شیخ محمد ابراہیم آزادؔ شخصیت وشاعری

ڈاکٹر رئیس صمدانی کی تصنیف ’’شیخ محمد ابراہیم آزادؔ شخصیت وشاعری ‘‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی نظر میں

(ڈاکٹر رئیس صمدانی کی تصنیف ’’شیخ محمد ابراہیم آزادؔشخصیت وشاعری ‘‘ کا پیش لفظ اردو کے معروف استاد محقق و دانشورپروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری مرحوم نے تحریر شدہ ہے۔ڈاکٹر صاحب مرحوم کی  زندگی کا یہ آخری پیش لفظ ہے جو انہوں نے اپنے انتقال سے چند یوم قبل تحریر فرمایا)

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی سوانح نگاری اور خاکہ نویسی کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں کچھ عرصہ قبل ان کا خاکوں کا مجموعہ ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ منظر عام پر آچکا ہے۔ اس سے قبل سوانحی مضامین پر مشتمل کتاب ’یادوں کی مالا‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ صمدانی صاحب کی ان دونوں کتابوں پر میری رائے شامل ہے۔ اپنے موضوع پر بہت خوب لکھتے ہیں بلکہ ان کی حیثیت ایک صاحب نظر ادیب و محقق کی ہے۔ ایک اور خوبی جو میں نے ان میں محسوس کی کہ وہ صلہ و ستائش کی پروا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس بار انہوں نے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا ہے جن کا زمانہ انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر سے بیسویں صدی عیسویں کے تقریباً آخر کاہے۔یہ راجستھان کے معروف مداح سرا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ ہیں جوصاحب دیوان شاعرتھے جن کا مجموعہ کلام آگرہ سے ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا۔اس دور کے ممتاز شاعروں میں الطاف حسین حالیؔ، احمد رضا بریلوی، داغؔ دہلوی، سید وحید الدین بیخودؔ دہلوی، امیر مینائی، محسن کاکوروی، شاد عظیم آباد، علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی اور دیگر معروف شعرا ء اور ادیب شامل ہیں۔ پیش نظر کتاب آزادؔ صاحب کی شخصیت، شاعری، خاندان ،آبائی شہروں اور آزادؔ صاحب کے بارے میں ماہنامہ نعت لاہور کے خاص شماروں کے تعارف پر مبنی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ مواد اور معیار دونوں اعتبار سے ، یہ کتاب آزادؔ صاحب کے متعلق گراں قدر اضافہ ہے۔

تخلیقی صلاحیت رکھنے والے کسی بھی تخلیق کار کے سلسلے میں یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ وہ ایک سے زائداصنافِ سخن میں اظہار ذات کا ذریعہ بنانے پر قادر ہو۔ ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جنہوں نے نثر اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کی ہے اور ان میں سے ہر ایک میں خوب لکھا ہے۔ ڈاکٹر صمدانی ان لکھنے والو میں سے ہیں جنہوں نے اپنے موضوع لائبریری سائنس کے بارے میں بہت کچھ لکھاساتھ ہی مختلف ادبی موضوعات خاص طور پر سوانح نگاری اور خاکہ نویسی کواپنا موضوع بنا یا اور ایک سوانح نگار کے طور پر ادب کی دنیا میں اپنی شناخت قائم کی ۔

