حادثاتی ایجادات جنہوں نے دنیا بدل دی

ہماری روزمرہ زندگی میں بے شمار ایسی چیزیں شامل ہو چکی ہیں جن کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں زیادہ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں میں سے بہت سی ایسی ہیں جنہیں کسی موجد نے سوچ سمجھ کر ایجاد نہیں کیا بلکہ وہ اتفاقاً ایجاد ہو گئیں۔ ان اتفاقاً ایجاد ہونے والی چیزوں نے انسانی زندگی اس قدر آسان بنا دی کہ اب ان چیزوں کے بغیر جدید طرز کی زندگی بسر کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ ہماری زندگی کے لیے ضروری بن جانے والی یہ چیزیں کن اتفاقات کے تحت ایجاد ہوئیں۔ اتفاقاً ایجاد ہونے والی اشیا پر مبنی یہ رپورٹ دنیا میگزین نے شائع کی جو چند ترامیم کے بعد ہماری ویب کے قارئین کے لیے بھی پیشِ خدمت ہے-
 

1۔ سکرین (چینی کا متبادل مصنوعی میٹھا)
1870sء میں روسی کیمیا داں کونسٹینٹین فالبرگ جونز ہوپکنز یونی ورسٹی کی آئرا ریمسین لیبارٹری میں کولتار سے حاصل کی جانے والی مختلف چیزوں پر تحقیق کر رہے تھے۔ ایک رات وہ کام ختم کر کے گھر واپس آکر کھانا کھانے لگے تو انہیں محسوس ہوا کہ جو ’’رولز‘‘ وہ کھا رہے ہیں، ان کا ذائقہ ’’پُراَسرار انداز‘‘ میں میٹھا ہو چکا ہے۔ انہوں نے اپنی بیوی سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ رولز تو معمول کے مطابق بنائے گئے تھے۔ ان کا سائنسی ذہن سوچنے لگا اور آخر انہوں نے جان لیا کہ جس چیز نے رولز کو میٹھا کر دیا تھا وہ ان کے ہاتھوں پر لگا کیمیکل تھا۔ کیمیکل ہیری ٹِج فاؤنڈیشن نے ’’سکرین کی تاریخ‘‘ میں لکھا ہے، ’’دن میں کام کے دوران فالبرگ کے ہاتھوں پر ایک تجرباتی مادہ لگ گیا تھا جس کی وجہ سے رولز میٹھے ہو گئے تھے۔ وہ کھانا چھوڑ کر فوراً ریمسین لیبارٹری کی طرف دوڑے۔ انہوں نے اپنی میز پر موجود ہر چیز کو چکھنا شروع کیا۔ انہوں نے کام کے دوران استعمال ہونے والی ہر چیز کو چکھا تھا۔ آخر انہوں نے جان لیا کہ کس مادے کی وجہ سے ان کے رولز میٹھے ہو گئے تھے۔‘‘اس ایجاد کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگر فالبرگ نے صفائی کے جدید اصولوں پر عمل کیا ہوتا تو سکرین کبھی ایجاد نہیں ہوتی اور دنیا صفر کیلوری والے میٹھے سے محروم رہتی۔

