گدا حسین افضل:فصیلِ دِل کے کلس پر سِتارہ جُو تیرا غم

 احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظ
دُنیا چلی گئی مری دُنیا لیے ہوئے
پروفیسر(ر)گدا حسین افضل نے عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھ لیا ۔اتوار یکم جولائی دو ہزار چودہ کو اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اُس میں گدا حسین افضل کا نام بھی رقم تھا۔ گدا حسین افضل کی وفات سے علم و ادب ،تدریس ،تحقیق و تنقید کا ایک زریں عہد اپنے اختتا م کو پہنچا ۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا عظیم علم بردار زینہء ہستی سے اُتر گیا۔ عجز وانکسار کا پیکر ،خاندانی شرافت ،خو د داری اور وقار کی علامت ،جہدِ مسلسل ، قوتِ ارادی کی پہچان اور حریت ِ فکر کاعظیم مجاہد لاکھوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ گیا، اس سانحے پر پُورے ملک کے علمی و ادبی حلقوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ۔ جھنگ سے گوجرہ جانے والی سڑک پر چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ’’اوڈاں والا ‘‘شہر ِ خموشاں کی زمین نے علم و ادب ،تعلیم و تعلم ،تہذیب و شائستگی ،خلوص و وفا اور انسانی ہمدردی کے آسمان کو اپنی آغوش میں چُھپا لیا۔پاکستان میں تدریسِ ادبیات کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی فرشتہء اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی ۔ شہر کے ممتازتعلیمی ادارے اور اہم تجارتی مراکز اس عظیم انسان کی وفات کے سوگ میں بند رہے۔ وطن ،اہلِ وطن اور انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کو اپنی زندگی کا مطمحِ نظر قراردینے والا جری ،زیرک ،فعال اور مستعد معلم اب ہمارے درمیان مو جود نہیں۔وہ با کمال محقق ،بے مثال نقاد ،حریتِ فکر کا مجاہد اور منفرد اسلوب کا حامل تخلیق کار دیکھتے ہی دیکھتے ہماری محفل سے اُٹھ گیا اور دنیادیکھتی کی دیکھتی اور کفِ افسوس ملتی رہ گئی۔ مذاہب ِ عالم ، عالمی ادبیات ،فنون لطیفہ ،تاریخ ، فلسفہ ،علم بشریات ، سیاسیات اور نفسیات پر کامل دسترس کی وجہ سے گد احسین افضل کو ایک دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل تھی۔ ایسا عظیم انسان اور نابغہ ء روزگار دانش ور اب کہاں سے لائیں جسے گدا حسین افضل جیسا کہا جا سکے۔ گدا حسین افضل نے اُردو زبان و ادب کے طالب علموں کوقاموس و لغت سے بے نیاز کردیا۔جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے کے لیے اُسوہء شبیرؓ کو زندگی بھر پیشِ نظر رکھنے والے اس مردِ حق پرست کی زندگی رمزِ لا تخف کی عملی تصویرتھی جس نے زہرِ ہلاہل کو کبھی قند نہ کہا۔ شہرِ سدا رنگ جھنگ میں فروغ ِگلشن و صوتِ ہزار کے موسم کی نوید سنانے والے اس یگانہء روزگار فاضل کی دائمی مفارقت کی خبر سن کر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔گدا حسین افضل کے ساتھ میرا تعلق خلوص اور دردمندی کی اساس پر استوار تھا۔ہم بے تکلفی کے ساتھ ایک دوسرے کی غم گُساری کرتے اور باہمی مشاورت سے درپیش مسائل کا حل تلاش کرتے۔میں نے ہمیشہ اُسے اپنا چھوٹا بھائی سمجھا اور اُس نے بھی میری عزت و تکریم کو ہمیشہ مقدم سمجھا ۔گدا حسین افضل کی وفات میرا ذاتی سانحہ ہے۔ فرشتہ ء اجل نے اُس شمعِ فروزاں کو ہمیشہ کے لیے گُل کر دیا ہے جو سفاک ظُلمتوں میں ستارہء سحر اور اُمید فردا تھی ۔میری آنکھیں پُر نم ہیں ،لفظ ہونٹوں پر پتھرا کر رہ گئے ہیں۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھوں ،کہاں سے شروع کروں اور اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کیسے کروں۔ اُس کے ساتھ میرا تعلق گُزشتہ چار عشروں پر محیط تھا لیکن وہ تو جاتے جاتے سارے سلسلے ہی توڑ گیا ۔وقت کس قدر بر ق رفتاری سے گُزر جاتا ہے،اس کے تصور ہی سے انسان لرزاُٹھتا ہے۔شہر یار نے سچ کہ تھا:
عجیب چیز ہے یہ وقت جس کو کہتے ہیں
کہ آنے پاتا نہیں اور بِیت جاتا ہے
جو ہونے والا ہے اب اُس کی فکر کیا کیجیے
جو ہو چُکاہے اُسی پر یقیں نہیں آتا

