امریکا ڈر گیا یا تھک گیا؟(آخری قسط)

کرکوک ترکی کے شہرسہبیان کوجانے والی عراق سے ایک پائپ لائن قریب ہی ہے۔موصل پرعسکریت پسندوں کامستقل قبضہ عراق کے مستقبل کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے ۔ وزیر اعظم نوری المالکی نے پارلیمان سے ہنگامی حالت نافذکرنے کامطالبہ کیا ہے جس کے باعث ان کے اختیارات وسیع ہوجائیں گے۔یہ ہنگامی حالت میڈیا، بلیک آؤٹ،شہریوں کی نقل وحرکت پرپابندی،کرفیواورفوج کووسیع اختیارات منتقلی پرمشتمل ہو گی۔انہوں نے شہریوں سے فوج میں شامل ہونے کامطالبہ بھی کیاہے لیکن ہنگامی حالت فوجی صورتحال کومزیدسنگین بھی بناسکتی ہے۔شیعہ اکثریتی ملک میں سنی اقلیت کودیوارسے لگادیاگیاہے اورانہیں شیعہ اکژیت کی طرف سے حملوں کاخطرہ ہے۔

یہ بحران پارلیمانی انتخابات کے اعلان سے محض دوہفتے بعدپیش آیااوران انتخابات کے بعدہی نئی حکومت قائم ہوگی۔مالکی کے اتحادنے کسی بھی دھڑے سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں لیکن مخالف جماعتوں نے باہم اتحادکرلیاہے اورمالکی کواقتدارسے باہرکرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔اب موصل کازوال نئی حکومت کے قیام میں رکاوٹ ثابت ہوسکتاہے جس کے باعث مالکی کووسیع اختیارات حاصل ہوسکتے ہیں،جن کے ذریعے وہ اپنے سیاسی مخالفین کوخاموش کرسکتے ہیں۔اس وقت ضرورت ہے کہ مالکی کواس قدروسیع اختیارات حاصل کرنے اورآمربننے سے روکنے کیلئے امریکاکوآگے آناچاہئے۔جونوجوان عراقی پہلے ہی سنی عسکریت پسندوں میں شامل ہوچکے ہیں وہ اس حکومت کوفرقہ وارانہ ظلم کاباعث سمجھتے ہیں۔مزیدبرآں امریکاکوچاہئے کہ عراقی فوج پردباؤڈالے کہ وہ عسکریت پسندوں کاقبضہ روکنے کیلئے ایک حساس ،مضبوط اورمقبول حکمت عملی اپنائے۔

اگرعراقی فوج شیعہ اکثریت پسندوں یاکردفوج کوسنی اکثریت کے شہرموصل کوواپس لینے کیلئے بھیجتی ہے یاپھرموصل پرکارپٹ بمباری کرتی ہے توپھرفوج جیتنے کیلئے درکاراخلاقی اور عوامی حمائت سے محروم ہوجائے گی۔مزیدبرآں امریکاکوچاہئے کہ وہ مالکی کی افواج پردباؤڈالے کہ وہ اپنی طرف سے جوابی کاروائی کے دوران موصل کے شہریوں کی حفاظت کویقینی بنائے،نیزعراق کے سنیوں کورعائتیں دے،سنی سیاستدانوں کابااختیاربنائے،مقبول سنی رہنمارفیع العیساوی کے خلاف الزامات واپس لے۔اب جبکہ عراق ٹوٹنے کے دہانے پرہے،امریکاکیلئے موقع ہے کہ وہ عرب دنیاکے مرکزمیں عسکریت پسندوں کی روک تھام کرے لیکن یہ اسی صورت ممکن ہوسکتاہے جب امریکاکویہ یادہوکہ شر پسندوں کے خلاف جوابی کاروائی کے ذریعے سے سیاسی اختلافات ختم ہونے چاہئیں‘‘۔

