مشرف سے مبینہ ڈیل.... ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خطرہ

پرویز مشرف کے حوالے سے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کے انکشافات کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک بھونچال آگیا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے یہ انکشاف کر کے سب کو چونکا دیا ہے کہ آصف زرداری، نواز شریف اور تمام سیاسی قوتوں نے ابتداً پرویز مشرف کے مواخذے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے ان کے مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات میں طے ہوا کہ اگر مشرف صدارت سے مستعفی ہوجاتے ہیں تو انہیں باوقار اور محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کا ایک فوجی صدر اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر مستعفی نہیں ہوسکتا تھا، جب اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی قوتوں کو یہ حمایت فراہم کی تو انہوں نے ان سے بھی وعدے لیے ہوں گے کہ آپ آگے چل کر انہیں تنگ نہیں کریں گے۔ ان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف اقدامات نہیں، بلکہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔ مشرف کے معاملے پر (ن) لیگ کا رویہ نامناسب ہے، حکومت کو پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ نہیں چلانا چاہیے۔یوسف رضا گیلانی کے پرویز مشرف سے ڈیل والے بیان کے بعد کچھ سیاستدان اس بیان کی تصدیق کر رہے ہیں جبکہ بہت سے تردید کررہے ہیں،سیاستدان ایک دوسرے پر الزام تراشی کررہے ہیں۔پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کے معاملے پر ایک طرف تو پیپلز پارٹی دو حصوں میں بٹ گئی ہے اور اس کے اندر ہی دو رائے پائی جاتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ترجمان سینیٹر فرحت آ بابر نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے پرویز مشرف سے معاہدے سے متعلق بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز مشرف نے مواخذے کے ڈر سے استعفیٰ دیا، تاہم پیپلز پارٹی نے کسی کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کی۔ سابق صدر آصف زرداری نے پرویز مشرف کے مواخذے کی دستاویز تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں مجھ سمیت رضا ربانی اور شیری رحمن، جبکہ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے اسحاق ڈار اور احسن اقبال شامل تھے، صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے قراردادیں منظور ہونے کے بعد مشرف کو پیغام بھجوایا گیا۔ پرویز مشرف نے نوشتہ دیوار پڑھ لینے کے بعد مواخذے کے ڈر سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار چھوڑنے سے متعلق سمجھوتا ہوا تھا اور نواز شریف بھی اس سمجھوتے کا حصہ تھے۔ نواز شریف سمجھوتے کا حصہ نہیں تھے تو پرویز مشرف کے خلاف کیس کیوں نہیں بنایا؟ مقدمہ عدالت کے ذریعے بنا، با اختیار پرویز مشرف کو ہٹانے کے لیے سمجھوتا ضروری تھا۔ پرویز مشرف کے پاس اس وقت 58 ٹو بی کا اختیار تھا، اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سمیت عالمی طاقتیں پرویز مشرف کو اقتدار سے الگ کرنے کی حامی نہیں تھیں، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) ان کی ٹیم کا حصہ تھی، لیکن پھر بھی پیپلز پارٹی نے کامیاب سیاسی حکمت عملی سے مشرف کو اقتدار سے نکال باہر کیا، چار جماعتوں نے مل کر مشرف کو محفوظ راستہ دینے کا فیصلہ کیا، آصف زرداری، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی نے اتفاق کیا۔ دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی پرویز مشرف کو استثنیٰ دینا چاہتی تھی، لیکن مسلم لیگ ن رکاوٹ بنی رہی، اسٹیبلشمنٹ، یوسف رضا گیلانی اور پرویز مشرف میں کوئی معاہدہ تھا تو ہم اس کا حصہ نہیں، ہم نے تو نہ مشرف کو اغوا کیا، نہ ہتھکڑی لگائی، نہ ہی جلا وطن کیا، ان کی قسمت کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، آمریت میں لا قانونیت اور جمہوریت میں قانون اپنا راستہ بناتاہے، اگر کوئی معاہدہ ہے تو پرویز مشرف عدالت میں پیش کریں۔ ان کے بقول پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کے فیصلے کی ذمہ داری عدالت پر ہے اور عدالتیں آزاد ہیں۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے مطابق پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ عدالت کی ہدایت پر درج کرایا گیا تھا ، حکومت نے یہ اقدام اپنے طور پر نہیں کیا۔ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر زاہد خان نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی آپس کے ذاتی جھگڑے میں اے این پی کا نام لینے سے اجتناب کرے، جبکہ فرحت اللہ بابر نے جو کہا وہ درست ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو پرویز مشرف سے کیے گئے معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے، لیکن اگر سابق وزیراعظم اپنے بیان میں سچے ہیں تو بھی 2008 میں اگر پیپلزپارٹی کی حکومت نے پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے دینے کے لیے ان کے عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے سے قبل کوئی’ ’ڈیل“ کی بھی تھی توعدالت عظمیٰ کے2009 کے تاریخی فیصلے سے اس ڈیل کے وہ حصے ختم ہوگئے، جن پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔ 31 جولائی 2009 کو عدالت عظمیٰ کے تمام ججز نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا، جس سے سابق آمر آئین کے آرٹیکل6 کے تحت بحیثیت آرمی چیف آئین کی معطلی کی پاداش میں سنگین غداری کے مقدمے کا سامنا کرنے کے مستحق بن گئے۔اگر کوئی معاہدہ اب بھی باقی ہے تو پرویز رشید کہہ چکے ہیں کہ پرویز مشرف کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے، عدالت جو فیصلہ کرے ہم اس پر عمل کریں گے۔ جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کا بیان سامنے آنے کے بعد سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے متعدد سینئر ارکان کی جانب سے اس معاہدے کی تردید کی جارہی ہے۔ پرویز مشرف کا معاملہ درمیان میں اٹکا ہوا ہے،اس حوالے سے کئی بار اسمبلی میں بحث ہوچکی ہے اور سیاستدان مشرف کے حوالے سے دو حصوں میں تقسیم ہیں، گزشتہ دنوں چودھری نثار علی خان کی حکومت سے طویل ناراضگی میں ایک وجہ پرویز مشرف کا معاملہ بھی بتایا جارہا ہے،پرویز مشرف کیس بھگت رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سابق صدر پرویز مشرف کو مکمل آزادی کے ساتھ بیرون ملک بھیجنا چاہتی ہے، لہٰذا معلوم ہوتا ہے ان حالات میں سابق وزیراعظم کے حالیہ بیان کے پس پردہ بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کار فرما ہے، اس سے ایک طرف تو موجودہ حکومت اور سیاستدانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا مقصود ہوسکتا ہے، جبکہ دوسری جانب دباﺅ بڑھا کر پرویز مشرف کی ملک سے بحفاظت واپسی کا راستہ بنانا۔ ایک تاثر یہ ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ ریاست کے کلیدی اداروں کے درمیان کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے۔ملکی حالات انتہائی گھمبیر ہیں، ملک کو بے شمار مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، اداروں کے درمیان ٹکراﺅ اور سیاسی عدم استحکام سے ملک مزید مسائل کا شکار ہوسکتا ہے،ان حالات میں ایک طرف ملک کو مسائل سے نکالنا ضروری ہے اور اس کے لیے آئینی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے ملک کو اس خطرے سے بچانا ناگزیر ہے۔ لہٰذا آئین کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہوئے کوئی ایسا راستہ تلاش کیا جانا ضروری ہے، جس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی کا تاثر ختم ہو اور ملک عدم استحکام سے محفوظ رہ سکے۔ کسی نئے بحران سے ملک کو بچانے کے لیے ہماری سیاسی قیادت، آئینی ماہرین اور اسٹیبلشمنٹ سب کو یہ راستہ تلاش کرنا ہوگا۔اس کے لیے پرویز مشرف کے معاملے کو جلد از جلد نمٹانا انتہائی زیادہ مفید ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 626094 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.