واپسی

تحریر: ارشد علی

گاڑی گردوغبار کے بگولے بناتی، ہچکولے کھاتی تیز تیز دوڑے جا رہی تھی۔ تا حدّ نگاہ کپاس کی سوکھی چھڑیاں دُھند کی شال اوڑھے اکٹھی ہوئیں، ایک دوسرے سے سر جوڑے کھڑی تھیں۔ سورج کئی دن سے کھوئے رہنے کے بعد کچھ وقت پہلے بادلوں کی اوٹ سے نمودار ہُوا تھا اور اب افق کے مغربی کنارے اُس بچّے کی طرح جو اپنی مرضی سے گھر سے بھاگا ہو اور اب گلی کی نکّڑ پر شرمندہ شرمندہ سا اِس انتظار میں کھڑا ہو کہ کوئی اُسے پھر سے گھر لے جائے، سَر نیہوڑائے اپنے ہی بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔۔

’’اُف۔۔آج تو بہت ٹھنڈ ہے۔۔‘‘کپاس کی چھڑیوں نے آپس میں سرگوشی کی اور شکوہ آمیز نگاہوں سے سورج کی جانب دیکھتے ہوئے، ایک دوسرے سے یوں الگ الگ ہوگئیں جیسے بس سٹاپ پر مختلف منزلوں کو روانہ ہونے والے مسافر اکٹھے مگر لاتعلّق کھڑے ہوتے ہیں۔ اُس کا وجود ، نگاہ کے رستے بس کے شیشے سے نکلا اور کپاس کی چھڑیوں کو پھلانگتا ٹِبّے تک جا پہنچا۔

’’ یہاں سے ہی مَیں نے سفر شروع کیا تھا اور اب۔۔۔‘‘ اُس نے اُفق پر ڈوبتے سورج کو دیکھا اور آنکھیں موند لیں۔
’’نہیں ۔۔۔سفر تو نامعلوم کب شروع ہُوا تھا‘‘

کہتے ہیں بڑے اَبّا پہلے آسمانوں پر رہا کرتے تھے۔۔۔ اُس نے آسمان کی جانب نگاہ کی، جہاں بادل آپس میں کھیلنے میں مگن تھے اور کھیل کھیل میں وہ کافی دُور نکل آئے تھے۔ اُن کی اِس حرکت پر سورج غصّے سے لال ہُوا جا رہا تھا، لیکن اُس کے پاؤں کسی اَن دیکھی دلدل میں پھنسے ہُوئے تھے اور وہ آدھے سے زیادہ اُس میں ڈوب چکا تھا۔

’’اگر بڑے اَبّا آسمانوں پر رہتے تھے تو پھر زمین پر کیسے آئے؟ ‘‘

’’اَمّاں کی وجہ سے۔۔۔۔ اُس نے دائیں بائیں دیکھا۔ یہ آواز۔۔۔؟۔۔۔۔خیر۔۔۔۔ اَبّا بھی اَمّاں کی وجہ سے ۔۔۔۔۔ اَمّاں بھی۔۔۔۔مَیں بھی تو اَمّاں کی وجہ سے ہی۔۔۔۔۔ اُس دن بھی اَبّا، اَمّاں میں کتنا جھگڑا ہوا تھا۔۔۔۔ اَمّاں کہتی : میری بھانجی۔۔۔۔ اور اَبّا کہتا : میری بھتیجی۔۔۔۔۔ اور نتیجہ وہی کہ جیت بھی اَمّاں کی اور غلطی بھی ۔۔۔۔اور سزا۔۔۔۔ ملی مجھے۔۔۔۔

آج اتنے برسوں بعد۔۔۔پتہ نہیں ۔۔۔ اَمّاں مجھے پہچانے گی بھی کہ نہیں ۔۔۔ اور پتہ نہیں، اَمّاں ۔۔۔؟؟

نہیں، نہیں۔۔۔۔چُپ۔۔۔۔’منحوس! یہ کیا اُلٹا سیدھا سوچ رہا ہے۔۔۔۔اللہ نہ کرے۔۔۔‘کپاس کے کھیت میں مختلف جگہوں سے سردی اور سورج کو کوسنے کی آوازوں پر وہ سب کچھ چھوڑ اُن کی جانب متوجّہ ہو گیا اور پھراُس نے سورج کی جانب دیکھا جس کے جسم میں فقط چند سانسیں باقی تھیں۔

