رانا عبدالرب ،نوجوان نسل کا نمائندہ شاعر

ایم آر ملک

حاکمِ وقت نے اعلان کیا ہے کیسا
اب کوئی بولا،تو جان کی بولی ہوگی
ان جیسے بے شمار انقلابی اشعار کے مالک رانا عبدالرب کا تعلق جنوبی پنجاب کے انتہائی پسماندہ ضلع لیہ کے ایک کوچہ ’’رانا نگر ‘‘سے ہے ان کے والدرانا سردار علی نے اپنی عمر رواں کا طویل عرصہ تھل کے ریگزاروں میں تعلیم سے تشنہ ذہنوں کو سیراب کرنے میں صرف کیا اور رانا عبدالرب کوسخن شناسی اپنے والد گرامی سے ودیعت ہوئی ۔تعلیم کے ابتدائی مراحل انہوں نے اپنے ہی گاؤں کے سکول گورنمنٹ ہائی سکول شاہ پور سے مکمل کئے۔بعد ازاں تعلیم کی شعوری سیڑھیوں پر انہوں نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میں قدم رکھا اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اب اردو میں ماسٹر ڈگری لینے والے ہیں۔انہوں نے 2009ء میں ملتان کے اخبار میں بطور ڈسٹرکٹ رپورٹر سے صحافتی سفر کاآغاز کیا۔ان کے سینکڑوں مضامین قومی ،مقامی اخبارات میں چھپ چکے ہیں ۔جنوبی پنجاب کی دانشوروں ،شاعروں،ادیبوں اور لکھاریوں کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم ’’بزم افکار‘‘ کے صدر بھی ہیں۔گزشتہ روز ان سے ایک تفصیلی انٹرویو ہوا جس میں انہوں نے اپنی شاعری کے حوالے سے بہت سی پرتیں کھولیں جبکہ دیگرمیدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ان کا بھی ذکر چلا۔ان سے پہلا سوال یہی تھا کہ شاعری کے میدان میں انہیں کہاں تک پذیرائی مل پائی اور اب تک کی کاوش کیا رنگ لائی؟

ان کا جواب تھا کہ شاعری روح کی غذا ہے اور اس ضمن میں میری یہ رائے ہے کہ انسان کو جو کچھ معاشرتی حوالے سے یا کسی اور حوالے سے جو کچھ الہام کی شکل میں نزول ہوتا ہے شاعر اسے اپنے احساسات کی شکل میں صفحہ قرطاس پر بکھیرتا ہے۔رومانی حوالے سے عصر حاضر میں شاعری ہماری ضرورت نہیں رہی جبکہ وطن عزیز میں ایک استحصالی طبقہ جو وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کا تصور پنپ رہا ہے نوجوان نسل جوشاعری کر رہی ہے اس میں وہ استحصالی طبقہ کے خلاف انقلاب کی بات کرتی ہے اور یقینا یہ ایک اچھی شروعات ہے اور میں خود بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ شاعری میں نئی نسل کو وہ کچھ دیا جائے جس کی وہ خواہاں ہے اور جب تک ہم بھٹکی ہوئی نئی نسل کیلئے ایک ایسی راہ متعین نہیں کریں گے جو حقیقی منزل کی سنگ میل ہوگی اس وقت تک موجودہ حالات میں شاعری محض الفاظ کا مجموعہ تو ہوسکتی ہے لیکن یہ کسی ذہن کی کایا نہیں پلٹ سکتی۔جہاں تک کاوش کے رنگ لانے کا تعلق ہے تو میں اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور اپنے بزرگوں کی دعاؤں سے مطمئن ہوں کہ میرا لکھا ہوا میری نسل کیلئے مشعل راہ ہے۔

نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر سے ہمارا دوسرا سوال یہ تھا کہ شاعری میں آپ نے کس سے اصلاح لی؟تو ان کا جواب تھا کہ پروفیسر ریاض راہی اور جسارت خیالی جوکہ جنوبی پنجاب میں ادبی حوالے سے ایک بڑا مقام رکھتے ہیں میری شاعری کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اصلاح کا بیڑا اٹھایا اورانہوں نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں نئی نسل کیلئے کچھ لکھ سکوں۔

ان سے ہمارا ایک سوال یہ بھی تھا کہ وطن عزیز میں آپ نئی نسل کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ڈگری یافتہ نئی نسل منشیات جیسی لعنت میں پڑی ہوئی ہے مگر کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے حکمران جو نئی نسل کے دکھوں کے مداوا اور مسائل کے حل کادعویٰ کرتے ہیں انہوں نے محض اپنی تجوریاں بھرنے کے اور کوئی کام نہیں کیا بیروزگاری نے ہماری نسل کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی لاش ایسی ملتی ہے جو خودکشی جیسے قبیح فعل کو اپنا کرزندگی سے آزادی حاصل کر رہی ہے اور یہ ایک لمحہ فکریہ ہے میرا مطمع نظر یہ ہے کہ دنیا بھر میں مکالمہ کی افادیت و اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے ہمیں ان مسائل پر مکالمہ کی ضرورت ہے جونسل نو کی ذہنی زنگ آلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔

آپ اپنی زندگی میں شاعری کے حوالے سے کون سی شخصیت سے متاثر ہیں؟رانا عبدالرب نے کہا کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ جس نے اقوام مسلم کیلئے ایک ایسی راہ متعین کی جو عابد اور معبود کے درمیان نا ٹوٹنے والی لڑی کی طرح ہے بد قسمتی سے شاعر مشرق کی زندگی میں ہی ان پرایک مخصوص لابی انگلیاں اٹھاتی رہی اور آج پھر ایک مخصوص لابی جسے ڈالروں کی شکل میں غیر ملکی ایڈ مل رہی ہے اور اس ایڈ سے وہ ایسے سیمینار کا انعقاد کرتے ہیں جس میں تنقید کے تیروں کا رخ حضرت علامہ محمد اقبالؒ کی ذات کی طرف ہوتا ہے ،فیض احمد فیض بہت بڑے شاعر ہیں اور روس نے انہیں اپنے سب سے بڑے ایوارڈ’’لینن ایوارڈ ‘‘ سے نوازا یہ اور بات کہ وطن عزیز میں اپنے وقت کی سپر پاور کی طرف سے ایوارڈ یافتہ شخصیت کو ایک ان پڑھ کانسٹیبل نے ہتھ کڑیاں لگائیں اس دور میں فیض احمد فیض کو بھی اس مخصوص لابی نے یہ مشورہ دیا کہ اقبال کی ذات پر ہرزہ سرائی کی جائے مگر فیض نے یہ کہ کر ان کے منہ بند کر دئیے کہ اقبال عصر حاضر کی ایک عظیم شخصیت ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اقبال کے چاہنے والوں کی تعداد دنیا بھر میں کروڑوں میں ہے اور وہ کسی طرح یہ برداشت نہیں کریں گے کہ این جی اوز کے پروردہ نام نہادلکھاریوں اورصحافیوں کی طرف سے ان کے مربی پر تنقید ہو۔

رانا عبدالرب سے ہمارا آخری سوال تھا کہ اپنی بیاض سے نئی نسل کو کیا دیں گے؟
اپنی آرائش صورت بھی ہے بہتر لیکن
اپنی سیرت بھی کسی طور سنواری جائے

امیر شہر اڑائیں گے غریبی کا مذاق
غریب شہر سے فقط آنکھ مچولی ہوگی
rana abdul rab
About the Author: rana abdul rab Read More Articles by rana abdul rab: 2 Articles with 1765 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.