’’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘‘ اور اویس قرنی:ایک مطالعہ

’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘ نوجوان محقق اویس قرنی کا ایم فل کا مقالہ ہے جسے انھوں نے کمال محنت سے کتابی شکل میں ہمارے سامنے پیش کردیا ہے۔اویس اردو ادب کے استاد ہیں ، شاعر ہیں اور سٹیج کے بادشاہ ہیں ۔کتاب ۴۶۵ صفحات پر مشتمل ہے اور اسے پڑھنا ’صبر‘ اور’ شکر‘ کا تقاضا کرتا ہے۔اویس سے میری ملاقات ہزارہ یونی ورسٹی کی تین روزہ قومی اردو کانفرنس (اپریل ۲۰۱۴ء ) کے موقع پر ہوئی۔ان کے ہاتھ میں یہ کتاب دیکھ کر اور ان کا یہ دعویٰ سن کر کہ کرشن چندر نے اسلام قبول کر لیا تھا ، مجھے بھی اشتیاق ہوا کہ اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔ہماری درخواست پر اویس نے کمال محبت سے کتاب ارسال کی اور دو ماہ اسے پڑھنے، اس پر تبصرہ لکھنے اور تبصرے کو کمپوز کرنے میں گزرگئے ۔ مظفرآباد میں بدترین لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے کمپیوٹر پر کام ممکن ہی نہیں رہا۔کتاب کو آھنگ ادب پشاور نے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔کتاب کا سرورق اس سوچ کو سامنے لاتا ہے جو کرشن چندر کی تھی یعنی ہندومسلم ایکتا۔ کتاب کے فلیپ پر کرشن چندر اور اس کے فن پر اردو کے ممتاز نقادوں کے تبصرے درج کیے گئے ہیں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ کتاب کے فلیپ پر مصنف کے فن پر تبصرے ہونے چاہیے تھے۔

کتاب کے شروع میں ایک چیزجو آپ کو کتاب پڑھنے پر اکساتی ہے وہ وقار الملک المعروف بہ کرشن چندر ہے۔اویس نے کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے جس میں پانچویں باب کی اس لیے ضرورت نہیں کہ یہ مقالے کے حصے کے طور پر ہی اچھا لگتا ہے۔باقی کے چار ابواب میں ’کرشن چندر کی فکری جہتیں ، کرشن چندر کے سیاسی رجحانات، کرشن چندر کا ذہنی میلان اور کرشن چندر اورتقسیم چند‘ شامل ہیں۔حرف اول میں اویس نے تمام تذکرے کیے ہیں لیکن یہ نہیں لکھا کہ یہ مقالہ ایم فل کا ہے اور اس پر انھیں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی نے ایم فل کی ڈگری عطا کی ہے۔ جون ایلیا کب سے دانشور اور حضرت ہوگئے۔ہم تو مرحوم کو ایک غیرمتوازن روح ہی سمجھتے ہیں۔ویسے ان کی شخصیت اور شاعری کا درست تجزیہ ڈاکٹر صابر بدر جعفری کے مضمون مشمولہ ’نگارشات‘میں ملتا ہے۔تاہم ’یعنی‘ کا شاعر ایک لایعنی اور ’شاید‘ کا جان بوجھ کر مشکل پسند لگا۔تاہم پسند اپنی اپنی۔

پہلا باب ’کرشن چندر کی فکری جہتیں‘ ۷۸ صفحات پر محیط ہے جس میں دوتہائی حوالہ جات ہیں جن کو کم کیا جا سکتا تھا یا مارجن کم کرکے مزید صفحات میں کمی لائی جا سکتی تھی۔اس سے کتاب کا پیٹ کم ہوجاتا اور یہ سمارٹ اور مزید خوب صورت لگتی۔حوالہ جات مقالے کا انداز ہے عام کتاب کا نہیں۔یہ انفرادیت بھی ہے اور کمی بھی۔حوالہ جات باب کے آخر میں مقالے کے لحاظ سے تو درست ہوسکتے ہیں لیکن قاری کے لیے حوالہ جات و حواشی اگر ہوں بھی تو اسی صفحے پر زیادہ موثر ہوتے ہیں کیونکہ قاری کو بار بار سو دو سو صفحات نہیں پلٹنے پڑتے کہ ایک ایک حوالے کے لیے ورق گردانی کرے۔ اس باب میں بعض طویل جملوں اور رموز و اوقاف کے کم استعمال نے پریشان ضرور کیا۔پٹھانی اردو کا خوب استعمال ہے اور اس میں اویس بے بس بھی ہیں جیسے صفحہ ۵۲ پر’کیا ایک زندہ جسم خود نشوونما پاتی ہے‘۔ تکوین حیات میں ساحر کے اس شعر کا کیا کام کہ ’عورت نے مرد کو جنم دیا‘(ویسے عورت کو مرد نے جنم دیا ہے)۔کرشن چندر کے تصور انسان کو بیان کرتے کرتے آپ خود کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے جیسے صفحہ ۷۱ تا ۷۲۔تاہم اویس نے لفاظی میں سب مذاہب اور مشرق و مغرب کے فلاسفروں کے ساتھ ناول نگاروں کو بھی شامل کر لیا جو درست نہیں۔ اویس اس باب میں جو بات ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ’کرشن چندر کے اندر ایک اچھی روح موجود تھی‘،تو وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔

دوسرا باب ’کرشن چندر کے سیاسی رجحانات‘ زیادہ موثر ہے ،اگرچہ مختصر ہے لیکن اسے بھی مزید مختصر کیا جا سکتا تھا۔اس باب میں بھی حوالہ جات زیادہ ہیں اور قاری پر گراں گزرتے ہیں۔ایک بڑا مسئلہ ہندی کا استعمال ہے کیونکہ اکثر جگہوں پر اس کی ضرورت ہی نہیں۔اویس کا یہ تجزیہ درست ہے کہ ’تشخص کو تسلیم کیا جانا چاہیے بھلے اس قوم کے معتقدات کیسے ہی کیوں نہ ہوں‘ ۔لیکن ایک ایسے سماج میں جہاں عدم برداشت ہو ایسا ہونا مشکل ہوتا ہے۔اویس کا کمیونزم کے بارے میں یہ تحریر کرنا کہ ’اس کے بارے میں پروپیگنڈا زیادہ ہوا‘ سے میں اتفاق نہیں کرتا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کمیونزم ایک مذہب بیزار تحریک تھی اور اس کے مخصوص سیاسی مقاصد تھے۔روس کی ریاست کو اس نے انہی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ہمارے سماج میں اس کو پنپنے کا موقع اس لیے کم ملا کہ لوگ دیندار اور روایات پرست تھے۔’دو یا تین فی صد دہریے‘ والی بات البتہ درست لگتی ہے۔لیکن دوسری طرف یہ ایک فکر کا نام بھی تھا کہ مذہب آپ کا ذاتی مسئلہ ہے اور اسی کو کرشن چندر بھی بنیاد بناتا ہے۔ویسے کمیونسٹ روس اور اس سے پہلے کے روس کے تخلیق کاروں کی ایک فہرست بنا لیں تو دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سوویت یونین نے نعرے زیادہ اور تخلیق کار اور وہ بھی ٹالسٹائی کے معیار کا ،ایک بھی نہیں دیا۔

اویس کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ’جینیوئن ادیبوں نے ہندوستان کی تقسیم کی بات نہیں کی‘۔آزادی کی بات توکی تھی اور اس اصطلاح سے آپ کی کیا مراد ہے ’جینیوئن‘اور اس میں کون کون شامل ہیں۔ان ادیبوں کی اکثریت سیکولر تھی اور ان کو ہندوستان ہی اچھالگتا تھا نہ کہ اس کی تقسیم۔پریم چند نے افسانے ’عیدگاہ‘ کے آخر میں پھر طنز ہی کیا ہے کہ مسلمانوں کی مساوات مسجد تک ہی ہوتی ہے اس کے باہر نہیں۔سلیم راز کے عمرے کے بارے میں جن لوگوں نے پیغامات چلائے ان کے نام لکھ دینے چاہیے تھے آپ کو۔اجمل خٹک کے بارے میں امجد اسلام امجد نے جو کہا وہی تو ایک سیکولر رویہ ہے۔یہ رویے ہم یہاں بھی دیکھتے ہیں اور یہ سیکولر اور کمیونسٹ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ اسلام کو بھی ایک مذہب ہی سمجھتے ہیں کہ اس کی رسومات و روایات آپ کی ذات تک محدود رہنی چاہیے۔اور ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ویسے اجمل خٹک مرحوم سے میں بھی ایک سے زیادہ بار مل چکا ہوں اور ان کے ایک قریبی دوست نواز حسرت خٹک اب تو مظفرآبادی ہی ہوچکے۔ان سے بھی خٹک مرحوم کی شخصیت ،قوم پرستی اور شاعری کے تذکرے ہوتے رہتے ہیں۔حسرت موہانی تو پکے کمیونسٹ تھے اور روسی سرخ سویرے کی بات ببانگ دہل کرتے تھے ،آپ نے ان کو کیسے کمیونسٹوں کی فہرست سے نکال دیا۔