گدا حسین افضل نے یکم جنوری انیس سو پچاس کو تحصیل جھنگ کے ایک دُور اُفتادہ گاؤں راجن والا میں جنم لیا۔چند کچی جُھگیوں پر مشتمل اس قدیم علاقے کو کچیاں (خام)کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔یہاں کی جُھگیاں بے شک کچیاں ہی ہیں لیکن یہاں کے اولوالعزمانِ دانش مند جس سے پیمانِ وفا باندھ لیتے ہیں،اُسے علاجِ گردش ِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے سنگت نبھاتے ہیں ۔بے لوث محبت ،خلوص اور دردمندی کی اساس پر استوار یہ سنگتیں وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ پکیاں ثابت ہوتی ہیں ۔تریموں کے مقام پر دریائے جہلم کا نقطہء اختتام ہے اور اسی مقام پر دریائے چناب کی منہ زور طوفانی لہریں دریائے جہلم کے قلیل ، سست اور مضمحل پانی پر غلبہ حاصل کرلیتی ہیں اور تریموں ہیڈ ورکس سے آگے جنوب کی جانب صرف دریائے چناب ہی موجود ہوتا ہے جہلم کا پانی چناب کا حصہ بن جاتا ہے ۔گدا حسین افضل کی جنم بھومی اِن دو دریاؤں کے درمیان واقع ہے ۔مغرب میں چند کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے جہلم ہے جب کہ مشرق میں دریائے چناب بہتا ہے۔ وہ جُھگیاں جن میں اس عظیم انسان کی آنول نال گڑی ہے بلا شُبہ دو دریاؤں کی سر زمین ہے۔ ساون اور بھادوں کی مون سون کی بارشوں کے بعد جب اِن دو دریاؤں میں طغیانی آ تی ہے تو کچیاں کے مکین کبھی گھڑیوں کی طرف اور کبھی آسمان کی جانب دیکھتے ہیں کہ اس سال کچیاں کے انہدام کا ذمہ دار کس دریا کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔ کون سے دریا کا پانی پہلے یہاں پہنچتا ہے؟ دریاؤں کو تو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام ہوتا ہے ۔مجبوروں کی اُمیدوں کی فصل غارت ہوتی ہے یا اُن کی صبح و شام کی محنت اکارت چلی جاتی ہے اس سے دریا بے پروا ہوتے ہیں ۔دریائے چناب کا ٹھاٹیں مارتا ہوا پانی آن کی آن میں کچیاں جھگیاں ملبے کا ڈھر بنا دیتا ہے ،اس کے بعد دریائے جہلم کا پانی کھجور کی ڈانگوں (لمبی شاخوں )سے تیار کیے ہوئے کواڑ ، کھجورکے تنے سے بنائے گئے شہتیر ،سر کنڈے کی چھت (پتلاں) ا ور ملبے کا سامان بہا لے جاتا ہے ۔ حُسن ِفطرت سے مالا مال اس علاقے میں میلوں تک کھجوروں کے جُھنڈہیں ۔کچھ کھجوریں تو خود رو ہیں لیکن بعض دیہاتی کسانوں نے محکمہ زراعت کے مشورے سے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق عجوہ ،حلاوی ، کیچ ،مکران اور بصرہ کی کھجوریں بھی اُگائی ہیں۔گدا حسین افضل کو اپنی جنم بھومی سے بہت محبت تھی۔اس علاقے کے پھل جن میں پیلوں ، بیر،خوش ذائقہ کھجوریں ،ڈیہلے،لسوڑیاں ،مکواور سنجاونا شامل ہیں اسے منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔یہ سب پھل اس علاقے میں کثرت سے پائے جاتے تھے اور قدرتِ کا ملہ کی بے پایاں فیاضی کی وجہ سے بلا قیمت ہر خاص و عام کی دسترس میں تھے۔ کئی فصلیں ایسی بھی ہیں جو اس علاقے میں کثرت سے اُگائی جاتی ہیں ۔ان میں جو ،جوار ،باجرہ ،مکئی ،منڈوا،چِینا،سوانک اور چاول وغیرہ شا مل ہیں۔گدا حسین افضل کا کہنا تھاکہ دیہی علاقوں میں فطرت ہر وقت لالے کی حنا بندی میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔جس طرح قبائے گُل کو گُل بُوٹے کی احتیاج نہیں اِسی طرح دیہی تہذیب اور معاشرت بھی تصنع اور تکلف سے بے نیاز ہے یہ بات بلا خوف ِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ حُسنِ فطرت کو اپنی بے حجابی کے لیے گنجان آباد شہروں سے زیادہ دیہات اور بن پیارے ہیں ۔ دُور اُفتادہ دیہاتوں کے سادہ لوح اور مخلص لوگ جس بے تکلفی اورسادگی سے اپنے مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔گدا حسین افضل اپنے دیرینہ رفقائے کار ملک صالح محمد ، اﷲ دتہ،ملک محمد نواز اور لال خان کا ذکر کرتا تو اُس کی آ نکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔ایک بار اُس نے بتا یا:
’’جب بھی کوئی مہمان آتا یہ مہربان سادہ غذا سے اس کی تواضع کرتے۔گرمیوں میں گندم کی روٹی میں تاندلہ ملا کر تنور پر اسے پکایا جاتا اورپھر اسے کنگ کے سا تھ کھا یا جاتا۔اِسی موسم میں گاؤں کے لوگ الونک ،کُھمبیاں اور اکروڑی جیسی خود رو سبزیاں پکاتے جو شہروں میں عنقا ہیں۔ سُنجاونا کے پُھولوں اور پَھلیوں سے اچار تیار کیا جاتا تھا۔اسی طرح چنے،گاجریں ،لیموں، لسوڑیاں اور ڈیہلے بھی اچار بنانے میں کام آتے تھے،یہ لوگوں کی من پسند غذا تھی۔ موسم کی سبزیوں مثلاً شلجم ،کریلا،ساگ اورمیتھی کو دھوپ میں رکھ کر خشک کر لیا جاتااور موسم گزرنے کے بعد ان سوکھی سبزیوں کو پکا کردسترخوان کی زینت بنایا جاتا۔ انگریزی اور چینی کھانوں کے دلداہ فیشن زدہ لوگوں کو ان پکوانوں کے بارے میں کیابتائیں۔اندھا بسنت کی بہار کے بارے میں کچھ بھی نہیں سمجھ سکتا۔ سردیوں میں سرسوں کا ساگ جس میں خود رو بُو ٹی باتھواور ہری مرچ ملائی جاتی تھی ،اس قدرخوش ذائقہ ہوتا کہ کھانے والے اُنگلیاں چاٹتے رہتے ۔مکھن کے پراٹھے کے ساتھ سرسوں کا ساگ اور چاٹی کی لسی کا مشروب ساتھ میٹھے کے طور پر گھی شکر یا چُوری میزبان کی دریا دِلی اور مہمان نوازی کا اعلا ترین معیار تھا۔ مکئی ،جوار ،باجرے اور منڈوے کی روٹیوں ں کا اپنا مزہ تھا۔گرمیوں میں جو کو بھون کر اور اسے پیس کر ستُو جیسا فرحت بخش مشروب تیار کیا جاتا تھا۔ سردیوں میں مولی کو کُتر کر اسے دو روٹیوں کے درمیاں رکھ کر دیسی گھی میں توے پر پکا کر انتہائی لذیز روٹی تیار کی جاتی جسے ’’بُھسری‘‘کا نام دیا جاتا تھا ۔آج بھی ان مہربانوں کی مہمان نوازی کی یاد آتی ہے تو ان کی مہمان نوازی کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔یہ سب دائمی مفارقت دے گئے،ان محفلوں کے ذکر سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ،اب دنیا میں ایسی ہستیاں کہاں؟‘‘

