امتیازی سلوک

حقیقت کو جھٹلانے یا اُس سے منہ پھیر لینے سے سچائی نہ چھپتی ہے اور نہ دبتی ،ہمارے ملک میں اگر کوئی انگریز نیکر پہن کر یا کوئی گوری مختصر لباس میں نظر آئے ،سر عام بوس وکنار کیا جائے یا ہماری آنکھوں کے سامنے حرام غذا کھائے تو ہمارا کیا رد عمل ہو گا؟سب یہ ہی کہیں گے کہ اِس غیر ملکی کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں یہ ہمارے معاشرے میں بے شرمی اور غلاظت پھیلا رہا ہے اور ایک غلیظ ، بے شرم ،بے حیا یا گندہ فارنر ہے اسے فوری ملک بدر کیا جائے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہاتھا پائی کی نوبت آجائے کہ تم ہمارے ملک میں اپنے ملک کے غلیظ کام نہیں کر سکتے لہذٰا یہاں سے دفع ہو جاؤاور یہ گندگی یہاں مت پھیلاؤ، تو اُس غیر ملکی پر کیا بیتے گی ؟وہ یہی سوچے گا کہ کتنی تنگ نظر اور سنگ دل قوم ہے لیکن اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو اُس غیر ملکی کو اپنے ملک کے کام کسی دوسرے ملک اور بالخصوس اسلامی ملک میں کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور اُس ملک کے ماحول ، نظام اور رنگ ڈھنگ کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے ،یہاں یہ کہنا مناسب ہو گا جیسا دیس ویسا بھیس۔

اسی کی دہائی تک تو جرمنی میں کوئی اودھم یا کسی قسم کی افراتفری اتنی شدت سے نہیں پھیلی تھی جتنی کہ آج ہے ،لیکن رفتہ رفتہ تارکینِ وطن کی آمد کہ بعد انہوں نے اس ملک کے قوانین کو از سرِنو نامنظور کیا اور اپنی مرضی کی زندگی یا جیسا وہ اپنے ممالک میں کرتے تھے کرنے لگے تو جرمنوں کو یہ سب ناگوار گزرا اور انہوں نے تمام غیر ملکیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا ۔

آٹھ اپارٹمنٹ پر مشتمل رہائشی بلڈنگ کے ایک اپارٹمنٹ میں ایک نیا غیر ملکی مقیم تھا جو ہر شام کھانا بناتے ہوئے لہسن کا بے دریغ استعمال کرتا جس کی بو تمام بلڈنگ میں پھیل جاتی اور ہمسایوں کو ناگوار گزرتی کئی بار اسے سمجھایا کہ کھانا بناتے ہوئے کچن کا دروازہ بند رکھا کرو اور دروازے کے نیچے کوئی کپڑا وغیرہ بچھا دیا کرو تاکہ تمھارے کھانے کی بو بلڈنگ میں نہ پھیلے اور دوسرے رہائشی اس سے متاثر نہ ہوں لیکن وہ سنی ان سنی کر دیتا تو مجبوراًہمسایوں نے پولیس کو فون کیا اور اس غیر ملکی کو جرمانہ کیا گیا تب اسے سمجھ آئی کہ وہ اِس ملک میں اپنی مرضی یا کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جس سے دیگر لوگ متاثر ہوں اور معقول انتظام کیا۔جرمنوں کو غیر ملکیوں سے اور بھی بہت شکایات رہیں جیسے کہ وہ رات گئے لاؤڈ میوزک سنتے ہیں،صفائی کا خیال نہیں رکھتے ،بہت اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہیں یا بچوں کی تربیت ٹھیک سے نہیں کرتے انہیں کھلا چھوڑ رکھا ہے یا ان پر تشدد کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ،کچھ لوگوں کی ان غلطیوں سے دیگر غیر ملکیوں کانام بھی بدنا م ہوا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ پورے ملک میں غلیظ غیر ملکی کا نعرہ لگنا شروع ہو گیا ہر درودیوار پر لکھا گیا ’’ ان غلیظ غیر ملکیوں کو اس ملک سے باہر نکالا جائے ‘‘ ۔

