اقلیتوں کا احساسِ عدم تحفظ؛ اسباب و تدارک

غیر سرکاری ادارے ساؤتھ ایشاء پارٹنر شپ پاکستان ریجنل پروگرام آفیسر مقبول بلوچ نے ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ ریت نیٹ ورک کے تعاون و باہمی اشتراک سے بلوچستان میں آباد مذہبی اقلیتوں کو درپیش مسائل کے حل اور معاشرے میں شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے کوشاں ہیں جن کی کوشش و خواہش ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جہاں پر لوگ بھائی چارے، امن اوربرابری کے ساتھ رہ رہ سکیں جہاں ہر شخص کو بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب انصاف پر مبنی نظام میسر ہو گوکہ ان کی کوششیں قابل ستائش ہیں تاہم مجھے اس پر تشویش بھی لاحق ہے گوکہ آئین، مملکت اﷲ داد ملک کی تمام اکائیوں میں بسنے والے تمام لوگوں کو ان کی علاقائی ،نسلی ،لسانی ،مذہبی ،اور سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر مساوی شہری حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے ۔اسی آئین میں چند ایسی دفعات بھی ہیں جن کے تحت غیر مسلم شہریوں کو مسلمان شہریوں کے مساوی حقوق میسر نہیں اور کئی معاملات میں یہ غیر مسلم مملکت اﷲ داد میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جاتے ہیں۔ تاہم ان آئینی دفعات کے علاوہ عملی زندگی میں یہ صورتحال کہیں زیادہ سنگین ہے۔ آئین میں ریاست کے لیے کسی خاص مذہب کا تعین ان تمام شہریوں کے خلاف امتیاز کی بدترین صورت اختیار کر جاتا ہے جو اس اعلان کردہ مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔ اگر ایک طرف انہیں عملی طور پر دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے تو دوسری طرف بسا اوقات ریاست کے ساتھ ان کی وفاداریوں پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ ملک میں غیر مسلم شہریوں کے بارے میں پائی جانے والی عدم رواداری میں مروجہ امتیازی قوانین کے ساتھ تنگ نظر سماجی رویے اور ریاست کے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر تاریخی حقائق کو من چاہے رنگ میں ڈھالا ہوا نظام تعلیم بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔نظام تعلیم کا یہ متعصبانہ رنگ گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ انتہائی گہرا ہوتا چلا گیا اور ملک کے مسلمان شہریوں کی ایک بڑی اکثریت نے یہ فرض کررکھا ہے کہ یہ ملک صرف مسلمانوں کا ہے چنانچہ اس ملک میں بسنے والے ہر شہری کی ملک و قوم کے لیے خدمت سے قطع نظر اسے حب الوطنی کی سند اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ ریاست کے اعلان کردہ مذہب کے ساتھ وابستگی اختیار کرتے ہوئے اس کا ثبوت دے ۔مذہبی اقلیتوں کے لیے زندگی گذارنے کی گنجائش کم سے کم ہوتے چلے جانا اور ان کے ساتھ اکثریتی آبادی کی عدم روا داری اسی صورتحال کے منفی نتائج ہیں۔

ملک میں پرویزی آمریت کے تسلط کے خاتمہ اور فروری2008ء کے عام انتخابات کے بعد سیاسی و جمہوری جماعت برسراقتدار آئی تو اس سیاسی و جمہوری سرکار سے مختلف طبقات کو کہیں زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ 2009ء میں وزیراعظم گیلانی نے 11اگست کو مذہبی اقلیتوں کے قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا مذ ہبی اقلیتوں کو پاکستان کے یکساں شہری کا درجہ دینے کا حق کسی بھی حوالے سے تسلیم کیا جائے اسے خوش آئند کہا جائے گا۔ لیکن اس امر کا ادراک کرتے ہوئے جس دن کا انتخاب کیا گیا اور محمد علی جناح کے تاریخی خطاب کو اس کا حوالہ بنایا گیا جسے ستم ظریفی ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔کیونکہ 11اگست 1947ء کو ملک کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں محمد علی جناح نے جو خطبہ پیش کیااس میں مذہبی حوالے سے اکثریت یا اقلیت کا فرق روا رکھنے کی بجائے الٹا اس نوازائیدہ مملکت پاکستان کے شہریوں کے درمیان مذہبی شناخت کے حوالے سے کوئی تفریق نہ رکھنے کی بات کی گئی۔ اگر یہ بات محمدعلی جناح کے مذکورہ خطاب کا مرکزی نکتہ نہ ہوتی تو ملک کو مذہبی ہیئت دینے کے خواہاں حلقے اتنی شد و مد کے ساتھ اسے سنسر کرنے کی کوشش نہ کرتے۔ اگر چہ محمد علی جناح کے مذکورہ خطاب کا حوالہ متعدد جگہ کہیں نہ کہیں ہمیشہ دیا جاتا رہا ہے، اس کے باوجود اس کے چیدہ چیدہ اقتباسات یہاں درج کرنا برمحل ہوگا؛

