جنت نظیر میں خونی چمگادڑوں کی نوجوانوں پر یلغار

 خطہ کشمیر دنیا کا ایک ایسا مظلوم خطہ ہے جو گزرتے ہر برس کے ساتھ اپنی دھرتی پر بے گناہ معصوم لاشوں کا بوجھ اٹھاتا ہی جا رہا ہے۔ 1989 ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ کے قریب کشمیریوں کا خون بہایا جاچکا ہے جب کہ اس دوران دس ہزار سے زائد افراد فورسز کے ہاتھوں غائب ہوچکے ۔ہندوستان نے کشمیر میں مظالم کی جو تاریخ رقم کر رکھی ہے ان مظالم کی بڑی شکار وہاں کی خواتین ہیں ،بھارتی فورسز خواتین کی جبری آبرو ریزی بھی کرتی رہی ہیں اور یہی فورسز خواتین سے انکے باپ ، خاوند، بھائی ، بیٹے یا کبھی پوتے ،بھانجے ، بھتیجے یا کسی اور قریبی رشتے کی قربانی کا دکھ دے جاتی ہیں۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں خواتین سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں ہے کیونکہ اکثریتی خواتین اپنے کسی نہ کسی عزیز قربانی کا دکھ سہہ چکی ہیں،ایسی خواتین جن کے جگر گوشوں کو غائب کر دیا گیا ہوان کے دکھ درد دوسروں سے قدرے مختلف اور مشکل ہوتے ہیں ۔اعدادوشمار کے مطابق بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اس وقت 10 سے 15 ہزار نوجوان سالوں سے لاپتہ ہیں ، ان نوجوانوں کو ان کے والدین اور خاندان والے تلاش کرتے ہیں لیکن کسی کو ان تک رسائی نہیں ہوتی ۔جگر گوشے کی تلاش کرنے والی ایک ایسی ہی دکھیاری ماں پروینہ آہنگر ہیں جن کے بیٹے جاوید کوفور سز24 سال پہلے اٹھا کرلے گئیں اس ماں نے بیٹے کی گمشدگی کا درد سہا اور ہمت باندھ کر بیٹے کی تلاش کے سفر کا آغاز کر دیا ، کشمیر بھر میں تلاش کے ساتھ وہاں عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے لیکن انصاف نہ ملا ، اس ماں کی تلاش اب ایک ایسی تحریک بن چکی ہے جس میں کشمیر کی دیگر ہزاروں مائیں اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں شامل ہو چکی ہیں ۔پروینہ آہنگر جو اب کشمیر میں لاپتہ افراد ے حوالے سے ایک منظم تحریک کا آغاز کر کے پہچان بن چکی ہیں ان کے ساتھ جو واقعہ بیتا اس کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ ماہ اگست انیس سو نوے میں ان کے بیٹے جاوید کو این ایس جی کمانڈوز(بھاری فورسز) نے گھر سے رات تین بجے اٹھا کر لے گئے۔پروینہ نے کشمیر کا کوئی ایک علاقہ ایسا نہیں چھوڑا جہاں انہوں نے بیٹے کو تلاش نہیں کیا، اپنی جدوجہد کے دوران پروینہ کو ایسی کئی خواتین ملیں جن کا اور اسکا دکھ سانجھا تھا اور وہ سب اپنے بیٹوں کی تلاش میں سرگرداں تھیں۔ انیس سو چورانوے میں پروینہ نے ایسو سی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیئرڈ پرسنز (اے پی ڈی پی)کی بنیاد رکھی جس کے اب تک تین ہزار سے زائد ممبر ہوچکی ہیں۔پروینہ کہتی ہیں کہ اے پی ڈی پی کے تمام ارکان کا دکھ یکساں اور مشن بھی ایک ہے۔لاپتہ افراد کے سلسلہ میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کیلئے وہ غیر ممالک میں بھی گئی ہیں ،دورہ برطانیہ کے موقع پرنوبل انعام کیلئے نامزد ہونے والی عظیم اس سوشل ورکر پروینہ آہنگر نے نامور کشمیری صحافی اور پریس فار پیس کے بابی ظفر اقبال سے ملاقات میں کہا تھا کہ وہ کشمیر کے دس ہزار لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جہدوجہد اور ان کے لیے انصاف کے حصول کے لیے کام کرتی رہیں گی ، پروینہ آہنگر کہتی ہیں کہ ان کے لاپتہ بیٹے سمیت ہزاروں گمشدہ کشمیریوں نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو ان کو سزا دی جائے لیکن اگر وہ بے گناہ ہیں تو ان نہتے شہریوں کو بھارتی ریاست دنیا کے سامنے لائے۔پریس فار پیس کے بانی صحافی ظفر اقبال نے پروینہ آہنگر کی خدمات کو زبر دست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھاکہ کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کشمیر کی آئرن لیڈی پروینہ آہنگر نے اپنے ادارے اے پی ڈی پی کے پلیٹ فارم سے بے مثال جہدوجد کی ہے جو تاریخ میں جلی حروف سے لکھی جائے گی۔

