حقانی صاحب

صوبہ خیبر پختونخواہ کی سال میں ایک یاترا ہوتی ہے، ہمیشہ ضلع شانگلہ سے پشاوآتے ہوئے راستہ میں نوشہرہ رشتہ داروں کے ہاں مختصر قیام کے دوران مولاناعبدالقیوم حقانی کی ملاقات کا ارادہ کرتاہوں ،مگرسستی، وقت کی تنگی اور دوطرفہ مصروفیات کے سبب ملاقات نہیں ہوپاتی۔ اس مرتبہ نوشہرہ پہنچتے ہی حقانی صاحب سے ملاقات کی سبیل نکالنے لگا۔ حقانی صاحب سے رابطہ ہوا، سفر میں تھے، صبح سات بجے کاوقت دیا ، آٹھ بجے کے بعد انہیں ایک تقریب میں شرکت کے لیے لاہور جاناتھا۔

کراچی کے کبار علماء سے ملنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، پہلے ان کے سیکرٹری کو ملاقات کی وجہ بتانی ہوگی،اگر آپ معروف شخصیت نہیں یاملاقات کامعقول ایجنڈا نہیں رکھتے تو آپ کو الٹے پاؤں واپس ہوناپڑتاہے۔ عقیدت مند، خصوصاًدوسرے شہر سے آنے والے مہمان مایوس کن صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔ شائد اس میں کراچی کے ناساز حالات اور بدامنی کابھی بڑادخل ہے۔ خیبر پختونخواہ کے علماء کامعاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ تین چار سال قبل معروف عالم دین، مدینہ یونیورسٹی کے فاضل اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے استاذالحدیث مولاناڈاکٹرشیر علی شاہ سے یادگار ملاقات ہوئی، ڈاکٹر صاحب عصر تامغرب ہم نالائقوں کے ساتھ تشریف فرمارہیں، بے تکلفانہ انداز میں اپنے بچپن کے حالات، عنفوان شباب میں مزدوری کے واقعات اورعلمی لطائف سناکرمحظوظ فرماتے رہیں۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ضلع نوشہرہ کے ذمہ دار مولانامحمداسلم کی معیت میں مولاناعبدالقیوم حقانی کے ہاں پہنچے تو وہ چشم براہ تھے،چائے اور بسکٹ بھی تواضع کے لیے موجود تھے، تحفتاًدونوں کو تین تین کتابوں سے نوازا۔تجسس تھاکہ حقانی صاحب اتنے ڈھیر سارے کام یکاوتنہاکیسے کرلیتے ہیں، اس کا جواب ان سے ملتے ہی حاصل ہوگیا۔ حقانی صاحب فقط آدھے گھنٹہ بعد سفر پر روانہ ہونے والے تھے مگر سفر کی تیاری یاآرام کی بجائے وہ اپنی نئی آنے والی کتاب مسلم شریف کی شرح پر کام کررہے تھے، معلوم ہواان کی زندگی کانصب العین کام ،کام اورکام ہے۔

مولاناعبدالقیوم حقانی نے 1956 ء میں آنکھ کھولی، آٹھویں جماعت میں تھے کہ والد کاسایہ سر سے اٹھ گیا، تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے، والد صاحب کی وفات کے بعد قریبی رشتہ داروں نے ساتھ چھوڑدیا، پڑوس میں رہنے والے چچاتک بے گانہ ہوگئے، بعض اوقات گھر میں گندم کی روٹی تک دستیاب نہ ہوتی۔ ان نامساعد حالات میں ان کی والدہ محترمہ نے بڑی حوصلہ مندی سے کام لیا، اپنے اکلوتے بیٹے کے دکھ، درد اور مصائب کے مداوے کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی موقوف نہیں ہونے دیا، خوداور بیٹیوں کو موٹاجھوٹا کھلایامگر بیٹے کی ضروریات پوری کیں۔

حقانی صاحب نے باقاعدہ دینی تعلیم کاآغاز نجم المدارس کلاچی سے کیا۔ دسویں جماعت سے اردو رسائل کے مطالعہ کاچسکہ لگا۔ ہفت روزہ خدام الدین لاہور، ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور، ماہنامہ تبصرہ لاہور، ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک، ماہنامہ بینات کراچی اور ماہنامہ البلاغ کراچی جیسے معیاری مجلات سے اپنی حس مطالعہ کو تسکین دیتے رہیں۔ اسکول میں بھی کورس کی کتابوں کی بجائے رسائل کامطالعہ کرتے، سپرٹنڈنٹ نگرانی کرتے ہوئے ان کی طرف آتے وہ جلد درسی کتاب اٹھالیتے۔ اردو کی سب سے پہلی کتاب مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی ـ’امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی‘پڑھی۔ کتاب خریدنے کاواقعہ بھی بڑادل چسپ ہے۔ انہیں کتابوں کی فہرست دکھائی دی، فہرست پر نظر دوڑاتے ہوئے ’امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی‘نامی کتاب پسند آئی۔ قیمت کتنی ہے اور کتاب منگوانے کا طریقۂ کار کیاہے، کچھ معلوم نہ تھا،فہرست پر موجود پتاپر خط لکھ کر کتاب کے حصول کی خواہش ظاہر کی، واپسی پتا قریب دکان کادیا، کچھ عرصہ بعددکاندار کے بیٹے نے بھاگتے ہوئے آکر خبر دی کہ آپ کی وی پی آئی ہے، جلدی آکر وصول کرلیں، لانے والا بغیر قیمت لیے نہیں دے رہا۔ قیمت معلوم کی جو پندرہ روپے بتائی گئی، اس دور میں پندرہ روپے بڑی رقم تھی جس سے مفلوک الحال خاندان کا کئی دن چولہا جل سکتاتھا، والدہ نے کافی مشکلات کے بعد روپوں کا انتظام کیا۔ علاقہ میں پہلی مرتبہ وی پی کے ذریعہ کتاب منگوائی گئی تھی، انوکھی خبر پورے گاؤں میں مشہور ہوگئی، زبان زد عام ہواکہ عبدالقیوم کے نام توکراچی سے کتابیں آتی ہیں۔