تاہم کرشن چندر کی اس بات سے سب کو اتفاق ہے کہ دنیا کے تمام فلسفے انسانوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے تخلیق کیے جاتے ہیں۔یہ فلسفے بوسیدہ اور پرانے ہو جاتے ہیں۔انسان ان کا گودا کھا لیتا ہے۔اور واقعی مارکسزم کے ساتھ یہ ہوچکا ہے۔لیکن یاد رکھیں کہ اسلام فلسفہ نہیں۔کرشن چندر اشتراکیت کا اندھا مقلد نہ تھا اور یہ اس کی عظمت ہے۔ اس کا کمیونزم کے بارے میں یہ کہنا درست تھا کہ ’اس میں روشنیاں ہیں تو سائے بھی ہیں‘۔اس کا یہ تحریر کرنا بھی بجا ہے کہ ادیب کو آزاد ہونا چاہیے۔کرشن چندر نے تمام نظاموں کاعطر لیا ہے اور ہر بڑا فنکار یہی کرتا ہے۔وہ انسانیت کا قائل تھا اور کسی مذہب کو تسلیم نہیں کرتا تھا البتہ اسلام کے قریب تھا۔

اس کتاب کا تیسرا باب ’کرشن چندر کا ذہنی میلان‘ ۱۷۱ صفحات پر مشتمل ایک طویل باب ہے۔تاہم اویس نے اس باب میں بعض مباحث کو خوبصورتی سے یکجا کیا ہے اور نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔اس باب کے مباحث دل چسپ بھی ہیں لیکن طویل حوالے اور اقتباسات قاری کویہاں بھی اکتاہٹ کا شکار کر دیتے ہیں۔ کرشن چندر کے مسلمان اور ہندو کردار اویس نے کمال خوبی سے زیر بحث لائے ہیں۔اس باب میں بھی انھوں نے ہندی کا خوب استعمال کیا ہے۔’کرشن چندر اور مذہب‘ میں حوالوں کے ساتھ اویس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کرشن چندر نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ان کا اسلامی نام وقار الملک تھا۔اویس کی یہ بات درست نہیں کہ پونچھ کے پہلے مسلمان گریجویٹ بہادر علی خان تھے۔خان صاحب گریجویٹ تھے ہی نہیں۔کرشن چندر کے مسلمان کردا رمضبوط اور ہندو کردار اخلاق سے گرے ہوئے ہیں اور یہ بات ان کو پریم چند سے جدا کرتی ہے۔ویسے پریم چند کے مسلمان کرداروں اور کرشن چندر کے مسلمان کرداروں کا تقابلی مطالعہ بھی سوچ کے نئے در وا کرسکتا ہے۔

کرشن چندر کی اسلام سے قربت کے اویس نے خوبصورت حوالے رقم کیے ہیں جیسے ’غلام محمد کا غلام کٹ گیا محمدؐ رہ گیا‘۔منٹو کا یہ کہنا درست نہیں کہ ’کشمیر کشمیریوں کا ہے ‘۔اس سوچ کو پاکستانی سول و عسکری بیوروکریسی پروان چڑھاتی رہی ہے اور اب بھی چڑھا رہی ہے۔۱۹۴۷ء میں کشمیر میں قبائلی نہ آتے تو کشمیر کا یہ آزاد حصہ بھی بھارت کا اٹوٹ انگ بن چکا ہوتا۔ان کی قربانیوں کو ہم تو نہیں بھولے ۔اس میں شک نہیں کہ یہاں راجاؤں کا دور ختم ہوگیا لیکن آج کے سیاسی ادوار کو دیکھ کر لوگ ان راجاؤں کے ادوار کو غنیمت سمجھنے لگے ہیں۔اس باب کا سب سے اہم عنوان ’کرشن چندر جیون کے نئے سفر پر‘ہے۔کرشن چندر نے ۱۹۶۱ء میں دوسری شادی ایک مسلمان خاتون سلمیٰ صدیقی سے کی جو ممتاز محقق پروفیسر رشید احمد صدیقی کی بیٹی تھی۔اس وقت کرشن چندر کی عمر ۴۸ سال تھی۔ان کی بیوہ کا یہ کہنا کہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا،مشہور نہیں ہوسکا۔اسلام اور شادی دو ایسے افعال ہیں جن کا اعلان کیا جاتا ہے اور اسلام کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے۔اسلام چھپانے والی چیز تو ہے نہیں اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے تو یہ فر ق ہے سیکولر اور اسلامی سوچ کا۔

