ن لیگ کو اپنا دورانیہ مکمل کرناہے تو مشرف کو چھوڑنا ہوگا

پیپلز پارٹی کے شریک چیئر میں اور سابق صدر آصف زرداری اور ان کے سابق وزیر اعظم یوصف رضا گیلانی بھی ایسا لگتا ہے ان ہی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جو اس ملک میں ڈنڈے کے نظام کو لانے کی جدوجہد میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوے ہیں۔زرداری کا یہ حیران کن بیان سن کر ہر جمہوریت پسند کو حیرت تو ضرور ہوئی ہوگی۔کہ ’’عوام نے نواز شریف کو وزیر اعظم منتخب کیا ہے وہ شہنشاہ نہ بنیں ۔نواز شریف چار حلقوں میں دوبارہ گنتی سے خوفذدہ کیوں ہیں؟ہم نے صرف جمہوریت کی بقا کے لئے انتخابی نتائج کو تسلیم کیا تھا‘‘ زداری کے اس بیان سے عمران خان تو پھولے نہیں سما رہے ہیں۔جس کی وجہ سے عمران خان مزید پھیل رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چار حلقوں کا کھیل ختم اب پورے الیکشن کا آڈٹ کرایا جائے گا؟؟؟ گویا حکومت جائے اور ان کے اور ان کے حمائتیوں کے لئے راستے چھوڑے دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم یوصف رضا گیلانی کہتے ہیں پرویز مشرف کوایک معاہدے کے تحت اقتدار سے ہٹایا گیا تھاہمارا پرویز مشرف سے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اگر انہیں سیف پیسج دیدیا گیا تو وہ اقتدار سے اسعتفےٰ دیدیں گے اور یہ سب کچھ اسٹابلشمنٹ کی مرضی اور مشورے سے ہوا ۔جس میں ن لیگ کی آشیر واد بھی انہیں حاصل تھی؟؟؟جس کی وجہ سے مشرف کو باہر جانے دیا گیا تھا۔مزید خبر یہ ہے کہ پرویز مشرف کو 2008میں معافی اور محفوظ راستہ دینے کے معاہدے میں امریکہ اورجنرل پرویز کیانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جس کے مطابق صدر آصف علی زردادری نے پرویز مشرف کو معافی دینے کا ٹھوس وعدہ کیا تھا جس کا انکشاف امریکہ کو بھیجے گئے دو مراسلوں کے7دسمبر 2010 کو افشا ہونے سے ہوا تھا ۔
یہ مشرف کے حامی جنرلوں کا خوف نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ وفاقی وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق نے عندیہ دیا ہے کہ وہ آرٹیکل 6 کے تحت مشرف کو لمبی سزا دلوانے کے حق میں نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مشرف پر اگر آرٹیکل چھ کا اطلاق ہو بھی گیا تو فیصلہ پھر پارلیمنٹ میں جائے گا ۔ہم پرویز مشرف کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ہم نہیں چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف پاکستان میں لمبی قیدکاٹیں!!!انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پرویز مشرف سے انتقام لینا ہوتا تو 12 اکتوبر999 1اور کارگل کے مقدمے بناتے اور اپنا انتقام لے لیتے۔دوسری جانب وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ محفوظ راستہ دینے کیلئے ہونے والی ڈیل سے ن لیگ کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اُس وقت تک دھرنوں جلسوں جلوسوں سے نہیں جاتی ہے جبتک کہ ان کے پیچھے کوئی بہت بڑی سازش نہ ہو۔سعد رفیق کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان کی یہ عادت ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے موقف اور اہداف بھی بدلتے رہتے ہیں کبھی ان کا حدف الطاف حسین تھے پھر چوہدری بردران اور اس کے بعد ان کے آج کے بغل بچہ شیخ رشید ہوا کرتے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد سابق چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن ان کے فائر کی رینج میں آگئے اور اب ن لیگ کی حکومت پر ان کی توپوں کا رخ کئی ماہ سے ہے۔عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے علاوہ باقی لوگ آج ان کے سب سے بڑے حمائتی ہیں۔

عمران خان کے بارے میں جمعت علماءِ اسلام کے کے سربراہ اور حکومتی حلیف مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ عمران خان یہودیوں کے ایجنٹ ہیں اور میں مسلمانوں کا نمائندہ ہوں۔انقلاب اور تبدیلی لانے والوں کی سیاست مسخرہ پن ہے۔انہوں نے حکومت کو حوصلہ دلاتے ہوے کہا کہ حکومت لانگ ماچ سے کیوں گھبرا رہی ہے۔کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا ۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت چاہتی ہے کہ عمران خان لانگ مارچ 14 ۔اگست کو نہ کریں۔کسی اور تاریخ کو کرلیں کیونکہ 14 ،اگست قومی یکجہتی کا دن ہے اور اسے کسی ہنگامے کی نظر نہ کیا جائے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت حکومت عمران خان سے خائف تو نہیں ہے مگر ان کو جھوٹی شہرت حاصل کرنے میں بھی تو انہیں خجالت اٹھونے کی خواہش مند تو ضروری ہے۔حکومت کا یہ بھی عزم ہے کہ اس احتجاج کے دوران کسی قسم کا خون خرابہ نہیں ہونا چاہئے ہے ورنہ عمران خان مظلومیت کا ڈھنڈھورا پیٹتے رہیں گے اور حکومت مسائل در مسائل کا شکار ہوتی چلی جائے گی اور پھر بھاری بوٹوں کو دھمکنے کا موقعہ آسانی سے ہاتھ آجائے گا۔شائدلانگ مارچ سے پہلے حکومت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش تو ضرور کرے گی مگر خان کا دماغ ہے مانامانا نہ مانا!!!۔

