رمضان اور روزہ کے فضائل

رُوٴیتِ ہلال
حدیث:… حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان (کی تاریخوں) کی جس قدر نگہداشت فرماتے تھے، اس قدر دُوسرے مہینوں کی نہیں (کیونکہ شعبان کے اختتام پر رمضان کے آغاز کا مدار ہے)، پھر رمضان کا چاند نظر آنے پر روزہ رکھتے تھے، اور اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے (۲۹/شعبان کو چاند) نظر نہ آتا تو (شعبان کے) تیس دن پورے کرکے روزہ رکھتے تھے۔ (ابوداوٴد، مشکوٰة)

حدیث:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کی خاطر شعبان کے چاند کا اہتمام کیا کرو۔“ (ترمذی، مشکوٰة)

سحری کھانا:
حدیث:… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔“ (بخاری و مسلم، مشکوٰة)

حدیث:… حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے (کہ اہلِ کتاب کو سوجانے کے بعد کھانا پینا ممنوع تھا، اور ہمیں صبحِ صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک اس کی اجازت ہے۔“ (مسلم، مشکوٰة)

غروب کے بعد اِفطار میں جلدی کرنا
حدیث:… حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ (غروب کے بعد) اِفطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔“(مشکوٰة)

حدیث:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین غالب رہے گا، جب تک کہ لوگ اِفطار میں جلدی کرتے رہیں گے، کیونکہ یہود و نصاریٰ تأخیر کرتے ہیں۔“ (ابوداوٴد، ابنِ ماجہ، مشکوٰة)

حدیث:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ: ”مجھے وہ بندے سب سے زیادہ محبوب ہیں جو اِفطار میں جلدی کرتے ہیں۔“ (ترمذی، مشکوٰة)

روزہ کس چیز سے اِفطار کیا جائے؟
حدیث:… سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کوئی شخص روزہ اِفطار کرے تو کھجور سے اِفطار کرے، کیونکہ وہ برکت ہے، اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے اِفطار کرلے، کیونکہ وہ پاک کرنے والا ہے۔“ (احمد، ترمذی، ابوداوٴد، ابنِ ماجہ، دارمی، مشکوٰة)

حدیث:… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز (مغرب) سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ اِفطار کرتے تھے، اور اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک خرما کے چند دانوں سے اِفطار فرماتے تھے، اور اگر وہ بھی میسر نہ آتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔ ( مشکوٰة)

اِفطار کی دُعا
حدیث:… ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ اِفطار کرتے تو فرماتے:”ذھب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر ان شاء الله۔“
ترجمہ:…”پیاس جاتی رہی، انتڑیاں تر ہوگئیں، اور اَجر انشاء اللہ ثابت ہوگیا۔“

حدیث:… حضرت معاذ بن زہرہ فرماتے ہیں کہ: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ اِفطار کرتے تو یہ دُعا پڑھتے:
”اللّٰھم لک صمت وعلٰی رزقک افطرت۔“ (ابوداوٴد مرسلاً، مشکوٰة)
ترجمہ:…”اے اللہ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا، اور تیرے رزق سے اِفطار کیا۔“

حدیث:… حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ: ”رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے، اور اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔“ (رواہ الطبرانی فی اوسط، کما فی المجمع ج:۳ ص:۱۴۳)

حدیث:… ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک رمضان کے ہر دن رات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت سے لوگ (دوزخ سے) آزاد کئے جاتے ہیں، اور ہر مسلمان کی دن رات میں ایک دُعا قبول ہوتی ہے۔ “ ( مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۳۴)

حدیث:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین شخصوں کی دُعا رَدّ نہیں ہوتی، روزہ دار کی، یہاں تک کہ اِفطار کرے، حاکمِ عادل کی، اور مظلوم کی۔ اللہ تعالیٰ اس کو بادلوں سے اُوپر اُٹھالیتے ہیں اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور رَبّ تعالیٰ فرماتے ہیں: میری عزّت کی قسم! میں ضرور تیری مدد کروں گا، خواہ کچھ مدّت کے بعد کروں۔“ (احمد، ترمذی، ابنِ حبان، مشکوٰة، ترغیب)