آپ نے جو حوالے دیے ہیں ان کی زنجیر بنتی نظر نہیں آتی۔محمدہاشم کون تھا۔مسجد کے مولانا کون تھے۔ان کا نام۔رام پورہ کے گواہ دو دوست۔مہارانی جہانگیر آباداور کرشن چندر کے اعتماد کے آدمی۔محمد کاظمی نے یہ تذکرے بعد میں کیوں نہیں کیے کہ وہ نکاح کے گواہ تھے اور کرشن چندر کے مسلمان ہونے کے بھی۔۱۹۶۱ء اتنے دور کی بات تو نہیں۔یہ ساری باتیں کیسے چھپی رہیں۔سلمیٰ صدیقی کا یہ کہنا کہ نکاح نامے کی ایک کاپی میرے اور دوسری والدہ کے پاس ہے:تو ان کو سامنے نہ لانے کی کیا وجوہات ہیں۔شادی اس وقت ذاتی معاملہ نہیں رہتا جب ایک فرد مسلمان اور دوسرا ہندو ہو۔سردار جعفری کی یہ بات بھی اپنے اندر وزن نہیں رکھتی کہ ’مرنے سے قبل بیوی کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ جیسے چاہیں کرشن چندر کی آخری رسومات انجام دیں‘۔کیا یہ اسلام کے ساتھ مذاق نہیں کہ اسے بیوی کے سپرد کردیا جائے۔ویسے سردار جعفری جیسے کمیونسٹ سے یہی توقع تھی۔اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کرشن چندر کو مذہب سے دلچسپی تھی ہی نہیں۔سلمیٰ نے کرشن چندر کے سورگ باشی ہونے کے بعد اس بات کا واشگاف الفاظ میں اعلان نہ کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک ہندو کی بیوی تھی ۔کرشن چندر نے اپنے آپ کو اس حد تک پراسرار رکھا کہ اس کے سورگ باش ہونے کے بعد دونوں (ہندو اور مسلمان) خوش ہوگئے کہ وہ ہمارا تھا۔پریم چند نے یہ رویہ اردو کے بارے میں اپنایا تھا۔اب ہندو مسلم دونوں اس کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔تاہم یہ اس کتاب کا سب سے اہم باب ہے۔

کتاب کا چوتھا باب ’کرشن چندر اور تقسیم ہند‘ ۱۰۹ صفحات پر مشتمل ایک اور طویل باب ہے جس کی طوالت کو کم کیا جا سکتا تھا لیکن اویس جانے کیوں کتاب کی ضخامت بڑھاتے رہے۔’مشترکہ تہذیبی سنگم‘ میں اویس کے افکار عجیب سے ہیں جیسے ’پشتونوں کے ہاں بہت ساری اصطلاحات ،بہت سارے لوگوں کے نام ، شہروں کی پہچان، ضرب الامثال ، یہاں تک کہ مہینوں کے مزاج بھی اسی مشترک کلچر کی غمازی کرتے ہیں‘۔’آؤ ہم اس کے بھی ٹکڑے کر لیں۔۔۔ڈھاکہ ،راولپنڈی اور دلی کا چاند‘۔تو اس طرح کی بیشمار چیزیں تو دنیا کے اور خطوں میں بھی مشترک ہیں۔مشترک اقدار نظریے کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔’اردو مشترکہ تہذیبی قدروں کی امین‘ میں اویس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو مشترکہ تہذیبی قدروں کی امین ہے جو جزوی درست ہے کیونکہ اب اردو ملی قدروں کی امین ہے اور ہندوستان میں اس کو بولی بنا دیا گیا ہے۔اردو کے پرانے مراکز میں اردو اور اردو رسم الخط کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ بہت جلد اردو کو ہندی میں ضم کر دے گا(رسم الخط کے معاملے میں)۔

