تعلیمی اداروں میں خوف کے سائے

گزشتہ دنوں اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں دہشت گردی کے واقعہ میں جو ہلاکتیں ہوئیں اور وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک صاحب فوراً نمبر ٹانکنے موقعہ واردات پر زخمیوں کی اشک شوئی کے لیے پہنچے تو وہاں پر موجود طلباء و طالبات نے ان کے خلاف نعرے لگائے اور ان کی گاڑی پر پتھراؤ بھی کیا ۔ وزیرِ داخلہ نے فوراً حالات کو بھانپ کر وہاں سے فرار کی راہ اختیار کی۔ طلباء برادری کے تیور دیکھ کر انہیں یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی مشکل محسوس نہیں ہوئی ہوگی کہ وہ کس قدر ان سے نفرت کرتے ہیں۔ جناب وزیرِ داخلہ صاحب یہ بھی یقیناً بھانپ گئے ہوں گے کہ انہی یونیورسٹیوں سے ان کے خلاف ایک زبردست تحریک ابھر سکتی ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء باہر نکلے ہیں تو ان کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکا۔ انہی امکانات کے پیشِ نظر ملک بھر کی جامعات کو فوراً بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ یہ ایک بوکھلاہٹ تھی اور خوف بھی مگر ایک بات بڑی عجیب سی ہے کہ اسلام آباد یونیورسٹی میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا مگر تمام ملک کے تعلیمی ادارے بند کرنے کا کیا جواز تھا؟ ایسا کر کے حکومت نےانتہائی بے بصیرتی اور کم عقلی کا ثبوت دیا۔ ملک کے کونے کونے میں خوف کی ایک لہر پھیلا دی۔ حالانکہ حکومتیں تو ایسے مواقع پر لوگوں کی ڈھارس بندھاتی ہیں اور معمولاتِ زندگی کو رواں دواں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ذرا غور کریں کہ کسی سڑک پر اگر بڑا حادثہ ہو جائے اور اس میں خاصا جانی نقصان ہو جائے تو کیا ملک بھر کی سڑکیں بند کرنا عقلمندی ہوگی؟ پولیس تھانوں پر کتنے حملے ہوئے؟ کتنے دنوں کے لیے ملک بھر کے تھانوں کو بند کیا گیا؟ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا، فوج کے کتنے دوسرے مراکز بند ہوئے؟ تمام تعلیمی ادارے بند کر کے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایک طرح کی حماقت خیزی کا ثبوت دیا اور اپنی سرپرستی میں ملک بھر میں خوف کے سائے پھیلا دیے۔ اس سے تو اپنی کمزوری تسلیم کر کے دہشت گردوں کے حوصلے بلند کرنے کا کام کیا گیا تاکہ وہ خوف کے اس ماحول سے فائدہ اٹھا کر کچھ بھی کر گزریں۔