حدیث:… عبداللہ بن ابی ملیکہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ دار کی دُعا اِفطار کے وقت رَدّ نہیں ہوتی۔“ اور حضرت عبداللہ اِفطار کے وقت یہ دُعا کرتے تھے: ”اللّٰھم انی اسئلک برحمتک التی وسعت کل شیء ان تغفر لی۔“ (بیہقی، ترغیب)

ترجمہ:…”اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کی اس رحمت کے طفیل جو ہر چیز پر حاوی ہے، کہ میری بخشش فرمادیجئے۔“

رمضان کا آخری عشرہ:
حدیث:… حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں ایسی عبادت و محنت کرتے تھے جو دُوسرے اوقات میں نہیں ہوتی تھی۔ (صحیح مسلم، مشکوٰة)
حدیث:… حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لنگی مضبوط باندھ لیتے (یعنی کمر ہمت چست باندھ لیتے) خود بھی شب بیدار رہتے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی بیدار رکھتے۔ (بخاری و مسلم، مشکوٰة)

لیلة القدر
حدیث:… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک یہ مہینہ تم پر آیا ہے، اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہا، وہ ہر خیر سے محروم رہا، اور اس کی خیر سے کوئی شخص محروم نہیں رہے گا، سوائے بدقسمت اور حرمان نصیب کے۔“ (ابنِ ماجہ، واسنادہ حسن، انشاء اللہ، ترغیب)
حدیث:… حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیلة القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو!“ (صحیح بخاری، مشکوٰة)

حدیث:… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب لیلة القدر آتی ہے تو جبریل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں، اور ہر بندہ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہا ہو (اس میں تلاوت، تسبیح و تہلیل اور نوافل سب شامل ہیں، الغرض کسی طریقے سے ذکر و عبادت میں مشغول ہو) اس کے لئے دُعائے رحمت کرتے ہیں۔“ ( مشکوٰة)

لیلة القدر کی دُعا
حدیث:… حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ فرمائیے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ لیلة القدر ہے تو کیا پڑھوں؟ فرمایا: یہ دُعا پڑھا کرو:
”اللّٰھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔“ (احمد، ترمذی، ابنِ ماجہ، مشکوٰة)
ترجمہ:…”اے اللہ! آپ بہت ہی معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں، پس مجھ کو بھی معاف کردیجئے۔“

بغیر عذر کے رمضان کا روزہ نہ رکھنا:
حدیث:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے بغیر عذر اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دیا تو خواہ ساری عمر روزے رکھتا رہے، وہ اس کی تلافی نہیں کرسکتا (یعنی دُوسرے وقت میں روزہ رکھنے سے اگرچہ فرض ادا ہوجائے گا، مگر رمضان المبارک کی برکت و فضیلت کا حاصل کرنا ممکن نہیں)۔“ ( مشکوٰة)

رمضان کے چار عمل
حدیث:… حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: ”رمضان مبارک میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو، دو باتیں تو ایسی ہیں کہ تم ان کے ذریعہ اپنے رَبّ کو راضی کروگے، اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتے، پہلی دو باتیں جن کے ذریعہ تم اللہ تعالیٰ کو راضی کرو گے، یہ ہیں: ”لا الٰہ الا الله“ کی گواہی دینا اور اِستغفار کرنا، اور وہ دو چیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں، یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو۔“ (ابنِ خزیمہ، ترغیب)

تراویح
حدیث:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے ایمان کے جذبے سے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے پہلے گناہ بخش دئیے گئے، اور جس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے، اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے گئے، اور جس نے لیلة القدر میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے، اس کے پہلے گناہ بخش دئیے گئے۔“ ( مشکوٰة)

اور ایک روایت میں ہے کہ: ”اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے۔“(نسائی، ترغیب)

اِعتکاف
حدیث:… حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان میں (آخری) دس دن کا اِعتکاف کیا، اس کو دو حج اور دو عمرے کا ثواب ہوگا۔“(بیہقی، ترغیب)
حدیث:… حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کی خاطر ایک دن کا بھی اِعتکاف کیا، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی تین خندقیں بنادیں گے کہ ہر خندق کا فاصلہ مشرق و مغرب سے زیادہ ہوگا۔“ (طبرانی اوسط، بیہقی، حاکم، ترغیب)