مولاناعبدالقیوم حقانی نے1975ء میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے دورہ حدیث مکمل کیا، اسی سال جامعہ ہذا سے جمعیت علماء اسلام کے موجودہ امیر مولانا فضل الرحمن کے سرپر بھی دستار فضیلت سجی۔ تقریب ختم بخاری میں سند فراغت حاصل کرنے والوں کے رشتہ دارقرب وجوار اور دور درازسے جوق درجوق آئے ہوئے تھے،حقانی صاحب کے اعزہ واقارب اس بابرکت تقریب سے باخبر تک نہ تھے، ایک والدہ محترمہ تھی وہ بھی ان رسومات سے ناآشنا ،گاؤں میں بیٹے کوروشن مستقبل کے لیے زمانہ کے طوفانوں سے نبردآزما تھیں۔ایک ایک فاضل کانام لیاجاتا، وہ آکر دستارفضیلت سر پرسجاتا، مفتی محمودؒکے فرزند ارجمند کانام لیاگیاتو فضانعروں سے گونج اٹھی، پھولوں کی بارش ہوئی، گولے فائر کئے گئے۔مولوی عبدالقیوم اپنی دستار بندی کے لیے آگے بڑھے تو کوئی اپناگلے لگانے ولانہ تھا،اس نمناک صورتحال سے مولانافضل الرحمن آبدیدہ ہوگئے، آگے بڑھ کر حقانی صاحب کوگلے لگایا، اپنے ہار اتار کر انہیں پہنائے اور تقریب کے اختتام تک اپنے پروٹوکول میں ساتھ رکھا۔

دورہ حدیث سے فراغت کے بعد اپنے دورہ حدیث کے استاذ مولانا حسن جان شہیدؒکے کہنے پر چکوال مولانا مظہر حسین کے ہاں تدریس کے لیے چلے گئے۔ ماہانہ تعطیلات میں اپنی مادر علمی دارالعلوم حقانیہ کے شعبہ تصنیف وتالیف میں کام کیا، ادارے کوکام پسند آیا،مولانا سمیع الحق کے مشورہ پر تعطیلات کے بعدتصنیف وتالیف کے ساتھ درس تدریس کی ذمہ داری بھی سونپی گئی، شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے امالیٔ ترمذی پر بھی کام کیا، مختصر عرصہ میں شیخ الحدیثؒکے خاص خدام میں جگہ بنائی۔ آج حقانی صاحب ضلع نوشہرہ خالق آباد میں واقع جامعہ ابوھریرہ کے مہتمم، ماہنامہ القاسم کے مدیر ، مشہور واعظ وخطیب اور ایک سوپچیس(125) کتابوں۔۔۔۔۔۔جی ہاں!ایک سوپچیس کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان کے نزدیک وسعت مطالعہ کامیابی کی دلیل ہے، انہیں شکوہ ہے کہ نوجون طبقہ مطالعہ کی اہمیت سے ناواقف اور اس سے کوسوں دور ہے، کسی کو خامہ فرسائی کا شوق ہوتا ہے، اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، جب مطالعہ کا پوچھا جائے تو خاموشی چھاجاتی ہے، بالاستیعاب ایک کتاب کا مطالعہ بھی نہیں کیاہوتا، جب اچھا پڑھیں گے نہیں تو بھلا بہترین لکھ کیسے پائیں گے۔ موجودہ نسل کو لکھنے کا زیادہ شوق چراتا ہے تو مقالہ نگاری کے اصول پر لکھی گئیں کتابوں کے حصول میں سرگرداں ہوجاتی ہے۔ اصول وضوابط ثانوی چیز ہے، اصل شے مطالعہ ہے، بلکہ جنون مطالعہ۔

آج کل مولاناعبدالقیوم حقانی بڑے زوروشور سے اپنی نئی تصنیف مسلم شریف کی شرح پر دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہے اردو زبان میں مسلم شریف کی محقق ومدلل شرح دستیاب نہیں، یہ علماء دیوبند پر گویاقرض تھا، میں اس قرض کو پورا کرنے کی اپنی سی ہر ممکن کوشش کررہاہوں، تفصیلی کام جاری ہے، چھ جلدیں مکمل ہوگئی ہیں، گر اسی نہج پر کام جاری رہاتواندازاًچالیس جلدوں پر محیط ہوسکتاہے۔
Ibrahim Hussain Abdi
About the Author: Ibrahim Hussain Abdi Read More Articles by Ibrahim Hussain Abdi: 60 Articles with 57739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.