غزہ ایک اور صلاح الدین ایوبی کی منتظر

غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے قیامت صغری برپا ہوگئی،گزشتہ رواز اسرائیلی درندوں نے ایک ہی دن میں 134 فلسطینی شہید کر گئے، حملوں میں غزہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، صہیونی فوج نے مرکزی غزہ میں ہسپتال پر بھی ٹینکوں سے گولہ باری کی جس سے 5 فلسطینی شہید اور 20 ڈاکٹرز سمیت 70 سے زائد افراد زخمی ہوئے، شجائیہ سے 68لاشیں برآمد ہوئیں، طبی ذرائع کے مطابق ان میں 80فیصد افراد بچے، خواتین اور بزرگ ہیں۔یہ سب پڑھ کر مجھے تاریخ اسلام کے عظیم فاتحین اور دلیر سپہ سالار یاد آگئے۔

غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوچکی تو ایک روز حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن نے اپنے والد گرامی سے ملے اور کہنے لگے کہ بدر کے میدان میں ایک موقع پر آپ کی گردن میری تلوار کی عین زد میں آگئی لیکن میں نے آپ سے رشتے کا احترام کرتے ہوئے تلوار کا رُخ موڑ دیا، ظاہر ہے اسے وقت تک عبدالرحمٰن نے اسلام قبول نہیں کیا تھا چنانچہ وہ کُفار کی جانب سے میدان میں اترے تھے، یہ بات سُن کر حضرت ابوبکر ؓ نے ایسا جواب دیاجس نے رشتوں کے درمیان حد فاصل کی وضاحت کردی، آپ ؓ نے کہا کہ صاحبزادے! اگر تمہاری گردن میری تلوار کی زد میں آجاتی تو خُدا کی قسم اُسے کاٹ کر تن سے جُدا کر دیتا۔

حضور ؐ کی وفات کے بعد عرب میں بغاوتیں شروع ہوگئے، اس وقت 125 جنگوں میں حصہ لینے والا خالد بن ولید ان بغاوتوں کو کُچلنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔سیکولرز اور لبرلز کا ہیرو راجہ داہر بد فطرت آدمی تھا جس نے بے حیائی کی حد کر دی تھی اور اپنی ہی بہن سے شادی کی تھی، اسی راجہ داہر کا محمد بن قاسم اینٹ سے اینٹ بجاتا ہے۔اس کے بعد صلاح الدین ایوبی کی طرف آتا ہوں جو نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ عالم کے مشہور ترین فاتحین وحکمرانوں میں سے ایک ہیں، اُس کی بہادری دیکھیں کہ سات دنوں میں عیسائیوں کو شکست دیکر بیت المقدس کو اپنے قبضے میں لیتا ہے، وہ بیت المقدس جو پچھلے 88 سال سے عیسائیوں کے قبضے میں تھا۔اس کے بعد ٹیپو سلطان جو شیر کی ایک دن زندگی کو گیدڑ کی سو سال زندگی سے بہتر سمجھتا تھا اورجنوبی ہند میں تقریبا 50 سال تک انگریزوں کو روکھے رکھا اور کئی بار انگریزی افواج کو شکست فاش دی تھی۔1761ء سے پہلے مرہٹ پاک وہند کے حصے کو فتح کر چکے تھے ، ان کے سردار گو ناتھ نے مغلوں کو شکست دیکر دہلی پر قبضہ کر لیا تھا، پھر لاہور پر قبضہ کر کے اٹک کا علاقہ فتح کر لیا تھا، 14 جون 1761ء کو احمد شاہ ابدالی مرہٹوں سے پانی پت کو ہمیشہ کیلئے خالی کرا دیتا ہے۔یہ تھے مسلمان سپاہی اور سپہ سالار جنہوں نے ہر دور میں ظالموں کو نیست ونابود کر دیا تھا اور کُفر کی دیواریں ہلا کر رکھ دیئے تھے۔

اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کونسے ملک سے خالد بن ولید کی شہادت کی آرزو بلند ہوگی جو دشمن ڈر کے مارے میدان چھوڑنے پر مجبور ہو جائے، کب ہماری ماوؤں کی کھوک سے محمد بن قاسم جنم لیگا جو دشمن کے اینٹ سے اینٹ بجا دے، کونسی سرزمین سے صلاح الدین ایوبی نمودار ہوگا جو سات دنوں میں بیت المقدس کو فتح کر دے،کب ہماری سرزمین سے احمد شاہ ابدالی جیسے بہادر مجاہد پیدا ہوگا جو اسرائیل سے فلسطین کو آزاد کرالے، کب عرب مما لک کے حکمرانوں کو ٹیپو سلطان کی یہ بات سمجھ آئے گی کہ گیدڑ کی سو سال زندگی سے شیر کی ایک دن زندگی بہتر ہے؟؟

دراصل ان سب کا ذمہ دار ہم مسلمان اور ہمارے حکمران صاحبان ہیں لیکن سب سے ذیادہ عرب ممالک کے حکمران ہیں جو فلسطین پر یہ ظلم تو دیکھ سکتے ہیں مگر اپنی کُرسی نہیں چھوڑ سکتے، ان کے دلوں میں فلسطینی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کیلئے غم ہیں مگر غلامی کی تاج کو اپنے سر سے اُتارنے کے حق میں نہیں ہیں،دراصل انہیں اپنی کُرسی، شان وشوکت اور بادشاہت فلسطین کی معصوم بچوں اور بے بس عورتوں سے ذیادہ عزیز ہیں،بس آپ سب حکمران اس طرح سر جُھکائے بھیٹے رہو اور اسرائیلی درندگی کا تماشہ دیکھتے رہو۔۔۔اﷲ تعالیٰ ان بے ہس حکمرانوں کو ہدایت دیں اور فلسطین کو اسرائیل سے بچائیں ۔