حکومتوں کی حکمت عملی ،نئے قوانین اور ثقافتی روابط سے رفتہ رفتہ تمام معاملات حل کر دئے گئے اور کسی کو شکایت نہ ہوئی ،لیکن آج جو مسائل ان تار کین وطن کے بچوں کو ردپیش ہیں وہ گزشتہ سالوں کے مسائل یا معاملات سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور حساس ہیں کیونکہ یہ بچے یہاں پیدا ہوئے تعلیم حاصل کی یہ کہنا مناسب ہے کہ ان بچوں کے والدین غیر ملکی ہیں لیکن یہ بائی برتھ جرمن تو ہیں لیکن ان کے ناموں اور جلد کی رنگت نے ان کیلئے بے شمار مسائل کھڑے کر دئے ہیں ۔

جرمن اور غیر ملکیوں کے بچے ایک ساتھ کنڈر گارڈن سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں کئی بچے کنڈرگارڈن کے بعد پرائمری اور سیکنڈری سکول کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ حاصل کرتے ہیں کیونکہ سب کا تعلق ایک ہی محلے یا علاقے سے ہوتا ہے روزانہ صبح ساتھ سکول جانا ایک ہی کلاس اٹینڈ کرنا کھیل کود ، لڑائی جھگڑا اور جان پہچان کے بعد دوستی بھی ہو جاتی ہے ، سکینڈری سکول ختم ہونے سے چھ ماہ قبل سب بچے اپنی مرضی ، خواہش اور جس پروفیشن میں دلچسپی ہو اسکا کورس کرنے کیلئے جگہ تلاش کرتے ہیں جہاں انہیں تین سال کورس کرنا ہوتا ہے ،اور تین سال بعد اکثر وہ فرمز جہاں کورس کیا جاتا ہے انہیں مستقل جوب دے دیتی ہیں ایسا کم ہی ہوا کہ تین سال بعد فرم نے انہیں کورس کرنے کے بعد نکال دیا ۔آج کل یہ موضوع جرمنی میں نہایت شدت اختیار کر گیا ہے کہ جو مارکس لے کر ایک جرمن سکول سے فارغ ہوا تھا وہی یا اس سے بہتر مارکس ایک غیر ملکی نے بھی حاصل کئے دونوں نے ایک ہی فرم میں کورس سیکھنے کی درخواست دی ، انٹر ویو کیلئے دونوں کو مختلف اوقات میں مدعو کیا گیا لیکن اچھے مارکس ہونے کے باوجود اس غیر ملکی کو کورس کرنے کی جگہ نہیں دی گئی ۔ چند ہفتوں سے جرمنی کے مختلف شہروں میں یہ خبر ہیڈلائین بنی ہوئی ہے کہ ’’ علی یا ٹومی ‘‘ ۔دونوں میں سے کس کا انتخاب کیا جائے ؟۔

فرمز مالکان ایپلیکیشن فارم پر علی نام یا اس کی تصویر دیکھتے ہیں تو اس کی درخواست مسترد کر دیتے ہیں حالانکہ اس کے مارکس اچھے ہوتے ہیں ٹومی کے پاس کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ نام اور سفید رنگ سے جرمن ہے اس لئے اسے کورس کی جگہ یا جوب دے دیا جاتا ہے جو کہ سراسر نا انصافی ،غیر ملکیوں سے نفرت اور خلافِ قانون ہے ،اِس موضوع پر ایک چھوٹا سا مضمون پیش خدمت ہے ۔

’’ علی یا ٹومی ‘‘۔ایک رپورٹ کے مطابق تارکین وطن خاندانوں کے نوجوان لوگوں کو واضح طور پر جرمنی میں بہت سی تربیتی کمپنیز کی طرف سے صرف نام کے خلاف امتیاز برتا جاتا ہے تقریباًایک ہزار ٓٹھ سو کمپنیز سے پیشگی معلومات کیلئے ایک ٹیسٹ لیا گیا ہے ۔

