موبائل ،سِم اور ہم

 ہر زمانہ اپنے ساتھ اپنی خصوصی دریافتیں اور ایجادیں لے کے آتا ہے، ہر زمانہ اپنے علیحدہ خدوخال رکھتا ہے۔ہر زمانہ اپنی دلچسپیاں لاتا ہے۔ جیسے ہر موسم بچوں کے لئے نئی نئی کھیلیں لاتا ہے،ایسے ہی ہر زمانہ ایک وسیع پیمانے پر ایسی نمایاں باتیں رکھتا ہے جن کو اس زمانے کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے۔کسی زمانے میں سائیکل ایک ایجاد تھی اور سائیکل رکھنا ایک سماجی وقار تھا، سائیکل چلانے والے کو لوگ رک کر دیکھتے کہ وہ کیسے چلاتاہے۔کبھی ریڈیو ایک طلسماتی ڈبے کا درجہ رکھتا تھا اور گھر میں ریڈیو ہونا بڑی بات تھی۔پھر ٹی ،وی نے یہ مقامِ امتیاز حاصل کر لیا۔آج یہ چیزیں بوڑھی ہو چکی ہیں اور عمر رسیدہ انسانوں کی طرح اپنے شاندار ماضی کو یاد کرنے میں ہی سکون پاتی ہیں۔ کیونکہ نئی نسل کے پاس بوڑھوں کے پاس بیٹھنے کا شاید کبھی بھی وقت نہیں ہوتا۔

مشرق میں موجودہ زمانہ، موبائل اور اس سے متصل مستقبل کا زمانہ، انٹرنیٹ سے منسلک کیا جائے گا۔ابھی تک توسوچ کا پنچھی انٹرنیٹ کی سرحد سے آگے کچھ نہیں دیکھ پا رہا،لیکن آنے والا زمانہ کیا لائے کسی کو کیا پتہ :
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

ہر زمانے میں انسان نے چیزوں کے روپ میں اپنی حیثیت جاننے اور پہچاننے کی سعی فرمائی ہے۔یہ بات انسان کی غالباً فطرت میں ہے کہ وہ ہر چیز میں اپنا آپ تلاش کرتا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جب پہیے کا زمانہ تھا تو انسان کے کہا کہ قسمت کا پہیہ چلتا ضرور ہے چاہے آہستہ چلے:The

wheel of fortune runs slowly but surely.جب انسان نے اونٹ پالے اور ان کے ناز نخرے اٹھائے تو انسان یہ دیکھتا رہ گیا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔جب انسان نے تیل نکالا اور اس کا کاروبار شروع کیا تو انسان نے حالات سمجھنے کے لئے یہ فارمولا بنایا: تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔جب انسان نے مرغیاں پالیں اور انڈے کھائے تو کبھی کبھی انڈے خراب بھی نکل آتے تو انسان نے انسان کا بُرا کردار بیان کرنے کے لئے گندے انڈے کی اصطلاح ایجاد کی۔کتے کا کتا بیری، خربوزے کو دیکھ کے خربوزا رنگ پکڑتا ہے، دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر، وغیرہ،وغیرہ بے شمار مثالیں اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔

اور جب موبائلوں کا زمانہ آیا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان کو موبائلوں کی اصطلاح میں بیان نہ کیا جائے جبکہ یہ بات تو انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ چیزوں کے پردے میں اپنا آپ بیان کرتا ہے۔

انسان کی موبائل سے مطابقت حیرت انگیز ہے،اور اس قدر زیادہ ہے کہ اتنی مطابقت انسان کی کسی اور ایجاد یا مخلوق سے نہیں رہی۔ سب سے پہلی بات کہ موبائل فون متحرک ہوتا ہے اور انسان بھی متحرک ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی ایک جگہ نہیں ٹک سکتا۔موبائل تصویر اتار سکتا ہے اور انسان بھی تصویر لے سکتا ہے، کیمرہ در اصل انسان کے اندر سے ہی باہر آیا ہے:
آنکھوں سے جو اتری ہے دل میں تصویر ہے اک دیوانے کی
خود ڈھونڈ رہی ہے شمع جسے کیا بات ہے اس دیوانے کی