’اِس جنم کی غلطیوں کا مداوا کرنے کو اب ٹَیم کہاں بچا ہے ؟!! جمالے ! یہ جُرم تو کسی اگلے جنم میں ہی بخشواؤں گا۔۔‘ کمال دین نے جواب دیاتھا۔ جب جمالا اُسے ہمیشہ کی طرح واپس لَوٹ جانے کو کہہ رہا تھا۔۔۔

’دیکھ، کمالیا ! تجھے وئیں وَرھے ہو چکے، ماں باپ، بہن بھائی، بیوی کو چھوڑے اور ہاں ایک بیٹی بھی تو تھی نا تیری۔۔۔؟!! کَے دن کی بھلا۔۔۔؟!! تُو نے بتایا تھا۔۔۔ایک وار جب۔۔۔۔جا، چلا جا۔۔۔۔ اَب بھی چلا جا۔۔۔کیا معلوم، زندگی کے کتنے سورج اور دیکھنے ہیں۔۔۔۔اور کیا معلوم، کب یہ سورج ڈھل جائے۔۔۔!!‘

’ناں جمالے ! ہر کام کا ٹَیم ہوتا ہے۔۔۔اور غیر ٹَیم تو نماز بھی نہیں ہوتی۔۔۔۔ اور یہ ٹَیم۔۔۔ اِس میں تو رَب کو سجدہ بھی نہیں، مَیں کیسے چلا جاؤں۔۔۔ نہ بھئی۔۔۔ناں۔۔۔ یہ میر سے نہیں ہونے والا۔۔‘ اُس نے غروب ہوتے سورج کی جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔اور اِس گھڑی، سورج کی طرف دیکھتے ہوئے اُسے احساس ہوا کہ سورج تو ڈوب چکا اور یہ رہی سہی روشنی جتنی ہی زندگی بچی ہے، اور اِس روشنی کے ساتھ ہی سفر تمام ہونے کو ہے۔

’بیس سال۔۔بیس سال تک مجھے کبھی خیال ہی نہ آیا پلٹنے کا۔۔۔اور آج۔۔‘ بیس سال بعد وہ مسلسل ایک سوچ سے دوسری اور پھر تیسری۔۔۔اور پھر سوچوں کے گھنے جنگل میں بھٹکنے لگاتھا۔ یوں لگتا جیسے ذہن کے غار پر رکھا پتھر سوچ کی پَے در پے چوٹوں کے آگے ہار مان گیا ہو۔

’پَردے بند کر دیو جی۔۔۔ پَردے بند کریو۔۔‘ کنڈکٹر کی آواز گُونجی۔

اُس نے دُکھ میں بھیگی ہنسی اُس کی جانب نچھاور کی، جس نے ہَٹتے ہوئے پتھر کو پھر سے اُس کی جگہ ٹِکا دیا تھا، اور پردہ بند کر کے سیٹ کی پُشت سے سَرلگا لیا۔بس کے گھومتے پہیے اُسے ہر لمحہ کسی اندھیری وادی میں دھکیل رہے تھے جس کی بدولت وہ بہت دھیرے دھیرے اور سنبھل سنبھل کر آگے بڑھ رہی تھی، مگر اِس ساری احتیاط کے باوجود،اس سفر میں اُس کے ہر قدم کے ساتھ وادی کے اندھیرے میں اضافہ ہی ہوا جا رہا تھا۔

اچانک وہ ہڑبڑا کر اُٹھا اور کان لگا کر کچھ سُننے کی کوشش کرنے لگا۔ اُسے لگا جیسے کوئی مدد کے لیے پُکار رہا ہے۔ کوئی تنہا وجود ، ڈرا، سہما، تاریکی کے خوف میں شدّت سے مبتلا۔۔۔اُس نے پردہ ہٹایا اور کچھ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ جیسے زمین کے بطن سے کوئی کونپل پُھوٹی ہو، جسے بیجنے والا کسان بھی فراموش کر چکا تھا۔ لیکن زمین کی زرخیزی کو بیج کا ضائع کرنا گوارا نہ ہوا اور اُس نے مقررہ وقت پر اُسے سینچ دیا۔ یقیناً۔۔۔ یہ صدا کسی ایسی ہی کونپل کی تھی جو لاوارث تو نہ تھی لیکن اِس وقت اُس کا کوئی پُرسانِ حال بھی نہ تھا۔۔۔

