قرآن مجید کی سورتوں کا اجمالی تعارف

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
[email protected]

قرآن مجید آخری الہامی کتاب ہے جو 114سورتوں پر مشتمل ہے۔سورۃ کا لفظی مطلب’’بلندی‘‘ ہے۔قرآن مجیدکی سورتوں کو نزول کے اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلا دور مکی جس میں نازل ہونے والی سورتیں ’’مکی سورتیں‘‘کہلاتی ہیں ہے اور دوسرا مدنی دور۔ہجرت مدینہ ان دو ادوار کے درمیان حد فاصل ہے،یعنی ہجرت مدینہ سے قبل نازل ہونے والی سورتیں مکی سورتیں کہلاتی ہیں خواہ مکہ مکرمہ میں،طائف میں یا شعب ابی طالب میں نازل ہوئی ہوں ۔ ہجرت مدینہ کے بعد نازل ہونے والی سورتیں مدنی سورتیں کہلاتی ہیں خواہ بدرمیں،احد میں،تبوک میں یا حدیبیہ اور حنین میں نازل ہوئی ہوں ۔حتی کہ فتح مکہ اور حجۃ الوداع کے موقع پرمکہ میں نازل ہونے والی سورتیں بھی مدنی کہلاتی ہیں کیونکہ وہ ہجرت مدینہ کے بعد نازل ہو رہی ہیں۔مکی سورتیں عام طور پر چھوٹی چھوٹی ہیں،ان میں وارد ہونے والی آیات بھی چھوٹی اور مختصر ہیں۔ان سورتوں میں’’یاایھالناس‘‘کہ کر مخاطب کیا گیا ہے ۔مکی سورتیں زیادہ تر توحید،رسالت اور آخرت کے عقائد پر مشتمل ہیں۔ان سورتوں میں مذکورہ عقائد کی طرف دعوت دی گئی ہے اور انکے حق میں عقلی دلائل دیے گئے ہیں ۔مکی سورتوں میں اقوام سابقہ اور انکی طرف مبعوث کئے گئے انبیا عیلھم السلام کاذکر بھی موجود ہے۔جن اقوام پر عذاب الہی نازل ہوا انکی تکرارقصص ان سورتوں میں موجود ہے۔مکی سورتوں کی ایک اور اہم خصوصیت قرآن کی آفاقی فصاحت و بلاغت ہے۔وہ عرب لوگ جو اپنی زبان کے مقابلے میں دوسروں کو’’ عجمی‘‘یعنی گونگا کہتے تھے وہ بھی قرآن کے سامنے بے بس ہو چکے۔قرآن نے اہل مکہ کو چیلنج دیا کہ ایک کتاب یا ایک سورۃ یا ایک آیت ہی بنا لاؤ لیکن وہ عرب اس چیلنج کا جواب نہ دے سکے اور ماند پڑ گئے۔ایک بار مکہ میں قصیدہ نویسی کا مقابلہ ہوا ،کم و بیش چالیس قصائد خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکائے گئے،ان میں سے بعض اپنی طوالت میں بے مثال تھے ۔آخر میں سورۃ کوثر بھی آویزاں کی گئی اور ہر فیصلہ کرنے والا اس سورۃ پر آن کر اٹک جاتااور سب لوگوں نے بالاتفاق کہا کہ یہ کسی انسان کی کاوش نہیں ہو سکتی۔

مدنی سورتیں عام طور پر طویل ہیں ۔ان میں’’یاایھاالذین آمنوا‘‘کہ کر خطاب کیا گیا ہے۔ان سورتوں میں عبادات اور دیگر ارکان اسلام پر زور دیاگیا ہے۔مکہ میں چونکہ مسلمان کم تھے اور اسلامی ریاست کی تاسیس نہ ہوئی تھی اس لیے جہاد کا حکم نازل نہ ہوا تھاجبکہ مدنی سورتوں میں جہاد کے احکامات نازل ہوئے بلکہ بعض سورتوں میں تو غزوات کے دوران مسلمانوں کے اجتماعی رویے پر قرآن نے تبصرہ بھی کیا ہے اور مسلمانوں کی کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔مدنی سورتوں کی سب سے اہم خصوصیت معاشرتی احکام وقوانین کا نزول ہے۔مدینہ منورہ ایک ریاست کی شکل اختیار کر چکا تھا اوراسکا کثیرالقومی وکثیرالمذہبی معاشرے میں نت نئے مسائل سر اٹھا رہے تھے جن کا حل اﷲ تعالی نے مدنی سورتوں میں نازل کیا۔حدوداﷲ تعالی کا نفاذ مدنی سورتوں کا مرہون منت ہے،اسی طرح قوانین وراثت،ذمیوں کے حقوق،آداب معاشرت جن میں پردہ،حجاب اور امور نسواں بھی شامل ہیں اور آداب نبویﷺکے ساتھ ساتھ نکاح ،طلاق،خلع،لعان ،رضاعت اور غرض ایک نو قیام پذیرمعاشرے کی تمام ضروریات کا تکملہ ان مدنی سورتوں میں کیا گیا۔