روزہ اِفطار کرانا
حدیث:… حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”جس نے روزہ دار کا روزہ اِفطار کرایا یا کسی غازی کو سامانِ جہاد دیا، اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔“ (بیہقی شعب الایمان، بغوی شرح السنة، مشکوٰة)

رمضان میں قرآنِ کریم کا دور اور جود و سخاوت
حدیث:… حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے، اور رمضان المبارک میں جبکہ جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تھے، آپ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی، جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ کے پاس آتے تھے، پس آپ سے قرآنِ کریم کا دور کرتے تھے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیاضی و سخاوت اور نفع رسانی میں بادِ رحمت سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے۔ (صحیح بخاری)

روزہ دار کے لئے پرہیز
حدیث:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”جس شخص نے (روزے کی حالت میں) بیہودہ باتیں (مثلاً: غیبت، بہتان، تہمت، گالی گلوچ، لعن طعن، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔“ (بخاری، مشکوٰة)

حدیث:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے (بھوک) پیاس کے کچھ حاصل نہیں (کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے)، اور کتنے ہی (رات کے تہجد میں) قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں۔“ (دارمی، مشکوٰة)

حدیث:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”روزہ ڈھال ہے (کہ نفس و شیطان کے حملے سے بھی بچاتا ہے، اور گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے، اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا)، پس جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو نہ تو ناشائستہ بات کرے، نہ شور مچائے، پس اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تو (دِل میں کہے یا زبان سے اس کو) کہہ دے کہ: میں روزے سے ہوں! (اس لئے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا کہ روزہ اس سے مانع ہے)۔“ (بخاری و مسلم، مشکوٰة)

حدیث:… حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”روزہ ڈھال ہے، جب تک کہ اس کو پھاڑے نہیں۔“ (نسائی، ابنِ خزیمہ، بیہقی، ترغیب)
اور ایک روایت میں ہے کہ: عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہ ڈھال کس چیز سے پھٹ جاتی ہے؟ فرمایا: ”جھوٹ اور غیبت سے!“ (طبرانی الاوسط عن ابی ہریرہ، ترغیب)

حدیث:… حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کا روزہ رکھا، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفار ہوگا۔“ (صحیح ابنِ حبان، بیہقی، ترغیب)

دو عورتوں کا قصہ
حدیث:… حضرت عبید رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد شدہ غلام، کہتے ہیں کہ: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ: یہاں دو عورتوں نے روزہ رکھا ہوا ہے، اور وہ پیاس کی شدّت سے مرنے کے قریب پہنچ گئی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اور اِعراض فرمایا، اس نے دوبارہ عرض کیا (غالباً دوپہر کا وقت تھا) کہ: یا رسول اللہ! بخدا! وہ تو مرچکی ہوں گی یا مرنے کے قریب ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا پیالہ منگوایا، اور ایک سے فرمایا کہ اس میں قے کرے، اس نے خون، پیپ اور تازہ گوشت وغیرہ کی قے کی، جس سے آدھا پیالہ بھر گیا، پھر دُوسری کو قے کرنے کا حکم فرمایا، اس کی قے میں بھی خون، پیپ اور گوشت نکلا، جس سے پیالہ بھر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں سے تو روزہ رکھا، اور حرام کی ہوئی چیز سے روزہ خراب کرلیا کہ ایک دُوسری کے پاس بیٹھ کر لوگوں کا گوشت کھانے لگیں (یعنی غیبت کرنے لگیں)۔“ (مسندِ احمد ج:۵ ص:۴۳۰، مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۷۱)

