم ہے، جس پر نہ انا ہزارے کی نظر گئی ، نہ کسی سوامی کی۔

مودی بنام دیدک
ایک باخبرکالم نویس نے گزشتہ اتواراشارہ کیا ہے کہ وزیراعظم مودی وید پرتاپ ویدک سے خفا ہیں۔ وجہ اس کی یہ نہیں کہ ویدک لاہورجاکر ’ملک کے دشمن نمبر ایک ‘حافظ سعید سے مل آئے ۔ بلکہ یہ ہے ویدک نے اس ملاقات کا فوٹو اور خبر ایسے موقع پر شائع کئے ،جب مودی اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر برازیل میں تھے اور وہاں چین ، روس، برازیل اور جنوبی افریقہ کے سربراہان حکومت سے ملاقاتیں کررہے تھے۔ ویدک کی خبر کا اثر یہ ہوا کہ میڈیا میں مودی کی عالمی لیڈروں سے ملاقاتوں کی کوریج دب کر رہ گئی اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اورتمام و ٹی وی چینلس پر ویدک، سعید ملاقات بحث کا موضوع بن گئی۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162731 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.