دانشوروں کی سرزمین

سیاست کرنا کوئی آسان کام نہیں یہاں پر کسی کو سیاست کرنا آتی ہی نہیں،طاہر القادری خود باہر رہتا ہے اور سیاست کرنے پاکستان آجاتا ہے اسے کیا پتہ کہ ملک کیسے چلائے جاتے ہیں،وہ تو اپنی شہرت حاصل کرنے کے لئے آتا ہے ،اگر وہ وفادار ہے تو اپنی شہریت کیوں ختم نہیں کروا لیتا،لاکھوں لوگوں کو جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں،یہ تو لوگ بے وقوف ہیں جو ان کے کہنے پر باہر آجاتے ہیں۔ہاں یار، عمران خان کو دیکھوکہ آئے روز اس نے کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کیا ہوتا ہے،اسے چاہیے کہ وہ میاں برادران کے پانچ سال پورے ہونے دے اس کے بعد جب اس کی باری آئے گی وہ بھی کھا لے،عمران خان کو کون سی سیاست کرنی آتی ہے اسے تو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین ہونا چاہیے تھا پتہ نہیں کیوں سیاست میں آگیا،ایسے اپنا وقت اور دوسروں کا وقت ضائع کررہا ہے،عمران خان سے تو زرداری اچھا تھا جس نے عوام کے ساتھ ساتھ قوم و ملک کا بھی ستیاناس کر دیا،اپنا کمیشن لینے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا لیکن وہ پانچ سال تو پورے کر گیا،الطاف حسین نے تو حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے ،سیاست دان ہو تو اس جیسا ہو،خود ہی اپنے منہ پر تھپڑ مار کر پھر خود ہی شور مچا کر دوسرے کو پھنسا دے گا،اصل میں ہمارے ملک میں کوئی بھی کسی کام کا نہیں،آزاد کشمیر کی حکومت جس کی دوڑ مری تک ہے،ہمارے سیاست دان بھی پاکستان کے چپڑاسی کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔آزاد کشمیر کی حکومت اس وقت تک بن ہی نہیں سکتی جب تک اسے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی اشیرباد حاصل نہ ہو،ایک آواز اور آئی کہ ہمارے بیرسٹر صاحب بہت پائے کہ سیاست دان ہیں ان جیساوژن کسی کے پاس نہیں بس وہ غلط لوگوں کے ہاتھ لگ گئے،سردار عتیق ،راجہ فاروق حیدر یہ سب بہت بہادر ہیں مگر ان کو بندے اچھے نہیں ملے اس لئے یہ ناکام ہو گئے،قمر صاحب تو باغ کے ہیرو تھے انہوں نے پی پی پی میں جا کر آپنا آپ ہلکا کر دیا،قمر صاحب خود بڑے اچھے ہیں مگر ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کو مشورہ دینے والے ان کو خراب کرتے ہیں،وہ تو اپنا وقت گزار چکے ہیں اب انہیں ضرورت ہی نہیں کوئی ان کا ساتھ دے یا نہ دے،۔محترم قارئین ،یہ باتیں وائٹ ہاوس میں بیٹھے تھنک ٹینک کی نہیں،نہ ہی اسلام آباد کی پارلیمنٹ ہاوس میں یہ بحث ہوتی ہے،اس طرح تمام شعبہ زندگی کے متعلق ہمارے ملک کے دانشور جو گرمی ہو یا سردی ،رمضان کا مبارک مہینہ ہو یا پھر عام دن ہمارے ہاں ہوٹلوں،عوامی جگہوں،ٹھیلے،ٹھیلوں میں بیٹھے دانشور اپنی خوبصورت اور قیمتی ارا سے ایک دوسرے کو نوازتے رہتے ہیں،ان کی دانشوری کا عتراف میرے محترم استاد حنیف صاحب نے اپنی ایک تقریر میں لطیفہ سنا کر کیا تھا،ان کا کہنا تھا کہ میرا ایک قریبی ہے وہ ایک دن ہوٹل میں بیٹھا بات کر رہا تھا کہ آزاد کشمیر کا وزیر اعظم بھی نا لائق ہے اور پاکستان کا بھی ،ان کو حکومت کرنے کا پتہ ہی نہیں ،جب کہ اس شخص کی اپنی یہ پوزیشن تھی کہ وہ ایک عرصہ سے بے روزگار ،نکما اوربے کار پھرتا ہے اسے اپنا آپ لائق اور باقی سب نا لائق نظر آتے ہیں،بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی یہ دانشور بیٹھے بیٹھے دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں،یہ عام آدمی کو ہیرو اور