’کمالیا !!۔۔۔‘
’ہُوں ؟!!۔۔۔۔‘
’ تیری ایک بیٹی بھی تو تھی۔۔۔۔ کَے دن کی بھلا۔۔۔؟!!‘
’میری بیٹی۔۔۔میری بیٹی۔۔۔‘ اُس نے اندھیرے میں گھورتے ہوئے دو تین مرتبہ دہرایا اور نہیں۔۔نہیں۔۔ پکارنے لگا۔

وہ کبھی ڈرائیور کی جانب متوجّہ ہوتا اور سختی سے اُسے گاڑی تیز چلانے کی تاکید کرتا اور پھر باہر دیکھتے ہوئے بڑبڑاتا۔

’نہیں ۔۔نہیں۔۔۔بیٹا ! مَیں آرہا ہوں۔۔۔دیکھ! رونا نہیں۔۔۔ناں، بالکل نہیں رونا۔۔۔!! اُستاد۔۔۔اُستاد !! جلدی چل۔۔۔ مجھے اندھیرا بُجھنے سے پہلے پہنچنا ہے۔۔‘
اُس کی یہ تکرار جاری تھی کہ ساتھ بیٹھے ایک صاحب نے از راہِ ہمدردی پوچھا ،
’ بھائی صاحب! کتنی بڑی ہے آپ کی بیٹی۔۔۔ ؟‘
اِس سے آگے وہ کچھ نہ سُن پایا۔’اِتنی۔۔! نہیں ،اِتنی۔۔۔!! نہیں، نہیں۔۔۔اِتنی ۔۔۔!!‘
اُس کا ہاتھ مختلف منزلوں سے گزرتا ایک جگہ ٹھہر گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے اُس کی اَن کہی کہانیاں ٹھہر گئی تھیں۔۔
’بابا، بابا !! مجھے کہانی سُنائیں۔۔‘
’کہانی ۔۔!کون سی بیٹا!!‘
’ بابا، کوئی سی بھی۔۔‘
’ اچّھا۔۔ !! تو سُنو۔۔!!۔۔ایک تھا بادشاہ۔۔۔‘
’بابا ! یہ بادشاہ کیا ہوتا ہے؟
’بادشاہ!بیٹا۔۔ بیٹا ! سوال نہیں پوچھتے کہانی کے دوران‘
’پھر بھی بابا !۔۔۔۔‘
’پھر بھی۔۔‘
’بیٹا ! بس یوں سمجھ لو، بادشاہ بہت بڑا ہوتا ہے۔۔۔اور اب خاموشی سے کہانی سُننا‘
’کوئی سوال نہ پوچھوں ؟‘
’نہیں۔۔۔‘
’وہ کیوں بابا ؟ ‘
’وہ اس لیے بیٹا ! کہ کہانی تمام اُٹھتے سوالوں کا جواب خود دیتی جاتی ہے۔‘
’اور اگر بیچ میں سوال کرو تو۔۔۔؟؟‘
’تو بیٹا! کہانی اپنا راستہ بدل لیتی ہے۔۔‘
’پھر کیا ہوتا ہے بابا؟‘
’ پھر بیٹا! کہانیاں ادھوری ہی رِہ جایا کرتی ہیں۔‘
’بھائی صاحب !! آپ نے بتایا نہیں، ماشااللہ سے کیا عُمرہے آپ کی بیٹی کی۔۔؟‘

لیکن اُس نے جیسے کچھ سُنا ہی نہیں اور گہری سوچ میں کھویا رہا۔۔۔گھر چھوڑنے کے چھ ماہ بعد پِنڈ کے ایک بندے سے اتّفاقیہ ملاقات پر اُس کے علم میں آیا تھا کہ پیچھے اُس کے گھر بیٹی ہوئی ہے۔۔۔ اور آج بیس سال بعد وہ کتنی کچھ ہو گی؟۔۔۔