قرآن مجید،ایک زندہ کتاب ہے جو قیامت تک انسانی معاشروں میں اور خوش قسمت انسانوں کے رویوں میں زندہ و تابندہ رہے گی ۔اس کتاب کی آیات و سورتوں کے نزول کا پس منظر ’’شان نزول‘‘کہلاتا ہے جس سے مراد وہ خاص وجہ یا واقعہ ہے جس کے باعث مذکورہ سورۃ یا آیت نازل ہوئی۔مثلاََ سورۃ اخلاص کی شان نزول وہ سوالات ہیں جو کفار مکہ محسن انسانیتﷺ سے کرتے تھے کہ تمہارا خدا کون ہے؟،کس چیز سے بناہے؟اگربہت طاقتور ہے تو اسکے کتنے بیٹے ہیں؟اسکا تعلق کس قبیلے سے ہے؟وغیرہ۔ان سوالات کے جواب میں اﷲ تعالی نے اپنا تعارف اس مختصر سی سورۃ میں پیش کیا۔قرآن مجید کی سورتوں کے نام تین وجوہات سے رکھے گئے ہیں۔پہلی وجہ کوئی لفظ ہے،سورۃ میں وارد ہونے والا کوئی لفظ اس سورۃ کا نام بنا دیا جاتا ہے ۔اس نام کا سورۃ کے ساتھ محض اتنا ہی تعلق ہوتا ہے کہ یہ اسکا نام ہے اور بس۔مثلاََ ایک لفظ’’یسن‘‘کو سورۃ کانام بنا دیا یا’’طہ‘‘لفظ کو سورۃ کانام بنادیایا ایک لفظ’’والتین‘‘کو سورۃ کانام بنادیا۔کبھی یہ لفظ سورتوں کے آغاز میں ہوتا ہے جیسے کہ مثالوں سے واضع ہے،بعض اوقات یہ سورتوں کے درمیان میں ہوتا ہے جیسے سورۃ قلم کا لفظ’’قلم‘‘سورۃ’’بینہ‘‘اور سورۃ’’العنکبوت‘‘وغیرہ۔اور بعض اوقات سورۃ کے آخری لفظ کو بھی اسکا نام بنا دیا جاتا ہے جیسے سورۃ ’’الماعون‘‘۔

قرآن مجیدکی سورتوں کے نام رکھنے کی دوسری وجہ سورۃ میں بیان ہونے والا کوئی واقعہ ہوتا ہے جو اس سورۃ کانام بنا دیا جاتا ہے۔مثلاََ بنی اسرائیل میں ایک اندھے قتل کا سراغ لگانے کے لیے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا،اس واقعے کے بیان کی وجہ سے متعلقہ سورۃ کانام ’’سورۃ بقرہ‘‘رکھاگیاکیونکہ بقرہ کا مطلب گائے ہے۔اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کے خوف سے ایک چیونٹی نے دیگرکوآواز لگائی کہ اپنی اپنی بلوں میں گھس جاؤمبادا لشکر کے پاؤں تلے کچلی جاؤ،اس واقعے کی وجہ سے اس سورۃ کانام ’’سورۃ نمل‘‘رکھا گیا کیونکہ عربی میں نمل چیونٹی کو کہتے ہیں۔حضرت مریم علیھا السلام کے والد بزرگوار کانام عمران تھا چنانچہ ان کے ذکر کی وجہ سے اس سورۃ کانام ’’آل عمران‘‘ رکھا گیا یعنی جس میں عمران کی اولاد کا ذکر ہے وغیرہ۔

