مظلوم اسرائیل

مسلم امہ کو خشمناک نگاہوں سے دیکھنے والی عالمی برادری کو شاید اب رقص ابلیس نظرنہیں آرہا۔چند دنوں میں 200کے قریب معصوم جانیں لی جاچکی ہیں ‘سینکڑوں زخمی ہیں مگرتف ہیں مسلم امہ کے میمنے حکمرانوں پر جنھیں سانپ سونگھ گیاہے۔چاہیئے تو یہ تھاکہ عالم اسلام کے جن بارہ ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں وہ مظلوم اسرائیل پر دباؤ ڈالتے اورتعلقات ختم کرنے کا بھی عندیہ دیتے مگر مگرکون ہے جو اپنے تخت کو خطرے میں ڈالے ؟۔لیکن اس بار پاکستان کے حکمران نے ہمت دکھائی اور پاکستانی عوام کی توبات ہی کچھ اورہے‘جس کا فلسطینی سفیرنے باقاعدہ شکریہ بھی ادا کیاہے ۔ماناکہ ہم بھی حالت جنگ میں ہیں مگر وہ مبارک الفاظ بھی توہماراہی ورثہ ہیں کہ جب تین زخمی پانی لانے والے سے کہہ رہے تھے کہ ’’پانی اسے دے دو‘اسے دے دو‘‘یعنی اپنی پیاس کہ اوپر اپنے بھائی کی پیاس کو مقدم جانااورپھر تینوں شہید ہوگئے ۔مگر باقی کے 60مسلم ممالک؟۔شنید ہے کہ اکادکا مسلمان حاکموں کی بھی درپردہ سپورٹ مظلوم اسرائیلیوں کے ساتھ ہے۔

اسلام دنیا کا دوسرابڑامذہب ہونے کے باوجود عتاب کاکیوں شکارہے ؟۔اسلیئے کہ ہم بھول چکے ’’اﷲ کی رسی کومظبوطی سے تھامے رکھو اورتفرقے میں نہ پڑو‘‘۔یہ مبارک الفاظ بھی یکسربھلابیٹھے’’مسلمان ایک جسم کی مانندہیں‘‘۔آج بھائی اے۔ایم۔ملک (کالم نگار روزنامہ خبریں)سے فلسطین کے متعلق گفتگو کی تو انہوں نے کہاکہ’’ یہ وہی فلسطینی ہیں جنھوں نے مئی 1998کے ایٹمی دھماکوں پرہمارے لیئے دعائے خیر مانگی اورمتوقع عالمی پابندیوں کے پیش نظر پاکستان کے لیئے چندہ اکھٹاکیا‘‘۔

آج جب فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وبربریت کی انتہاہوچکی ہے تو ایسے میں انسانی حقوق کے وہ ٹھیکیدارجو خود کو لبرل مسلمان کہتے ہیں‘ کدھرگم ہیں‘کدھر ہیں وہ جن کی دزدیدہ نگاہیں ہمہ وقت مسلمانوں کی خوبیوں میں سے بھی نقائص کی خوشہ چینی میں مصروف رہتی ہیں ؟کیا اب وہ ہیومن رائٹس کا چرچہ نہیں کریں گے؟کیاانہیں امریکیوں کے دانشور نوئم چومسکی کے بیان تک رسائی نہیں ملی ؟جس میں نوم چومسکی نے اسرائیل کے جارحانہ رویہ اورظلم وتشدد کو نہ صرف جائز تسلیم کرنے سے انکارکیاہے بلکہ دلائل کی بنیادپر اسے رد کرکے نہتے فلسطینیوں کے حق میں بات کی ہے۔سادہ سی بات ہے کہ کیااگر آج ٹیکسلاکو آبادکرنے والے بدھ مت کے لوگ ہم سے ٹیکسلامانگیں گے توکیاہم ٹیکسلاان کے حوالے کردیں گے؟کیاہمارے بچوں پر‘بوڑھوں پر ‘جوانوں پراورہماری عزتوں پر اس آڑ میں ظلم روارکھاجائے گاتوہم دنیاکویہ نہ بتائیں گے کہ جناب ہم یہاں صدیوں سے آباد ہیں اوریہ لوگ گڑھے مردے اُکھاڑنے کے چکرمیں ہیں۔ہم محض صدائے احتجاج نہیں بلند کریں گے بلکہ مسئلے کاحل نہ پاکر کچھ جوان طاقت کااستعمال بھی کریں گے اوروہ نوجوان ہمارے معاشرے کی آنکھ کاتارہ بن جائیں گے۔اورایسے حالات میں ہی حماس کام کررہی ہے ۔لیکن حیرت تو اس بات پر ہے کہ تازہ حملوں میں جنگ بندی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔عالمی میڈیااوراستعمار کو جدید نیوی‘ہیوی اسلحہ‘ٹرینڈ فوجی ‘آرٹلری‘اورحساس جیٹ طیاروں سے لیس اسرائیل مظلوم نظرآتاہے اور معصوم بے گوروکفن تڑپتی ہوئی لاشیں دہشت گرد لگتی ہیں جن میں سے بیشترکے پاس رہنے کو کنکریٹ کی چھت نہیں‘زندگی کی بنیادی سہولیات نہیں‘ہیوی اسلحہ جنھوں نے فقط اپنے جسم کو مفلوج ہوتے ہوئے دیکھا‘وہ ظالم ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟

مسلم دنیا کی آبادی ایک ارب ‘پچاس کروڑ کے قریب ہے‘انکے پاس دنیا کی چالیس میں سے تیرہ بندرگاہیں‘ایٹمی طاقت‘یورینیم ‘تیل ‘گیس کے وسیع وعریض ذخائر موجود ہیں لیکن اگر نہیں ہے تو منہ میں زبان نہیں ہے ۔یہ بے حسی دین سے دوری بھی ہے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مات کھانے کی وجہ سے بھی ۔مستشرقین نے تسلیم کیاہے کہ نویں صدی عیسوی تک سائنس کی زبان عربی ہی تھی ۔اور یہ مسلمانوں کے عروج کازمانہ تھا۔اور جیسے ہی علم وحکمت کی چوکھٹ سے علیحدہ ہوئے غلامی ہمارامقدرٹھہری ۔آج مسلمانوں کی ایک مخصوص تعداد اس مسئلہ کاحل ظالموں کی مصنوعات کے بائیکاٹ میں ڈھونڈتی ہے۔لیکن میں کلی طورپراس سے متفق نہیں کیونکہ جب تک روزمرہ کی اشیاء سے لے کر ٹیکنالوجی کے میدان تک آپ اپنی معیاری پروڈکٹ متعارف نہیں کروائیں گے اس لمحے تک آپ یوٹیوب بند کریں گے تو عوام اسے کسی دوسرے ذریعے سے اوپن کرلے گی۔آپ شیزان کیخلاف ہزاروں پوسٹرچھپوالیں لیکن جب تلک اس کے معیارکی کولڈڈرنک مارکیٹ میں دستیاب نہ ہوگی شیزان ہی چلے گی۔محبت میں درجات ہیں ہرانسان تو اپناہاتھ ضروری اشیاء سے بائیکاٹ کی ایسی صورت میں نہیں روک سکتاجبکہ اسے متبادل بھی میسرنہ ہو۔امت مسلمہ کے امراء اور صاحب ثروت افراد کوچاہیئے کہ اعلی ترین علمی وتحقیقی درسگاہیں قائم کریں۔ہمارے ملک کی حالت یہ ہے کہ دنیا کی دوسو بہترین جامعات میں ہماری صرف دوجامعات شامل ہیں۔پچپن لاکھ بچے اب بھی سکول سے باہرہیں۔لیکن حکمرانوں کی عیاشیاں عروج پر ہیں۔بھلاہومیاں صاحب کا کہ اب سرکاری خرچ پر افطارپارٹیاں بند ہوئی ہیں ۔وگرنہ امراء تو حج بھی عوام کے پیسے سے کرتے ہیں۔

اسرائیل نے تو نازی جرمنوں سے بھی زیادہ درندگی کامظاہرہ کیاہے۔جرمن قتل کرتاتھاتوبرملااعتراف بھی کرتاتھالیکن یہ تو معصوم جسموں کے ٹکڑے کرنے کے باوجود ہٹ دھرمی کا ہولناک مظاہرہ کرتے ہیں اور حماس کے بالمقابل اپنے آپ کو مظلوم گردانتے ہیں۔حماس اتنی طاقتورہے کہ اسے ائیرفورس‘ہیوی اسلحہ ‘جیٹ طیارے ‘ٹینک کی ضرورت بھی نہیں ۔لیکن اس کاساتھ دینے والے بچے آج بھی پتھرسے ٹینک کامقابلہ کرتے ہیں ۔اوراس ضمن میں واقعی اسرائیل مظلوم ہے کہ اس کے پاس ایمان کی ایسی قوت نہیں ہے ‘اسکے پاس ایسے معصوم حملہ آور توکجاایساسپاہی بھی نہیں۔اور اس کابیچارہ فوجی جب تک ٹینک کی نالی پتھرکی راہگزرکی جانب موڑتاہے اسوقت تک حملہ آورغائب ہوتاہے ۔کاش کہ مسلم امہ کے ان بچوں کی روح ہمارے حکمرانوں کے جسموں میں حلول کرجائے اور یہ غیرت ایمانی میں اپنی تمام ترقوت سائنس‘ریسرچ اورلیبارٹریز پر لگاکرانسانیت کے بلاجوازاوربے جرم وخطاء قتل عام پرقدغن لگاسکیں‘چاہے وہ ناجائز قتل مسلمان کاہوعیسائی کا یا یہودی کا۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174254 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.