سچ کہتا ہوں میں۔۔۔۔!

زندگی کی تلخ حقیقتوں کے ساتھ معاشرے کی رنگ و بو میں چہروں پر جھوٹی مسکراہٹیں بکھیرے لوگ دیوانہ وار لکیر کے فقیر بنے چلے جارہے ہیں ۔ سوچنے کی صلاحیت ہے نہ کوئی پرکھنے کا معیار اپنی بیڈول سوچ اور وژن کے ساتھ خود کواپنی خودی کے اندر جمہوریت کے محافظ بتائے بے لگام گھوڑوں کو لگام ڈالنے سے روکے جارہے ہیں ۔ہے کوئی اِن سے پوچھنے والا آخرکیوں سچ سے نظریں چرائے بیٹھے ہو کیوں داغداروں کا ساتھ دیا جارہا ہے کیوں ستم گروں کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے تمہیں کیا لالچ ہے ازل سے اب تک کیا پالیا تم نے۔ کیا تم ذمہ لیتے ہو بگڑے معاشروں کا ۔؟اتنی تو حقیقت تم بھی جانتے ہو کہ تم ہی ذمہ دار ہوفرعونوں کے تم ہی ٹھیکدار ہوان نمرودوں کے تو پھر کیوں خود کو عذابِ الٰہی کے مرتکب ٹھہراتے ہو۔کیا تمہیں غربت میں گھِرے وہ ننگے بھوکے نظر نہیں آتے جو سیلانی کے دسترخوانوں پر صبح و شام نظریں جھکائے اپنی پیٹ کی آگ بجھانے پر مجبور ہیں تم ہی نے انہیں وہاں تک پہنچایا ہے ۔تمھیں وہ ماں باپ نظر کیوں نہیں آتے جو اپنے ہی لختِ جگروں کو بیچ رہے ہیں یہ سوچے سمجھے بنا کہ ان کو خریدنے والا کون ہوگا وہ کیوں خریدے گا وہ نہیں سوچتے کے ان کی اولاد کے ساتھ کیا سلوک روارکھا جائے گا کہ وہ بھی ایک دن چلتا پھر تا ایٹم بم بن جائیں گے اور تمھاری ہی صفوں میں شامل ہوجائیں گے لیکن مفلسی نے ان کی عقلوں کو ماؤف کررکھا ہے وہ زندہ ہی کہا ہیں جو یہ سب سوچیں وہ اب لاشیں بن چکی ہیں بس صرف زمیں دوز ہونے کی دیر ہے میں کیسے سمجھاؤں تمہیں میں کیسے بتلاؤں تمہیں تم کیا کررہے ہو اور میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ تم یہ سب کچھ کیوں کررہے ہو۔کیا تمھیں اپنی ہی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزت اچھلتے ہوئے دیکھنا اچھا لگتا ہے ۔؟پھر کیوں حمایت کرتے ہو ان نمرودوں کی پھر کیوں سفارشی بنتے ہو بے ضمیروں کے کیا تم بھی گلو بٹ ہو کیا تم بھی حیوانیت کی کوئی قِسم ہوجو جہالت گردی سے اٹھ کر دہشت گردی پر ختم ہوجاتے ہیں یا پھر تم کوئی زر خرید غلام ہوجو آقاؤں کے اشارو پر ناچتے ہو مجھے بتاؤ تو کہ آخر تم کون ہواور کیوں ہو کہا ں سے آئے ہو،تمھارا مشن کیا ہے تم کس لئے بنائے گئے ہوتم کیوں یہ سب کررہے ہوکیا تمھیں بالکل درد نہیں ہوتا کیا تم میں احساس نہیں اگر ہے تو پھر یاد کرو بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں لگی آگ کو اس جھلسی ہوئی خلقِ خدا کو ۔یاد کرو ائیرپورٹ میں پھنسے مظلوموں کو ماڈل ٹاؤن کے اُن جنازوں کو جنکے وارثوں کو انکی تدفین تک نصیب نہ کی تم نے۔ کیا کیا یاددلاؤں تمھیں ہر ایک چیز کے تم ذمہ دار ہو آ ج جو کچھ بھی ہے سب تمھاری ہی بدولت ہے سب تم کرتے ہومعیز اور مغیث کو ہی یاد کرلو کس درندگی کا نشانہ بنایاگیا تھا جانے کس بات کا غصہ نکالا گیا تھا اُن پہ تم خود بھی تو وہاں موجود تھے سب کچھ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ہر چیز کے تم چشم دید گواہ ہو۔ذرا سوچو پڑھے لکھے نوجوانوں کا کیا حال کر ڈالا ہے تم نے اچھے خاصوں کا مستقبل بگاڑ ڈالا ہے تم نے ۔سچ کہتا ہوں میں چاہے تمہیں کڑوا لگے میرے ملک کے نوجوان آج خودکشیاں کررہے ہیں ان زندگیوں کا مایوسیوں میں ڈوبنا بھی تمھارے ہی سبب ہے تم قصور وار ہو تم سزاوار ہو کیونکہ تم چور لیٹروں کے وفادار ہوتم حمایتی ہو تم ہی ان کو حقِ حکمرانی دیتے ہواصل مجرم تو تم ہی ہو ہر جگہ خود کو چھپا رکھا ہے تم نے میڈیا میں بیروکریسی میں ملائیت میں صوفیت میں محترم اداروں میں۔ یہودو نصارہ کا ایجنڈا لیے مذہب پرستی کی چادر اوڑھے دنیا پرستی نبھاتے ہوکبھی شیطانیت کبھی حیوانیت کی مثالیں بناتے ہو۔ اپنے آقاؤں کے سحر میں ڈوبے ہوتم، نامراد ہو، ناکام ہو، شکست خردہ ہو تم، ناکامی سے دوچار ہو، حرس رکھتے ہو نہیں چاہتے تمھارے ساتھ والا اقتدار نشیں ہو جبھی تو فرعونیت کو طول دینا چاہتے ہو اس کے نظام کی حمایت کر تے ہو تم صرف ملک کے نہیں اپنے بھی دشمن ہو ۔یہ نہیں کہ تم جانتے نہیں دکھ اس بات کا ہے تم سب خبر رکھتے ہوپھر بھی آنکھیں بند کئے 67 سالوں سے اُنہی پہ ٹھپے لگائے جارہے ہوتم کیسی قوم ہو ۔
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 106564 views کالم نگار/بلاگر.. View More