انیس سو ساٹھ میں گدا حسین افضل کے والدین نے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے اپنے آبائی گاؤں کی سکونت ترک کر کے جھنگ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔اُس زمانے میں جھنگ محض ایک قصبہ تھا اور اس کے مضافات میں جنگل ،جوہڑ ،جھیلیں ،ریگستان اور نخلستان تھے۔جھنگ کے قدیم قصبے کے نواحی مضافات میں کچی آبادیا ں سر اُٹھا رہی تھیں ۔ کینیڈا میں مقیم ممتازدانش ور اور جھنگ کے رہائشی نام ور پاکستانی انجینئیر محمد رفیق کا کہنا ہے کہ جب اُن کے بزرگ حاجی محمد نواز اور گدا حسین افضل کے والد اپنے اپنے گاؤں چھوڑکر جھنگ کے نواح میں رہائشی قطعہء زمین خرید کر سر چُھپانے کا جھونپڑا تعمیر کر کے یہاں رہنے لگے تو حالات بہت عجیب تھے ۔کئی جھیلیں ،جوہڑ اور جنگل تھے ۔سرِ شام گیدڑوں کے آوازیں سُنائی دیتی تھیں ۔صبح سویرے اور دِن ڈھلے مُرغابیاں ،قُمریاں اور فاختائیں ان جھیلوں اور جوہڑوں کے کنارے غول در غول اُترتیں اور نو وارد مکین ان پرندوں کا شکار کرتے تھے ۔جہاں اب شاداب کالونی ہے وہاں آج سے نصف صدی قبل ایک جھیل تھی جس میں دریائے چناب سے آنے والی نہر کا پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا ۔ اس علاقے میں حدِ نگاہ تک سر سبز وشاداب فصلیں ہوتی تھیں اور بُور لدے چھتنار یہاں کثرت سے مو جود تھے۔اسی نہر کا پانی گورنمنٹ کالج جھنگ کے وسیع و عریض کھیل کے میدانوں ،گُلستانوں اور سبزہ زاروں کو سیراب کرتا تھا۔علامہ اقبال ہال جھنگ کے قریب واقع تالاب میں پینے کا صاف پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا جب کہ گندے پانی کا جوہڑ(گندہ ٹوڑا)شہر کی شمالی جانب ملتان اورگوجرہ جانے والی سڑکوں کے سنگم پر تھا ۔ یہاں سے ہر وقت عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے جس کے باعث لوگوں کا یہاں سے گُزرنا محال تھا۔بعض لوگوں کا گُمان ہے کہ اس علاقے کے مکینوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کا یہ منصوبہ نظام سقّے نے بنایا تھاجس پر کام جاری رہا۔ سال دو ہزار چار میں نکاسیء آب کے منصوبے مکمل ہونے کے بعد جہاں گندے پانی کا جو ہڑ تھا وہاں ایک پارک تعمیر کیا گیا ہے ۔ پارک کی تعمیر کے با وجود اس علاقے کے مظلوم با شندوں کے حالات جوں کے توں ہیں ۔اب بھی اس جگہ وہی پرانی اعصاب شکن عفونت و سڑاند مو جود ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ پارک کے چاروں طرف شہر کے منافع خور قصابوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔مریل کٹے سے بھی سستے برائلرمرغے دھڑا دھڑ ذبح ہو رہے ہیں اور ان کی آلائشیں دھڑلے سے پارک کے کنارے گلنے سڑنے کے لیے ڈھیر کر دی جاتی ہیں ۔صاف پانی کا تالاب خشک ہو چُکا ہے ،اب اسے ایک کثیر المقاصد جلسہ گاہ میں بدل دیا گیا ہے ۔ سطحِ زمین سے بیس فٹ گہرے اس تاریخی تالاب کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں جو بھی فرعون آیا ،اُس کا بیْڑا غرق ہو گیا۔اس تالاب میں گھاس بھی اُگائی گئی ہے تاکہ اسے کھیل کے میدان اور چراگاہ کی شکل دی جا سکے ۔تالاب کے گرد چاروں جانب بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہو چُکی ہیں ۔تازہ ہوا کے لیے کھلاڑی سُو ئے آسماں نگاہ دوڑاتے ہیں لیکن دھواں دھار فضا تو پہلے ہی تیرہ وتار ہے ۔اب تالاب کے باہر سڑک کے کنارے ایک فلٹر پلانٹ نصب کر دیا گیا ہے جہاں سے بجلی موجود ہونے کی صورت میں پیاسوں کے لیے مفت پانی دستیاب ہے ۔گدا حسین افضل نے نیا شہر میں ایک رہائشی قطعہء اراضی خریدااور اپنے گھر کے سامنے مسجد تعمیر کرنے کے لیے بھی ایک قطعہء اراضی قیمتاً حاصل کیا۔ اُ س کا شمار اس بستی کے اولین مکینوں میں ہوتا ہے ۔اس بستی میں پہلے کوئی مسجد نہ تھی ، گدا حسین افضل نے ذاتی کاوشوں سے یہاں مسجد تعمیر کرائی ، اس میں پانی ،بجلی،پنکھوں ، صفوں وضو کی جگہ ،طہارت خانوں اور نکاسیء آب کا مناسب انتظام کیا۔آج یہاں نماز باجماعت کا اہتمام ہے۔اس صدقہء جاریہ کا ثواب یقیناً اُسے ابد تک مِلتا رہے گا۔ فیض کے ایسے اسباب بنا کر اُس نے ایک ارفع مثال پیش کی۔ وہ جا چُکا ہے لیکن اُس کی پُروقارزندگی اورحُسنِ اخلاق ہمیشہ موضوع ِ گفتگو رہے گا،علمی اور ادبی محفلوں میں اُس کا حوالہ پیش کیا جائے گا کہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے ہر دکھ خندہ پیشانی سے اُٹھایا لیکن کبھی کسی کا دِل نہ دُکھایا۔

گدا حسین افضل کی زندگی میں کئی سخت مقام بھی آئے لیکن ہمیشہ صبر و استقامت کا پیکر بن کر وقت گزارا ،کبھی حرفِ شکایت لب پر نہ لایا اور مشیتِ ایزدی کے سامنے سر ِ تسلیم خم کردیا۔1980میں اُس کی اہلیہ مختصر علالت کے بعد ایک کم سِن بیٹے محمد تنویر علی کو سوگوا ر چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جا ملی۔ وہ گوجرہ روڈ پر چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ’’اوڈاں والا‘‘ شہرِ خموشاں میں آسودہء خاک ہے ۔دمِ آخریں اس کی اہلیہ نے یہ وصیت کی کہ کم سِن بیٹے کی تعلیم و تربیت اور گھر کے آرام و سکون کی خاطر گدا حسین افضل عقدِ ثانی کر لے ۔ اپنے والد اور مخلص احباب کے مشورے سے 1982میں گدا حسین افضل نے دوسری شادی کر لی۔اس شادی کے بعد اس کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔گدا حسین افضل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا،اب اس کے گھر کا آنگن اﷲ کریم کے فضل و کرم سے گُل ہائے رنگ رنگ کی عطر بیزی سے مہک اُٹھاہے۔ گدا حسین افضل کی خاک کو اکسیر بنانے میں اُس کے والد کا کلیدی کردار ہے ۔تقدیر نے گدا حسین افضل کا ایک اور امتحان لیااُس کے والد نے 1994میں داعیء اجل کو لبیک کہا۔ ’’اوڈاں والا‘‘ شہرِ خموشاں کی زمین نے عظمتِ کِردار کے اِس آسمان اور نئی نسل کوٹھنڈی چھاؤں دینے والے اس چھتنار کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا ۔اس سانحے نے گدا حسین افضل کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کر دیا۔ اب وہ بھری دنیا میں بالکل تنہا رہ گیا تھا۔ میری زندگی کے ابتدائی زمانے میں میرے والد اور میری اہلیہ نے جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ میری رہنمائی کی اور مجھ پر اپنی بے لوث محبت نچھاور کی، اُس کے انمٹ نقوش لوحِ دل پر ثبت ہیں ۔انھیں عقیدت بھری آنکھیں دیکھتی اور خلوص سے معمور دل محسوس کر سکتا ہے الفاظ اس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔اپنے والدین اور اہلیہ کی دائمی مفارقت کے جذباتِ حزیں کا اظہار کرتے وقت وہ اُن کے لیے دعائے مغفرت کرتا تو وہ اپنا گریہ ضبط نہ کر سکتا ا ور گلوگیر لہجے میں مجید امجد کا یہ شعر پڑھتا:
سلام اُن پہ تہہ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جوتو چاہے

اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے سلسلے میں گدا حسین افضل نے جس محنت ،لگن، دیانت ،مستعدی اور فرض شناسی کو شعار بنایا وہ لائق ِ صد رشک و تحسین ہے۔میٹرک سے لے کر ایم۔اے اُردو تک ہر امتحان اُس نے اعلا کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور سب امتحانات درجہ اول میں پاس کیے۔ابتد میں وہ کچھ عرصہ تحصیل جھنگ کے مختلف ثانوی مدارس میں تدریسی خدمات پر ماموررہا ۔جلد ہی وہ پنجاب پبلک سروس کمیشن،لاہور کے امتحان میں کام یاب ہو کر اُردو کالیکچر ر منتخب ہو گیااور تاریخی گورنمنٹ کالج جھنگ میں اُس کا تقر رہو گیا۔ یہاں اس نے اپنی بقیہ مدتِ ملازمت کا عرصہ پورا کیا اور ترقی کے مدارج طے کرتا ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ تک پہنچا۔ عرصہء ملازمت کی تکمیل کے بعدوہ یہیں سے ریٹائر ہوا۔ ریٹائر منٹ کے موقع پر گدا حسین افضل کی علمی ادبی اور تدریسی خدمات کے اعتراف میں اس عظیم اُستاد کو یادگا ری شیلڈ پیش کی گئی اور احباب کی طرف سے تحائف پیش کیے گئے ۔اُس کے اعزازمیں کالج انتظامیہ اور مختلف شعبوں کی طرف سے پُر تکلف ضیافتوں کا اہتمام کیا گیا۔

سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد گدا حسین افضل نے اپنا وقت عبادات اور ذکر ِ الٰہی میں گزارنا شروع کر دیا۔ سال 2010میں اُس نے فریضہء حج کی ادائیگی کے لیے ارضِ مقدس کا سفر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔روانگی سے پہلے وہ سب احباب سے ملنے کے لیے ان کے گھر پہنچا اور سب کی خیریت دریافت کی اور دعا کی استدعا بھی کی ۔میں نے دیکھا کہ گدا حسین افضل کا چہرہ پُر سکون تھا اوراُس کی آنکھوں میں ایک روحانی چمک موجود تھی۔ توحید پر اُس کا یقین کامِل تھا اوروہ ایک سچا عاشق ِ رسولﷺ تھا۔حج سے واپس آنے کے بعد اُس کی کایا ہی پلٹ گئی۔ اُس کا زیادہ وقت عبادات اور مطالعہ کتب میں گُزرتا۔وہ جن کتب کا مطالعہ کرتا ان میں تفسیر ،حدیث،تاریخ ِ اسلام،فقہ اور فلسفہ کے موضوع پر کتب شامل تھیں۔اگلے برس(2011)گدا حسین افضل ایران،عراق اور شام میں واقع مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوا۔فریضہء حج کی ادائیگی اور مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کو وہ اپنی زندگی کا حاصل قرار دیتا ۔عبادات اور روحانیت میں اُس کی توجہ مزید بڑھنے لگی۔بچپن ہی سے وہ نماز روزے کا پا بند تھا ۔جوانی میں اس نے نماز ِ تہجد کی باقاعدہ ادائیگی شرع کی اور زندگی بھر اس پر عمل پیرارہا ۔اب وہ اﷲ کریم کی معرفت حاصل کر چکا تھا ۔اس کی دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل کرتیں اور لوگ اُس سے اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے سلسلے میں دعا کی استدعا کرتے ۔میں نے اکثر لوگوں سے سُنا ہے کہ گد احسین افضل کی دعا سے پروردگارِ عالم کی شانِ کریمی جوش میں آئی اُن کی اُمید بر آئی اور خالقِ کائنات نے اُنھیں مسائل سے نجات دی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مردِ مومن کی نگاہ سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔

گدا حسین افضل کی شگفتہ مزاجی اور گُل افشانیء گُفتار کاایک عالم معترف تھا۔ادبی محفلوں اور مشاعروں میں وہ بڑے شوق سے شرکت کرتا لیکن کچھ عرصے سے اُس نے ذاتی مصروفیات کی بنا پر مشاعروں میں شرکت ترک کر دی تھی۔اﷲ کریم نے اُسے ذوقِ سلیم سے متمتع کیا تھا۔علمِ عروض کا وہ ماہر تھا اور طالب علموں کے کلام پر اصلاح بھی دیتا تھا ۔اپنے ذہین شاگردوں کی کلام کی اصلاح کر کے وہ سکون محسوس کرتا۔وہ چربہ اور سرقہ کے سخت خلاف تھا۔ امیر اختر بھٹی کے گھر ایک شعری نشست میں کچھ متشاعر بھی پہنچ گئے اور نہایت ڈھٹائی سے اپنے چربے اور سرقے پیش کرنے لگے۔اِن چربہ ساز ،سارق،مثنیٰ اور عقل و خرد سے تہی جعل سازوں کا کلام سُن کر امیر اختر بھٹی کو بہت رنج ہوا ۔اس شعری نشست کے اختتام پر امیر اختر بھٹی نے شہر کے بزرگ نقاد حکیم احمد بخش نذیر سے پوچھا :
’’میں نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ پرورشِ لوح و قلم کرتا رہوں ۔ اکثر لوگ میری ادب نوازی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔میری اس کاوش کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘
حکیم احمد بخش نذیرنے کہا’’میں کیا اور میری رائے کیا ! ممتازمزاح گو شاعرا حمق پھپھوندوی کو اسی قسم کے ایک مشاعرے میں کلام پڑھنے کے لیے بُلایا گیا ۔شاعروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔اس مشاعرے میں احمق پھپھوندوی نے یہ شعر پڑھا تو محفل کشتِ زعفران بن گئی:
ادب نوازیِ اہلِ ادب کا کیا کہنا
مشاعروں میں اب احمق بُلائے جاتے ہیں

اس واقعے کو سُن کر گدا حسین افضل مسکر ا یا،اُس کی مسکراہٹ میں ہمیشہ کی طرح ترحم کا عنصر بھی شامل تھا۔جسے ہدفِ ملامت بنایا جا رہا تھا اُس کے ساتھ ا صلاحی مقصد کے تحت ایک اُنس بھی ظاہر کیا گیا’’بادی النظر میں تو احمق پھپھوندوی کا اشارہ اپنی طرف ہے لیکن اس سے دُور کے معنی مراد ہیں۔یہی ایہام اس شعر کو پُر لطف بنا دیتا ہے۔ معاشرتی زندگی کی نا ہمواریوں ،بے اعتدالیوں ،تضادات اور کجیوں کے ہمدردانہ شعور کو فن کارانہ انداز میں اُجاگر کرنا ہی خالص مزاح کی پہچان ہے۔‘‘