image


2۔ ماچس
انسان 100000برس سے زیادہ عرصے سے آگ سے کھیلتا آ رہا ہے لیکن کوئی بھی ایسی چیز ایجاد نہیں کر سکا تھا جس کے ذریعے آسانی سے آگ جلائی جا سکے۔ آخر ایک برطانوی ادویات ساز نے ماچس ایجاد کر لی۔ یہ 1826ء کا واقعہ ہے۔ جان واکر چند کیمیائی مادوں کو ایک برتن میں ایک تیلی کے ذریعے آپس میں ملا رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ تیلی کے سرے پر ایک سوکھا ہوا گولا سا بن گیا ہے۔ انہوں نے غیر ارادی طور سے تیلی کے سرے کو رگڑ کر سوکھا ہوا مادہ اتارنے کی کوشش کی تو ایک دم آگ جل اٹھی۔ اس طرح بالکل اتفاقاً ماچس ایجاد ہو گئی۔ جان واکر نے پہلی ماچس اپنے علاقے میں کتابوں کی ایک دکان میں بیچی۔انہوں نے اس ماچس کا نام ’’فرکشن لائٹس‘‘ رکھا تھا۔ تِیلیاں تین اینچ لمبی تھیں۔ ڈبیا کی ایک طرف ریگ مال لگا ہوا تھا جس پر تیلیوں کو رگڑ کر جلایا جاتا تھا۔ جان واکر کو اپنی ایجاد پیٹینٹ کروانے سے دلچسپی نہیں تھی۔ سیموئل جونز نے ماچس کی نقل بنائی۔ انہوں نے اپنی ماچس کا نام ’’لوسی فر‘‘ رکھا۔ ان کی ماچس کی تیلیاں چھوٹی تھیں۔ ان کی ڈبیا بھی چھوٹی تھی جسے ساتھ رکھنا آسان تھا۔ تاریخ میں ماچس جیسی کسی چیز کا پہلا تذکرہ چین میں لکھی گی ایک کتاب میں ملتا ہے۔ اس کتاب کا عنوان ’’غیر دنیاوی اور انوکھی چیزوں کا تذکرہ‘‘ تھا اور اسے تاؤ گو نے لکھا تھا۔ یہ کتاب اندازاً 950ء میں لکھی گئی تھی۔ آگ جلانے کے لیے سلفر استعمال کیا جاتا تھا لیکن ان تیلیوں کو رگڑ کر آگ نہیں جلائی جا سکتی تھی۔ فرانسیسی کیمیا داں ژاں چینسل نے 1805ء میں پہلی ایسی ماچس ایجاد کی جس کی تیلیوں کے سرے پر چینی اور پوٹاشیم کلوریٹ لگایا جاتا تھا۔ اس سرے کو مرتکز سلفیورک تیزاب میں ڈبو کر جلایا جاتا تھا۔ ژاں چینسل کی بنائی ہوئی ماچس کی تیلیاں جلانا خطرناک تھا۔ کیمیائی مادوں کا آمیزہ کلورین ڈائی آکسائیڈ نامی پیلے رنگ کی بدبودار گیس پیدا کرتا تھا، جو کسی بھی چیز سے چھونے پر بھک کر کے پھٹ جاتی تھی۔ آج کل ماچسیں سرخ فاسفورس سے بنائیں جاتی ہیں۔سرخ فاسفورس زہریلی نہیں ہوتی۔ اسے جوہان ایڈورڈ لنڈسٹروم نے دریافت کیا تھا۔ امریکہ میں سیفٹی ماچس فرخت کرنے والی پہلی کمپنی ڈائمنڈ میچ کمپنی تھی۔ اس سے حقوق خرید کر دوسری ماچس ساز کمپنیوں نے ماچسیں بنانا اور بیچنا شروع کیا تھا۔

image


3۔ مائیکرو ویو اَوَن
ایک سائنس دان پرسی سپینسر راڈار کو بجلی مہیا کرنے والی نئی ویکیوم ٹیوب پر کام کر رہے تھے جسے میگنیٹرون کہتے ہیں۔ اس آلے پر کام کے دوران پرسی سپینسر نے محسوس کیا کہ ان کی جیب میں موجود چاکلیٹ پگھل گئی ہے۔ سائنس داں ہونے کے ناتے وہ سمجھ گئے کہ ایسا مائیکرو ویوز کی وجہ سے ہوا ہے۔ انہوں نے اس پر مزید تجربات کیے۔ پہلے انہوں نے مکئی کے دانے پر تجربہ کیا۔ جب مکئی کے دانے بھن گئے تو انہوں نے مزید غذاؤں پر تجربات شروع کیے۔ ان نتائج کو سامنے رکھ کر انجنیئروں نے مائیکرو ویوز کو ایک محفوظ برتن میں بند کرنے کا سوچا۔ اسے مائیکرو ویو اَوَن کا نام دیا گیا۔ موجودہ طرز کا میز پر رکھ کر استعمال کیا جا سکنے والا مائیکرو ویو اَوَن پہلی بار 1967ء میں امانا کارپوریشن نے عوام کے سامنے پیش کیا تھا۔