روزے کے درجات
حجة الاسلام امام غزالی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ: روزے کے تین درجے ہیں۔ ۱:عام۔ ۲:خاص۔ ۳:خاص الخاص۔ عام روزہ تو یہی ہے کہ شکم اور شرم گاہ کے تقاضوں سے پرہیز کرے، جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ اور خاص روزہ یہ ہے کہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ، پاوٴں اور دیگر اعضاء کو گناہوں سے بچائے، یہ صالحین کا روزہ ہے، اور اس میں چھ باتوں کا اہتمام لازم ہے:
اوّل:… آنکھ کی حفاظت، کہ آنکھ کو ہر مذموم و مکروہ اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرنے والی چیز سے بچائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”نظر، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِبد کو ترک کردیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت (شیرینی) اپنے دِل میں محسوس کرے گا۔“ ( مجمع الزوائد ج:۳ ص:۶۳)
دوم:… زبان کی حفاظت، کہ بیہودہ گوئی، جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے اسے محفوظ رکھے، اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے، یہ زبان کا روزہ ہے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ: غیبت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مجاہد کہتے ہیں کہ: غیبت اور جھوٹ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”روزہ ڈھال ہے، پس جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بیہودہ بات کرے، نہ جہالت کا کوئی کام کرے، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے تو کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔“ (صحاح)
سوم:… کان کی حفاظت، کہ حرام اور مکروہ چیزوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے، اس کا سننا بھی حرام ہے۔
چہارم:… بقیہ اعضاء کی حفاظت، کہ ہاتھ پاوٴں اور دیگر اعضاء کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھے، اور اِفطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا۔
پنجم:… اِفطار کے وقت حلال کھانا بھی اس قدر نہ کھائے کہ ناک تک آجائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے۔“ (رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ والحاکم من حدیث مقدام بن معدیکرب) اور جب شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزہ سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوّت توڑنے کا مقصد کیونکر حاصل ہوگا؟
ششم:… اِفطار کے وقت اس کی حالت خوف و رجا کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود؟ پہلی صورت میں یہ شخص مقرّبِ بارگاہ بن گیا، اور دُوسری صورت میں مطرود و مردُود ہوا، یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہئے۔

اور خاص الخاص روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کا روزہ ہو، اور ماسوا اللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے، البتہ جو دُنیا کہ دین کے لئے مقصود ہو وہ تو دُنیا ہی نہیں، بلکہ توشہٴ آخرت ہے۔ بہرحال ذکرِ الٰہی اور فکرِ آخرت کو چھوڑ کر دیگر اُمور میں قلب کے مشغول ہونے سے یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اربابِ قلوب کا قول ہے کہ دن کے وقت کاروبار کی اس واسطے فکر کرنا کہ شام کو اِفطاری مہیا ہوجائے، یہ بھی ایک درجے کی خطا ہے، گویا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رزقِ موعود پر اس شخص کو وثوق اور اعتماد نہیں، یہ انبیاء، صدیقین اور مقربین کا روزہ ہے۔ (احیاء العلوم ج:۲ ص:۱۶۸، ۱۶۹ ملخصاً)

روزے میں کوتاہیاں
حضرت حکیم الاُمت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ نے ”اصلاح انقلاب“ میں تفصیل سے ان کوتاہیوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جو روزے کے بارے میں کی جاتی ہیں، اس کتاب کا مطالعہ کرکے ان تمام کوتاہیوں کی اصلاح کرنی چاہئے، یہاں بھی اس کے ایک دو اقتباس نقل کئے جاتے ہیں، راقم الحروف کے سامنے مولانا عبدالباری ندوی کی ”جامع المجددین“ ہے، ذیل کے اقتباسات اسی سے منتخب کئے گئے ہیں:
”بہت سے لوگ بلا کسی قوی عذر کے روزہ نہیں رکھتے، ان میں سے بعض تو محض کم ہمتی کی وجہ سے نہیں رکھتے، ایسے ہی ایک شخص کو، جس نے عمر بھر روزہ نہ رکھا تھا اور سمجھتا تھا کہ پورا نہ کرسکے گا، کہا گیا کہ تم بطور امتحان ہی رکھ کر دیکھ لو، چنانچہ رکھا اور پورا ہوگیا، پھر اس کی ہمت بندھ گئی اور رکھنے لگا۔ کیسے افسوس کی بات ہے کہ رکھ کر بھی نہ دیکھا تھا اور پختہ یقین کر بیٹھا تھا کہ کبھی رکھا ہی نہ جاوے گا۔ یہ لوگ سوچ کر دیکھیں کہ اگر طبیب کہہ دے کہ آج دن بھر نہ کچھ کھاوٴ نہ پیئو، ورنہ فلاں مہلک مرض ہوجائے گا، تو اس نے ایک ہی دن کے لئے کہا، یہ دو دن نہ کھاوے گا، کہ احتیاط اسی میں ہے۔ افسوس! خدا تعالیٰ صرف دن دن کا کھانا چھڑاویں اور کھانے پینے سے عذابِ مہلک کی وعید فرمائیں اور ان کے قول کی طبیب کے برابر بھی وقعت نہ ہو؟ انا لله!“