جھنگ کے معروف قانون دان اور ادیب سجاد بخاری نے گدا حسین افضل کی علمی ،ادبی اور فلاحی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔دونوں وسیع المطالعہ ادیب تھے۔سال 2002کے اوائل کی بات ہے سجاد بخاری اور چند دوست گدا حسین افضل کے ہاں دعوت پر پہنچے ۔سجاد بخاری نے گیبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب کے بارے میں کہا:
’’گیبریل گارسیا مارکیزکی طلسمی حقیقت نگاری،سامراج شکنی اور پسپاریت پسندی کا میں مداح ہوں ۔ان دنوں میں اُس کی1982 میں شائع ہونے والی ایک مشہور کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔اس معرکہ آرا کتاب (Chronicle of a Death Foretold)میں وہ اپنے فن کی بُلندیوں پر ہے۔‘‘

یہ کہہ کرسجاد بُخاری نے یہ کتاب گدا حسین افضل کے سامنے میز پر رکھ دی۔ہم سب بڑی دلچسپی کے ساتھ یہ گفتگو سُن رہے تھے ۔گدا حسین افضل نے کہا:
’’میں یہ کتاب اور اس کا پنجابی ترجمہ بھی پڑھ چُکا ہوں ۔‘‘
سجاد بُخاری نے چونک کر کہا ’’اس کتاب کا پنجابی ترجمہ کب اور کس ادیب نے کیا ہے ۔مجھے یہ معلوم نہیں ۔‘‘
یہ سُن کر گدا حسین افضل نے اپنی الماری سے ایک کتاب نکالی اور سامنے میز پر رکھ دی۔اس کتاب کا نام تھا :
’’پہلوں توں دسّی گئی موت دا روزنامچہ‘‘ مترجم: افضل احسن رندھاوا
’’یہ ترجمہ ضرور پڑھنا ،اس میں مترجم نے اپنے دل نشیں اسلوب کے اعجاز سے ترجمے کو تخلیق کے درجے تک پہنچا دیا ہے‘‘
سجاد بُخاری کی آنکھیں ممنونیت کے جذبات سے بھیگ بھیگ گئیں اوراُس نے گدا حسین افضل کو گلے لگا لیااور کہا:
’’اس وقت جھنگ میں گدا حسین افضل ہی عالمی ادب کا نباض ہے ،میں اسے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔‘‘
ہم سب دوست اس واقعے سے بہت متاثر ہوئے اور گدا حسین افضل کے تبحرِ علمی اور وسیع مطالعہ کے قائل ہو گئے۔

گدا حسین افضل نے ہمیشہ یہ کوشش کی دردمندوں اور ضعیفوں سے بے لوث محبت کا سلسلہ جاری رہے۔غلام قاسم خان کی ترقی کا معاملہ جب معلق ہو گیا تو گدا حسین افضل نے اُسے دلاسا دیا ور ہر حال میں راضی بہ رضا رہنے کی تلقین کی ۔غلام قاسم خان کے ساتھ شقاوت آمیز نا انصافی یہ ہوئی کہ اُسے اس کا جائز حق نہ ملا ۔ اس کے باوجود اس درویش منش انسان نے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا اور صبر کی ر وایت میں لبِ اظہار پر تالے لگا لیے ۔اُس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور وہ لیکچرر ہی ریٹائر ہو گیا جب کہ اس سے جونئیر لوگ گھر کے قریب ہی اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے۔گدا حسین افضل اس بات پر بہت دل گرفتہ تھا ۔اس نے ایک ملاقات میں غلام قاسم خان کو حکیم مومن خان مومن کا یہ شعر سُنایا:
پہنچے وہ لوگ رُتبے کو کہ مُجھے
شکوہء بختِ نا رسا نہ رہا

جھنگ میں مقیم ممتاز شاعر صاحب زادہ رفعت سلطان کے ذاتی کتب خانے میں نادر و نایاب کتب کا ایک ذخیرہ تھا۔صاحب زادہ رفعت سلطان جب شدید علیل تھے تو گدا حسین افضل اپنے معتمد ساتھیوں دیوان احمد الیاس نصیب اور مہر بشارت خان کے ہم راہ عیادت کو پہنچا۔ گورنمنٹ کالج ،جھنگ سے گدا حسین افضل والہانہ محبت کرتاتھا۔وہ اس عظیم مادرِ علمی کی ترقی اور نیک نامی کے لیے مقدور بھر کوشش کرتا رہا۔اس موقع پر صاحب زادہ رفعت سلطان سے اُن کے ذاتی کتب خانے کی اہمیت اورافادیت پر بھی بات کی اور استدعا کی کہ یہ نادر کتب گورنمنٹ کالج ،جھنگ کو عطیہ کے طور پر دے دی جائیں ۔صاحب زادہ رفعت سلطان نے اس پر آمادگی ظاہر کی ۔اس کے بعد گورنمنٹ کالج جھنگ کے مر کزی کتب خانہ کے مہتمم ملک ظہور حسین نے مرکزی کتب خانے میں ’’گوشہء صاحب زادہ رفعت سلطان‘‘مختص کر دیا ۔اس گوشے میں موجود کتب سے محقق اور طالب علم استفادہ کرتے ہیں۔ چند ماہ بعدصاحب زادہ رفعت سلطان خالق حقیقی سے جا ملے ۔اُن کے کتب خانے کی حفاظت کا یہ کام گدا حسین افضل کی مساعی کا مرہونِ منت ہے۔

ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا گدا حسین افضل کا معمول تھا۔اُس کے بعد بے لوث محبت ،خلوص ،ایثار ،وفا اور دردمندی کے سب ارفع معائر خیال وخواب بن گئے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ گدا حسین افضل جیسے نیّرِتاباں سدا روشنی کا سفر جاری رکھتے ہیں ،اُن کا نام اور کام اندھیروں کی دسترس سے ہمیشہ دُور رہتاہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس دھوپ بھری دنیا میں زندگی کی اُداس راہوں پرہم اُفتاں و خیزاں اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں لیکن ہم اپنے رفتگاں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور دلوں کو اُن کی یاد سے منور کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ ایام ِگُزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتا ہوں تو تو دِل دہل جاتا ہے ۔کیسے کیسے چاند چہرے شبِ فرقت پر وارے گئے اور کتنے آفتاب و ماہتاب کنج لحد میں اُتارے گئے۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے وہ ماہرین تعلیم جن کی علمی فضیلت مسلمہ تھی اب ان کا نام ماضی کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔صرف گزشتہ چند برسوں میں ہم سمیع اﷲ قریشی ،محمد بخش گھمنانہ،عاشق حسین فائق،دیوان احمد الیاس نصیب،عباس ہادی چغتائی،کلبِ عباس ،رانا ظفر علی خان ،غلام رسول،مہر بشارت خان،عمر حیات بالی،عبدالستار چاولہ ،احمد حیات ،حسین احمد ارشد اورگداحسین افضل جیسے عظیم دانش وروں سے محروم ہو گئے ۔کتنے عظیم مسافر تھے جو اِس راہ گزر سے ہوتے ہوئے عدم کی جانب سدھار گئے۔ان کا ہر نقشِ پا عظمتِ کردار کا مظہر ہے ۔اسے دیکھنے کے لیے دلِ بینا ضروری ہے ۔موت سے کس کو رستگاری ہے ،ہماری ہستی حباب کے مانند ہے اور اس عالمِ آب و گِل کے جملہ مظاہر سراب کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ قدرت ِ کاملہ کی طرف سے اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا دئیے گئے ہیں اور ہم بے بسی کے عالم میں پتھرائی ہوئی آنکھوں سے راہِ رفتگاں کو دیکھتے رہ جاتے ہیں لیکن جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ دنیا کی سرائے چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب عازم ِ سفر ہونے والے مسافر پھر کبھی نہیں آتے۔ اب ہماری شکستہ پائی کا یہ عالم ہے کہ زندگی کی سُو نی راہوں پر اُن کی یادیں ہی سکون بخش ثابت ہوتی ہیں اور ہم زندگی بھر اُن کی یادوں کے سہارے وقت گزار دیتے ہیں۔فضاؤں میں اس طرح ان احباب کی یادیں پھیلی ہوئی ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے ان کی مانوس آواز کی باز گشت سُنائی دیتی ہے۔کوئی بھی عکس ہو ہم دل گرفتہ پس ماندگان کو اپنے رفتگاں ہی کے خدو خال دکھائی دیتے ہیں اور ہم جس محفل میں بھی جائیں اُن کے بارے میں بات کر کے تزکیہء نفس کی صورت تلاش کرتے ہیں۔ شاید اسی کا نام ہی تقدیر ہے جو ہر لمحہ ،ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے اور کارِ جہاں کے بے ثبات ہونے کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ فراق گورکھ پوری نے کہا تھا:
بُھولیں اگر تمھیں تو کدھرجائیں کیا کریں
ہررہ گزر پہ تیرے گُزرنے کا حُسن ہے

احباب کے دکھ درد میں شریک ہو کر اُن کی ڈھارس بندھانا گدا حسین افضل کا شیوہ تھا۔سچ تو یہ ہے کہ اس کے جگر میں انسانیت کا درد سما گیا تھا ۔وہ اپنی ذات میں سمٹا دکھائی دیتاتھا لیکن اس کی شخصیت میں سمندر کی سی وسعت اور بے کرانی موجود تھی۔وہ تعمیری سوچ پر یقین رکھتا تھا کسی کی تخریب سے اُسے کوئی غرض نہ تھی۔وہ سب کا خیر خواہ تھا اور ہر عزیز کے دکھ ،صدمے اور رنج و کرب میں اُس کی غم خواری کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ کوئی بیمار ہوتا گدا حسین افضل اس کی عیادت کو پہنچتا ۔جب کسی کی رحلت کی خبر سنتا تو وہ رنج و الم کی تصویر بنا سوگوار خاندان کے پاس تعزیت کے لیے پہنچتا، سوگوار جب جنازہ قبرستان لے جاتے تومیّت کو کندھا دیتا ،نماز جنازہ میں شرکت کرتااور سوئم اور چالیسویں میں شامل ہو کر دعائے مغفرت کرتا۔ایسے الم ناک مواقع پر اُس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برستیں ور وہ شدت غم سے نڈھال ہو جاتا۔پروفیسر غلام قاسم خان کی بڑی بیٹی سجیلہ مہوش جو بی ۔اے میں زیرِ تعلیم تھی ،حرکتِ قلب بند ہو جانے کے باعث داغِ مفارقت دے گئی۔گدا حسین افضل اُسی وقت اپنے دوست کے گھر پہنچا ۔جب اس نے سوگوا ر خاندان کی آہ و زاری کا عالم دیکھا توپُھوٹ پُھوٹ کررونے لگااور کہا اس جان لیوا صدمے پر تلقینِ صبر بے دردی کے مترادف ہے اگر ہم رو رو کر اپنے جذباتِ حزیں کا تزکیہ نہ کریں تو اس سانحہ کے باعث ہماری موت بھی واقع ہو سکتی ہے ۔سب لوگوں کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں تھی اور ہر عزیز کا دل اشک بار تھا۔ شہر میں جب بھی کوئی عزیز داعیء اجل کو لبیک کہتا اُس کے سب لواحقین وہاں اکٹھے ہوتے ہم نے گدا حسین افضل کو وہاں سب سے پہلے پہنچتے دیکھا۔وہ رضاکارانہ طور پر سب انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتااور تعزیت کے لیے آنے والے سوگواروں کے جذبات کا خیال رکھتا۔میں نے اُسے غلام علی خان چین،عبدالغنی،محمد شیر افضل جعفری،رام ریاض ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،معین تابش ،ڈاکٹر محمد کبیر خان،اﷲ دتہ سٹینو،حکیم احمد بخش نذیر (چار آنے والا حکیم)،اﷲ دتہ حجام ،مرزا محمد وریام ،محمد بخش گھمنانہ،مہر بشارت خان ،احمد تنویر،بیدل پانی پتی،حکمت ادیب اور دیوان احمد الیاس نصیب کے سانحہء ارتحال پر کام کرتے دیکھا تواس کی عظمت کے نقوش مزید گہرے ہو گئے۔ایسے مواقع پر وہ تقدیر کے ہاتھوں لگنے والے زخموں کو ناقابلِ اندمال قرار دیتے ہوئے یہ شعر ضرور پڑھتا :
چاک کوتقدیر کے ممکن نہیں ہونا رفُو
تا قیامت سوزنِ تدبیر گر سیتی رہی

