دوسری شادی

عبدالرشید آج پھر تھکا ماندہ گھر میں داخل ہوا اور آتے ہی ٹی وی لاؤنج میں رکھے صوفے پر ڈھیر ہو گیا ۔ اُس نے اپنا سر صوفے کی پشت کے ساتھ لگا یا اور چھت کو گھورنے لگا ۔یہ اُس کا روز کا معمول تھا ۔وہ دیر تک یونہی سوچوں میں گم سم بیٹھا ویران گھرکو اُداس نظروں سے دیکھتا رہتا ۔ اُسے تنہائی بہت پسند تھی۔ لیکن اب وہ اس تنہائی سے بیزار ہوتا نظر آ رہا تھا۔ جب سے اُس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی وہ اسی کرب سے گزر رہا تھا ۔ اُسے عورت ذات سے نفرت ہو چکی تھی۔وہ اپنی بیوی کی بے وفائی پر بہت رنجیدہ تھا۔اُس کی بیوی شادی سے پہلے اپنے چچا کے بیٹے سے محبت کرتی تھی ۔ یہ بات اگر ماضی کاحصہ ہی رہتی تو کوئی بڑی بات نہ ہوتی۔۔۔۔ اُسے دکھ اس بات کا تھا کہ شادی کے بعد بھی وہ اپنے کزن سے ملتی تھی۔ کوئی بھی غیرت مند شوہر یہ بات برداشت نہیں کر سکتا کہ اُس کی منکو حہ کسی نا محرم سے ملا قاتیں کرتی پھرے۔۔۔ وہ سمجھتا تھا کہ اُس نے بیوی کو طلاق دے کر کوئی غلطی نہیں کی۔کیونکہ دونوں کا ایک ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہو چکا تھا۔ ۔۔وہ جب بھی خود کو تنہا محسوس کرتا۔ زندگی کی تلخ یادیں اُسے گھیر لیتی اور وہ گھنٹوں انہیں خیالات میں کھویا رہتا۔

عبدلرشید ابھی تک انہیں سوچوں میں گم تھا کہ ملازمہ کی آواز نے اُسے خیالات کے حصار سے نکالا۔ وہ اُس کے پاس کھڑی کھانے کا پوچھ رہی تھی۔ اُسے بھوک نہیں تھی۔اس لیے اُس نے ملازمہ کو کھانا کچن میں رکھ کر چلے جانے کا کہا اور خود اُٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔وہ اکثر ایسا ہی کیا کرتا اور رات گئے جب اُسے بھوک ستاتی تو کچن میں جا کر خود ہی کھا لیتا۔ آج بھی وہ رات دیر تک کسی بے چینی میں مبتلا تھا اور بھوک بھی محسوس کررہا تھا۔ پیٹ کی آگ بھجانے کے لیے اُس نے کچن کا رخ کیا۔ کچن کے قریب پہنچ کر اُس نے اندر سے برتنوں کی آواز سُنی۔وہ سمجھا شاید کوئی بلی وغیرہ ہے جو برتنوں کو چھیڑ رہی ہے۔ وہ تیز قدموں سے کچن میں داخل ہوا۔ اندر داخل ہوتے ہی زمین نے اُس کے پاؤں جکڑ لیے۔ اُس پر سکتا طاری ہو چکا تھا۔ اُس کے سامنے ایک خوبصورت لڑکی کھڑی تھی ۔ شیشے جیسے شفاف بدن والی وہ لڑکی کھانے کے لیے کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ "تم کون ہو؟ اور کیا چرانے آئی ہو " عبدالرشید غصے سے گرجا۔ "نہیں میں چور نہیں ہوں" وہ سہم کر بولی۔ "اندر کیسے آئی ہو؟" وہ ایک دفعہ پھر تلخ لہجے میں بولا۔ "گیٹ کھلا تھااور چوکیدار بھی سویا ہوا تھا ۔اس لیے میں آسانی سے اندر آ گئی" اُس نے ڈرتے ہوئے بتایا۔ "گیٹ کھلا تھا؟؟؟ رفیق۔۔۔ رفیق۔۔۔ " اُس نے غصے سے چوکیدار کو آواز دی۔

