شھر رمضان ۔عظمت الٰہی کا نشان

تمام مہینے اﷲ ہی نے تخلیق فرمائے۔ انکی تعداد بھی اﷲ نے مقرر فرمائی۔ دن بھی سات بنائے ۔ اس تمام تقویمی تخلیق میں آج تک کوئی انسان ردو بدل نہیں کرسکا ۔ کیلنڈر تو بنائے گئے مگر وہ اسی تخلیقی عمل کے ماتحت ہیں اور پابند ہیں ۔ مہینے چاہے شمسی ہوں یا قمری، ہندی ہوں یا کچھ اور ہوں سبھی اﷲ تعالیٰ کے مقرر کردہ پیمانوں کے اندر ہیں ۔ تجاوز ممکن ہی نہیں۔ کلام الٰہی اسقدر محکم ہے کہ اپنی حاکمیت اور حقانیت سے منکرین کا ناطقہ بند کردیا ہے ۔ اسی رمضان المبارک کو لیجیئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن مجید میں فرماکر اسکی عظمت دوسرے مہینیوں پر واضح فرمادی۔ ھادی اعظم ﷺ نے اس ماہ مبارک کو اپنے اعمال مبارکہ سے مزید جلا بخشی۔ حدیث شریف میں ہے کہ آپ ﷺ اگرچہ سراپا قرآن ہیں مگر کلام الٰہی کی حقیقی لذت سے آپ ﷺ ہی آشنا ہیں ۔ کلام الٰہی لانے والے حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ آپ ﷺ رمضان المبارک میں دو دور فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔ قرآن نے اس ماہ کو عظیم الشان بنایا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کی عظمت ، نعمت، رحمت اور تمام مہتم باالشان امور اسی ماہ مبارک میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نزول یکبارگی ہوا یہی مہینہ اور شب قدر بھی اسی ماہ مبارک میں تھی۔ جس رات کی عبادت ہزار رات سے بھی زیادہ افضل ہے۔ عبادات کا فلسفہ قرب الٰہی کا حصول ہے۔ تقویٰ کے لیئے روزے کی مشقت کو لازمی قرار دیا گیا۔ انسان دو چیزوں کا مرکب ہے ،ایک روح جو اصل انسان ہے اور اعمال کی بجاآوری کے لیئے جسم بطور حسا س آلہ کے ہے۔ کچھ اس طرح کہ دو متضاد المقاصد عناصر کا اجتماع ہے۔ روح کی منزل قرب الٰہی اور عالم بالا ہے ، اسکی خوراک روحانی غذایعنی ذکر الٰہی اور مراقبہ ہے جبکہ جسم کی منزل عیش و عشرت،آرام طلبی اور ارضی خوراک ہے۔ روح کو فنا نہیں جسم کو فناہے۔ جسم کی غلاظتیں اور آلائشیں روح وکو آلودہ کرتی ہیں۔ خواہشات دنیوی اور مادی اشیاء کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ جب یہ آلائشیں غالب آجاتی ہیں تو روح کو بری متاثر کرتی ہیں ۔ نتیجۃروح اپنا مقام کھودیتی ہے۔ روح کو فنا نہیں جسم کو فنا ہے مگر اسکے طفیل انسان نے جو نامہ اعمال تیار کیاوہ اﷲ تعالیٰ کے قرب اور رضا سے دوری کا سبب ہے۔ انسان اس دنیا میں کھانے پینے، مال جمع کرنے اور شہوت کی تکمیل میں سرگرداں ہے۔ اس ماہ مبارک میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ، اور روزے گذشتہ لوگوں پر بھی حصول تقویٰ اور قرب ِ الٰہی کے لیئے فرض کیا گیا تھا۔ آج بھی دنیا کے کئی مذاہب کے لوگ کسی نہ کسی انداز میں نفسانی خواہشات کو مٹانے اور روحانی مدارج حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ایک طرف تو اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم مکمل ضابطہ کائنات کی تنزیل شروع فرمائی تو ساتھ ہی جسمانی تربیت اور احکامات الٰہی پر عمل کرنے اور دل و جان سے انہیں تسلیم کرنے کی صلاحیت و قوت پیدا کرنے کے لیئے روزہ فرض کردیا ہے۔ اسے optional نہیں بنایا ، اسے سنت بھی نہیں بنایا بلکہ فرمایا کہ اہل ایمان پر روزے فرض کردیئے گئے۔ اﷲ تعالیٰ کے فرائض پر شدید مواخذہ ہوگا اور عذاب الٰہی ہوگا۔شرعی معذوری دائمی ہو یا عارضی اسکے لیئے بھی رعائت ہے۔ اس ضمن میں قواعد وضوابط کا نزول ہوا توتشریح اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمادی۔ فلسفہ صوم بھی بیان کردیا۔ وہ ہے تقویٰ جو اﷲ تعالیٰ کے قرب اور اسکی رضا کی کنجی ہے۔ تقویٰ کیا ہے؟ مادی خواہشات ولذات دنیوی کا ترک کرنا اوراﷲ تعالیٰ کے قرب کے لیئے احکامات الٰہی پر عمل پیرا ہونا۔ بحالت روزہ انسان کھانے پینے، شہوت کی تسکین سے دور تو رہتا ہی ہے لیکن اسکے ساتھ ہی صاحب شریعت ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کو تمہارا بھوکاپیاسا رہنا مقصود نہیں ۔ آنکھ کا روزہ کہ غیر محرم کو نہ دیکھے، زبان کا روزہ کہ کسی کی غیبت نہ کرے ، زبان کو گندی باتوں اور اﷲ کی نافرمانی کی گفتگو کے لیئے استعمال نہ کرے۔پاؤں سے گناہ کی طرف نہ چلے، ہاتھوں سے کسی کو ایذا نہ دے ، اسی میں ناجائز منافع خوری ،کم تولنا ناپنا، یعنی رزق حلال حاصل کرے، ایسے ہی روزہ داروں کے لیئے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ میرے لیئے ہے اور اسکا صلہ میں خود ہوں ۔ جب اﷲ ہی کسی کا ہوجائے تو اﷲ کی نعمتیں پھر کس کی ہوں گی۔شفیع المذنبین ﷺ نے فرمایا کہ اس ماہ مبارک کا پہلا حصہ رحمت ، دوسرامغفرت اور تیسرا جہنم کی آگ سے آزادی۔ سو اب تیسرا حصہ شروع ہے۔ رحمت الٰہی کا بحر بے کراں موجزن ہے اس میں غوطہ زن ہوں۔ یہی دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے قطعی غلبہ کا دن یوم الفرقان یعنی یوم بدر بھی اسی ماہ مبارک میں رکھا جب مکہ معظمہ سے بڑے بڑے خناسوں کو حرمت والے شہر سے نکال بدرکے مقام پر پہنچاکر اپنے عذاب سے دوچار کیا۔ کسی نبی یا رسول کی نصرت کے لیئے ملائکہ کو آج تک اﷲ تعالیٰ نہیں بھیجا۔ مگر یوم الفرقان کو اپنے بہت لاڈلے محبوب ﷺ کی شان کا اظہار کرتے ہوئے رئیس الملائکہ حضرت جبریل علیہ السلام کو ایک ہزار فرشتوں کی فوج دے کر بھیجا۔ ملائکہ قواعد قتال سے واقف نہ تھے۔ التجا کی کہ اے رب العزت ہم کیا کریں؟ تو حکم ہوا کرو کیا بس میرے محبوب ﷺ کو ستانے والوں اور ان کا انکار کرنے والوں کی گردنیں اڑاؤ، انکا پور پور کاٹ ڈالو تاکہ دوسروں کو پتہ چل جائے کہ ہم اپنے محبوب ﷺ کو غالب کریں گے انکا دین غالب کریں گے۔ اﷲ کی عظمت اور جلال پادشاہی کا ظہور ہوا۔ یہ وہ واحد غزوہ تھا کہ جس میں سرور کون و مکاں نے کفار کی قتل گاہوں کی نشاندہی بھی فرمائی۔ یہ سبھی کچھ اسی قرآن کے مہینہ میں ہوا۔ مکہ معظمہ میں پرچم اسلام بھی اس ماہ مبارک میں لہرادیا گیا۔ اور فرمایا مخبر صادق ﷺنے کہ آج کے بعد مکہ معظمہ کے لیئے جنگ نہیں ہوگی یعنی مکہ پر کفار کی حکومت نہیں ہوگی کہ اہل ایمان کو اس کے لیئے قتال کرنا پڑے۔ یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اﷲ تعالیٰ قادر مطلق ہے۔ اس نے قرآن اتارا ۔ محبوب پاک ﷺ کو حجۃ بالغہ عطافرمائی۔ انسان کو اپنا مستقبل سنوارنے کے لیئے یہ مبارک ماہ عطا فرمایا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار لوگ اپنے مسلمانوں بھائیوں کی غمگساری میں مصروف ہیں، کہیں افطار و سحر کے دستر خواں لگے ہیں تو کہیں مستحق افراد میں کھانے پینے کی اشیاء اور کپڑے تقسیم کیئے جارہے ہیں ، کوئی رب کی رضا کے لیئے کوئی ریاکاری کے لیئے کررہاہے ۔ اﷲ بہتر جانتا ہے۔ رنگ تعلیم ِرسول تو نظر آرہا۔ بہت حد تک حصول تقویٰ کے رنگ نظر آرہے ہیں۔ لیکن جو بلا عذر روزے نہیں رکھتے ، جو ذخیرہ اندوزی کرکے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیئے مصنوعی قلتِ اشیاء پیدا کرکے ناجائز منافع خوری کررہے ہیں، جو عوام کے خزانے پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، اس مبارک ماہ میں عوام کو کوئی سہولت پہنچانے کی بجائے افطارو سحر میں بجلی بند کرکے رسول پاک ﷺ کے امتیوں کی بد دعائیں لے رہے ہیں، صبح و مسا جھوٹ بول رہے ہیں، عوام کو سستے بازاروں کے جھوٹے وعدے کرکے قومی دولت اپنے بنکوں میں جمع کررہے ہیں اور وہ جو اس مواخات و مواسات کے مبارک مہینہ میں مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور مظلوم مقتولوں کے ورثاء کو انصاف نہیں دیتے ،اس مبارک ماہ میں ناانصافیوں کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہوگا۔ کیا انہیں موت یاد نہیں؟ مصر میں فرعون کے محلات، عراق میں بابل کے کھنڈرات سے یہ لوگ کوئی سبق نہیں سیکھ سکتے۔ رسول کریم ﷺ کی شفاعت ان لوگوں کو ملے گی جو آپ ﷺ کی امت پر شفقت کرتے ہیں اور انکے لیئے آسانیا ں پیدا کرتے ہیں۔ رمضان المبارک ابھی باقی ہے ۔بنالو اپنا مقدر گربنانا چاہتے ہو۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 127808 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More