”بعضوں کی یہ بے وقعتی اس بدعقیدگی تک پہنچ جاتی ہے کہ روزہ کی ضرورت ہی کا طرح طرح سے انکار کرنے لگتے ہیں، مثلاً: روزہ قوّتِ بہیمیہ کے توڑنے یا تہذیبِ نفس کے لئے ہے، اور ہم علم کی بدولت یہ تہذیب حاصل کرچکے ہیں
․․․․․․“
”اور بعضے تہذیب سے بھی گزر کر گستاخی اور تمسخر کے کلمات کہتے ہیں، مثلاً: ”روزہ وہ شخص رکھے جس کے گھر کھانے کو نہ ہو“ یا ”بھائی ہم سے بھوکا نہیں مرا جاتا“ سو یہ دونوں فریق بوجہ انکارِ فرضیتِ صوم، زُمرہٴ کفار میں داخل ہیں، اور پہلے فریق کا قول محض ”ایمان شکن“ ہے، اور دُوسرے کا ”ایمان شکن“ بھی اور ”دِل شکن“ بھی ․․․․․․“

”اور بعض بلا عذر تو روزہ ترک نہیں کرتے، مگر اس کی تمیز نہیں کرتے کہ یہ عذر شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟ ادنیٰ بہانے سے اِفطار کردیتے ہیں، مثلاً: خواہ ایک ہی منزل کا سفر ہو، روزہ اِفطار کردیا، کچھ محنت مزدوری کا کام ہوا، روزہ چھوڑ دیا۔

ایک طرح سے یہ بلا عذر روزہ توڑنے والوں سے بھی زیادہ قابلِ مذمت ہیں، کیونکہ یہ لوگ اپنے کو معذور جان کر بے گناہ سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ شرعاً معذور نہیں اس لئے گناہگار ہوں گے۔“

”بعضے لوگوں کا اِفطار تو عذرِ شرعی سے ہوتا ہے، مگر ان سے یہ کوتاہی ہوتی ہے کہ بعض اوقات اس عذر کے رفع ہونے کے وقت کسی قدر دن باقی ہوتا ہے، اور شرعاً بقیہ دن میں اِمساک، یعنی کھانے پینے سے بند رہنا واجب ہوتا ہے، مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتے، مثلاً: سفرِ شرعی سے ظہر کے وقت واپس آگیا، یا عورت حیض سے ظہر کے وقت پاک ہوگئی، تو ان کو شام تک کھانا پینا نہ چاہئے۔ علاج اس کا مسائل و اَحکام کی تعلیم و تعلّم ہے۔“

”بعض لوگ خود تو روزہ رکھتے ہیں، لیکن بچوں سے (باوجود ان کے روزہ رکھنے کے قابل ہونے کے) نہیں رکھواتے۔ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ عدمِ بلوغ میں بچوں پر روزہ رکھنا تو واجب نہیں، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے اولیاء پر بھی رکھوانا واجب نہ ہو، جس طرح نماز کے لئے باوجود عدمِ بلوغ کے ان کو تاکید کرنا بلکہ مارنا ضروری ہے، اسی طرح روزے کے لئے بھی ․․․․․ اتنا فرق ہے کہ نماز میں عمر کی قید ہے اور روزہ میں تحمل پر مدار ہے (کہ بچہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو)، اور راز اس میں یہ ہے کہ کسی کام کا دفعةً پابند ہونا دُشوار ہوتا ہے، تو اگر بالغ ہونے کے بعد ہی تمام اَحکام شروع ہوں تو ایک بارگی زیادہ بوجھ پڑ جائے گا، اس لئے شریعت کی رحمت ہے کہ پہلے ہی سے آہستہ آہستہ سب اَحکام کا خوگر بنانے کا قانون مقرّر کیا۔“