1۔’’اب اگر ہم پاکستان کی اس عظیم مملکت کو پر امن اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں د ل جمعی اورخلوص نیت سے اپنی توجہ لوگوں بالخصوص عوام اور غریبوں کی بہتری کی طرف مبذول کرنا چاہیے۔ اگر آپ ماضی کو فراموش کرکے اور پرانی عداوتوں کو دفن کرکے باہمی تعاون کے ساتھ کام کریں گے تو آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ اگر آپ ماضی کو تبدیل کرکے اس عزم کے ساتھ کام کریں گے تو آپ میں سے ہر فرد اس بات سے قطع نظر کہ اس کا تعلق کس کمیونٹی سے ہے ،اس بات سے قطع نظر کہ ماضی میں اس کے آپ کے ساتھ تعلقات کس نوعیت کے رہے ہیں اور اس بات سے قطع نظر کہ اس کا رنگ ،ذات یا عقیدہ کیا ہے، وہ سب سے پہلے اس کے بعد بھی اور سب سے آخر میں بھی یکساں حقوق،مراعات اور ذمہ داریوں کے ساتھ اس ریاست کا شہری ہے تو آپ جتنی ترقی کریں گے اس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ ‘‘

2۔’’ میں اس بات پر مزید زور نہیں دے سکتا کہ ہمیں اسی عزم کے ساتھ کام کا آغاز کردینا چاہیے اور وقت گذرنے کے ساتھ اکثریتی اور اقلیتی یعنی ہندو کمیونٹی اور مسلمان کمیونٹی کے یہ تمام تفاوت ختم ہوجائیں گے کیونکہ جہاں تک مسلمان ہونے کا سوال ہے تو اس میں بھی آپ لوگ پٹھان ،پنجابی ،شیعہ ،سنی اور اسی طرح کے کئی ذیلی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور بطور ہندو آپ میں برہمن،ویش ،کھتری ،کے علاوہ بنگالی ،مدارسی اور اسی طرح کی گوناگوں تقسیم موجود ہے لیکن اس کے باوجود یہ اختلافات موجود نہیں رہیں گے۔ در حقیقت اگر مجھ سے پوچھاجائے تو یہی اختلافات ہندوستان کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ رہے ہیں اور اگر یہ نہ ہوتے تو ہم بہت عرصہ پہلے ایک آزاد قوم ہوتے ۔کوئی بھی طاقت کسی دوسری قوم کو بالخصوص چالیس کروڑ نفوس پر مشتمل قوم کو غلام نہیں بنا کر نہیں رکھ سکتی تھی۔ کوئی بھی قوت آپ پر فتح حاصل نہیں کرسکتی تھی اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو ایک لمبے عرصہ تک آپ پر غلبہ برقرار نہیں رکھی سکتی تھی۔ مگر ان اختلافات کی وجہ سے ایسا ہوا ،لہٰذا ہمیں اس تجربے سے سبق سیکھنا چاہیے ۔‘‘

3۔’’اب آپ آزاد ہیں ،آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں ،آپ اس مملکت پاکستان میں اپنی مسجدوں ،یا عبادت کی دیگر جگہوں پر جانے کے لیے آزادہیں ۔آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہوسکتا ہے مگر کاروبارِ ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ۔خدا کا شکر ہے کہ ہم نے اپنا آغاز ایسے حالات میں نہیں کیا۔ ہم ان حالات میں آغاز کررہے ہیں جب کوئی امتیازی رویہ ،کسی ایک یا دوسری کمیونٹی کے خلاف کوئی تفاوت اور کسی ایک یا دوسری ذات یا عقیدے کے خلاف کوئی جانبدارانہ رویہ موجود نہیں ۔ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ آغاز کررہے ہیں کہ ہم ایک ہی ریاست کے شہری اور یکساں حیثیت رکھنے والے شہری ہیں ۔‘‘

4۔’’میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اسی سوچ کو ایک مثال بنا کر اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور آپ کو پتہ چلے گا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ہندوہندو نہیں رہے گا اور مسلمان ،مسلمان نہیں رہے گا ،مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے ،بلکہ سیاسی معنوں میں ریاست کے شہری کے طور پر ۔‘‘