"تم سچ سچ بتاؤکون ہو اور کیا چرانے آئی ہو۔۔۔؟ ورنہ میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا" عبدالرشید نے ٹی وی لاؤنج میں پہنچ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔ " میں چور نہیں ہوں ۔۔۔ میں ایک شریف لڑکی ہوں۔ "وہ رو کر خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ " شریف لڑکی کا کیا کام کہ اتنی رات گئے گھر سے نکلے اور دوسروں کے گھروں کی تلاشیاں لیتی پھرے" اُس نے لڑکی کو مشکوک نظروں سے دیکھا اور موبائل پر پولیس اسٹیشن کا نمبر ملانے لگا۔ "ہیلو پولیس اسٹیشن؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔ اوہ سوری غلطی سے آپ کا نمبر ملا دیا۔ میں پولیس اسٹیشن بات کرنا چاہ رہا تھا۔سوری۔۔۔!" اُس نے غلط نمبر ڈائل کرنے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ "سر آپ ایک دفعہ میری بات سن لیں پھر جو جی میں آئے سزا دے دیجیے گا۔پلیز سر۔۔۔۔میں کسی چوری کی غرض سے نہیں آئی ۔ میں صبح سے بھوکی تھی اور میرے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔آپ کے گھر کا گیٹ کھلا دیکھ کر اندر چلی آئی۔ مجھے گھر میں کوئی فرد نظر نہیں آیا۔ اس لیے مجبوراً خود ہی کچن میں چلی گئی۔ ابھی فریج کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ آپ وہاں پہنچ گئے" اُس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ "تم یہاں کی لگتی نہیں ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟ تمہارا حلیہ بتا رہا ہے کہ تم کسی اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو" عبدالرشید سر اپاء حسن کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔

"سر میں آپ کو سب کچھ سچ سچ بتا دوں گی ۔ پلیز مجھے کچھ کھانے کو دے دیں۔ بھوک سے میری جان نکلے جا رہی ہے" اُس نے منت کرتے ہوئے کہا۔ "اچھا ٹھیک ہے اگر تم واقعی چوری کرنے کی نیت سے نہیں آئی تو تمہیں کھانا کھلا دیتا ہوں۔لیکن یاد رکھنا اگر تمہاری بات جھوٹ ثابت ہوئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا" اُس کے لہجے میں نرمی آ چکی تھی۔ "سر اگر آپ کو میری بات کا یقین نہ آئے تو بے شک مجھے جان سے مار دینا۔اس سے پہلے کہ بھوک سے میری جان نکل جائے ۔ مجھے کچھ کھانے کو دے دیں پلیز" اُس نے اس دفعہ کچھ زیادہ ہی لجاجت سے کام لیا تھا" اچھا اچھا ۔۔۔ جاؤ اور کچن میں جا کر کھا لو۔۔۔بلکہ ایسا کرو کہ یہاں لے آؤ، مجھے بھی زوروں کی بھوک لگی ہے " عبدالرشید نے خالی پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