اٹھارہ سالہ ایمان ہنوور کے ایک سکول کی طالبہ ہے اور اس پیچیدہ مسئلے سے آگاہ ہے ،اِس سال اُس نے سکینڈری سکول پاس کرنے اور اچھے مارکس کا سرٹیفیکیٹ لینے کے بعد سکول چھوڑا ہے اس کا کہنا ہے ۔ ’’ میں نے چالیس سے زائد ایپلی کیشنز مختلف فرمز میں مختلف کورسز کے لئے بھیجی ہیں کئی فرمز میں پینٹر یا رنگ روغن کرنے کے علاوہ اوفس مینجمنٹ کیلئے بھی درخواستیں دی ہیں لیکن ابھی تک کسی تربیتی کورس کیلئے جگہ نہیں ملی ‘‘ ۔کیونکہ اس کے والدین پولینڈ اور عرب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ، ایمان کا کہنا ہے یہ سن کر کہ آپ مکمل جرمن نہیں ہیں اسلئے آپ کو جگہ نہیں دی جا سکتی ،بہت دکھ اور برا محسوس ہوتا ہے ۔

لڑکی کے تجربات اینٹگریشن اور مائیگرینٹس کی ماہر کونسل کی تحقیق کے نتائج کے عین مطابق ہیں ، کونسل کے مطابق انہوں نے ایک ہزار سات سو چورانوے کمپنیز کو دو درخواستیں بھیجیں ، ایک لڑکے کا جرمن اور دوسرے کا ترکی نام تھا ۔نتیجہ۔درخواستیں موصول ہوتے ہی انہیں تقسیم کر دیا گیا ، ترکی لڑکا اچھے مارکس کا حامل تھا لیکن کمپنی نے اس سے کم مارکس والے جرمن لڑکے کو انٹر ویو کیلئے مدعو کیا ۔
ایڈوائزری کونسل کے ریسرچ ڈائریکٹر جان شنائیدر نے انٹرویو میں بتایا اسلامی نام والوں کو کئی بار درخواست بھیجنا پڑے گی جبکہ جرمن نام والے کو ایک بار ، انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں ترکی درخواست دہندگان کو انٹرویو کیلئے بہت کم دعوت دی جاتی ہے یا کئی دفعہ مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے اور اسکی درخواست موصول ہونے کا جواب تک نہیں دیا جاتا اگر جواب دیا جاتا ہے تو اس امید وار کو کورس سے مسترد کیا ہوتا ہے، چھوٹی کمپنیز میں امتیازی سلوک بدتر ہے ، عام طور پر ترکی لڑکے چھوٹی کمپنیز میں موٹر مکینک کے کورس کیلئے درخواست بھیجتے ہیں لیکن کئی لڑکے اور لڑکیاں اوفس جوب کے لئے بھی ،لیکن وہاں کورس کرنے کی آسامی خالی ہوتے ہوئے بھی انکے ناموں کو مد نظر رکھ کر مسترد کیا جاتا ہے اور جگہ کسی جرمن نام والے کیلئے خالی رکھی جاتی ہے، اس کے برعکس بڑی کمپنیز میں امتیازی سلوک بہت کم ہے یا سرے سے موجود نہیں ، خاص طور پر اوفس جوب میں امتیازی سلوک کی رپورٹ موجود نہیں ، شنائیدر کا کہنا ہے کہ کمپنیز میں زیادہ سے زیادہ بین الثقافتی صلاحیت کی اشد ضرورت ہے مزید براں درخواستیں نام اور تصویر کے بغیر گمنام بھیجی جانی چاہئیں جیسے دوسرے چند یورپی ممالک میں رائج ہے اس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ نام اور تصویر کے بغیر ہر درخواست دہندہ کمپنیز کیلئے مساوی ہو گا صرف اسکی تعلیم اور مارکس کو ہی مد نظر رکھ کر انٹر ویو لیا جائے گا اور سلیکشن ہو گی۔شنائیدر کے اس بیان کو سننے اور پڑھنے کے بعد لوگوں کا کافی رد عمل سامنے آیا ہے کچھ اسے درست اور کچھ سراسر بے بنیاد گردان رہے ہیں فی الحال یہ مسئلہ برلِن میں زیر بحث ہے جسے مکمل ہونے میں وقت درکار ہے ۔