پیشِ نظر کتاب کی اساس شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی شخصیت اور نعت گوئی ہے ۔ اس لیے اس کا موضوع اس امر کا مُتقاضی ہے کے ‘ نعت‘ کے حوالے سے کچھ تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کروں۔ اس موضوع پر تفصیلی اظہار خیال میِں اپنی کتاب ’’اردو کی نعتیہ شاعری ‘‘ میں کرچکا ہوں جو ۱۹۷۲ء میں آئینہ ادب لاہورسے شائع ہوئی تھی۔ اردو شاعری کی محترم و مقبول صنف ’’نعت‘‘ ہے’’ نعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی کا تعلق مدحت و ثنا سے ہے۔ شعری اصطلاح اور صنف کی صورت میں یہ براہِ راست عربی سے نہیں بلکہ دوسری اصناف کی طرح فارسی سے اردو میں آئی ہے۔بات یہ ہے کہ ارُدو فارسی میں شعر و سخن کے حوالے سے نعت کا جو مفہوم متعین ہے وہ عربی میں نہیں ہے۔عربی میں اس جگہ ’’مدح‘‘ یا ’’وصف‘‘ کا لفظ مُستعمل ہے اور رسولِ اکرم ﷺ کی شان میں اشعار کہنے والوں کو ’’نعت گو‘‘ نہیں بلکہ مدّاحِ رسول یا وصّافِ رسول کہا جاتاہے۔ عموماً ’’مدح‘‘ کے لفظ سے وہی کام لیا جاتا ہے جو اردو فارسی میں لفظِ نعت سے لیا جاتا ہے ۔ لیکن اپنے اصطلاحی مفہوم میں’’مدح‘‘ کا لفظ نعت سے وسیع تر ہے کہ اس کااطلاق ، عربی نثر و نظم دونوں پر ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے حضور اکرم ﷺ کی شان میں لکھا ہوا ہرٹکڑا یا مضمون، نعت کے دائرے میں شامل ہے۔ عربی کے اولین نعت نگاروں میں جناب ابو طالب اور اُمِ معُبد کے نام آتے ہیں۔

مختصر اً عرض کروں کہ عربی میں نعت گوئی کا رواج صرف ذوقِ شعر گوئی کی تسکین یا کمال زباندانی کے اظہار کے لیے نہ تھا ۔اُس کا اصل مقصد ، اسلام اور مسلمانوں پر ، ہجویہ حملہ کرنے والے شعرا کا جواب دینا تھا۔ حضرت حسان بن ثابت ؓ کو اسی غرض سے شعر گوئی اور نعتیہ قصیدہ نگاری کی اجازت دی گئی تھی کہ اُس کے ذریعہ کفار مکہ کے ہجونگاروں کو لاجواب کرنا اور مسلمانوں کی عزت و ناموس کو اُن کے حملوں سے تحفظ و نجات دلانا مقصود تھا ورنہ حضورِ اکرم ﷺ کو یہ بات پسند نہ تھی کہ لوگ ان کی تعریف میں قصیدے لکھیں۔ان قصائد کا بنیادی مقصد حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتی بزرگی و عظمت کا اظہار نہیں بلکہ دین اسلام کی برکات و احسانات سے عوام الناس کو دلکش پیرائے میں متعارف کرانا اور غیر مسلم شعرا کے خلاف جہاد با للسان و القلم کو موثر و کارگر بنانا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو شاعری میں رسمی نعت گو شعرا سے قطع نظر، بے شمار ایسے شعرا موجود ہیں جن کی نعتیہ شاعری یکسر وجدانی اور رسمیات سے پاک ہے۔ ان شعرا کے نعتیہ کلام نے ہما ر ے معاشرے کی تہذیبی زندگی پر کم و بیش وہی اثر ڈالا ہے جو نعت گوئی کا مقصود اصلی تھا۔ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ بھی ان شعرا میں سے ہیں کہ جن کے نعتیہ کلام میں رسولِ اکرمﷺ کی ذات صفات سے والہانہ عشق صاف عیاں ہوتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنابِ آزادؔ سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں جن کی شاعری کے بارے میں خود بیخودؔ دہلوی نے کہا کہ ’ان کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چندہ محتاج نہیں‘۔ بیخودؔ دہلوی جیسے استاذ الشعرا جانشین فصیح الملک داغؔ دہلوی کی اس رائے کے بعد گنجائش نہیں رہ جاتی کے آزادؔ صاحب کی شاعری پر کچھ کہا جائے۔

پیش نظر کتاب سے اندازہ ہوا کہ صمدانی صاحب ایک شاعر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے خاندان میں شعر و ادب کا مذاق کئی نسلوں سے چلا آرہا ہے۔ متعدد احباب ادیب و شاعر اور صاحب ِ دیوان شاعر ہیں ۔ خود صمدانی صاحب کے بعض اشعار اس کتاب میں کہیں کہیں نظر سے گزرے ۔امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ رسولِ اکرم ﷺ سے محبت کرنے والوں کے لیے تسکین کا وسیلہ ہوگی۔ اہل ِ ذوق کو انبساطِ روح اور نشاطِ قلب کے اسباب فراہم کرے گی۔غورو فکر کی راہیں کھولے گی اور مصنف کے قلم کو مزیدمعتبر و محترم بنائے گی اور ہر اعتبار سے اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ہوگی۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1272912 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More