دونوں کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے ۔ عبدالرشید اُسے ندیدوں کی طرح کھانا کھاتے دیکھ رہا تھا۔وہ سچ مچ بہت بھوکی تھی" اچھا تو اب بتاؤ تم کون ہو اور میرے گھر میں کیوں گھسی ہو۔ "عبدالرشید نے اُسے تسلی سے کھانا کھالینے کے بعد پوچھا۔ "میرا نام رانی ہے ۔۔۔ میں اپنے گاؤں کے ایک لڑکے انور کے ساتھ بھاگ کر اس شہر میں آئی تھی۔ہم دونوں شادی کرنا چاہتے تھے۔کورٹ میرج۔۔۔! ابھی ہم عدالت کے دروازے پر ہی پہنچے تھے کہ انو ر کو اچانک پولیس نے گھیر لیا۔ اُس پر قتل کا مقدمہ تھا اور وہ اس مقدمے میں اشتہاری ہو چکا تھا۔ اُس کے اشتہاری ہونے کا آج ہی علم ہوا تھا جب ایک پولیس والے نے مجھ سے پوچھا کہ تم اس اشتہاری کی کیا لگتی ہو۔ میرے منہ کھولنے سے پہلے ہی انور بول پڑا کہ میرا اُس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اور ساتھ ہی اُس نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیا کہ تم یہاں سے کھسک جاؤ۔میں بھلا اپنی محبت کو مصیبت میں مبتلا دیکھ کر وہاں سے کیسے ہل سکتی تھی۔ میں نے شور مچانا چاہا۔ رو رو کر لوگوں کے سامنے اپنے انور کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن۔۔۔! میری آواز اور ہمت دونوں ہی جواب دے گئے تھے۔میں وہاں بت بنی انور کے اوپرہونے والے ظلم کو دیکھتی رہی۔ ظالموں نے اُسے گھسیٹ کر وین میں ڈالا اور مجھے بے یارو مدد گا بیچ چوراہے میں چھوڑ کر چلے گئے۔اجنبی شہر میں انجانے لوگوں کے درمیان میں دیر تک اپنے آپ کو ڈھونڈتی رہی۔ سب لوگ مجھے ہوس بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔ لیکن کسی نے مجھ سے میری پریشانی کے بارے میں نہیں پوچھاـ" وہ بات کرتے کرتے رکی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ "کیا تم انور کے کردار سے واقف نہیں تھی" عبدالرشید نے اُسے حوصلہ دے کر چپ کراتے ہوئے پوچھا۔ "کردار۔۔۔؟ کردار کا تو انور بہت ہی اچھا ہے۔ وہ توکسی بات پر غصے میں آکر اُس نے اپنے چچا کو کلہاڑی کے وار کر کے زخمی کر دیا تھا۔زخم کچھ زیادہ ہی گہرے آ گئے تھے۔اس لئے اُس کی جان نہ بچ سکی۔ گاؤں میں انور کا کافی اثرو رسوخ تھااس لیے پولیس نے اُسے پکڑ نے کی ہمت نہ کی " رانی اس سارے واقعے کو بڑے فخر سے بتا رہی تھی۔ " تم نے کھانا کھا لیا ہے، اب تم جاسکتی ہو ۔ لیکن آئندہ کسی کے گھر میں اس طرح سے گھسنے کی کوشش مت کرنا ۔ ہر کوئی تمہیں معاف نہیں کر سکتا" اُس نے نصیحت کرنے کے انداز میں کہا۔ " نہیں سر۔۔۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ میرا اس شہر میں کوئی نہیں ہے " وہ ایک دفعہ پھر سے واویلہ کرنے لگی " تم اپنے گاؤں جاؤ اپنے والدین کے پاس" اُس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ " اُن کے پاس تو میں بالکل بھی نہیں جا سکتی۔ وہ تو میرے ٹکڑے کر کے کتوں کو کھلا دیں گے۔مجھے اپنے پاس نوکرانی بنا کر رکھ لیں۔ میں آپ کے گھر کے سارے کام کروں گی۔ بے شک آپ مجھے تنخواہ بھی نہ دینا۔ بس رہنے کو جگہ اور کھانے کو روٹی دے دینا یہی میری تنخواہ ہو گی" وہ اُس کے پاؤں پکڑ کر منت سماجت کر نے لگی۔عبدالرشید کی ملازمہ چھٹیوں پر تھی اس لیے وہ اس بات پر رضا مند ہو گیا۔