image


4۔ ولکنائزڈ ربر
1830ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں قدرتی ربر کا استعمال عام تھا لیکن لوگوں نے یہ دیکھ کر اسے استعمال کرنا چھوڑ دیا کہ یہ سردیوں میں منجمد ہو کر ٹوٹ جاتا تھا اور گرمیوں میں پگھل کر بدبودار اور چپچپا ہو جاتا تھا۔ قدرتی ربر زیادہ درجۂ حرارت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ چارلس گڈ ائیر نے ربر سے متعلق مسائل پر قابو پانے میں کئی سال کھپا دیے لیکن اسے کامیابی ملی تو ایک غلطی کی وجہ سے۔ چارلس کوشش کر رہا تھا کہ زیادہ درجۂ حرارت پر ربر کے چپکنے والی خامی پر قابو پایا جائے۔ اس مقصد کے لیے اس نے مختلف پاؤڈر استعمال کیے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی کیوں کہ ہر چیز پگھل جاتی تھی۔ ان تجربات کے لیے اسے مہنگی چیزیں خریدنی پڑتی تھیں جس کی وجہ سے وہ مقروض ہو گیا۔ قرض ادا نہ کرنے پر اسے جیل جانا پڑا۔ وہ جیل میں بھی اپنے مقصد کے حصول کی کوششیں کرتا رہا یہاں تک کہ لوگ اسے پاگل کہنے لگے۔ ریڈرز ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی چارلس گڈ ائیر کی سوانحِ حیات کے مطابق وہ میساچوسیٹس کے ایک جنرل سٹور میں اپنی ربر کی مصنوعات کی نمائش کے لیے گیا تو وہاں اتفاقاً ربر اس کے ہاتھ سے نکل کر ایک سٹوو پر گر گیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سٹوو پر گرا ہوا ربر ٹھوس حالت اختیار کر چکا تھا اور اس کا رنگ کالا ہو چکا تھا۔ اس نے تجربہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ربر زیادہ درجۂ حرارت پر نہیں پگھلا۔ اس طرح غلطی سے چارلس گڈ ائیر ربر کو موسم کی سختیاں برداشت کرنے کے قابل بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک اور بیان کے مطابق چارلس گڈ ائیر اپنی لیبارٹری میں کام کر رہا تھا کہ سلفر، سیسہ اور ربر سے بھری ٹیسٹ ٹیوبیں جلتے ہوئے سٹوو پر الٹ گئیں۔ اس غلطی کے نتیجے میں ربر سخت ہو گیا جبکہ اس کی قدرتی لچک بھی برقرار رہی۔ چارلس گڈ ائیرکو اپنی ایجاد پیٹینٹ کروانے کے لیے بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر وہ اس حال میں فوت ہو گیا کہ قرض ہنوز ادا کرنے تھے۔ چارلس گڈ ائیر نے لکھا ہے، ’’زندگی کو ڈالروں اور سینٹس (cents) کے معیار پر نہیں جانچنا چاہیے۔ مجھے کوئی شکایت نہیں کہ دوسرے لوگ میرے بوئے ہوئے پودے کا پھل کھا رہے ہیں۔ انسان کو صرف اس وقت شرمندہ ہونا چاہیے جب وہ کوئی پودا بوئے اور کوئی بھی اس کا پھل نہیں کھائے۔‘‘