قرآن مجیدکی سورتوں کے نام رکھنے کی تیسری وجہ ان سورتوں کے عنوانات ہیں،یعنی ان کے نام کے مطابق ان سورتوں کے مضامین ہوتے ہیں ،گویا سورۃ کے نام سے ہی اسکے مندرجات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔جیسے سورۃ طلاق،اس سورۃ میں صرف طلاق کے احکامات و مسائل درج ہیں یا جیسے سورۃیوسف،یہ سورۃ حضرت یوسف علیہ السلام کے ذکر سے شروع ہوتی ہے اور انکے واقعے کے اختتام کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سورۃ فیل،سورۃ کوثر اور سورۃ القارعۃ وغیرہ کے اسمائے مبارکہ ہیں۔ایک سورۃ کے نام میں بعض اوقات کوئی دویاپھر تینوں وجوہات بھی جمع ہو جاتی ہیں ۔مثلاََ سورۃ نوح میں نام بھی ہے،واقعہ بھی ہے اور یہی اس سورۃ کا عنوان بھی ہے۔سورۃ قصص میں واقعات ہیں یہی اسکا نام بھی ہے اور اسکا عنوان بھی جبکہ سورۃ یوسف بھی اسی قبیل سے ہے۔

بعض سورتوں کے آغاز میں حروف مقطعات وارد ہوئے ہیں جیسے الم،المر،المص،ص،ق،حم، وغیرہ۔انکوحروف مقطعات اس لیے کہتے ہیں کہ انہیں الگ الگ یعنی کاٹ کاٹ کر پڑھا جاتا ہے،قطع یعنی کاٹے ہوئے۔ان حروف میں سے بعض کو وحی نے سورتوں کے نام کا مقام بھی عطا کیا ہے تاہم انکا مطلب کیا ہے کوئی نہیں جانتا سوائے اﷲ اور اسکے رسولﷺ کے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے ان حروف میں سے چند تلاوت کیے تو یہودی علما جو قریب ہی براجمان تھے انہوں نے سن کر کہا کہ یہ دین ستر سالوں کے لیے آیا ہے،پھرمحسن انسانیت ﷺ نے کچھ اور حروف مقطعات تلاوت کیے تو ان یہودی علما نے حساب لگا کر کہا نہیں یہ دین ڈھائی سو سالوں کے لیے آیا ہے۔اس پر محسن انسانیت ﷺ نے چند اور حروف تلاوت فرما دیے تو سن کر ان یہودی علما کے چہرے پر کلونس چھا گئی اور وہ یہ کہ کر اٹھ کر چلتے بنے کہ نہیں یہ دین تو قیامت تک کے لیے آیا ہے۔

صاحب تفہیم القرآن کے مطابق قرآن مجیدکی سورتوں کا مرکزی مضمون ’’انسان ‘‘ہے۔قرآن مجیدنے انسانی نظریات پر سخت تنقید کی ہے اور محض عقل و نظر اور ظن و قیاس وتخمین کی بنیاد پر اپنے عقائد تراش لینے کو سخت بری نظر سے دیکھا ہے اور اس بات کو سخت ناپسند کیا ہے کہ انسان اپنے آبا کی روش پر آنکھ بند کر کے چلتا رہے۔ان سب کے مقابلے میں قرآن مجیدنے انسان کے سامنے صحیح دعوت پیش کی ہے اسے توحید کی آفاقی حقیقت کی طرف بلایا ہے اور بتایا ہے کہ دنیا،دولت،لذت،اقتدار،شہرت اور حسب و نسب سب جھوٹے خدا ہیں سچا صرف ایک خدائے واحد لاشریک ہے۔قرآن مجیدنے انسان کو آخرت کا سبق یاد دلایا ہے اور بتایا کہ کامیابی کے پیمانے صرف اس دنیا تک ختم نہیں ہو جاتے بلکہ روزآخر کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے اور اس دن کا نقصان ہی اصل خسران ہے۔

شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ تعالی علیہ نے قرآن مجیدکے مضامین کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔پہلی قسم ’’علم الاحکام‘‘ہے جس بعض کاموں کو کرنے کا حکم دیا ہے جیسے اقامت صلوۃ،امر بالمعروف و نہی عن المنکر،روزہ ،زکوۃ، حج اورجہاد وغیرہ اور بعض امور سے بچنے اور دور رہنے کا حکم صادر فرمایا ہے جیسے قتل،قطع رحمی،زنا،قذف،شراب جوا اور سود کو تواﷲ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا۔قرآنی سورتوں کے مضامین کی دوسری قسم’’ علم مخاصمہ ‘‘ہے جس میں اﷲ تعالی نے بعض انسانی گروہوں کی پردہ کشائی کی ہے اور انکے اعتراضات کے جوابات دیے ہیں مثلاََ مشرکین مکہ پوچھتے تھے کہ آخر اﷲ تعالی انسانوں کو دوبارہ کیسے پیدا کرے گاقرآن مجید نے جواب دیا کہ جس خدا نے ایک بارپیدا کیا ہے وہ دوسری بار پیدا کرنا اس کے لیے کیا مشکل ہے؟یہودکہتے تھے کہ جنت میں ہم ہی جائیں گے قرآن مجید نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس تحریری دستاویز ہے؟ کہ تم جنت کے مالک ہو اور اﷲ تعالی کسی اور کو جنت میں داخل نہ کرے گا۔عیسائی کہتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اﷲ تعالی کے بیٹے ہیں قرآن مجید نے محسن انسانیت ﷺ کو ان کے ساتھ مباہلے کاحکم دیاجس کا سامنا نجران کے عیسائی علماء نہ کر سکے اور مدینہ منورہ چھوڑ کر چلے گئے۔اسی طرح قرآن نے منافقین کے احوال سے بھی پردہ اٹھائے ہیں جب وہ مسلمانوں کی کامیابی پراپنی انگلیاں چباتے تھے،قرآن نے کہا کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔قرآن مجیدکی سورتوں کا تیسرا موضوع ’’علم تذکیر بآلاء اﷲ ‘‘ہے جس میں قرآن مجیدنے تخلیق کائنات ،مظاہر قدرت،توحید کی نشانیاں،زمین و آسمان کے حقائق ، جانوروں، پرندوں، شجر، حجر، نباتات و جمادات اور کائنات کے دیگر رازوں سے انسان کو آگاہ کیا ہے۔اسی علم کے ذیل میں قرآن مجیدنے اﷲ تعالی کے اسمائے حسنی،صفات باری تعالی،توحید اختیاراتی وذاتی اوررد شرک سے انسانوں کو قائل کرنے کے زوردار دلائل دیے ہیں۔قرآن مجیدکی سورتوں کا چوتھا موضوع’’علم تذکیرایام اﷲ ‘‘ہے۔اس علم میں قرآن مجیدنے اس دنیا میں اچھے انسانوں کا انجام اور برے لوگوں کا حشر بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں اﷲ تعالی سنت کیا ہے اور کون کون سی اقوام کن کن جرائم کی بنا پر عذاب الہی کا شکار ہوئیں اور کون کون سی اقوام کن کن اصولوں پر جب تک کاربند رہیں تواﷲ تعالی نے انہیں اس دنیا میں آرام و آسائش و کسائش اور دنیا کی امامت و قیادت و سیادت سے سرفراز رکھا اور کن کوتاہیوں کے نتیجے میں وہ اپنے مناصب سے معزول کر دی گئیں۔قرآن مجیدکی سورتوں کا پانچواں اور آخری موضوع ’’علم تذکیر باالموت وما بعدالموت‘‘ہے،جس میں اﷲ تعالی نے موت،حشر،قبر،حساب و کتاب اور جزا و سزا کا تفصیلی بیان کیا ہے۔قرآن مجیدنے موت کے مناظر اور کیفیت اجمالاََ بیان کی ہے جبکہ علامات و حالات قیامت ،میدان حشر اور جنت و دوزخ کے حالات تفصیلاََ بیان کیے ہیں اور آخرت کے جواز پر کثرت سے دلائل رقم کیے ہیں۔

قرآن مجیداشرف الکتب ہے،یعنی سب سے زیادہ عزت والی کتاب،اشرف الملائکۃ یعنی حضرت جبریل علیہ السلام نے نازل کی ہے،اشرف الرسل یعنی خاتم النبیینﷺ پر نازل ہوئی،اشرف الشہور یعنی رمضان المبارک میں نازل ہوئی،اشرف اللیال یعنی شب قدر میں نازل ہوئی،اشرف البقعۃ الارض یعنی حجاز مقسد میں نازل ہوئی اور اشرف الامم یعنی امت محمدیہ ﷺ کے لیے نازل ہوئی۔دنیا کی امامت کرنا اس کتاب کی حامل امت کا حق خداوندی ہے اﷲ کرے کہ یہ امت اس حق کو ادا کرنے کی اہل ثابت ہو آمین۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 519889 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.