ہیرو کو زیرو بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،کس کوکیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں، ان سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا،کون کہاں فٹ ہے اور کہاں نہیں انہیں پتہ ہوتا ہے، پاکستان کرکٹ میچ کیوں ہارا،پاکستان میں سیلاب کیوں آیا،کشمیر میں زلزلہ کس وجہ سے آیا اندر کی بات کسی تحقیق کرنے والے کو نہیں پتہ ان کو پتہ ہوتی ہے،سکول ،تربیت گاہ کا منہ نہ دیکھنے والے ان دانشوروں نے ہی قائد اعظم کو مشورہ دیا کہ پاکستان بننا چاہیے،مگر اس پر ٹھیک عمل نہیں ہوا اس لئے آج پاکستان اور کشمیر مسائل کا شکار ہیں،کشمیر آزاد نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ کوئی ان کے مشورے پر عمل نہیں کرتاان کی عقل مندی اور دور اندیشی کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے خاندان والے گھر والے ان سے تنگ ہوتے ہیں مگر یہ پھر بھی اپنے آپ کو ابن بطوطہ کے خاندان سے سمجھتے ہیں،آئن سٹائن ان کا شاگرد رہا ہو جیسے،نیوٹن نے ان کے ساتھ بنٹے کھیلے ہوں جیسے،کولمبس کے ساتھ مل کر یہ تفریح کو جایا کرتے تھے،ٹیپو سلطان،محمو بن قاسم،محمود غزنوی کی تاریخ انہوں نے لکھی،اگر ان کی بات پر عمل کیا جاتا تو پاکستان کے دو ٹکڑے نہ ہوتے،اپنے گھر سے بے خبر یہ فٹ پاتھ پر بیٹھے صنف نازک کا بھی تبصرہ بڑی دانشوری سے کرتے ہیں کون سا ڈرس اچھا ہے کون سا نہیں کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں،اسلام کس کا نام ہے کسی عالم کو اتنا پتہ نہیں جتنا ان کو پتہ ہوتا ہے،یہی نہیں ان کا کمال یہ بھی ہے کہ ،ایس ایچ او، ایس پی، ڈی ایس پی، ڈی سی،اور تمام اعلیٰ انتظامیہ کے اہلکاروں کے فون نمبر ان کی جیب میں ہوتے ہیں یہ ایک فون کرے تو سب بھاگتے ہوئے ان کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہوتے ہیں بلکہ اکثر نے تو ان سے بڑی دفعہ معافی بھی مانگی ہے،یہ اپنی نالائقی اور کم تعلیم کی وجہ سے آوارہ، بے روزگار،اور نکمے نہیں ہوتے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے جو انٹرویو دیئے ہوتے ہیں وہ کسی کو سمجھ میں نہیں آتے اس لئے ان کو نوکری پر نہیں رکھا جاتا،یہ ہوائی جہاز چلاتے مگر حالات نے ان کو ٹوٹی پھوٹی گاڑی دے دی،یہ تو ویسے چلاتے ہیں،ان کی جیب میں دنیا بھر کے ویزے ہوتے ہیں بس یہ باہر جانا نہیں چاہتے،لکھنے والے کو کیسا لکھنا چاہیے کیسا نہیں ان کو بہتر پتہ ہوتا ہے،ہم لوگ اپنا وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں ان لوگوں سے مشورہ ضرور لینا چاہئے،یہ گوگا پہلوان کو ہجیڑہ اور ہجڑے کولیڈر بنا کر پیش کر دے گے،ان کے پاس اپنا علم اتنا ہوتا ہے کہ جو کچھ کسی سے سنتے ہیں اسی کو حرف آخر سمجھ کر اپنی دانشوری جگاتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا سوائے فتنہ کرنے کے،معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کے ایک دوسرے کے خلاف نفرت آمیز باتیں کرنے کے اور کوئی کام نہیں ہوتا،ان کی اکثریت دن بھر بازاروں میں پھرتی ہے ،ان کو اپنے آپ کا ہوش نہیں ہوتا اور پورا دن یہ دنیا سدھارنے کی باتیں کرتے رہتے ہیں،ان کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں کہ یہ دانشوروں کی سر زمین ہے یہاں کام کرنے والا بے وقوف اور نکما پھرنے والا عقل مند ہے۔۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69044 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.