image


5۔ کارن فلیکس
1894ء کی بات ہے۔ ڈاکٹر جان ہاروے کیلوگ امریکہ کی ریاست مشی گن میں بیٹل کریک سینی تیریم کے سپرنٹنڈنٹ تھے۔ وہ اور ان کے بھائی وِل کرتھ کیلوگ سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ تھے۔ مسیحیوں کے اس فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سبزی کے سوا کوئی چیز نہیں کھاتے۔ دونوں بھائی مریضوں کے لیے کسی ایسی غذا کی تیاری کی کوشش کر رہے تھے جس کا کھانا ان کے لیے مفید بھی ہو اور وہ ان کے فرقے کے سخت تعلیمات کے مطابق صرف سبزی پر مشتمل ہو۔ ایک دن وِل اتفاقاً ابلی ہوئی گندم کو ایسے ہی چھوڑ گئے۔ وہ اگلے دن واپس آئے تو گندم باسی ہو چکی تھی۔ انہوں نے اسے پھینکنے کی بجائے بیلنے کے ذریعے چپٹا کرنے کی کوشش کی لیکن گندم چپٹی ہونے کی بجائے دانوں میں بدل گئی۔ انہوں نے وہی دانے مریضوں کو کھانے کے لیے پیش کر دیے۔ مریضوں کو ان کا ذائقہ بہت پسند آیا۔ ابلی ہوئی باسی گندم سے بنائے گئے دانوں کی مقبولیت دیکھ کرداکٹر جان کیلوگ اور ان کے بھائی ول کیلوگ نے انہیں گرینوز کے نام سے پیٹینٹ کروا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسری اجناس پر تجربات شروع کیے۔ ان اجناس میں مکئی بھی شامل تھی۔مکئی کے دانے زیادہ مقبول ہوئے تو دونوں بھائیوں نے کارن فلیکس بنانے اور فروخت کرنے کے لیے کیلوگز کے نام سے کمپنی قائم کر لی۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ جان کیلوگ نے اس کمپنی کا حصہ دار بننے سے اس باعث انکار کر دیا تھا کہ ان کے بھائی ول کیلوگ نے کارن فلیکس کو زیادہ مزے دار بنانے کے لیے ان میں چینی شامل کر دی تھی۔

image


6۔ آلو کے چپس
اگر آپ چپس کھائے بغیر جی نہیں سکتے تو اس کا الزام جارج کَرَم نامی باورچی کو دیجیے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1853ء میں اتفاقاً آلو کے چپس ایجاد کیے تھے۔ ہوا یہ کہ امریکہ کی ریاست نیو یارک کے شہرساراٹوگا سپرنگز میں مونز لیک ہاؤس نامی ایک ریستوراں میں کام کرتے تھے۔ ان کا ایک گاہک تلے ہوئے آلو منگواتا تھا مگر ہمیشہ یہ کہہ کر واپس بھیج دیتا تھا کہ وہ زیادہ کرارے نہیں بلکہ لجلجے ہیں۔ ایک دن تنگ آ کر جارج نے آلوؤں کے جتنے پتلے قتلے بنانا ممکن تھا، اتنے پتلے قتلے بنا لیے۔اس کے بعد انہوں نے آلوؤں کے ان قتلوں کو تیل میں تل لیا۔ آلوؤں کے تلے ہوئے قتلوں پر جارج نے نمک چھڑک دیا۔ آلوؤں کے یہ قتلے نہ صرف ان کے نازک مزاج گاہک کو بہت پسند آئے بلکہ اس ریستوران میں آنے والے تمام گاہکوں نے بھی انہیں پسند کیا۔ رفتہ رفتہ پورے نیو انگلینڈ میں ’’ساراٹوگا چپس‘‘ مقبول ہو گئے۔ لوگ آلو کے چپس گھروں میں بنانے لگے۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ بیرلوں یا ڈبوں میں محفوظ کیے جانے والے چپس جلد باسی ہو کر خراب ہو جاتے تھے۔1920ء کے عشرے میں لاورا سکڈر نے ہوا بند تھیلی ایجاد کر لی۔ وہ تھیلی اس طرح بنائی جاتی کہ دو مومی کاغذوں پر گرم استری پھیر کر انہیں جوڑ لیا جاتا تھا۔ اب مختلف ذائقوں والے آلو کے چپس مختلف قسم کی پیکنگ میں فروخت کیے جاتے ہیں اور ہر عمر اور طبقے کے لوگ انہیں شوق سے کھاتے ہیں۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Necessity isn't always the mother of invention. Lots of the things we rely on to cure our diseases, cook our meals, and sweeten our days weren't deliberately designed. Instead, they were a happy accident. Read on to see how society-shaping inventions -- Potato chips to microwave oven -- came about by chance.