موبائل آواز کو محفوظ کر سکتا ہے ، یہ صلاحیت انسان بھی رکھتا ہے۔ انسان کے حافظے میں ماضی کی بہت سی آوازیں موجود ہوتی ہیں جنہیں سن کر وہ فوراً بولنے والے شخص کو پہچان لیتا ہے۔بعض آوازیں اسے اچھی لگتی ہیں انہیں وہ بار بار سننا چاہتا ہے:
آواز دے کہاں ہے ، دنیا مری جواں ہے

موبائل کی کئی ٹیونیں ہوتی ہیں اور ان ٹیونوں کو بدلا بھی جا سکتا ہے، انسان بھی ایک ہی سُر میں نہیں رہتا، وہ بھی اپنی سریں اور دھنیں بدلتا رہتا ہے کبھی خوشی کی راگنی اور کبھی غم کے راگ۔موبائل وقت کی پیمائش دیتا ہے تو انسان کے اندر بھی ٹائم کلاک لگا ہوتا ہے انسان بغیر کسی گھڑی یا کسی اور پیمانے کی مدد کے وقت پیمائی کر سکتا ہے، انسان کا چہرہ بذاتِ خود وقت کی پیمائش ہوتا ہے اس کے چہرے کی جھریاں وقت کی بہتریں پیمائش دیتی ہیں۔اس کے سفید بال وقت کو اچھی طرح بیان کر رہے ہوتے ہیں۔موبائل کئی سائزوں اور ڈیزائنوں کے ہوتے ہیں، انسان کے بھی کئی ایک سائز اور ڈیزائن ہیں، چھوٹے، موٹے، لمبے، پتلے۔ موبائل کئی رنگوں میں دستیاب ہوتے ہیں انسان بھی کئی ایک رنگوں میں پایا جاتا ہے، موبائلوں میں کالا رنگ غالب ہوتا ہے انسانوں میں بھی کالا رنگ زیادہ ملتا ہے گورا رنگ ناصرف موبائلوں میں بلکہ انسانوں میں بھی بہت کم ملتا ہے بیوٹی انڈسٹری کی ایک بڑی آمدنی رنگ گورا کرنے والی کریموں کی مرہونِ منت ہے کالا رنگ کوئی نہیں کرتا وہ مل ہی جاتا ہے۔ موبائل اکثر جیب میں رکھا یا ڈالا جاتا ہے، انسان بھی اکثر اپنی جیب میں ہوتا ہے، اس کا سوچنا، بولنا، عمل کرنا جیب کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ اسے اپنی جیب کی فکر دامن گیر رہتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ انسان بھی اپنی جیب میں رہتا ہے، یا ہوتا ہے۔ موبائل کو چارج کی ضرورت ہوتی ہے اور چارج کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتا اور یہ چارج توانائی ہوتی ہے، انسان بھی توانائی کے بغیر ناکارہ ہو جاتا ہے۔یہ توانائی اس کی صحت ہے اگر تندرستی ہے تو بہت مزا ہے زندگی خوبصورت ہے اور اگر خدانخواستہ بیماری یا کمزوری ہو تو مصیبت۔موبائل چارج کے بغیراپنا تعارف بھی نہیں کروا سکتا، انسان بھی توانائی کے بغیر ایک لفظ نہیں بول سکتا۔

موبائل کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں سم ہوتی ہے جس سے اس کا تمام کاروبار چلتا ہے اس سم کے بغیر چارج بھی اپنے مطلوبہ فنکشن انجام نہیں دے سکتا۔ یہ سم ہی ہے جو ایک موبائل کا کسی دوسرے موبائل سے تعلق قائم کرتی ہے۔ ایک کا پیغام دوسرے تک پہنچاتی ہے اس کا پیغام وصول کرتی ہے، اس سے بات کرواتی ہے اس تک اپنی آواز پہنچاتی ہے،سم کے بغیر موبائل بچوں کی گیم کھیلنے کی چیز رہ جاتا ہے اور بڑے مقاصد سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کے متوازی انسان میں روح ہوتی ہے روح کے بغیر انسانی جسم مٹی کا ایک پتلا رہ جاتا ہے اور اس کے عظیم مقاصد صفر ہو جاتے ہیں، روح اس کا تعلق اپنی ذات سے دوسری ذات تک جوڑتی ہے، انسان اس روح کی بدولت خدا سے ہمکلام ہوتا ہے اور اس ذات کا پیغام اپنے اندر محسوس کرتا ہے، اس روح کے بغیر انسان ایک روبوٹ سے بھی کم حیثیت کا رہ جاتا ہے۔سم سے ذرا سا بھی پیغام بھیجیں اس کے مرکز کو خبر ہو جاتی ہے اسی طرح روح کے مرکز کو روح کی تمام باتوں کا علم ہو جاتا ہے، ایک بھی کال یا میسج مرکز سے تعلق کے بغیر نہیں کیا جاسکتا، ایسے ہی روح کی ہر ہر جنبش سے اس کا مرکز جو خدا کے پاس ہے کو خبر ہو جاتی ہے۔

