عمران خان سنجیدہ سیاستدان کے روپ میں نظر آئیں نہ کہ گلو بٹ کے روپ میں

7 دسمبر 1970 ء کو پروگرام کے مطابق ملک بھر میں انتخابات کرائے گئے ‘ الیکشن کے انعقاد پر فوجی حکومت کو ہر طرف سے داد ملی ‘ کہا گیا کہ اس سے زیادہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوئے شاید مشرقی پاکستان کی حد تک یہ بات صحیح نہ تھی ‘ اس وقت ایک جرنیل نے انتخابات کے بعد ’’جل‘‘ کر کہا تھا کہ بے شک آزاد انتخابات تھے لیکن اتنے آزاد کہ ہر شخص کو آزادی تھی جتنے ووٹ چاہے وہ باکس میں ڈال آئے عوامی لیگ نے انتخابی مہم میں تشدد اور لاقانونیت کی مہم چلا کر میدان میں کوئی مد مقابل ہی نہیں رہنے دیا تھا مشرقی پاکستان کے 57 فیصد ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا جبکہ ہندو ووٹروں کی 100 فیصد تعداد پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچی اور ان سب نے عوامی لیگ کے حق میں ووٹ دئیے ۔

11 مئی 2013 ء کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور بقول تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے الیکشن کو ’’چُرا ‘‘ لیا گیا تو 11 مئی 2013 ء کے بعد تحریک انصاف نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف کیوں موثر اور منظم تحریک کا آغاز نہیں کیا گیا اور نہ ہی تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کے خلاف عدالتی ٹریبونل کو قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر فخرو الدین جی ابراہیم عمران کے انتہائی پسندیدہ شخصیت رہی ہیں پھر بھی دھاندلی کا راگ الاپنا سمجھ سے بالا تر ہے ‘انتخابات تحریک انصاف کی نظر میں مشکوک تھے تو پھر قومی اسمبلی سمیت سندھ ‘ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں حلف کیوں اُٹھایا ؟ پھرسونے پہ سہاگہ کہ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف نے اپنی صوبائی حکومت بھی قائم کی ‘ جو اس مثال کے مترادف ہے ’’کڑوا کڑوا تھو تھو ‘ میٹھا میٹھا ہپ ہپ ‘‘ جہاں جیت گئے وہاں الیکشن کمیشن درست اور جہاں ہار گئے وہاں الیکشن کمیشن مشکوک قرار دے دیا جائے ‘ تحریک انصاف کو سیاست کے اندر پختگی کی شدید ضرورت ہے ۔

لانگ مارچ ‘ ٹرین مارچ یا جلسے جلوس جمہوریت کا حسن ہوتے لیکن اس نازک اور اہم ترین موقع پر جب وطن عزیز میں ایک ایسی قوت کیخلاف پاکستان کی عسکری قیادت اور موجودہ حکومت نے آپریشن ’’ضرب عضب ‘‘ شروع کیا ہے جس نے اسلام کے چہرے کو اپنی ذاتی تسکین اور غیر ملکی قوتوں کو خوش کرنے کیلئے وطن عزیز میں خود کش دھماکوں سے بے گناہ اور نہتے لوگوں کی جانوں سے کھیلنے لگے ‘ فورسز پر حملے ‘ مساجد ‘ مزارات اور امام بارگاہوں جیسے مقدس مقامات تک کو نہ بخشا گیا جہاں ایک مسلمان اپنے رب کے سامنے سربسجود ہوتا ہے ان نام نہاد ’’ظالمان ‘‘ نے شریعت نہیں بلکہ پاکستان دشمنوں کے عزائم کو مکمل کرنے کا مشن تھا جس کے لئے ان ظالمان نے پاکستانی عوام کا جانی و مالی نقصان بھر پور انداز میں کیا ۔

اس وقت جب شمالی وزیر ستان میں ’’ ضرب عضب ‘‘ کے نتیجے میں اپنے گھروں کی قربانی دے کر آنے والے مہاجرین بے سروسامانی کے عالم میں پناہ گزین کیمپوں میں امداد کے منتظر ہیں اور موجودہ حکومت ‘ پاک فوج کے جوان ان مہاجرین کی بحالی میں مصروف ہیں یہاں پر یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ یہ ہجرت تاریخ عالم کی بہت بڑی ہجرت ہے جہاں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں پناہ گزین امدادی کیمپوں میں امداد کے منتظر ہیں ‘ ایسے میں تحریک انصاف کا حکومت کے خلاف لانگ مارچ آپریشن ضرب عضب کو سبوتاژ کر سکتا ہے کیونکہ حکومت جب عمران خان کے سونامی کو روکنے میں مصروف ہو گی تو آئی ڈی پیز کی طرف سے حکومت کی توجہ ہٹ جائے گی جس کے نتیجے میں لاکھوں مہاجرین انتہائی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں حکومت انتہائی مشکلات کے بھنور میں پھنس سکتی ہے دہشت گردوں کیخلاف آپریشن ’’ ضرب عضب ‘‘کا کوئی ٹائم فریم نظر نہیں آتا کیونکہ اس آپریشن میں مزید کتنا وقت لگ جائے قبل از وقت نہیں کہا جا سکتا لہٰذا خان صاب کو ’’لانگ مارچ ‘‘ کو ملتوی کر دینا چاہئے ۔

عمران خان صاحب کو اگر لانگ مارچ کرنے ہی تھا تو ملک کے بنیادی مسائل پر کرنا چاہئے تھا جس میں لوڈ شیڈنگ ‘ کرپشن ‘ بیروزگاری ‘ مہنگائی پر لانگ مارچ تحریک انصاف کی ساکھ کو مزید مضبوط کرتا بلکہ تحریک انصاف ایک سنجیدہ اور مضبوط اپوزیشن بن جاتی انتخابی دھاندلیوں پر تحریک اگر ایک سال قبل چلائی جاتی تو سمجھ میں آتی اس وقت ملک اس کی قسم کی تحریکوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ‘ خان صاحب کو ایشوز پر سیاست کرنی چاہئے ۔

جس انداز میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بہاولپور کے جلسے عام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں سونامی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ’’پولیس اہلکاروں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دونگا ‘‘ یہ ملک کی سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ کے شایان شان نہیں بلکہ اس طرح کے خیالات سے تحریک انصاف کے کارکنان میں تشدد اور سیاست میں مخالف پارٹی کے موقف کو نہ سننے کا رجحان تیزی سے پھیلتا ہوا نظر آرہا ہے خان صاحب کو چاہئے کہ وہ سنجیدہ اور مدبر سیاستدان کا روپ میں نظر آئیں نہ کہ گلو بٹ کے روپ میں ۔

1965 ء میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے ایوبی آمریت کے خلاف اپنی تحریک کو عارضی طور پر اس لئے روک دی تھی کہ ہندوستان نے پاکستان پر جنگ مسلط کر دی تھی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اس وقت کے آمر جنرل ایوب خان سے شدید اختلافات کے باوجود حکومت کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں اس وقت کی سیاسی قیادت اور فوجی قیادت نے ملک کر 1965 ء کی جنگ میں انڈیا کو دندان شکن جواب دے کر خاموش کر دیا۔ آج 2014 ء میں غیر ملکی قوتوں کے ایجنٹوں سے پاک فوج شمالی وزیرستان میں برسر پیکار ہے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو چاہئے کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی تقلید کرتے ہوئے مدبرانہ فیصلے کرتے ہوئے موجودہ حکومت کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ ملک سے دہشت گردی کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع ہو سکیں اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکیں ۔
Shakil Zaki
About the Author: Shakil Zaki Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.