اس گمبھیر صورتِ حال میں سابق صدرآصف زرداری کی دھمکی نواز حکومت کو یہ پیغام تو ضرور دے رہی ہے کہ ہم ہر موقعے پر حکومت کا ساتھ نہیں دے سکتے ہیں۔ حکومت اپنی کار کردگی سے بھاری بوٹوں کے راستے پرخود بند باندھے ۔ورنہ ہم بھی دوسری صف کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔شائد پیپلز پارٹی بھی یہ تو نہیں چاہتی ہے کہ ان دھرنوں اورتشدد کے ذریعے ملک میں ملٹری راج قائم ہو۔کیونکہ ملک اس وقت معاشی طور پر کسی بھی تبدیلی کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔

آج حکومتی وزراء کے بیانات یہ بات واضح کر رہے ہیں کہ اگر نواز شریف اپنی حکومت کی خیریت چاہتے ہیں اور اپنے پانچ سال مکمل کرنے کے خواہشمند ہیں تو انہیں مشرف کو سیف پیسج دینا ہوگا!ورنہ ان کے خلاف گیم کا آغاز کرنے میں مشرف کے حواریوں کو کوئی دیر نہیں لگے گی ۔جس کے لئے چار کا ٹولہ کافی عرصہ سے بے چین بھی دکھائی دے رہا ہے۔ق لیگ، عمران خان، کینیڈا کے شیخ اور پنڈی کا شیخ رشید اپنی ٹانگہ پارٹی کے ساتھ بالکل تیار کھڑے ہیں۔اگر ان کی اگست میں تحریک شروع کرا دی گئی تو موجودہ جمہور ی حکومت اور جمہوریت کے لئے خطرے کے الارم تو بجنا شروع ہو جائیں گے اور پھر ملک کی کشتی ان کے اشاروں پر شائدڈولنے بھی لگے گی ۔جس کا بہانہ ٹرپل اے بریگیڈ کو بہر حال چاہئے ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ درج بالا تمام لوگ تبدیلی کی تو بات کر رہے ہیں مگر تبدیل لانے کا کوئی فارمولہ ان لوگوں کے ذہنوں میں ہے اور نہ انہوں نے ابتک پیش کیا ہے۔وہ صرف یہ بتا دیں کہ روز گار کی دگر گوں حالت کو کس طرح تبدیل کریں گے؟مہنگائی کس طرح ختم کریں گے؟ معیشت کو کس طرح بحال کریں گے؟ فوری طور پر عوام کو بجلی کونسے راستوں سے فراہم کریں گے وغیرہ وغیرہ؟اگر جعلی انقلاب لانے کی کوشش کی گئی توایسی صورتِ حال میں نا صرف ڈالر کی قیمت بڑھے گی بلکہ اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگیں گی۔ کہ یہ عالم آج بھی موجود ہے مگر ان کی غیر قانونی تبدیلی سے کیا ہم مزید غیر مستحکم نہ ہوں گے ؟ غیر آئینی تبدیلی ہمیشہ ملک کی معیشت کے لئے نقصانات کا باعث بنتی ہے۔

دوسری جانب احسن اقبال ن لیگ کے رہنما یہ بات کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت مسائل کا شکار پرویز مشرف کے مسئلے کی وجہ سے ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ یوصف رضا گیلانی کا موقف بھی فوجی قیادے کے اشاروں پر ہی سامنے آیا ہے کیونکہ وہ اس وقت خاصی مشکلات کا شکار ہیں۔ موجودہ حکومتی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ طاقت کے سر چشمے آج بھی اقتدار کو گھور رہے ہیں۔ذراسی غلطی مسلم لیگ ن کے گلے کا پھندا بن سکتی ہے ۔ماضی میں تو ان کے بچ نکلنے کے امکانات قدرت نے پیدا کر دیئے تھے مگر اب یہ عمل ان کے لئے پیچیدہ رہے گا۔کیونکہ انہوں نے ڈنڈا برداروں کے سردار سے ٹکر لی ہوئی ہے۔لہٰذااب بچ نکلنے کے چانسسز بہت معدوم ہیں۔نواز حکومت کو اس وقت بہت سنبھل سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے۔اس وقت لیڈو کی بساط پر سانپ کا منہ ان کے بالکل قریب دکھائی دے رہا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اپنی چال چھوڑو یا پھر سانپ کے ذریعے ڈسے جاؤ․․․․
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 188924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.