موبائل کا تعلق چارج سے ہے تو سم کا تعلق بیلنس سے ہے جسے کریڈٹ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن یہ عام نہیں، عام بیلنس ہی ہے۔ اس بیلنس کے بغیر سم کا ہونا یا نہ ہونا ایک حد تک ایک سا ہو جاتا ہے،یعنی کال آ سکتی ہے جا نہیں سکتی، میسج آ سکتا ہے جا نہیں سکتا۔ انسان کا یہ کریڈٹ یا بیلنس اس کی نیکی ہے اگر انسان نیکی جا بیلنس یا کریڈٹ رکھتا ہے تو کسی بڑی ذات یا دوسری ذات سے بات کر سکتا ہے، اسے میسج بھیج سکتا ہے۔ وہ بڑے بڑے کام ، جیسے کوئی تخت پلک جھپکنے میں حاضر کرنا، بھی سر انجام دے سکتا ہے۔وہ وحی کا پیغام بھی وصول کر سکتا ہے اور کسی بڑی ہستی سے گفتگو بھی کر سکتا ہے وہ اپنے اثرات دوسری جگہوں پر بھی پہنچا سکتا ہے اور وہاں کسی کام کا حکم بھی دے سکتا ہے۔اس کا تصرف بہت زیادہ ہو سکتا ہے اگر اس کے پاس کمپنی کا کریڈٹ یا بیلنس موجود ہو تو۔

موبائل کا میسج موبائل ہی وصول کرتا ہے تو انسان میں بھی یہ اصول کارفرما ہے:
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے امیرؔ
ہم ہیں ان کی یاد میں اور وہ ہماری یاد میں

موبائل سم کے ظہور کے لئے ضروری ہے اسی طرح جسم روح کے اظہار کے لئے لازمی ہے۔ سم موبائل بدل سکتی ہے تو روح بھی اجسام بدل سکتی ہے عالمِ ارواح اپنا ایک وجود رکھتا ہے اسی طرح سموں کا اپنا ایک نظام ہے، لیکن ظہور جسم یا موبائل ہی میں ممکن ہے۔

ایک موبائل میں کئی ایک سمیں ہو سکتی ہیں اسی طرح ایک انسان اپنے اندر کئی رابطے رکھ سکتا ہے اس کے اندر ایک اچھائی کا رابطہ ہے جو خدا کی طرف سے ہے اسی طرف جاتا ہے اور دوسرا رابطہ شیطان کی طرف سے ہے اور اسی طرف جاتا ہے۔ یہ انسا ن پر منحصر ہے کہ وہ کون سی سم آن کر کے رکھتا ہے اچھائی بھی موجود ہے اور برائی بھی اپنا دام پھیلائے ہوئے ہے:
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے

ایک انسان ایک وقت میں کئی رابطوں میں ہوتا ہے، موبائل کی تین چار سمیں ان رابطوں کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔

موبائل بازار میں بکتا ہے تو انسان بھی دنیا کے بازار میں اپنی قیمت لگواتا ہے اور جب اسے اپنی من پسند قیمت مل جائے بک جاتا ہے ، کوئی اپنے بدلے دنیا لیتا ہے اور کوئی آخرت، کوئی ایک بار بکتا ہے تو کوئی بار بار۔ کوئی کسی نازنیں کے ہاتھوں میں جاتا ہے اور کوئی کسی فقیر کے۔بہرحال بکنا انسان اور موبائل دونوں کے لئے ناگزیر ہے۔

موبائل دوسروں کے لئے ہوتا ہے تو انسان بھی کب اپنے لئے ہوتا ہے ۔ وہ بھی ایک بڑی حد تک دوسروں کے لئے جی رہا ہوتا ہے اور انسانیت کا مطلب بھی دوسروں کے لئے جینا ہے، سو یہ مقصد موبائل اور انسان دونوں پورا کر رہے ہوتے ہیں۔