آج سے پینتیس سال قبل جوب سینٹر ’’ ایمپلائمنٹ اوفس ’’ والے دفتروں میں سارا سار دن مکھیاں مارا کرتے تھے کیونکہ سب لوگ بر سر روزگار تھے اور کوئی جوب کی تلاش میں ان کے پاس نہیں جاتا لیکن آج اسی اوفس کے لوگوں کے پاس سر کھجانے کی فرصت نہیں کہ تین میلین بے روزگاروں کو کہاں سے جوب مہیا کریں ؟ ۔صبح سات سے دن بارہ بجے تک پبلک سروس اور بارہ بجے سے شام پانچ بجے تک فائلوں میں سر کھپاتے ہیں لیکن کسی کو جوب مہیا نہیں کر سکتے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں مشینوں اور جدید ٹیکنالوجی کے سبب بے روزگاری میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے جو کہ وقت اور حالات کو مد نظر رکھا جائے تو درست ہے ۔

’’ سکولز میں نسل پرستی رحجان ‘‘ ۔گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے سکول کا آخری دن تھا جرمن زبان سکھانے والی ترکی نژاد جرمن ٹیچر عائشہ سکول کے آخری دن پر خوش تھی وہ جلدی سے ایک طالب علم کے سرٹیفیکیٹ کو فائل میں ڈال کر بند کرنا چاہتی تھی جو اسی سکول میں اگلی کلاس میں جارہی تھی کہ اچانک ایک صفحے پر اس کی نظر پڑی ، عائشہ نے کہا کہ پڑھنے کے بعد مجھے ایک شاک لگا اور ایسا محسوس ہوا کسی نے سر پر ہتھوڑا مار دیا ہو ، عائشہ نے بتایا کہ اس صفحے پر لکھا تھا کہ لڑکی کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ ان کی لڑکی عائشہ کی کلاس اٹینڈ کرے وہ چاہتے تھے کہ ٹیچر جرمن ہو نہ کہ ترکی ،عائشہ نے رنجیدہ لہجے میں کہا کہ مجھے ان لوگوں کی ذہنیت اور سوچ پر نہایت افسوس ہوا لیکن کچھ کر نہیں سکتی ، حالانکہ نسل پرستی سکولز میں ممنوع ہے غیر ملکی ٹیچرز اور خاص طور پر ترکی ٹیچرز کو ترک مافیا جیسے الفاظ سے پکارا جاتا ہے کئی والدین اکثر گمنام طریقوں سے ہمیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کہ ’’ ہم ایک غیر متشدد جرمن خاندان ہیں ‘‘ کئی بار سکولز ایڈمنسٹریشن تک ان معاملات اور ناروا سلوک کا تذکرہ کیا لیکن سب ہمیں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں ، سب جانتے ہیں کہ نسل پرستی سکولز میں ممنوع ہے اور کوئی بھی اس سے تعلق نہیں رکھنا چاہتا اسکے باوجود ہمیں ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

جرمن سکولز کے ایک نیٹ ورک کونسل کی ممبر نے بتایا کہ ہم سب جانتے ہیں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کئی اساتذہ بھی طالب علموں کے خلاف امتیازی برتاؤ کرتے ہیں ، کلاس یا سکولز گراؤنڈ میں غیر ملکی زبان بولنے پر پابندی عائد ہے لیکن پھر بھی کئی طالب علم اور حتیٰ کہ اساتذہ بھی ایک دوسرے سے یا طلب علموں سے غیر ملکی زبان میں مخاطب ہوتے ہیں ۔