ایسا لگتا ہے کہ سکول اور یونیورسٹیاں کلی طور پر بند کرنے سے پہلے کچھ بھی نہیں سوچا گیا اور دیگر فیصلوں کی طرح یہ فیصلہ بھی جلد بازی میں کر کے پوری قوم کو نفسیاتی طور پر زک کرنے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب حکومت کا اخباروں میں دیا جانے والا اشتہار اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز اور انتظامی فہم و شعور کے فقدان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس اشتہار کا عنوان یہ ہے " تمام تعلیمی اداروں کے سربراہ طالب علموں کے تحفظ کے لیے حکومتِ پنجاب کی ہدایات پر عملدرآمد یقینی بنائیں" اس اشتہار کے پہلے نکتہ کو پڑھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ یعنی " ادارے کی چار دیواری 8 فٹ تک اونچی کریں اور خاردار تار لگوائیں" حقیقت یہ ہے کہ صرف پنجاب میں چوراسی ہزار سکول چار دیواری کے بغیر ہیں۔ ستر ہزار میں پینے کا پانی نہیں اور سترہ ہزار بغیر چھت کے ہیں۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اشتہار لکھنے والوں کو اگر ان باتوں کا علم ہوتا تو شاید ایسی بے وقوفی کی بات کبھی نہ لکھتا۔ عرض یہ ہے کہ پنجاب کا پورا بجٹ بھی خرچ کر دیا جائے تو بغیر چھت کے سترہ ہزار سکولوں کو چھتیں فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ ایسی بڑھکیں مارنے والے ذرا آسمان سے اتر کر زمین پر آئیں تو آنکھیں بھی کھل جائیں گی اور اپنی کھوکھلی بڑھکوں کی حقیقت بھی واضح جائے گی۔ عوام کو جان جانا چاہیے کہ یہی لوگ ہیں جو ہمارے لیے تعلیمی پالیسیاں بناتے ہیں۔ میں ان اشتہار بازوں سے چیلنج کے طور پر کہتا ہوں کہ پوری فوج اور پوری پولیس صرف پنجاب کے تعلیمی اداروں کے گرد تعینات کر دی جائے تو بھی حفاظتی اقدامات مکمل نہیں ہو سکتے۔ یہ دہشت گردی پالیسیاں بدلے بغیر ختم نہیں ہوگی۔ اس کا تعلق ملک کے مجموعی امن و امان کے ساتھ ہے۔ اس کے لیے دوسروں کی بجائے اپنے دماغوں سے سوچنا پڑے گا اور سروں کو اخلاص کے ساتھ جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا۔ چھٹی کے بعد جب بازاروں میں بھیڑ لگتی ہے تو کیا دہشت گردی اس وقت نہیں ہو سکتی؟ قارئین سے گزارش ہے کہ یا تو رو دیں یا ہنس دیں۔ ایک کام ضرور کریں۔

اس اشتہار کا دوسرا نکتہ ہے کہ" گیٹ پر تربیت یافتی مسلح گارڈ تعینات کریں" جن سکولوں میں چھتیں نہیں ہیں، چاردیواری نہیں ہے ان کے گیٹ اور مسلح گارڈ چہ معنی دارد؟ آپ کو یہ جان کر شاید حیرانی ہو کہ بیشتر مڈل اور پرائمری سکول چوکیدار سے محروم ہیں(آخر لاوارث اور اچھوت بچے وہاں پڑھتے ہیں) ان میں مسلح گارڈ تعینات کرنے کا مطالبہ سربراہانِ اداروں سے کیا جا رہا ہے۔ واہ رے قوم کو بے وقوف بنانے والوں کیا کہنے تمہاری انتظامی صلاحیتوں کے؟

اگلا نکتہ ہے کہ " داخلی اور خارجی راستوں پر بیرئر لگائیں" داخلی اور خارجی راستے؟ واہ کیا بات ہے؟ اس کے بعد کے تینوں نکتے لکھ کر میں اجازت چاہتا ہوں۔ تبصرہ آپ خود کر لیجئے گا۔" کلوز سرکٹ ٹی وی اور سکیورٹی کیمروں کی تنصیب" ، واک تھرو گیٹس کی تنصیب" اور ملاقاتیوں کی آمد و رفت کا ریکارڈ مرتب کریں اور میٹل ڈیٹیکٹر سے چیک کریں"۔ گستاخی معاف ! ایک جملہ اور کہنے دیجئے کہ ممکن ہے کسی وزیر یا مشیر نے میٹل ڈیٹیکٹروں کا کسی بیرونی کمپنی سے ٹھیکہ مُکا لیا ہو۔ ہیلمٹوں کا چند سال پہلے والا ٹھیکہ آپ کو یاد ہوگا۔ کہاں گئی اب ہیلمٹ پہننے کی پابندی؟ پیسے ہضم، قصہ ختم۔
Ishtiaq Ahmed
About the Author: Ishtiaq Ahmed Read More Articles by Ishtiaq Ahmed: 52 Articles with 166950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.