موبائل کو جہاں جی چاہے توڑا، پھوڑا اور چھوڑا جا سکتا ہے تو انسان کے ساتھ کیا نہیں کیا جا سکتا۔
موبائلوں میں روز افزوں ترقی ہوتی جا رہی ہے ، نت نئے اور زیادہ فنکشنوں والے موبائل مارکیٹ کی زینت بن رہے ہیں انسان کی صلاحیتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے، کبھی انسان زمیں پر رینگنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکتا تھا اب وہ فضاؤں کا شہزادہ ہے، سمندروں کا امیر ہے، ستاروں پر کمند باندھنے والا ہے۔ اب انسان بہت کچھ اپنی گرفت میں لے چکا ہے اور بہت کچھ کے تعاقب میں سرگرداں ہے۔ موبائل اسی کی کاوشوں کا مظہر ہے بلکہ اس کی بیتاب روح کا عکاس ہے۔ موبائل کہاں بھی جائے گا انسان کے ساتھ رہے گا:
تو جہاں جہاں چلے گا مرا سایہ ساتھ ہو گا

موبائل امیر غریب ہوتے ہیں تو انسان تو سب سے زیادہ یہ فرق اپنے مابین روا رکھتے ہیں، کسی موبائل کا بیلنس ختم ہی نہیں ہوتا اور کسی موبائل میں بیلنس رہتا ہی نہیں۔ کسی کو صاف ستھرا ماحول اور ساتھ کور بھی میسر ہے اور کسی کو ہر وقت میلے کچیلے ہاتھوں سے پالا پڑتا ہے ۔ پسند اپنی اپنی، قسمت اپنی اپنی۔
موبائل ڈبہ پیک ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ پرانے ہو کر کباڑ خانے کا مال بن جاتے ہیں، انسان بھی دنیا میں ڈبہ پیک ہی آتا ہے اور پھیر آہستہ آہستہ بوڑھا ہو کر ردی مال کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے جب کہ اس کیفیت میں وہ بالکل بے اختیار ہو چکا ہوتا ہے۔نوے نکور سے توڑپھوڑ تک کا یہ سفر موبائل اور انسان ایک طرح ہی طے کرتے ہیں۔

موبائل کے میموری کارڈ میں کس قسم کا مواد بھرا جانا ہے اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کس کے ہاتھ لگتا ہے، ایسے ہی انسان کس معاشرے، خاندان، علاقے، زمانے وغیرہ میں آتا ہے اسی قسم کی چیزیں اس کے ذہن میں بھر دی جاتی ہیں۔ اس طرح موبائل اور انسان پھر یکساں ہو جاتے ہیں۔

موبائل کو چھوٹا انسان کہنا بے جا نہ ہو گا۔ در اصل انسان کی ایجادیں اس کے اپنے اندر ہی کا پرتو ہیں۔موبائل سے انسان کا واسطہ عمر بھر کا ہے لیکن:
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا بھی تو کیا
عمر کو بھی نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے

لیکن اس دور میں کوئی اتنا بھی کر لے تو غنیمت ہے، لوگ تو دم بھر کے پیار کو بھی ترس جاتے ہیں چاہے جھوٹا ہی کیوں نہ ہو:
دم بھر کے لئے کوئی ہمیں پیار کر لے جھوٹا ہی سہی

لیکن موبائل انسان کی طرح جھوٹا یا بے وفا نہیں۔ موبائل کبھی جھوٹ نہیں بولتا، جھوٹ جب بھی بولا جاتا ہے کسی انسان کے منہ ہی سے بولا جاتا ہے، اور کوئی مخلوق یہ ایجاد جھوٹ نہیں بولتی۔ اس لحاظ سے تو موبائل کو کبھی کبھی انسان پر فوقیت حاصل ہو جاتی ہے۔

الغرض موبائل، سم اور ہم سب ایک ہیں، انسان کی سب ایجادیں اس کے شعور، تحت الشعور، اور لا شعور کی غمازی کرتی ہیں۔ یعنی ان میں انسان کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے اور موبائل اس سلسلے میں انسان سے بہت قریبی یکسانیت کا حامل چھوٹا انسان ہے۔
 
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 283873 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More