انیس سالہ انیلا نے بتایاکہ وہ اپنے مارکس کے بارے میں شش و پنج میں مبتلا تھی اور اپنے جرمن ٹیچر سے سوال کیا تو اس کا جواب تھا تمہیں منفی چار نمبر ملیں گے اگر تم اپنا سکارف اتار دو گی تو پلس تین نمبر پاؤ گی ، انیلا کا کہنا ہے یہ جواب سن کر وہ مزید پریشان ہو گئی کافی دیر سوچتی رہی کہ جو ٹیچر نے کہا اس پر عمل کروں یا نہ کروں لیکن کچھ دیر بعد فیصلہ کر لیا کہ اپنا سکارف نہیں اتاروں گی بھلے مجھے فیل کر دیا جائے ،اور میرے اس فیصلے پر مجھے تین کی بجائے چار نمبر پلس دئے ،وہ ان باتوں کو سکول ایڈمنسٹریشن تک پہنچانا چاہتی تھی لیکن عمل نہیں کیا کہ کہیں اسکا ٹیچر اسکے لئے واقعی کوئی مسئلہ نہ پیدا کرے ۔ یہ بھی نسل پرستی کی کیٹا گری میں شمار ہوتا ہے ، افہام وتفہیم کی کمی منفی نتائج اور خوف کا عالم پیدا کرتی ہے اکثر منفی سوال و جواب میں غلط فہمیاں ہوتی ہیں ، سکول نیٹ ورک کونسل کی ممبر کا کہنا ہے اس حساس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کیلئے ہیمبرگ میں قائم کمیٹی کو مطلع کیا گیا ہے جس میں تمام سکولز نیٹ ورک کے ممبران شرکت کریں گے ،اساتذہ کے بارے میں مزید معلومات جمع کرنے یا مدد حاصل کرنے کا پروگرام تشکیل دیا جائے گا مثال کے طور پر اساتذہ کی تربیت کس سٹیٹ انسٹی ٹیوٹ میں بین الثقافتی پروگرام کے تحت ہوئی اور یہ کہ تعصب اور امتیازی سلوک سے نمٹنے کیلئے کیا اقدام کئے جائیں ۔

اینٹی ڈسکری مینیشن ایجنسی اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ سکولوں میں امتیازی سلوک کے بارے میں طالب علم اپنے حقوق سے لاعلم ہوتے ہیں انہیں واقعات رونما ہونے کے بعد رابطے اور مشاورتی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے علاوہ ازیں اساتذہ کو مزید بیداری کی ضرورت ہے عام طور پر سکولز میں امتیازی سلوک نہیں ہوتا لیکن رونما ہونے کے بعد اسے احسن طریقے سے حل کرنے میں روکاوٹیں پیش آتی ہیں کیونکہ مختلف ممالک کے والدین اکثر سکول سسٹم کو سمجھ نہیں پاتے انہیں مزید جرمن کلچر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کئی تارکین وطن اپنے کلچر کو یہاں روشناس کرانے یا اپنے ممالک کے تعلیمی نظام کو مد نظر رکھ کر سوچتے ہیں اور اسی وجہ سے بچوں میں دو کلچر کو سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے ، ہمیں اپنا سکول سسٹم تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اساتذہ کی کارکردگی ، بین الثقافتی ، تعلیمی تحقیق کی شمولیت اور مساوی سلوک ایکٹ کو صحیع طریقے سے استعمال کرنے پر زور دینا ہے اور نسل پرستی کو روکنے کی کوشش کرنی ہے اس کی حمایت میں سب کو شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ہم نہیں چاہتے کہ نسل پرستی اور امتیازی سلوک بار بار ملک میں خاص موضوع بنا رہے بلکہ ملٹی کلچر کو قبول کیا جائے لیکن ریاستی قوانین پر بھی عمل درامد ہوں۔گزشتہ دنوں یہ خبر بھی عام ہوئی کہ ایک سکول ٹیچر نے توہین آمیز الفاظ میں کہا ’’ تم ترکی لوگ خصوصاً سکارف پہننے والے صرف صفائی کا کام کر سکتے ہو‘‘ ۔اس بیان پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس ٹیچر کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔

نسل پرستی اور امتیازی سلوک پورے یورپ میں پھیل چکا ہے اس کا صرف ایک ہی حل ہے ’’ جیسا دیس ویسا بھیس ‘‘ تارکین وطن کو چاہئے کہ اپنے کلچر کے ساتھ ساتھ مغربی کلچر کو بھی قبول کریں خاص طور پر بچوں کو سکھایا جائے کہ دوسرے ممالک یا کلچر سے تعلق رکھنے والے افراد سے بداخلاقی نہ کریں نہیں تو یہ بات بھی سچ ہے جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے ،علاوہ ازیں مغرب میں پیدا ہونے والے بچوں کو انکی عمر کی ایک حد تک آپ انہیں سمجھا سکتے ہیں ، کیونکہ ان کا مستقبل مغرب سے وابستہ ہے اسلئے ان پر زور زبردستی یا دباؤ ڈالنے سے انکی زندگی اور مستقبل میں روکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے سوچنا یہ ہے کہ ہم کیسے ان پیچیدہ اور حساس معاملات کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 226022 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.