اﷲ کریم نے گدا حسین افضل کو ایک اعلا جمالیاتی حِس سے متمتع کیا تھا ۔وہ حُسنِ فطرت کارمز آشنا بھی تھا اور اُس کے وسیلے سے وہ جمالیاتی سوز و سرور حاصل کر کے وہ اپنی شخصیت اور اسلوب کو رنگ ،خوشبو اور حُسن و خوبی کے تمام استعاروں سے مزّین کرتا۔نئی نسل کو اُس نے اپنے مستقبل کے خوابوں کی صُورت گری اور زندگی کے مشاہدات اور تجربات کی حُسن کاری کااحساس و ادراک عطا کرنے میں ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔وہ بو لتا تو باتوں سے پُھول جھڑتے۔وہ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل دکھانے پر قادر تھا۔ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اُس نے پاکستان کی نئی نسل کی صحیح تربیت پر پُور ی توجہ دی اور خُونِ جِگر دے کر اُسے پروان چڑھایا۔اپنی موثر تدریس سے اُس نے نئی نسل میں ایک نئی روح پُھونک دی۔اپنے ذہن و ذکاوت کی دردمندی اور غمِ روزگار کے سوز سے اُس نے جو طرزِ فغاں ایجاد کی اُسے تدریس میں روحِ حیات کی حیثیت حاصل ہے۔اُس نے خبر دار کیا کہ ہم صدائے جرس کی جُستجو میں سر گرداں رہتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ ہاتھ یہ ہو جاتا ہے کہ ہم سکوت کے صحرا کے سرابوں میں آبلہ پا مسافر کے مانند بھٹکتے پھرتے ہیں۔ راہ گم کردہ مسافر منزل سے نا آشنا راہوں پر خاک بہ سر پھرتے ہیں اور ایسے کام کر گزرتے ہیں جواُن کے مکمل انہدام پر منتج ہوتے ہیں۔ہم کس کو اپنا حالِ دل سنائیں یہاں تو کوئی محرم ہی نہیں۔جب ہم تیر کھا کے کمین گاہ کی جانب نظر دوڑاتے ہیں تو پُرانے آشنا چہرے سنگِ ملامت لیے قہقہے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے گدا حسین افضل نے درِ کسریٰ پر صد ا لگانے سے ہمیشہ احتراز کیا ،اُسے معلوم تھا کہ ان کھنڈرات میں موجود جامد و ساکت حنو ط شدہ لاشیں زندہ انسانوں کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں۔جب بھی وہ خو دکو آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں کی زد میں تنہا دیکھتا تو وہ بے لوث محبت کا عصا تھام کرتنہائی کے پھنکارتے ہوئے ناگ کو کُچل دیتا اور اطمینان سے گھر پہنچ جاتا۔اس کا استدلال یہ تھا کہ ایثار ،محبت اورانسانی ہمدردی کے جذبات ایک شمع فروزاں کے مانند ہیں جو ایک فرد کو حصارِ ذات سے باہر نکل کرغیر ذات کے ساتھ قلبی تعلق اور معتبر ربط رکھنے کی راہ دکھاتی ہے ۔وہ علم ِ بشریات کا ماہر تھا ،اس لیے اُس نے فرد کی زندگی کو درپیش مصائب کا حل اخوت اور محبت میں تلاش کیا۔یہ محبت ہی ہے جو مہیب سناٹوں کا خاتمہ کرکے سفاک ظلمتوں اُمیدکی کرن ثابت ہوتی ہے۔

گدا حسین افضل نے اپنی ساری زندگی چار مرلے کے مکان میں گزار دی۔ آغازِ ملازمت کے وقت جو بائیسیکل خریدی تھی اسی پرسوار ہو کر وقت پر ڈیوٹی پر پہنچنا اس کا معمول تھا۔صبر و تحمل،استغنا اور قناعت اس مردِ درویش کے مزاج کا حصہ تھا۔ اس کا پرانا مکان اب ایک بڑے خاندان کی ضروریات کے لیے ناکافی تھا۔ جہاں نیا شہر ختم ہوتا ہے وہاں دور کھیتوں میں ایک نئی بستی بن رہی تھی۔یہاں زمین بھی قدرے کم قیمت پر دستیاب تھی ۔ریٹائر منٹ کے بعد پُرانے مکان کو فروخت کر کے ریٹائرمنٹ کے وقت جو رقم ملی،اس میں سے کچھ شامل کر کے گوجرہ روڈ پر ایک نسبتاّ بڑا رہائشی قطعہء اراضی خرید کر اس میں تعمیری کام کا آغاز کیا۔مکان ابھی نا مکمل تھا لیکن گدا حسین افضل اس میں منتقل ہو گیا ۔چند ماہ یہاں گزارے ہوں گے کہ اس کے نہ ہونے کی ہونی نے سب کو خون کے آنسو رُلا دئیے۔اب گدا حسین افضل نے اس نئی بستی سے بھی دُور گوجرہ روڈ پر ایک نئی بستی بسالی ہے اور کاتب ِ تقدیر نے حشر تک اُس کے وہاں قیام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دُور بسائی ہیں بستیاں

تعلیم نسواں اور اعلا سطح پر مخلوط تعلیم کی حمایت میں گدا حسین افضل نے متعدد لیکچرز دئیے۔ اُس نے اپنی بیٹیوں کو بھی پوسٹ گریجویٹ سطح کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج ،جھنگ میں داخل کرایاجہاں مخلوط تعلیم ہے۔ان فطین بیٹیوں نے یہاں سے اُردو اور انگریزی ادب میں ایم۔اے کیااور اب شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔گدا حسین افضل کو عالمی کلاسیک ، مشرقی تنقید،مغربی تنقید اور لسانیات پر عبور حاصل تھا۔و ہ جدیدیت ،ما بعد جدیدیت، ساختیات ،پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل پر کامل دسترس رکھتا تھا۔ ان موضوعات پر اس کے لیکچرز گنجینہء معانی کا طلسم تھے۔ اس نے فرانسیسی ماہرین لسانیات کی کتب کے انگریزی تراجم پڑھے تھے ۔ان سے جو معلومات اخذ کیں انھیں اپنے لیکچرز میں بڑی صراحت سے بیان کیا۔ان کے شاگرد نہایت توجہ سے یہ لیکچرز سنتے اور ان سے بھرپور استفادہ کرتے تھے۔سوئٹزرلینڈ کے مشہور ماہر لسانیات سوسئیر(Saussure)کی طرح گدا حسین افضل نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔سوسئیر(پیدائش:26-11-1857وفات:22-2-1913)کی وفات کے بعد اس کے لیکچرز کو شائع کیا گیا ۔یہ لیکچرز اب کتابی صورت میں ’’Course in General Linguistics‘‘کے نام سے شائع ہو چُکے ہیں۔ گدا حسین افضل کے لیکچرز اُس کے شاگردوں کے پاس موجود ہوں گے۔اگر ان لیکچرز کو اکٹھا کر کے کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو یہ علم و ادب کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

