گلابی جوڑا (قسط۱ )

ہما اپنے گھر کے کاموں میں مصروف تھی اس نے جلدی جلدی گھر بھر کی صفائی کی، برتن دھوئے ،ہنڈیا چڑھائی واشنگ مشین سے کپڑے لگائے اور اپنے اکلوتے اچھے جوڑے گلابی رنگ کے جوڑے پر سفید رنگ کی ریشم کی کڑھائی سے خوبصورت پھول بنے ہوئے تھے اسکو استری کر کے ہینگر میں لٹکا دیا-

ہما کا تعلق ایک لور مڈل کلاس فیملی سے تھا اس کا شوہر اک سرکاری دفتر میں کلرک تھا پنج وقتہ نمازی اور دین کی طرف زیادہ رغبت ہونے کی وجہ سے رشوت بھی نہیں لیتا تھا حالانکہ اس کے ساتھی اس کے مقابلے میں بہت زیادہ آسائش سے زندگی گزار رہے تھے ہما بھی اپنے شوہر کی ایمانداری اور قناعت پسندی میں خوش تھی کبھی کوئی بے جا فر مائش نہیں کرتی تھی-

ہما کا شوہر صابر اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور صابر کے بچپن میں اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھااپنی یتیمی کا دکھ اور اپنی ماں کو کڑی محنت کرتے دیکھنا اور کپڑے سی سی کر اسے پالنا صابر کو بہت حد تک کم گو اور سنجیدہ بنا گیا تھا یہ صابر کی ماں کی تربیت کا اثر تھاکہ وہ اپنے نام کی طرح صابر اور شاکر ہو گیا تھا کبھی کسی بات پر جھگڑا نہیں کرتا تھا جو ملتا خوش ہو کر اور اپنے رب کا شکر ادا کر کے کھا لیتا تھا اور جیسا کہ قرآن میں فر مایا گیا ہے کہ ہم نے تمھارے لیے تمھارے جیسا ہی ساتھی بنایا ہے یعنی اچھے مردوں کے لیے اچھی عورتیں اور برے مردوں کیلے بری عورتیں-

ہما اور صابر بھی اسی طرح اک دوسرے کے لیے بنائے گئے تھے آج محلے میں اک گھر میں میلاد تھا اور ہما کی بھی دعوت آئی تھی عصر کے بعد ہما کو میلاد میں جانا تھا -

ہما اک بہت خوش اخلاق اور ملنسار لڑکی تھی ہر اک اس کے اخلاق کے گن گاتا اور اس سے مر عوب ہو جاتا تھا گو کہ پیسہ کی فراوانی نہیں تھی مگر اس کے اخلاق اور ہنس مکھ انداز نے اس کی اس کمی کو دور کر دیا تھا لوگوں کو اس کی خوش مزاجی اس کے قریب کر دیتی تھی اور اس نے کیا پہنا ہے کیا اوڑھا ہے کوئی اس طرف زیادہ دھیان بھی نہیں دیتا تھا پھر سب ہی مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے تھے کوئی بہت ہائی فائی علاقہ تو تھا نہیں بہر حال جب شام میں وہ اپنے اسی گلابی جوڑے کو پہن کر تیار ہوئی اور سلیقے سے ہلکا سا میک اپ کر کے اچھی لگ رہی تھی صابر کو شام کی چائے دینے کے بعد وہ بدو خالہ کے گھر میلاد میں چلی گئی-

محلے کی بہت سی خواتین آئی ہوئی تھیں وہ سب سے فرداًــ فرداً ملی اس کے ملنے کا انداز کچھ اتنا اچھا ہوتا تھا کہ اداس سے اداس انسان بھی اس سے مل کر خوش ہو جاتا تھا یہ دنیا بہت عجیب سی ہے کسی کا اچھا ہونا بھی کچھ لاگوں کو نا گوار گزرتا ہے اور یہی ہما کے ساتھ ہوا محلے کی بہت سی خواتین اس کی ملنساری کی اتنی تعریفیں کرتیں تو کچھ خواتین اس سے جلنے بھی لگیں کہ اس میں ایسا کیا ہے جو ہم سے زیادہ اسے اہمیت ملتی ہے حالانکہ ہم اس سے اچھا اوڑھتے پہنتے ہیں ان ہی چند خواتین میں اسکی اک پڑوسن شمع بھی تھیں جن کی تین بیٹیاں تھیں جن میں سے دو بیاہ کر اپنے گھر چلی گئیں تھیں اک ابھی باقی تھی -

شمع اور ان کی بیٹی افشاں دونوں کسی بھی جگہ جاتیں لوگوں کی غیبتیں کرنے اور مذاق اڑانے میں آگے آگے رہتیں ہر اک پر طنز کرنا ان کی فطرت میں شامل تھا یہی وجہ تھی کہ لوگ ان سے ذرا دور رہنا ہی پسند کرتے تھے وہ کہیں کسی محفل میں چلی جاتیں تو اکثر لوگ انہیں نظر انداز کر کے یا پھر اپنی جان چھڑانے اور مروت میں سلام کر لیتے اور پھر ان سے جان چھڑانے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے آگے بڑھ جاتے اور ایسے میں جب یہ دونوں ماں بیٹی یہ دیکھتیں کہ لوگ ہما کے گرد سے ہٹتے نہیں اور کوئی نہ کوئی مستقل اس کے پاس کھڑی یا بیٹھی ہے تو ان دونوں کو بہت جلن ہوتی ان کا بس نہیں چلتا کہ ہما کا کس طرح مذاق اڑائیں اگر کبھی اس کا مذاق اڑانے لگتیں یا لگائی بجھائی کرتیں کہ آپ کے بارے میں ہما یہ کہہ رہی تھی تو کوئی بھی یقین نا کرتاسب کا اک ہی جواب ہوتا وہ تو بہت اچھی ہے وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے وہ بہت ملنسار ہے وہ ایسا نہیں کر سکتی آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے دونوں بہت زیادہ جلتیں اور جل کر کہتیں کہ یہ توجادو گرنی ہے پتہ نہیں ایسا کیا جادو کیا ہے لوگوں پر کہ اب لوگ اس کے اردگرد ہی رہتے ہیں ہم کتنی ہی برائی کر لیں وہ ہٹتے ہی نہیں۔

بقیہ اگلی قسط میں
samina fayyaz
About the Author: samina fayyaz Read More Articles by samina fayyaz: 12 Articles with 26401 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.