مسلمانوں کو مظفر نگرفسادات یاد رکھنے کی دھمکیاں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیم وشواہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا نے ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف زہریلی بیان بازی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ گجرات فسادات بھول چکے ہوں گے لیکن گذشتہ سال کے مظفر نگر فسادات انہیں ضرور یاد رکھنے چاہئیں۔توگڑیا نے مقبوضہ کشمیر میں امر ناتھ یاتریوں کے باہمی تصادم کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دیا اور کہا کہ اگر یاتریوں پر حملوں کے بعد ہندو اینٹ پتھر لیکر نکلے تو اس کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہو گی۔ مسلمان ہندوؤں کی رواداری کو بزدلی مت سمجھیں اور مظفر نگر میں جو کچھ ہوا اسے مت بھولیں۔

بھارت میں جب سے ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی حکومت آئی ہے آر ایس ایس، وشواہندو پریشد، بجرنگ دل اور دیگر ہندوانتہا پسندتنظیموں نے پورے بھارت میں آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ کہیں قرآن مجیدکی بے حرمتی اور شان رسالت ﷺ میں گستاخیاں کی جارہی ہیں تو کہیں مساجدومدارس کی بے حرمتی اور نہتے مسلمانوں کے قتل عام کیلئے فسادات کی آگ بھڑکائی جارہی ہے مگر چونکہ اس وقت انہیں سرکاری سرپرستی حاصل ہے اس لئے کوئی ان کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو بھارت میں ہندو انتہا پسندی نے 1926ء میں اس وقت زور پکڑناشروع کیاجب آر ایس ایس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب آزادی کی چنگاریاں شعلہ بن کر ہندوستانی مسلمانوں کوجذبہ جہادسے سرشارکررہی تھیں اورمسلمان خصوصاًعلمائے کرام برطانوی سامراج کے خلاف سینہ سپر ہوکر انگریزوں کی گولیوں کانشانہ بن رہے تھے تو ایسے نازک وقت میں اسلامی شناخت کی سرکوبی،مسلم ماؤں‘بہنوں کی عصمتیں پامال کرنے اوربرطانوی اقتدار کی خاطر مسلمانوں کے قتل وخون کا نظریہ پروان چڑھایا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب بھگوا جھنڈا بنانے کے بعد ترانہ تیار کیا گیا۔ ملیچھ ، زانی ،غیرملکی اورڈاکوسے تشبیہ دیکر مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑکرنیکا آغازکیاگیا۔ 1934ء میں اسی آر ایس ایس نے گاندھی کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی اورتیس ہزارتنخواہ دار فوجیوں کی ایک خونی جماعت پی ایس پی کے نام سے تشکیل دی جس کے اہلکاروں نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔1985ء اور1986ء میں علی گڑھ کی ماؤں‘بہنوں کی عصمتوں کوتارتارکیا گیا۔1987ء میں ملیانہ اور 1989ء میں قتل عام کے دوران بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ 1992ء میں مسلمانوں کی عظمت کی نشان چارسو سالہ پرانی بابری مسجد کوشہید کردیاگیا۔2002ء میں گجرات فسادات کے دوران ہزاروں ماؤں ‘ بہنوں کواپنی ہوس کا نشانہ بناکرموت کے گھاٹ اتاردیا گیا، مالیگاؤں ، مکہ مسجد، ناندیڑ، ممبئی ٹرین دھماکوں اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں ملوث رہیں اورکچھ عرصہ قبل ایک ہندو انتہا پسند ممبر اسمبلی کی جانب سے پاکستانی شہر سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے قتل کی ویڈیو کوہندو نوجوانوں کی کہہ کر فیس بک پر اپ لوڈ کیا گیا اور پھر مظفر نگر میں بدترین مسلم کش فسادات بھڑکاکربیسیوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اس دوران کئی مسلم ماؤں بہنوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی، ہزاروں مسلمان اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہزاروں مسلمان آج بھی اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے ہیں۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بھارتی پولیس، آئی بی، سی بی آئی اور دیگرتحقیقاتی ایجنسیاں اور ادارے جنہوں نے حالات کو کنٹرول کرنا اور امن و امان برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ ان میں بھی بڑی تعداد میں ہندو انتہا پسندانہ ذہنیت کے لوگوں کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ صحیح رپورٹیں پیش کرتے ہیں اورنا ہی مسلمانوں کے تحفظ کیلئے خاطر خواہ انتظامات کئے جاتے ہیں۔ مہاراشٹر پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب ’’ہو کلڈ کرکرے‘‘ میں بالکل درست تجزیہ پیش کیا ہے کہ ہندو انتہا پسندی کی جڑیں انٹیلی جنس بیورو کے اندر تک پھیل چکی ہیں اورہیمنت کرکرے کو قتل ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ ا س نے مالیگاؤں بم دھماکوں کے الزام میں سمجھوتہ ایکسپریس کے مرکزی مجرم کرنل پروہت، سادھوی پرگیہ ٹھاکر، سوامی دیانند پانڈے سمیت کئی ہندو انتہا پسندوں کو نا صرف گرفتار کیا تھا بلکہ ان کے خلاف عدالت میں فرد جرم بھی داخل کی تھی کہ ان سب کا تعلق ابھینو بھارت، جن جاگرن سمیتی اور دوسری ہندو انتہا پسند تنظیموں سے ہے جو انڈیا کو ایک ہندو راشٹر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ بھارتی حکومت، خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہندو انتہا پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے ہی ہندوستان میں مسلم کش فسادات آج تک رک نہیں سکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ مسلم نوجوان جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں کوئی ان کی مددکرنے کو تیار نہیں ہے۔ سالہا سال تک ان کی ضمانتیں نہیں ہوتیں اور دوسری طرف کرنل پروہت جیسے دہشت گردوں کو جیل میں بھی حاضر سروس سمجھتے ہوئے تنخواہیں دی جارہی ہیں اور اگر بی جے پی لیڈر اور نریندر مودی کے دست راست امیت شاہ جیسے دہشت گرد انیس سالہ عشرت جہاں فرضی جھڑپ کیس میں بے نقاب ہو بھی جائیں تو چارچ شیٹ بد ل دی جاتی ہے اور اصل مجرموں کا نام ہی اس میں سے نکال دیاجاتا ہے۔ایسی صورتحال میں مسلم کش فسادات کیسے رک سکتے ہیں؟ ساری دنیاکا میڈیا بھارت میں جاری مسلمانوں کے قتل عام پررپورٹیں شائع کرتا رہے اسے کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ وی ایچ پی کے لیڈر اشوک سنگھل نے مسلمانوں کے خلاف متنازعہ بیان بازی کی تھی اور اب انتہائی متعصب ہندو لیڈر پروین توگڑیا نے بھی زہر اگلنا شروع کر دیا ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کی ڈھٹائی کی انتہا کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین دن قبل مقبوضہ کشمیر میں امرناتھ یاتریوں کیلئے لگائے خیمے بھی مسلمانوں کے جلائے گئے اور اس کا ذمہ دار بھی انہیں ہی ٹھہرایا جارہا ہے۔ کشمیر کے مقامی مسلمانوں نے ہمیشہ یاتریوں کو مہمان سمجھ کر ان کا استقبال کیا اور ان کیلئے سہولیات کا اہتمام کیا ہے وگرنہ یہ لوگ کبھی بھی پرامن طریقہ سے وہاں آجانہ سکیں بہرحال یہ رپورٹیں خود بھارتی میڈیابھی شائع کر چکا ہے کہ حال ہی میں یاتریوں کے مابین جھگڑے کا جو واقعہ پیش آیا ہے اس کے مطابق لڑائی کی وجہ وہاں لنگر کا انتظام کرنے والے ہندوکی طرف سے ایک مقامی مسلمان کے پیٹ میں چھرا گھونپنے کے نتیجہ میں اس کا قتل تھا جس پر مقامی مسلمانوں نے احتجاج کیا تو بھارتی سی آر پی ایف نے دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوؤں کی بجائے مسلمانوں پر ہی الٹا غصہ نکالا اور ان کی طرف سے یاتریوں کیلئے لگائے گئے چار سو سے زائد خیمے جہاں وہ یاتریوں کو ٹھہرا کر معمولی معاوضہ حاصل کرلیتے تھے انہیں جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیاگیا اوربدترین تشدد کر کے چالیس سے زائد مسلمانوں کو زخمی کر دیا گیا۔ اس لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ پروین توگڑیا کے تمامتر الزامات حقائق کے بالکل برعکس اور مسلم کش فسادات بھڑکانے کی سازشوں کا حصہ ہیں۔ وشواہندو پریشد کی طرف سے کھلے عام مسلمانوں کو مظفر نگر فسادات یاد رکھنے کی دھمکیوں سے صاف طور پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلے بھی مسلمانوں پر غلط الزامات لگا کر فسادات کی آگ بھڑکائی گئی تھی اور اب ایک بار پھر بے بنیاد الزام تراشیاں کر کے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی ذہن سازی کی جارہی ہے مگر ہندو انتہا پسندوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ بار بار فسادات بھڑکانے کا جو کھیل کھیل رہے ہیں اس سے بھارت کے مقامی مسلمانوں میں تیزی سے بیداری پیدا ہورہی ہے اور وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہور ہے ہیں کہ قربانیوں و شہادتوں کا راستہ اختیار کئے بغیر ان کی عزتوں و حقوق کا تحفظ ممکن نہیں ہے۔ ہندوؤں کی طرف سے آئے دن ڈھائے جانے والے بدترین مظالم سے ایک بار پھر بھارتی مسلمانوں میں دوقومی نظریہ بیدا ہورہا ہے۔ ہندو انتہا پسند اگر اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئے تو وہ وقت دور نہیں جب بھارت کو مزید کئی پاکستان بننے جیسی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 125960 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.