امورمشرقِ وسطیٰ کے معروف تجزیہ نگارپیٹرہارٹ نے’’عراق۔امریکاکاقبرستان‘‘کے عنوان سے لکھا ہے : ’’عراق کے بڑے شہرموصل پراسلام پسندپرجوش گروہ آئی ایس آئی ایس کے حملے کوامریکی نامہ نگاروں نے عراق جنگ کی ایک یاددہانی قراردیاہے اوربتایاکہ اس منظرنامے کوخاص طورپرامریکی قربانی اورنقصان کے تناظرمیں کس طرح ایک خطرناک تنازع سمجھتے ہیں‘‘۔ اے بی سی ورلڈنیوزپرمارتھانے اعلان کیا’’کسی زمانے میں موصل ایک ایسااہم شہرتھاجہاں سے اس ملک میں’’امن اوراستحکام‘‘لانے کی امریکی کوششوں کاآغازہوتاتھا۔اس امرکاتصورہی انتہائی مشکل ہے کہ بہت سے عراقی یہ سوچ سکتے ہیں کہ عراق پرحملہ امن لانے کی ایک کوشش تھی لیکن یہ اے بی سی ورلڈنیوزکیلئے کوئی نئی سوچ نہیں‘‘۔جب جنوری میں عسکریت پسندوں نے فلوجہ پرقبضہ کیا،اے بی سی ورلڈنیوزکے ٹیری حوران نے کہا:’’امریکاکی سرکردگی میں عراق میں جمہوریت لانے کی دہائی پرمشتمل جنگ‘‘۔

اے بی سی نیوزکی مارتھانے اس ضمن میں بات چیت جاری رکھی کہ’’ کس طرح ۲۰۰سے زائدامریکیوں نے ’’شہرکومحفوظ رکھنے کی خاطراپنی جانوں کی قربانی دی اوریہ کہ موصل وہ شہر ہے جوامریکی فوج کی واپسی کے بعدان کے ہاتھ سے نکل گیا جس سے محض یہ ظاہرہوتاہے کہ جب امریکیوں فوجیوں نے عراق پرقبضہ کیاتوعراقی بہترین حالت میں تھے‘‘۔ مارتھا نے مزید لکھا:’’ عراق پرامریکی حملے کے ۱۱برس بعدسے قریباً۴۵۰۰/امریکی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے اورامریکا۷۳۰بلین ڈالرسے زائدخرچ کرچکاہے۔امریکی جنگ کے باوجود عراق بحران میں مبتلانہیں بلکہ امریکی جنگ کے تسلسل کے باعث بحران میں مبتلاہے۔امریکاجنگ کاتسلسل برقراررکھنے کی مشق ترک نہیں کرسکتا۔ یہ بتانے کی ضررت نہیں کہ تباہی اصلاً عراق ہی کامقدرہے۔اس میں شک نہیں کہ امریکااپنابھی جانی ومالی نقصان بے اندازکررہاہے مگرزیادہ نقصان ان عراقیوں ہی کاہوااورہورہاہے جوجنگ چھیڑنے کے ذمے دارکبھی قرارنہیں پاسکیں گے۔امریکاکے نزدیک بہرحال عراقی جانوں کااتلاف ثانوی حیثیت رکھتاہے یاشائد اس کے طاغوتی اورسامراجی عزائم کے پیش نظرزیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کے نزدیک عراقیوں کی جانیں کوئی قدروقیمت رکھتی ہی نہیں ہیں مگرامریکاشائدیہ کبھی نہ سوچے گاکہ وہ یہاں اپناہی قبرستان بنارہاہے‘‘۔
ایک جامع جائزے کے مطابق عراق جنگ کے باعث قریباًنصف ملین عراقی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں اوریہ تعدادجہنم واصل ہونے والے امریکیوں سے دوگنا ہے، ابھی تک امریکی چینلوں کی خبروں کے کے پروگراموں میں توجہ امریکی ہلاکتوں پرمرکوزہے لیکن اس موقع پران عراقیوں کو یکسر نظراندازکردیاگیاہے جوعراق پرامریکی حملے کے باعث بہت بڑی تعدادمیں ہلاک ہوئے۔ اے بی سی ورلڈنیوزکے برائن ولیم نے لکھا:’’تمام امریکی جانیں ضائع ہونے کے بعدبہت سے لوگ شدیدزخمی حالت میں اپنے وطن واپس لوٹے،پھربھی عراق کاایک بہت ہی اہم شہرموصل القاعدہ کی ذیلی تنظیم کے قبضے میں جاچکاہے۔مزیدبرآں اے بی نیوزکے اینکراسکاٹ پیلے کاکہناہے :امریکاعراق میں جس بڑے شہرکیلئے لڑتارہاآج اس کے ہاتھ سے نکل چکاہے۔سی این این کے میزبان وولف بلیٹزر نے کہا:یہ دل دہلادینے والاواقعہ ہے ،امریکانے وہاں دس برس صرف کئے،ہم سمجھتے تھے کہ سینکڑوں بلین ڈالرخرچ کرنے کے بعدعراق ایک پرامن مستحکم جمہوریت کی حیثیت سے ابھرے گامگر۴۵۰۰/امریکی ہلاک اورلاکھوں فوجی شدیدزخمی ہونے کے علاوہ شدیدصدمے کی حالت میں واپس وطن لوٹے ہیں جویقیناامریکاکی شکست کے سواکچھ نہیں۔
دائیں بازوکی ایک فاؤنڈیشن کے بانی نے اپنے ایک انٹرویومیں کہا:ہم نے یہ تسلیم کرنے سے انکارکردیاکہ جنگ غلطی تھی کیونکہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیارنہیں تھے۔اس وقت ہمیں یہ معلوم نہیں تھا،اس سے بھی فاش غلطی یہ تھی کہ جب ۲۰۰۹ء میں اوباماانتظامیہ نے امریکی فوج واپس بلالی اورعراقیوں کوان کے حال پرچھوڑدیا۔ عراق پرحملے سے قبل ہمارے لئے یہ معلوم کرنامشکل نہ تھاکہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیارنہیں ہیں اوراس وقت سی این این نے بتایاتھاکہ عراق جنگ ایک دوہفتوں میں ختم ہوجائے گی۔وہ غلط کہتاتھالیکن اس کے تجارتی میڈیامیں عراقی امورکاایک ماہرابھی بھی موجودہے۔

