زندہ ہیں صحا فی زندہ ہیں

 میری انا کے وزن کو ہلکا کس نے کیا
میں تو زور آور تھا پسپا کس نے کیا
مجھ جیسے دریا کو قطرہ کس نے کیا
تو نے نہیں تو پھر یہ کر شمہ کس نے کیا
پو چھ رہی ہیں پاک عما رت کی اینٹیں
پاکستان کی تا ریخ کو گندہ کس نے کیا
ولی کامل مجد د دوراں حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں تکلیف یا مشکل اس وقت آتی ہے جب انسان اپنے آپ کو بیان شدہ راستے سے ہٹا کے کسی اور راستے پر گا مزن کردے ۔ گذشتہ دنو ں گو انتا مو سے پا نچ افغا نی رہنما ؤ ں ملا نو ر اﷲ نو ری ، ملا عبد الحق وثیق ، مولوی محمد نبی عمری ، ملا خیر اﷲ خیرخواہ اور ملا محمد فاضل احمد کی رہا ئی ، افواج پاکستان کی طرف سے انتہا پسندوں ، شدت پسندو ں اور دہشتگردو ں کے خلا ف آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کا آغا ز اور اس کے ردعمل میں سا بقہ روایت کوبرقرار رکھتے ہو ئے نام نہا د طالبان قیادت شیخ خالد حقانی ،عمر خالد خراسانی اور تر جما ن تحریک طالبان پاکستان شاہد اﷲ شاہد کی طرف سے خود کش دھماکو ں کی دھمکیا ں ایک لمحہ فکریہ ہے جس کی گہرائی میں نا جا نے کتنی ہی سازشو ں اور حما قتو ں کا گمان دکھائی دیتا ہے ۔آپریشن کے بعد سامنے آنے وا لے ردعمل کو بھی پو ری طرح سے ملحوظ خا طر رکھنا ہو گا۔موجودہ حا لا ت کے تنا ظر کو ماضی کے دریچو ں میں جھا نک کر دیکھنے کی سعی کی جائے تو یہ خیال واضح ہوتا ہے کہ اسلامی جمہو ریہ پاکستان جو ایک نظریا تی اور مذہبی ملک ہے کمزور معشیت ، بجلی و گیس کی لو ڈشیڈنگ ، مہنگا ئی ، بے روز گا ری اور نجا نے کتنے ہی بحرانو ں ، طوفا نو ں اور نا دانیو ں کے گرداب میں پھنسا ہوا وہ بد قسمت کنول ہے جسے کبھی بھی گندگی اور غلا ظت سے خلاصی حاصل نہیں ہو سکی ہے یہا ں پر بسنے والے نہ صرف اپنے بنیادی انسانی حقوق سے ما ورادکھائی دیتے ہیں بلکہ حکمرانو ں اور عوام کی پے در پے غلطیو ں اور کو تائیو ں نے اسے مزید پسپائی اور تنزلی کی طرف دھکیل دیا ہے
چند سکو ں میں بکتا ہے یہا ں انسان کا ضمیر
کون کہتا ہے میرے ملک میں مہنگا ئی ہے

خاص و عام عدم تحفظ کا شکا ر انتہا ئی کسمپرسی اور بے چینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ حکمرانی کے دعوے دار خود کو قیا دت کے پلڑے میں تو لنے وا لے چند سیاست دان عوام الناس کے ساتھ ساتھ ملک کی تقدیر اور تد بیرسے بھی کھیلتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں ۔ کوئی سونامی ہو یا انقلا ب کا دعویدار کوئی لیگی ہو یا فرد واحد کی جما عت کا قائد گفتا ر سبھی تو اپنے ذاتی مفادات اور فوائد کے لیے محض ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف عمل ہیں کسی کو ملک کے امن و امان اور تعمیر و ترقی کی پرواہ نہیں بے شما ر مسائل ، مصا ئب اور مشکلا ت میں ڈوبا ہوا ملک کسی بھی بے چینی ، بدامنی ، بے قراری اور افراتفری کا متحمل کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس وطن عزیز کے حصول کے پس پشت منصوب عزائم اور ارادوں کو مکمل طو ر پر سبو تاژ کرتے ہو ئے شب و روز اس کے وقار ، کردار اور افکا ر کو مسخ کیا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال کو شعوری یا لا شعوری طور پر دیکھا سوچا اور پرکھا جائے تو اس نا زک ترین اور کڑے وقت میں میڈیا کا کردار بڑا اہم اور غیر معمولی نظر آتا ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو غیر جا نبدارانہ انداز میں ہر اٹھنے وا لے فتنے اور سازش کو روکنے کی کا وش کرنا ہو گی ، ہر طوفان اور دہشتگردی کو بے نقاب کرنا ہو گا صحا فتی کمیونٹی کو چا ہیے کہ اپنی ذاتی پسند اور نا پسند کا خا تمہ کرتے ہو ئے دوسری بعض معتبر کمیو نٹیوں کی طرح کسی ایک ایجنڈے اور موقف پر یکتا ہوجائیں آپس کے اختلافات اور مناظرات کو پس پشت ڈا لتے ہو ئے ملک و قوم کی ڈھا رس باندھنے میں معاون و مدد گا ر ثا بت ہو ں ایک ایسا اجلا اور سنہرا کردار ادا کریں جس کو دیکھ کر بین الا قوامی دنیا بھی صحا فتی خدما ت اور جذبا ت کو سراہتے ہو ئے دوسرے تمام شعبو ں سے بہتر اور نمایا ں جانیں اور عزت و تکریم کی نگا ہ سے دیکھا اور گردانا جا ئے یہا ں صحافتی گروپ بندیو ں اور گروہو ں نے مخالفین کو سراٹھا نے اور بے جا تنقید کا نشانہ بنا نے کی چھوٹ دے رکھی ہے جو کہ ایک گھمبیر صورتحال ہے نہ صرف ملک دشمن بلکہ انسانیت کے قاتل بھی اندرونی خلفشا ر اور انتشا ر کی بد ولت صحافتی برادری کو اپنے غیض و غضب اور ظلم کا نشانہ بنا نے پر تلے ہو ئے ہیں امر با المعروف و نہی عن المنکر کی صدا ہی صحا فت کے منصب اور مقام کو اجا گر کرنے کے لیے کا فی ہے دشمن لاکھ برا چا ہے بھی تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہو تا ہے ۔ آج افغانستا ن کی جیل میں قید و بند کی صعوبتو ں سے دوچار فیض اﷲ اور دنیا کے مختلف عقوبت خانو ں میں مبعوس صحافتی برادری کے نمائندے یہی پیغام دینا چا ہتے ہیں کہ بلا شبہ صحا فی کسی ایک مذہب کسی ایک عقیدے اور کسی ایک ملک سے وابستہ ضرور ہوتا ہے لیکن اسکے لیے کوئی لسانی ، علا قائی ، فروعی ، مذہبی اور نظریا تی اختلا ف کوئی معنے نہیں رکھتا ہے اس کے لیے پو ری دنیا ایک کالونی کی صورت اس کی صلا حیتو ں اور ہمتو ں کا لوہا منوا نے کے لیے ایک جیسا ہی اثر رکھتی ہے اس کے تجربات اور تحقیقا ت کو کوئی ملکی بارڈر ، با ؤنڈری یا دیوار اپنی قید میں نہیں لے سکتی ہے وہ دنیا کے کسی بھی کو نے میں اپنے تخیلا ت ، تاثرات ، سوچ ، نظریا ت اور احساسات و جذبا ت کا اظہا ر آزادانہ طو ر پر کر سکتا ہے ۔ جس طرح ملا ؤ ں کے ذا تی مفادات ، حکمرانو ں کے سیاسی اختیارات ایک حدود و قیود میں قید ہیں اس کے بر عکس صحا فتی سوچ اور نظریا ت کو کسی بھی ایک پنجرے میں قید نہیں کیا جاسکتا ہے کسی ایک جیل میں بند نہیں رکھا جا سکتا ہے اور کسی ایک حالت میں کنٹرول نہیں کیاجا سکتا ہے،ذرا سو چئیے جو پولیس نہتے اور بے قصور اپنے ملک کے محب وطن شہریو ں پر ظلم و بر بریت کا پہاڑ گراتے ہو ئے 13لا شوں کا تحفہ دیتی ہے نا اہل ناکام اور نا پائیدار حکمرانو ں کے اکسانے پر درندگی اور حیوانیت کا روپ دھاڑ لیتی ہے اور خود دہشت و وحشت کی علا مت طالبان کے انتقام کا شکا ر بنتی ہے تو اس سے ملک و قوم کی حفاظت اور جان و مال کی امان کا بھروسہ کیسے کیا جا سکتا ہے ؟ با الخصوص پاکستانی الیکٹرانک اور پر نٹ میڈیا کو پا ئے کھا نے والی نسل کی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اپنا موثئر اور مربوط کردار ادا کرنا ہوگا جنہو ں نے اپنے نا مناسب اقداما ت اور غیر سنجیدہ رویوں سے پو ری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے جو آئے دن ملک کے اندر ایک نیا اور اچھو تا تما شہ کھڑا کرنے کی سوچ رکھتے ہیں جنہیں عام عوام کی زندگی اور مصا ئب و الم سے کوئی سروکا ر نہیں جو محض دنیا بھر میں اپنی نسل در نسل آسائشو ں اور سہولتو ں کے لیے بے پنا ہ دولت اکھٹی کرنے میں مصروف عمل ہیں خدارا ایسے ظالم یز یدیت اور فرعونیت کے پیرو کاروں سے نجا ت حاصل کرلی جا ئے جو عوام کا خون چوس کر برطانیہ اورسعودیہ میں اپنے محلا ت ، پلا زے اور کا روبا ر کھڑے کر رہے ہیں اور میری نصیحت ہے ان نام نہا د جہا دیوں اور خود کو با عمل اور اچھے مسلمان سمجھنے والے طالبان سے کہ اگر شوق جہا د ہی پورا کرنا ہے تو پھر فلسطین اور غزہ کو لہو لہان کرنے والے یہو دیو ں کا خا تمہ کریں، کشمیر میں ہند و راج کو ناکام بنائیں، ڈارفور ، ویت نام ، شام اور برما کا رخ کرو وہا ں تمہا ری ضرورت ہے اگر واقعہ ہی تم اﷲ کے سامنے سرخرو ہونا چا ہتے ہو تو یہ علا قے فتح کرو اور اگر تمہا رے سامنے غیر اﷲ کی خو شنودی افضلیت رکھتی ہے تو پھر مو ت سے پہلے اپنا محا سبہ کر لو کہ تمہا را انجام کیا ہو گا ؟ دنیا بھر میں موجود صحا فی چا ہے وہ کسی بھی مذہب ، قبیلے ، نظریے اور فرقے سے تعلق رکھتے ہو ں FREEDOM OF EXPRESSION کے خلا ف اٹھنے والی ہر آواز کو پسپا کرنے اور اسے اسکے منطقی انجام تک پہنچا نے کے لیے یکتا اور متحد و منظم ہوجائیں ورنہ صحا فت اور صحا فیو ں کے حقوق کا کوئی لحاظ نہیں رکھے گا اپنے عمل اور کردار سے یہ ثا بت کردیں کہ صحا فت ایک نئی زندگی ، جداگانہ اور آزادانہ سوچ کا نام ہے اسے قید و بند میں رکھ کر غلام نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 105673 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More