"تم کھانا اچھا بنا لیتی ہو۔کہاں سے سیکھا ہے؟" عبدالرشیدنے کھانے کا لقمہ لیتے ہوئے پوچھا۔ "اپنی خالہ کی بیٹی سے ۔ اب وہ امریکہ چلی گئی ہے۔ اپنے شوہر کے ساتھ ۔ بڑی خوش قسمت ہے وہ ۔ اُس نے جسے چاہا تھا وہ مل گیا ۔ وہ اُس کے ساتھ بہت خوش ہے۔کاش ۔۔۔!!!انور کو پولیس نہ پکڑ کر لے جاتی اور میں بھی اُس کے ساتھ خوش ہوتی ۔رانی کھانا کھاتے کھاتے رکی اور چہرے کی افسردگی چھپانے کی کوشش کرنے لگی ۔ " تم انور سے کتنی محبت کرتی ہو؟ " عبدالرشید نے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔ "اُس کی خاطر میں نے اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیاہے۔ اپنے گھر سے بھاگ آئی ہوں۔اس سے آپ کو اندازہ نہیں ہو ا" رانی اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے جذباتی ہو رہی تھی۔ "گھر سے وہی لوگ بھاگتے ہیں جنہیں حالات سے لڑنا نہیں آتا۔ میں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والوں سے سخت نفرت کرتا ہوں۔ ایک محبت کو پانے کے لیے کتنی محبتوں کا قتل کر دیتے ہیں۔کبھی یہ سوچا ہے کہ اُس باپ کے دل پر کیا گذرتی ہو گی جس کی جوان بیٹی اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ جائے۔ اُس ماں کی کیا حالت ہو گی جس نے اپنی بیٹی کی پارسائی کی قسمیں کھائی ہوں۔ تم نے اپنے والدین کا دل دُکھا کر اچھا نہیں کیا " عبدالرشید نے اُسے ایک لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالا۔ " ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔میرے اور انور کے خاندان کی کئی سالوں سے دشمنی چلی آرہی ہے۔اور میرے گھر والے بھلا اپنے دشمن خاندان کے لڑکے سے میری شادی کیسے کر سکتے تھے۔ شادی تو دور کی بات وہ تو ہمیں ایک ساتھ دیکھ لینے پر ہی گولی مار دیتے۔ اس لیے ہم نے بغاوت کو ہی اپنے لیے بہتر جانا " یہ بات کرتے ہوئے اُس کے چہرے پر ندامت یا پچھتاوے کے آثار بالکل بھی نہیں تھے۔

اب وہ اس گھر میں ایک ملازمہ کی حیثیت سے رہنے لگی تھی۔ اُسے رہنے کے لیے گھر کے اوپر والے حصے میں ایک کمرہ مل گیا تھا۔گھر کی صفائی ،کپڑوں کی دھلائی اور کھانا بنانا اُس کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ایک ہفتے کے اندر اندر اُس نے اس گھر کو اپنا گھر بنا لیا تھا۔ایک ایک چیز کو سلیقے سے رکھ دیا تھا۔وہی گھر جہاں ویرانیوں کا بسیرا تھا اب لگ رہا تھا کہ یہاں کوئی آباد ہے۔وقت پر صاحب کو جگانا۔ وقت پر آفس جانے کے لیے کپڑے تیار کرنا اور وقت پر ناشتہ بنا کر پیش کرنا اُس کا معمول بن گیا تھا۔ انہیں باتوں نے آہستہ آہستہ عبدالرشید کے دل میں گھر کر لیا۔ اب اُسے رانی کے ہاتھ سے بنے ہوئے کھانے کی عادت ہو چکی تھی۔آفس سے تھکا ہوا لوٹتا تو صاف ستھرے گھر کو دیکھ کر اُس کی طبیعت خوش ہو جاتی۔ وہ تنہائی جو اُسے ڈسنے لگی تھی اب دور ہوتی جارہی تھی۔وہ رانی کو نوکرانی نہیں بلکہ اس گھر کا فرد سمجھنے لگا تھا۔تھوڑے ہی عرصہ میں وہ ایک دوسرے سے بے تکلف ہو چکے تھے۔