’کیسے مان لوں کہ نام اور مذہب سے قوم اور کلچر بدل جاتے ہیں‘ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کرشن چندر کو ہندوستانی کلچر پیارا تھا نہ کہ مذہب۔ ہمارے کلچر کی بنیاد مذہب ہے قومیت نہیں۔۱۹۴۰ء میں قرارداد پاکستان منظور ہوچکی تھی۔ذرا اس کے تناظر میں ’شکست‘ کا مطالعہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ ناول پاکستان کی مخالفت پر مبنی ہے۔کرشن چندر کی اقتصادی مساوات کا یوٹوپیا کبھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔’انگریز نے جاتے جاتے اسے ہندو مسلم فساد میں اس طرح بدلا کہ انگریز بیچ میں سے بڑی چالاکی کے ساتھ نکل گیااور تہذیب کے متوالوں اور مذہب کے نام لیواؤں کو دیر وحرم کے جھگڑوں کے حوالے کردیا‘۔ہم جانے کیوں ہر فساد کے پیچھے گوروں کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں۔شیعہ سنی فسادات ہوں یا علاقائی جھگڑے ہر جگہ گوری چمڑی ہی ہمیں نظر آتی ہے۔ہم کیوں یہ تسلیم نہیں کرلیتے کہ اختلافات اور فساد کی جڑ اس مٹی میں موجو دتھی اورہے۔’جو نہ ہندو تھا نہ مسلمان‘ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے آپ خود سمجھدار ہیں۔

اویس کے نزدیک برصغیر کے دو مہا لیکھک منٹو اور کرشن چندر معتوب رہے۔منٹو سے جانے کیوں جنس نگاری ہی اخذ کی جاتی ہے۔کیا عورت کی گولائیوں اور گھاٹیوں کے علاوہ موضوعات ختم ہوچکے ہیں۔حسن عسکری اور ممتاز شیریں پختہ کار نقاد ہیں اور ان کے بیانات بچکانہ نہیں۔منٹو نے ویسے طوائف کو بیان کرتے ہوئے کس کی حمایت کی ہے اور کس کی مخالفت کی ہے۔’خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پر‘ صرف وہی نہیں گزری جو شہاب نے ’یا خدا‘ میں تحریر کی ہے۔ عصمت چغتائی کا یہ کہنا درست لگتا ہے کہ’ کرشن چندر نے جو ادب تخلیق کیا وہ مصنوعی ہے۔کرشن چندر مصلح بھی نہیں بن سکا‘۔عصمت چغتائی کو حسن عسکری اور ہم کو عصمت کی چھوڑی قدروں سے کوئی دلچسپی نہیں۔جانے وہ کون سی انمٹ قدریں ہیں جن پر عصمت کی نظر تھی۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ اردو کے قدیم مراکز سے کرشن چندر کو بیر کیوں ہے؟فیض کی یہ بات ذو معنی ہے کہ ’یہ جدائی عارضی ہے ، دوست ہم پھر ملیں گے‘۔ذرا ’داغ داغ اجالا‘ اور ’شب گزیدہ سحر‘ کے ساتھ ملا کر اسے دیکھیں۔حوالے اور اقتباسات یہاں بھی اکتا دینے والے ہیں۔

اویس نے ’حرف آخر‘ میں کرشن چندر کے افسانے ’دسواں پل‘ سے حوالہ دیا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ دریائے جہلم اور کرشن چندر میں کوئی قدر مشترک نہیں۔جہلم پاکستان کو سیراب کرتا ہے اور کرتا رہے گا لیکن کرشن چندر پاکستان کو چھوڑ گیا۔کیا پاکستان کو اس کی ضرورت نہ تھی اور کیا اسے یہاں نہیں رہنا چاہیے تھا۔وہ پاکستان میں رہتا تو اسے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے میں اتنی ہچکچاہٹ بھی نہ ہوتی(اگر وہ مسلمان ہونا چاہتا)۔اور ملک وقار واقعی ہمارے ملک کا وقار ہوتا۔کتاب میں املا کے مسائل موجود ہیں اور تلفظ کے بھی۔تحقیقی انداز سے کتابیات بھی دی گئی ہے اور حوالہ جات بھی جو منفرد انداز ہے۔حروف کے درمیان وقفوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔یہ منفردانداز سے لکھی گئی کتاب ہے اور اس کا مطالعہ سکالرز کی سوچوں کے درواکرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51336 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More