عراق کے ’’محاذ‘‘سے موصولہ اطلاعات کے مطابق امریکی صدراوبامانے عراق کی سیاسی قیادت سے کہاہے کہ وہ ملک کے عسکریت پسندوں کے کاتمے کاسیاسی حل تلاش کریں، دوسری جانب بغدادمیں مقتدیٰ الصدرکے اعلان پرشیعہ ملیشیاکی بڑی تعدادنے سڑکوں پرپریڈکرکے عسکری قوت کامظاہر ہ کرکے گویافرقہ واریت کاکھلاپیغام دیاہے،اس مظاہرے کے بعدنوری مالکی کی حکومت کیلئے بے حدمشکلات پیداہوگئیں ہیں جس پر اوباما نے غیرملکی میڈیا کوانٹرویودیتے ہوئے کہاکہ عراق کے مسئلے کوکوئی فوجی حل نہیں ہے اوراس کیلئے عراقی سیاسی قیادت کومل بیٹھ کرمتفقہ سیاسی حل تلاش کرناہوگا،ہم نے عراق کوجمہوریت قائم کرنے کاایک موقع فراہم کیاہے۔ ادھر۲۳جون کی شام جان کیری نے عراقی دارالحکومت بغداد کے دورے کے دوران ملک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنے کے بعدکہاکہ عراق کے وزیرِ اعظم نوری المالکی اور دیگر رہنماں نے اس مہینے کے اختتام تک ایسی متحدہ حکومت بنانے کا عزم کیا ہے جس میں سب شامل ہوں گے۔اس سے اگلے دن جان کیری عراق کے شمال میں واقع اربیل شہر پہنچ گئے جہاں کرد رہنماؤں کوحکومت میں شامل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے عسکریت پسندوں کے خلاف ایک متحدہ محاذبنانے کیلئے کوشاں ہیں۔جان کیری نے بغداد میں اہم سیاسی رہنماں سے ملاقاتوں کے بعد عراق کے لیے مسلسل اور پائیدار حمایت کا وعدہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ سنی شدت پسندوں کے حملے عراق کی سا لمیت کے لیے خطرہ ہیں اور آئندہ چند روز اور ہفتے انتہائی اہم ہیں۔