عبدالرشید فیصلہ کر چکا تھا۔ ۔۔وہ رانی کو نوکرانی سے گھر کی رانی بنا کر ایک دفعہ پھر سے اپنا گھر بسا لینا چاہتا تھا۔ رانی بھی ان دو ماہ کے عرصہ میں اپنے انور کو بھول چکی تھی۔ اس لیے عبدالرشید کی خواہش پر اُسے زیادہ سوچنا نہیں پڑا ۔اُسے بھی ایک مستقل سہارے کی ضرورت تھی۔ عبدالرشید اب جلد ہی آفس سے لوٹ آتا۔ اُسے رانی کی محبت کھینچ لاتی تھی۔ رانی واقعی چورنی تھی۔ کیونکہ اُس نے عبدالرشید کا دل چرا لیا تھا۔۔۔ کچھ ہی دنوں میں شادی کی تیاریاں ہونے لگیں ۔ کئی روز تک خریداری چلتی رہی۔ رانی نے ایک ایک چیز اپنی مرضی سے پسند کی تھی۔ زیورات تو اُس نے ضرورت سے زیادہ ہی پسند کر لیے تھے۔لیکن اس کے باوجود عبدالرشید نے شادی کی پہلی رات اپنی دلہن کو دینے کے لیے جو تحفہ خریدا تھا وہ تمام زیورات سے زیادہ مالیت کا تھا۔ ہیرے کا سیٹ اُس نے سرپرائز دینے کے لیے خریدا تھا۔۔۔۔۔شادی کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔دعوت نامے تقسیم کیے جا چکے تھے۔ پورے گھر کو روشنیوں سے سجا دیا گیا تھا۔عبدالرشید کو شادی کی صبح کا بڑی شدت سے انتظار تھا۔

زندگی ایک نیا رُخ بدلنے جا رہی تھی۔ سب کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔ آج کی صبح کا سورج بھی اُسے نیا نیا سا لگا تھا۔ ہوا میں بھی خوشگواری تھی اور باغیچے میں اُگے ہوئے پھول بھی مسکرا رہے تھے۔ اُس نے تیار ہونے میں کافی وقت لگایا تھا۔ اُسے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ آج اُس کی شادی ہے۔ اتنی خوشی تو اُسے پہلی شادی پر نہیں ہوئی تھی جتنی دوسری پر ہو رہی تھی۔ وہ دولہا کے روپ میں آئینے کے سامنے کھڑا دیر تک خود کو دیکھتا رہا۔ وہ رانی کو دلہن کے روپ میں دیکھنے کے لیے بہت بے تاب تھا۔وہ اپنی خوش نصیبی پر اترا رہا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ سب کچھ اُسے اُن تکلیفوں کا صلہ ملا ہے جو اُسے اُس کی پہلی بیوی دیتی رہی تھی۔ ۔۔ابھی وہ انہیں سوچوں میں مگن تھا کہ ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔خط میں لکھا تھا ۔۔۔ " عبدالرشید صاحب آپ بہت اچھے ہیں۔ آپ جیسے انسان دنیا میں کم ہی ملتے ہیں۔ آپ نے میرے لیے جو کچھ کیا میں اس قابل نہیں تھی۔ آپ نے بغیر اجازت گھر میں گھسنے والی ایک اجنبی لڑکی کوگھر میں رہنے کی اجازت دے کر ثابت کر دیا کہ آپ کا دل بہت بڑا ہے۔ آپ کے اخلاق نے مجھے بے حد متاثر کیا تھا۔ اس لیے میں آپ کی طرف سے کی گئی شادی کی پیشکش رد نہ کر سکی۔مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مجھے آپ کو صاف صاف بتا دینا چاہیے تھا کہ میں تو صرف انور کی خاطر گھر سے بھاگی تھی اور اُسی کا گھر بسانے کے لیے زندہ ہوں۔ میں نے آپ کے دل کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ میں نے آپ کے احسانوں کا بدلہ چکانے کی بجائے اُلٹا آپ کو تکلیف دی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ میری اس حرکت کو میری حماقت سمجھ کر معاف کر دیں گے۔۔۔ایک اور بات جو میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں۔ آپ نے میرے لیے جو ہیرے کا سیٹ خریدہ تھا مجھے بہت پسند آیا ہے"

Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.