”بعض لوگ نفسِ روزہ میں تو اِفراط و تفریط نہیں کرتے، لیکن روزہ محض صورت کا نام سمجھ کر صبح سے شام تک صرف جوفین (پیٹ اور شرم گاہ) کو بند رکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ حالانکہ روزے کی نفسِ صورت کے مقصود ہونے کے ساتھ اور بھی حکمتیں ہیں، جن کی طرف قرآن مجید میں اشارہ بلکہ صراحت ہے کہ: ”لعلکم تتقون“ ان سب کو نظرانداز کرکے اپنے صوم کو ”جسدِ بے رُوح“ بنالیتے ہیں۔ خلاصہ ان حکمتوں کا معاصی و منہیات سے بچنا ہے، سو ظاہر ہے کہ اکثر لوگ روزہ میں بھی معاصی سے نہیں بچتے، اگر غیبت کی عادت تھی، تو وہ بدستور رہتی ہے، اگر بدنگاہی کے خوگر تھے، وہ نہیں چھوڑتے، اگر حقوق العباد کی کوتاہیوں میں مبتلا تھے، ان کی صفائی نہیں کرتے، بلکہ بعض کے معاصی تو غالباً بڑھ جاتے ہیں، کہیں دوستوں میں جابیٹھے کہ روزہ بہلے گا، اور باتیں شروع کیں، جن میں زیادہ حصہ غیبت کا ہوگا، یا چوسر، گنجفہ، تاش، ہارمونیم، گراموفون لے بیٹھے اور دن پورا کردیا۔ بھلا اس روزے کا کوئی معتد بہ حاصل کیا؟ اتنی بات عقل سے سمجھ میں نہیں آتی کہ کھانا پینا، جو فی نفسہ مباح ہے، جب روزے میں وہ حرام ہوگیا، تو غیبت وغیرہ دُوسرے معاصی، جو فی نفسہ بھی حرام ہیں، وہ روزے میں کس قدر سخت حرام ہوں گے! حدیث میں ہے کہ: ”جو شخص بدگفتاری و بدکرداری نہ چھوڑے، خدا تعالیٰ کو اس کی کچھ پروا نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔“ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ بالکل روزہ ہی نہ ہوگا، لہٰذا رکھنے ہی سے کیا فائدہ؟ روزہ تو ہوجائے گا، لیکن ادنیٰ درجے کا۔جیسے اندھا، لنگڑا، کانا، گنجا، اپاہج آدمی، آدمی تو ہوتا ہے، مگر ناقص۔ لہٰذا روزہ نہ رکھنا اس سے بھی اشد ہے، کیونکہ ذات کا سلب، صفات کے سلب سے سخت تر ہے۔“

پھر حضرت نے روزے کو خراب کرنے والے گناہوں (غیبت وغیرہ) سے بچنے کی تدبیر بھی بتلائی جو صرف تین باتوں پر مشتمل ہے، اور ان پر عمل کرنا بہت ہی آسان ہے:
”خلق سے بلاضرورت تنہا اور یکسو رہنا، کسی اچھے شغل مثلاً: تلاوت وغیرہ میں لگے رہنا اور نفس کو سمجھانا، یعنی وقتاً فوقتاً یہ دھیان کرتے رہنا کہ ذرا سی لذّت کے لئے صبح سے شام تک کی مشقت کو کیوں ضائع کیا جائے؟ اور تجربہ ہے کہ نفس پھسلانے سے بہت کام کرتا ہے، سو نفس کو یوں پھسلاوے کہ ایک مہینے کے لئے تو ان باتوں کی پابندی کرلے، پھر دیکھا جائے گا۔ پھر یہ بھی تجربہ ہے کہ جس طرز پر آدمی ایک مدّت رہ چکا ہو، وہ آسان ہوجاتا ہے، بالخصوص اہلِ باطن کو رمضان میں یہ حالت زیادہ مدرک ہوتی ہے کہ اس مہینے میں جو اعمالِ صالحہ کئے ہوتے ہیں سال بھر ان کی توفیق رہتی ہے۔“
Muhammad Shoaib Awan
About the Author: Muhammad Shoaib Awan Read More Articles by Muhammad Shoaib Awan: 20 Articles with 20024 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.