’کمال دین!بیس سال۔۔۔بیس سال تجھے جس کی یاد نہ آئی، آج کس منہ سے جا رہا ہے اُس کے پاس۔۔۔؟؟ کیا وہ پہچانے گی تجھے؟ مانے گی۔۔۔؟؟ تُو۔۔۔تُو۔۔۔کیا ہے۔۔۔؟ کیا ہے تیرے پاس اُس کے لیے۔۔۔اُسے دینے کے لیے۔۔۔۔تُو تو اُسے اپنی پہچان بھی نہ کروا سکا۔۔۔پتہ نہیں اُس کی ماں نے تجھے اُس کے خیالوں میں زندہ رہنے کا حق دیابھی ہے کہ نہیں۔۔۔ ؟؟ نہیں، کمال دین !! نہ کر۔۔۔کہانی کا رُخ نہ موڑ۔۔۔جہاں سے آیا ہے، اُدھر ہی لَوٹ جا۔۔۔
اَرے۔۔ کمالیا، کیا ہو گیا ہے تجھے۔۔؟ سٹھیا تو نہیں گیا ۔۔۔؟؟ خدا خدا کر کے تیری عقل ٹھکانے آئی ہے، تُو پھر ۔۔۔نہ، نہ۔۔۔چل، سیدھا گھر چل۔۔۔بہت مسافری کر لی۔ آخر کو وہ تیرا خون ہے۔ اس سے تو انکار نہیں، اور خون تو اپنا آپ دکھائے گا۔ تُو چل۔۔۔چل کے معافی مانگ لینا، پاؤں پکڑ لینا۔۔۔پر اَب یہ چار دن کسی کِلّے سے بندھ کے گزار دے۔

خود سے اس تُو تکرار میں رات ڈھلتی رہی اور جب کنڈکٹر کے پکارنے پر وہ بھی بس سے اُترا ۔۔۔تویک بارگی چکرا کر رہ گیا۔کہاں وہ جنگل بیابان۔۔۔اور کہاں یہ اُونچے اُونچے پلازوں میں گِھرا بَس سٹینڈ۔۔۔پھر وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھا۔اس دوران اُس کی نگاہ آسمان پر پڑی، جہاں سورج اپنی پُوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اور اس احساسِ تفاخر کے ساتھ کہ مخلوقِ خدا اُس کی گرم کرنوں کی آغوش میں سکون سے سستا رہی ہے،اُس کی سانسیں سینے میں سنبھالے نہیں سنبھلتی تھیں۔۔۔یونہی چلتے چلتے وہ ایک دوکان میں جا گھسا اور بِنا سوچے سمجھے ہی ایک گُڑیا لیکر باہر آگیا۔ پھر دوسری دوکان، پھر تیسری۔۔۔اور یوں پورے بازار میں گھومتا پھرا۔۔۔رنگ برنگی چوڑیاں۔۔۔کپڑے، جوتے۔۔۔نہ جانے کیا کیا کچھ لیتا ۔۔جیسے ایک پہر میں ہاتھ سے گِرے ہوئے بیس برس سمیٹ لینا چاہتا ہو۔۔۔آخرکار، اُس نے ٹیکسی روکی، کرایہ طے کیے بنا سامان رکھا اور بولا ،
’ چک ۔ 41‘
’ کس جگہ ؟؟‘
’ ٹبّے پہ۔۔۔‘
اس موقع پر ڈرائیور نے بھی کچھ بولنا ضروری نہ سمجھا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔
سب کچھ کتنا بدل چکا ہے ۔ پکّی سڑکیں، بڑی بڑی مارکیٹیں، ٹریکٹر ٹرالیاں ، رکشے، ویگنیں۔۔
’کمال دین !‘
’ ہُوں۔۔۔!‘
’اگر وہ گھر بدل چکے۔۔‘
اُس کے ذہن میں ایک خیال اُبھرا اور یک لخت اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑگئے۔۔۔۔
سانس رُک سی گئی اور وہ پکاراُٹھا،
’ نہیں نہیں ایسا نہیں ہُوا۔۔۔ایسا نہیں ہو گا۔۔۔نہیں ہو سکتا ایسا۔۔۔ ‘
’جناب ! خیر اے۔۔۔۔۔!! کیا نہیں ہوا ۔۔۔۔؟؟ کیا نہیں ہو سکتا۔۔؟؟‘
ڈرائیور نے مشکوک نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’ وہ گھر نہیں بدل سکتے۔۔۔۔ وہ کون۔۔؟‘
’وہ۔۔‘
جواب میں ڈرائیور نے دوبارہ پوچھنا گوارا نہ کیا ۔
’ہمیں کتنی دیر لگے گی!!‘
’ ہیں۔۔۔؟‘
’ آدھا گھنٹہ۔‘
’اچھا ۔۔!!‘
کمال دین نے زیرِ لب کہا اور نگاہیں دُور تک پھیلے کھیتوں پر جما دیں۔ اُڑتے پرندے، ساتھ دوڑتے درخت، ٹیوب ویل میں نہاتے بچّے ، سینہ تانے کھڑی فصلیں۔۔۔وہ ہر شے کوگہری نظروں سے دیکھ رہا تھا تاکہ پھر سے کوئی سوچ اُس پر حاوی نہ ہو سکے۔ گاڑی بائیں کو مُڑی اور چمکتا دمکتا سورج، ایک بار پھر اُس کے عین سامنے تھا۔