کشمیر میں لاپتہ افراد کا سرکاری سطح پر اصل ڈیٹا اب تک سامنے نہیں آیا اس حوالے سے وہاں کی حکومت چند سوافرادکو لاپتہ قرار دیتی رہی ہے لیکن آزاد ذرائع اس تعداد کو 10 سے 15 ہزار بتا رہے ہیں ،کشمیر میں لاپتہ افراد کے حوالے سے نامور شخصیت ''بھیم سنگھ'' جو انسانی حقوق کے حوالے سے ا قوام عالم میں ایک مقام رکھتے ہیں چند ماہ قبل اسلام آباد تشریف لائے تو ان سے تفصیلی نشست ہوئی جس میں سردار نسیم اقبال ایڈووکیٹ حال مقیم بلجیم اورنوجوان قانون دان ایس ایم ابراہیم ایڈووکیٹ بھی موجود تھے اس ملاقات میں دیگرسیاسی و حکومتی امور کے ساتھ کشمیر میں لاپتہ افراد کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو بھیم سنگھ نے بتایا کہ وہ عشروں سے لاپتہ افراد اور قیدیوں کو بازیاب کرانے کے حوالے سے کام کر رہے ہیں ، اس حوالے سے انہیں کامیابیاں بھی ہوئی ہیں۔بھیم سنگھ نے درجنوں ایسے افراد بشمول جے کے ایل ایف (ر)چیئرمین کشمیری کے بارے میں بتایا جوبھارتی مقبوضہ کشمیر میں قید تھے انہوں نے قانونی جدوجہد کر کے ان قیدیوں کو آزاد کرایا ۔ جموں کشمیر پینتھرز پارٹی کے بانی صدر بھیم سنگھ کے مطابق چند سال قبل انہوں نے وہاں کی اسمبلی میں جب انہوں نے کشمیر میں لاپتہ افراد کی تعداد 6000 بتائی تو پورے بھارت میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا کیونکہ بھارتی حکومت یہ تعداد 500 سے زیادہ ہر گز نہیں ظاہر کرنا چاہتی تھی ۔

بھارتی صحافی ہرش مندر کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو اپنی تحریروں میں عیاں کرتے ہوئے ایک طالبہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کا والد ایک انجینئر تھا، لیکن انھیں بھارتی فوجیوں نے قتل کردیا، دوسرے دن اخبارات میں خبر چھپی کہ فوج نے یہ دعوی کیا کہ اس نے کشمیری فوج سے برسر پیکار ایک بڑے کمانڈر کو ہلاک کردیا، وہ مزید لکھتے ہیں سری نگر میں ڈل جھیل کے وسط میں پانی سے محصور جو گندہ بستیاں ہیں وہاں سے سیکیورٹی نوجوانوں کو دھر لیتی ہے چونکہ وہ کشمیر زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں جانتے اس لیے سیکیورٹی فورسز کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دے سکتے،وہ لکھتے ہیں کہ تشدد نے ان نوجوانوں کے اندر زندگی کی امنگ کا تقریبا خاتمہ کردیا، کوئی طالب علم مطالعہ نہیں کرتا، گندہ بستیوں میں آج ایک بھی گریجویٹ تلاش سے بھی نہیں ملتا۔ان سب حقائق کو سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ کشمیری نسل بھارتی آپریشن میں مسلسل گھرتی ہی جارہی ہے ماحول سے فرار، دکھ، اذیت اور ظلم و جبر نے دیگر برائیوں کو بھی فروغ دیا ہے، زمین کے جس خطے کو کبھی جنت کہا جاتا تھا اسی جنت میں اب خونی چمگادڑوں (بھارتی فورسز)نے انسانوں کے وجود کو بھنبھوڑرکھا ہے، یہ عمل برسوں سے جاری ہے، اس سب کے پیچھے اپنوں کی مکاری کہیے کم فہمی یا بد دیانتی، جو ہونا تھا ہو چکا اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کشمیری ماؤں کے دکھ درد کیسے کم کیے جائیں اور کس طرح اپنی آنے والی نسلوں کو خونی چمگادڑوں کے قرب سے دور رکھا جائے ۔
 
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59035 views Columnist/Writer.. View More