ہوگامزن سوئے ضو

شباب کا اُبال جب دیگر لوگوں اور عزاء کے لیے وبال بن جائے اور بد عنوانی و رشوت ستانی افراد کا کمال بن جائے تومعیوب نہیں کے ہر تدبیر اُلٹے اور ہر امر باعث زوال بن جائے ۔ عزت اور ہمدردی اگر تقویٰ اور ایثار کی بجائے بے حیائی اور بدمعاشی کی بنیاد پر ہوتو مستقبل کی وہ روشنی جو اُمید کی کرن کہلاتی ہے وہی بربادی کی آگ بن کر آشیانوں اور کاشانوں کو خاکسار اور قوموں کو شرم سار کر دیتی ہے ۔ غربت اور مسائل کے حل کے لیے دو ہی راستے ممکن ہیں ایک یا تو اپنے وسائل کو مسائل کے برابر لے جا یا جائے اور سب پر گرفت پا لی جا ئے یا نفس اور خواہشات کو دبا کر برداشت اور ایثار کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے ,جواں مردی اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے،اپنی مدد آپ کے تحت اچھائی کی کوشش سے بھلائی کی اُمید کرتے ہوئے ، تلخیئ حالات کو پی کر زندگی گزارنے کا گرُ سیکھ لیا جائے۔ ان دونوں صورتوں سے کے علاوہ کو ئی اور صورت اور تدبیر حالت ِ گھمبیر سے واگزاری کی معروف اور بہتر ہونا مشکل ہے ۔ ہا ں وہ تیسری راہ جس پر گامزن ہماری قوم آج کل ہے وہ انتہائی قابل ِ افسوس او ر باعث شرم و حجاب ہے ۔

بل زیادہ آتا ہےتو چوری کی طرف مائل ہو جانا حل نہیں حل تو یہ ہےکہ اپنے وسائل میں اضافے کے لیے تگ و پو کرو گر یہ بھی ممکن نہیں تو صبر اور حالات کے موافق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کی جائے ۔ مہنگائی ہر طرف چڑھائی کرے تو طرز ِ زندگی کو مزید سادہ کر لو مگر یہ تما م باتیں بلاشبہ عملاً بہت مشکل ہیں اور کڑوی بھی مگر نہ ممکن نہیں ۔

دیکھیئے یہ ذمہ داری فی حال گورنمنٹ کی ہی ہے کہ چلنے والی مصنوعی ( جس کا تعلق حقیقت میں قیمت کی تبدیلی سے نہیں ہوتا) مہنگائی کو ختم کرے مگر اس حوالے سے اعوام اپنے طرزِ زند گی اور اپنی تمدنی تبدیلیوں سے وہ آسانی پیدا کرسکتے ہیں جس سے آج کا جدید آدمی محروم ہے ۔ ہم اپنے کلچر سے ریا ء کاری کی وہ رسوم جو وقت و پیسے کے ضیاع کے سوا کسی طور پر سود مند نہیں اُن کی بجائے اُن روایات کو فروغ دیں جو حالات اور معاشرتی آسانیوں کے موافق ہو ں ۔

امیر کا چلن فیشن اور غریب کا امر شرمساری ، روپے کی قوت فرد کو ننگااور بے حجاب کرڈالے تو جدت غریب کے کرتے کا پیوند گالی ، نواب کی بیٹی کی پارٹی پر ہزاروں کے سوٹ اورلاکھوں کے کھانے اور در پر سوالی آئے تو نکلیں دینے کو صرف چار آنے ،دیکھاوے کی سخاوت اور ووٹ کے لیے نیکی ، چودھری کے بیٹے کے ہاتھوں بے آبرو ہوتی مزارعے کی بیٹی ، معاشرے میں دوہرامعیار اور کردار و قول کا تضاد ملک و قوم کی بقاء کو فنا ء میں بدل دیتا ہے اسی لیے اُمراء اور عمائدین کو ہر تقریب اور چلن میں اپنے معاشرہ میں موجود اُس غریب کا خیال کرنا لازم ہے جو سفید پوشی کی سرگوشی میں حالات کی تلخی کو پی کر اُمراء کی تقلید میں بے ہوشی اختیار کر جانے اور شرافت کا پیرہن تارتار کرجانے کو ترجیح دینے پر مجبور ہو کر کسی ملعون کا آلہ کار بن سکتاہے۔

نوجوانوں کو اس ضمن میں جس سنجیدگی کی ضرورت ہے اُس کا اندازہ ہونا بہت ضروری ہے کیوں کہ نفس کے فرس کی شدت کا سامنا انہیں جس قدر ہوتا ہے اور کسی کو نہیں ۔ تاہم جوان اور خاص کر نوجوان کسی قوم کا وہ سرمایائے کبیرہے جس پر کسی قوم کا دفاع اور ترقی منحصر ہوتی ہے ۔ ان کی پرورش اور تعلیم پر بھی دوہرا معیار بلکہ دوہرا نہیں بے حد متنوع معیار امیر کاسکول ، غریب کا سکول ، کسان کے بیٹے کا سکول ، جاگیردار کے بیٹے کا سکول سرمایا دار کے بیٹے کا او ۔ اے لیول اور بھٹے کے پتھیرے کا سکول یہی تو تعلیم ہے ہماری اب اس حالت ہم کیسا نوجوان پیداکرے گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

پھر بھی جوانوں کو ہی راہ نکالنی ہے اور تدبیر برائے خلاصی نکالنے کی ضرور ت ہے ۔ اُسے اپنے نفس کے فرس ِ بے مہار کو قابو کرنے اور تلخی سے لڑنے کی ضرورت ہے ۔ حالات کوسمجھنے اپنے آباء کی شان اور اپنے خاندان کا سہارا بننے کی ضرورت ہے وہ سہارا جو ہدایت اور صراطِ مستقیم پر گامزن ہونہ کہ دہشت اور کرپشن کی راہ پر جس کی سوچ قوم کے مایوس عمر رسید فرد کے خون میں اُمنگ اور روشنی کی لہر دوڑا دے ہمیں ایسے نوجوان چاہیں۔

بہر حال ان تمام باتوں کا حاصل ِ کلام سوا اس کے کوئی اور نہیں کہ تیسری اپنائے جا ئے بلکہ زندہ اور جاوید قوموں کی مانند ملک اور قوم کو مشکلات کے گرداب سے نکالنے کے لیے اپنے اند ر وہ بنیادی تبدیلیاں پیداکر نے کی ضرورت ہے جن سے زندگی فضول کی بندش اور بوجھ سے آزاد ہو کر ایک اخلاص ِ نیت و عمل پر جہانِ نو کی پیدائش کر سکے ۔