\"جمالے ! اِس جنم کی غلطیوں کا مداوا تو اگلے جنم میں ہی ہو پائے گا۔۔۔۔!!\"

اُس کے کان میں جیسے کسی نے سرگوشی کی اور وہ بے بسی سے خیالات کے ایک نئے دھارے میں بہنے لگا۔۔۔

’کمال دین ! تیری واپسی ۔۔۔یہ چار تھیلے کیا سب کچھ دھو ڈالیں گے۔۔۔؟؟ ‘

ڈرائیور نے گاڑی کو تیزی سے کاٹا اور بیک وِیو مِرر میں دیکھتے ہوئے ٹرالی والے کو صلواتیں سنانے لگا۔۔۔ پکّی سڑک سے اُتر کر گاڑی دُھول کے بادل اُڑانے لگی اور وہ تیز تیز دھڑکتے دل ، ساکن آنکھوں، کُھلے مُنہ اور کپکپاتے جسم کے ساتھ نظروں کے سامنے موجود مٹی سے لِپی ہوئی دیواروں کے درمیان لکڑی کے دروازے کو تکنے لگا۔
’ یہی ہے۔۔۔۔!‘
’ہاں۔۔ !! یہیں روک لو۔۔۔۔!!‘
گاڑی رُکنے پر وہ لرزتا، کانپتا دروازہ کھول کے اُترا، سامان سمیٹا۔ اور گاڑی کے پلٹنے تک وہیں کھڑا رہا۔ پھراس چور کی مانند، جو دیوار پھلانگنے سے پہلے یہ تسلّی کرنے کے لیے دائیں بائیں دیکھتا ہے کہ کوئی اُسے دیکھ تو نہیں رہا دیکھتے ہوئے، آہستہ قدموں سے آگے بڑھا اور کپکپاتے ہاتھوں سے دروازے پر دستک دی۔ پھر دوبارہ۔۔۔ اور جب سِہ بارہ دستک کے لیے ہاتھ اُٹھایا تو اُس کے کانوں میں آواز پڑی ،
’ کون ؟‘
’ مَیں ۔۔۔۔۔‘
اُس نے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے بولنے کی کوشش کی۔ لیکن اُس کے گلے میں کوئی بانس کی فصل کاشت کر
گیا تھا جس کی کونپلیں، تیزی سے بڑھتے ہوئے اُس کے حلق تک آن پہنچی تھیں۔۔۔
’مَیں۔۔ کمال دین۔۔ مِیدو کا پُتّر۔۔۔صفیہ کا گھر والا۔۔۔تیرا باپ۔۔۔نہیں، بابا۔۔۔نہیں، تیرا۔۔۔!!‘
ہزار کوشش کے باوجود بھی کوئی لفظ اس کے مُنہ سے نہ نکل سکا۔۔۔
یوں لگتا تھا، اُس کی قوّتِ گویائی اچانک سلب ہو گئی ہے۔ اُس نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دروازے کے پیچھے دوپٹہ درست کرتے وجود کودیکھنے کی کوشش کی لیکن آنکھوں سے بھی جیسے بینائی رخصت ہو چکی تھی۔۔۔ کانپتا بدن، سامان کا بوجھ نہ سہار سکا اور اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر سب کچھ زمین پر آرہا۔کانچ کے ٹوٹنے کی آواز پر اندر سے آنے والی دَبی دَبی چیخ پِگھلا ہوا سیسہ بن کر اُس کے کانوں میں داخل ہوئی اور یوں سماعت بھی اُس کا ساتھ چھوڑ گئی۔۔۔
’نہیں، کمال دین ! بعض جرم ایسے ہوتے ہیں، جن کا مداوا کرنے کے لیے کئی جنم لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔نہ کمالے ! تیرا جرم معافی والا نہیں۔۔۔ناں !! ‘
اُس کا اندر گونج اُٹھا۔۔۔ نہیں، نہیں پکارتا ہوا وہ ایک جانب دوڑا۔۔۔ اور دھول کی دیوار پھلانگ کے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔۔۔۔

Mazhar Hussain Syed
About the Author: Mazhar Hussain Syedسوچنے اور غور و فکر کرنے والے لوگ پسند ہیں ۔معاشرے کی لگی بندھی روایات سے ہٹ کر عقلی بنیادوں پر معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ استحصال طلم اور .. View More