ادھرہفتہ ۲۸جون کوعراق میں فوجی حکام کے مطابق ملک کے شمالی شہر تکریت میں ہیلی کاپٹروں سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔تازہ کارروائی ایک ایسے وقت کی گئی ہے جب شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کرنے کی اطلاعات ہیں۔ عراقی فوج کے ترجمان جنرل قاسم عطا نے امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ تکریت میں ان شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا جویونیورسٹی کیمپس میں موجود فوج کے ٹھکانوں پر حملے کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ داعش کے جنگجوؤں کے پاس اب دو راستے ہیں یا مارے جائیں یا فرار ہو جائیں لیکن مغربی خبررساں ایجنسی کے مطابق تکریت پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف سرکاری فوجی شدید لڑائی کے بعد پسپا ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ عراقی فوج نے سنیچر کو ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور فضائی امداد کے درمیان شہر پر حملہ کیا تھا۔

ادھرتجزیہ نگاروں کے مطابق امریکانے فوجی مداخلت کی ایک ہلکی سے گیدڑبھبکی کے بعدایک طرح سے’’پسپائی‘‘اختیارکی ہے تاہم امریکی غلام ’’پیش قدمی‘‘میں مشغول ہیں۔اگر آپ موجودہ مسلم قیادت کی طرف نگاہ دوڑائیں توپاکستان کانعرہ ہے تو’’اﷲ اکبر‘‘لیکن امریکاکی بندگی اورمددطلبی پاکستان کامستقل قومی ترانہ ہے۔الحمداﷲ یہی حال اب عراق اورایران کاہوگیاہے۔عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے شمال کے علاقے ہاتھ سے نکلنے کے بعد’’اﷲ اکبر‘‘کانعرہ لگایااورامریکاسے مددکی عرض گزاری۔امریکانے ٹال مٹول سے کام لیا تو ایران نے بھی’’ اﷲ اکبر‘‘کانعرہ لگایا اور امریکا کو طعنہ دیاکہ وہ دہشتگردوں سے لڑنے کاعزم رکھتاہی نہیں۔نوری المالکی نے’’ اﷲ اکبر‘‘کانعرہ لگاکرامریکاسے درخواست کی کہ اپنی فوج ، اپنے ٹینک اورجہازبھیج کردہشتگردوں کا صفایا کر دے ، جواب میں امریکافضائی ڈرون حملوں کیلئے توراضی ہوگیالیکن زمینی فوج بھیجنے سے انکارکردیا۔ایران نے اسی پر جھنجھلا کر کہا کہ’’ اﷲ اکبر‘‘امریکادہشتگردوں کے ساتھ لڑنے سے ڈرتاہے حالانکہ ڈرتا کہاں ہے؟اس نے تو عراق میں دوجنگوں میں ۲۰لاکھ افرادکوماردیا،جس نے اس سے پہلے ۲۰لاکھ افرادکوانتہائی بیدردی سے ماردیاہواس کو’’ڈر‘‘کاطعنہ مت دیں البتہ امریکااب معاشی نقصان کی وجہ سے تھک ضرورگیاہے اوراب دوبارقتل وغارت کے بعدتیسری مرتبہ ایسے عمل کیلئے ہمت ضرورکم ہوگئی ہے ۔لیکن یہ بات ضرورذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ امریکابہادر ہی ہے جس نے شام میں بشارالاسدکے خلاف اردن میں دوکیمپوں میں جن بارہ سو افرادجن میں نمایاں تعدادآئی ایس آئی ایس کی تھی،کونہ صرف فوجی تربیت دی تھی بلکہ انتہائی جدیداسلحہ بھی فراہم کیاتھا۔

اب یہ خدشہ یقین کی حدوں کوچھونے لگاہے کہ سی آئی اے اورپینٹاگون کی طرف سے چندبرس پہلے عالم اسلام کے ممالک کی تقسیم کاجونقشہ شائع ہواتھا،کیااس کاآغازہونے جارہا ہے؟ ادھر افغانستان میں حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعدکی صورتحال نے افغانستان کی تقسیم کی طرف بھی اشارے دیناشروع کردیئے ہیں ۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اورعسکری فورسزکیلئے شام اورعراق کے موجودہ دگرگوں حالات کابڑے غورسے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔عراق سے امریکی انخلاء کے بعدان حالات کاوقوع پذیرہونااوراب افغانستان سے امریکی انخلاء اورموجودہ شمالی وزیرستان کے آپریشن کے بعدکے حالات میں کوئی مماثلت تونہیں کیونکہ امریکاکا ابھی تک افغانستان میں مقیم مولوی فضل اﷲ اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی سے گریز پر ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349259 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.