مادی دور کی لعنتوں نے معاشرتی زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔ہوسِ زر نے نوعِ انساں کو خود غرضی ،انتشار اور بے حسی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔مسلسل شکستِ دل کے باعث وہ بے حسی پید ہو چُکی ہے کہ کارواں کے دِل سے احساس ِ زیاں عنقا ہو تا چلا جا رہا ہے۔عادی دروغ گو اور سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا مخبوط الحواس درندوں نے رُتیں بے ثمر ،کلیاں شرر ،آہیں بے اثر ،آبادیاں پُر خطر ،زندگیاں مختصر اورگلیاں خُوں میں تر کر دی ہیں ۔ ابن الوقت لوگ زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو پسِ پشت ڈال کرذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مارِ آستین عام ہیں ان پر خدا کی مار پڑے۔ گُرگ آشتی بڑھ رہی ہے اب دوستی اپنا اعتبار کھو چُکی ہے۔ اس قسم کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات نے گدا حسین افضل کو شدید تشویش میں مبتلا کر رکھا تھا۔ہوائے جورو ستم میں بھی اُس نے حوصلے ،اُمید اور وفا کی شمع کو فروزاں رکھااور اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا ۔ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چُھپا کر وقت گُزارا۔ قادرِ مطلق نے گدا حسین افضل کو ایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا۔وہ ہوا کا رُخ پہچان کر اپنے ذوق ِ سلیم کو نئے زمانے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ کرتا رہا۔ اُس نے کمپیوٹر ،موبائل فون اور انٹر نیٹ کی اہمیت کو محسوس کیااور ان ایجادات سے مستفید ہونے پر اصرار کیا۔علامہ اقبال سا ئبر لائبریری اور دنیا کی دوسری اہم ویب سائٹس سے اُس نے بھر پُور استفادہ کیا۔اُس کے پاس اہم ادبی مجلات بذریعہ ڈاک بھی آتے تھے لیکن کچھ ایسے مجلات بھی تھے جن سے اُس نے انٹر نیٹ کے ذریعے استفادہ کیا۔دنیا کے ممتاز ادیب فون اور ای ۔میل کے ذریعے اُس کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے اور اہم لسانی مباحث کے بارے میں اُس سے رہنمائی کی استدعا کرتے۔وہ زندگی بھر کتابوں کے مطالعہ کو اپنی اولین پسند قرار دیتا رہا ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے موجودہ زمانے میں اُس نے اپنے اس ذوق کی تسکین کے لیے یہ نئی تدبیر اپنائی کہ وہ اپنی مطلوبہ کتاب کو انٹرنیٹ پر تلاش کرتا اوراسے ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے کمپیوٹرمیں محفوظ کر لیتااور اس کا مطالعہ کرتا۔اگر ضرورت محسوس کرتا توکمپیوٹرکے ساتھ جُڑے پرنٹر کے ذریعے کتاب کے مطلوبہ موضوعات کے پرنٹ بھی نکا ل لیتا۔اس کی یہ نئی دلچسپی اپنی اصلیت کے اعتبار سے اُس کی کتب بینی کی پرانی عادت کا نعم البدل ثابت ہوئی جو ایک مستحکم شخصیت کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے ۔اسی بنا پر میں نے اُسے ایک لائقِ صد رشک مستحکم شخصیت کا حامل ادیب قرار دیا ہے۔

جون دو ہزار چودہ کے وسط میں اُسے معدے میں گرانی محسوس ہوئی جو بعد میں جلن میں بدل گئی۔ جھنگ میں علاج جاری رہا لیکن افاقہ نہ ہوا۔اس کے بعد وہ اپنے بڑے بیٹے کے ہم راہ طبی معائنے اور موثر علاج کی غرض سے راول پنڈی پہنچا۔علاج معالجہ جاری تھا لیکن معالجوں کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور کسی دوا نے کام نہ کیا۔ اُسے خون کی اُلٹی آئی،معدہ غذا قبول ہی نہ کرتا اورجسمانی کم زوری مسلسل بڑھ رہی تھی،یہاں تک کہ وہ بے ہوشی کی کیفیت میں چلا گیا ۔جب ہوش میں آیا تو اُس نے اپنے دیرینہ ساتھیوں غلام قاسم خان، اشرف بھٹی،محمد رمضان، مرزا محمد یامین ساحر،محبوب علی خان ،عبدالعزیز،حاجی محمد ریاض،ظفر اقبال،سخاوت ،ابوذرغفاری،حاجی محمد یونس،فقیر محمد ،معراج محمد اوراعجاز حسین کو یاد کیا اور ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔اُس کے بیٹے نے پریشانی کے عالم میں کہا:
’’اس وقت ہم جھنگ میں نہیں بل کہ آپ کے علاج کے سلسلے میں راول پنڈی میں ہیں۔ان بزرگوں سے مُلاقات اتنی جلد ممکن نہیں ‘‘
گدا حسین افضل نے نحیف آوازمیں کہا:’’اچھا اﷲ بیلی میرے ساتھیو!اب قیامت کو ملیں گے‘‘
سب ماہر معالج اس بات پر متفق تھے کہ گدا حسین افضل اب چراغِ آخرِ شب ہے ۔

اسی روز گدا حسین افضل کو جھنگ پہنچا دیا گیا۔ گدا حسین افضل نے جھنگ پہنچ کرآنکھ کھولی وہاں موجود سب احباب کو خدا حافظ کہا، کلمہء طیبہ کا ورد کیا اور اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اُس کے چہرے پر وہی سد ا بہار مسکراہٹ تھی اور اُس کے نرم ہونٹ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے تبسم کی کیفیت ہے۔ اسی وقت ٹیلی فون کے ذریعے تما م احباب کو گدا حسین افضل کے سانحہء ارتحال سے مطلع کر دیا گیا۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے تمام اساتذہ،ملازمین ،ہزاروں طالب علم اور بڑی تعداد میں معززین شہر گدا حسین افضل کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ سب لوگ اس الم ناک سانحے پر دل گرفتہ تھے بعض لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شہر کا شہر ہی سوگوار ہے ۔ غلام قاسم خان نے زار و قطار روتے ہوئے کہا:
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دِن اور
نمازِ جنازہ کے بعد مولوی صاحب نے رقت آمیز لہجے میں کہا:
’’گدا حسین افضل اب عدم کے اس سفر پر روانہ ہوچکا ہے جو دنیا میں موجود سب زندہ انسانوں کو درپیش ہے ۔اپنی زندگی میں اگر اُس نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو اُسے معاف کر دیا جائے ۔اگر کسی نے اُس سے قرضہ لینا ہو تو وہ ابھی اوراسی وقت اُس کے بیٹو ں سے وصول کر سکتاہے۔‘‘

ایک نو جوان طالب علم کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی ،وہ گلو گیر لہجے میں بولا ’’گداحسین افضل توکسی کامقروض نہیں ،وہ شخص جس نے چالیس سال تک لاکھوں طالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا وہ ہمارا عظیم محسن ہے۔ہم سب اُس کی محنت ،خلوص اور شفقت کے مقروض ہیں ۔اُس عظیم انسان اور جلیل القدر معلم کے بارِ احسان سے ہماری گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ہم اس کا قرض کیسے ادا کر سکتے ہیں ؟‘‘
سب لوگوں نے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اورگدا حسین افضل کے لیے دعا کی۔لحد تیار تھی ،تہذیب و شائستگی کا پیکر اورعلم و ادب کا ماہِ مُنیر لحد میں اُتار دیا گیا ۔سب احباب نے پُر نم آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں سے اس عظیم انسان کی قبر پر پُھولوں کی پتیاں نچھاورکیں۔مرزا محمد یامین ساحر نے گدا حسین افضل کی دعائے مغفرت کے بعد علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا :
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہء نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 610153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.