ان اقتباسات پر غور کریں تو محمد علی جناح کے خطبہ میں مذہبی شناخت اور اپنے مذہبی عقیدے اور طریقہ عبادات پر کاربند رہنے کی کامل آزادی دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود اسے کلی طور ہر شہری کا ذاتی معاملہ قرار دیا گیا تھا جس سے ریاست کو کوئی سروکار ہوگا اور نہ ہی ریاست ان معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی کرے گی۔ اس کے پیش نظر کیا ہی اچھا ہوتا اگر 11اگست کو اقلیتوں کا قومی دن قرار دینے کی بجائے اس دن کو تمام عقائد اور فرقوں کے مابین رواداری و یگانگت کے فروغ اور قومی شناخت پر فخر کے طور پر منایا جاتا۔ اس طرح اس روز اس بات پہ غور و فکر کرنے کا موقع بھی ملتا کہ اس خطہ زمین پر جنم لینے والے سبھی انسان اپنی مذہبی ،قومیتی ،یا لسانی شناخت سے قطع نظر اسی مٹی کے سپوت ہیں اور یہ سب کسی بھی امتیاز کے بغیر ملک کے یکساں شہری ہونے کا استحقاق رکھتے ہیں ۔اس سے ملک کی اکثریتی آبادی کے رگ و پے میں بسے اس تاثر میں کمی لانے میں مدد ملتی کہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق تسلیم کرنا ان کے ساتھ احسان کا معاملہ ہے ۔مذہبی شناخت کے حوالے سے کسی شہری کے برتر یا کمتر ہونے کی سوچ بنیادی طور پر غلط ہے اور جدید ریاستی تصورات میں اس قسم کی سوچ کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی ۔

بلوچستان جو آزادی کے اعتبار سے محدوو مگر رقبہ کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے ،ہندو برادری صدیوں سے آباد ہے۔ بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں خود کو زیادہ محفوظ تصور کرنے والی اقلیتی برادری دورِ حاضر میں عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہے اور ہجرت کا راستہ اپنانے پر مجبور ہوگئی ہے کہ یوں توہندو برادری نے بلوچستان سے ہجرت کے دکھ کو بھی پرویز مشرف کے دور میں جھیلنا شروع کیا جب 17مارچ 2005ء میں ڈیرہ بگٹی میں ممتاز بلوچ بزرگ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قلعہ پر پہلا حملہ کیا گیا، اس حملے میں بگٹی قبیلے کا ساتھ ساتھ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد لقمہ اجل بنے، جن میں خواتین و بچے بھی شامل تھے۔ اس کے بعد ڈیرہ بگٹی میں بسنے والی اقلیتی برادری ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی۔ گولیوں کی بڑھتی ہوئی گونج ،خوف و دہشت نے ڈیرہ بگٹی کے ہندو محلے کو ویران کردیا۔ جہاں خوف کے سناٹے میں مندر میں امن و آشتی، پریم بھگتی کا کوئی ورد نہیں ہوتا۔ پھر جب اس کے بعد حالات بگڑتے گئے اورخوف و دہشت کے سائے پھیلنا شروع ہوئے تو عدم تحفظ کا احساس مزید شدت اختیار کرنے لگا ۔ہندو اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے اغوا برائے تاوان کے واقعات میں انتہائی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ۔2011ء میں ضلع قلات میں واقع قدیم کالی مندر کے مہاراج سائیں لکھمی گر وجی جب اغوا ہوئے تو عدم تحفظ کااحساس اقلیتی برادری کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر لے آیا۔ جعفر آباد ،نصیر آباد ،کوئٹہ ،قلات ،خضدار ، سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بھرپور احتجاج ہوا۔ مہاراج لکھمی گروجی تو بازیاب ہوکر آگئے لیکن اس کے باوجود اقلیتی برادری کے اغوا برائے تاوان کے واقعات رکے نہیں، تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔

رواں سال کے ماہ جون میں ایک اور دلخراش واقعہ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن بلوچستان اسمبلی ہینڈری مسیح کا اپنے محافظ کے ہاتھوں قتل کا تھا۔ ابھی ہینڈری مسیح کے قتل پر بلوچستان میں سوگ جاری ہی تھا کہ خضدار میں ہندو پنجائت کے سرکردہ رہنما کو فائرنگ کرکے موت کی نیند سلادیا گیا۔ اس کے علاوہ اور کئی واقعات تسلسل کے ساتھ جاری رہے جس پر اقلیتی برادری کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے بھی روایتی رد عمل کا اظہار کیا اور ان واقعات کو بلوچستان کی روایات کے منافی قرار دیا۔ لیکن ان تمام واقعات کے دوران اقلیتی برادری کو حاصل مذہبی آزادی کا اگر تذکرہ کیا جائے تو میں ایک خبر کے بہیمانہ قتل پر خود کو مجرم سمجھتا ہوں اور اس میں بریکنگ نیوز کی ڈگڈگی پر ناچنے والے میڈیا کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوں۔ جب 19جون 2014ء کو بلوچستان صوبائی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہورہا تھا اور اجلاس کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن اسمبلی سنتوش کمار کی جانب سے درخواست پیش کی گئی کہ وہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے بیرون ملک جارہے ہیں اس لیے بجٹ سیشن میں آنے سے قاصر ہیں لہٰذا ان کی رخصت کی درخواست منظور کی جائے۔مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے درخواست کو منظور نہیں کیا جاسکتا اور اس درخواست کو نامنظور خود مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر نواب ثنا اﷲ خان زہری کرتے ہیں جو چیف آف جھالاوان بھی ہیں اور ہمیشہ اقلیتی برادری کے جان و مال کے تحفظ سے متعلق ان کے بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں لیکن موصوف کی جانب سے ایک اقلیتی رکن کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے پر کسی بھی صحافی نے اس کو ’خبر‘ کے طور پر لینے کی زحمت گوارا نہیں کی اور یوں خوف دہشت اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہنے والے اس صوبے میں ایک اور خبر کا انتہائی بے دردی سے گلہ گھونٹ کر قتل کردیا گیا یہاں صرف ایک خبر کا قتل نہیں ہوا بلکہ اقلیتی برادری سے متعلق خبریں اکثریت کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے قتل کی جاتی ہیں مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت نہ ملنے کے بعد اقلیتی رکن اسمبلی کی مسلم لیگ (ن) سے رکنیت معطل کی گئی پھر مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی کو اقلیتی رکن کے خلاف نا اہلی کا ریفرنس بھیج دیا گوکہ آئینی و قانونی تقاضے پورے کئے بغیر یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھی ارسال کیا گیا ہے لیکن چونکہ خبر کا تعلق ایک اقلیتی رکن سے ہے لہذا کسی بھی صحافی کیلئے یہ خبر اہمیت کی حامل نہ رہی اور لاوارث لاش کی طرح لاعلمی کے مردہ خانے میں سڑتی رہی ۔

تاہم اقلیتی برادری سے ان تمام زیادتیوں اور ناانصافیوں کے باوجود سنجیدہ مبصرحلقوں کا کہنا ہے کہ ریاست کی نظر میں زیادہ اہمیت اس کی ہونی چاہیے کہ کوئی بھی شہری ریاست کا کس حد تک وفادار ہے۔ ریاست کا اولین فریضہ اپنے تمام شہریوں کو قانون کے دا ئرے میں رہتے ہوئے امن ،انصاف اور تحفظ فراہم کرنا ہے، چنانچہ اس حوالے سے کسی بھی شہری کا ذاتی عقیدہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ ضرور ہے کہ جمہوری نظام حکومت میں کمزور طبقات بالخصوص اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی حالت میں بہتری لانے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بعض اضافی اقدامات کا سہارا لینا پڑتا ہے اور زد پذیر طبقات کو خصوصی مراعات دی جاتی ہیں تاکہ وہ ملک کے دیگر شہریوں کے شانہ بشانہ چل سکیں ۔بلوچستان میں اقلیتی برادری اغوا برائے تاوان کے واقعات کے باعث خوف و عدم تحفظ کے جس احساس و کرب میں مبتلا ہے، انہیں اس سے نجات دلانے کے لیے ان تمام قوتوں کو اپنا مؤثر و عملی کردار کرنا ہوگا جو سرزمین سے جڑت رکھنے کے دعوے دار ہیں۔ سیاسی و قبائلی اثر رسوخ کا استعمال کرنا ہوگا، ماضی کی عظیم قومی روایات کے دامن کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے ایک گرینڈ جرگہ طلب کرکے تمام قبائلی عمائدین و معتبرین کو اس کی ذمہ داری سونپنا ہوگی کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں بسنے والی ہندو برادری کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے انہیں اپنائیت کا احساس دلائیں تاکہ وہ کبھی مٹی سے رشتہ توڑ کر جانے کا تصور بھی اپنے دل و دماغ میں نہ لائیں اور بلوچستان میں مستقل امن و استحکام کے لیے اپنا مؤثر و عملی کردار ادا کرسکیں ۔
Irshad Mastoi
About the Author: Irshad Mastoi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.