سانحہ ماڈل ٹاؤن کا اصل ذمہ دار

"بڑے میاں بڑے میاں، چھوٹے میں سبحان اللہ "

ایک سال کے مختصر عرصہ میں سب نہاں کھل کر ہو گیا عیاں، ثابت ہو گیا کہ میاں برادران میں لیڈرشپ والی خوبیاں بہت ہی قلیل ہیں۔ ان کے پاس ڈھنگ کی ٹیم ہی نہیں اور نا ٹیم بنانے کی صلاحیت ہاں مگر رشتے داروں کا ایک جمے غفیر یا ٹولہ ضرور رکھتے ہیں۔ یہ لوگ تعاصبانہ اور آمرانہ ذہنیت کے حامل ہیں۔ ٖمیرٹ لفظ اشتہاریوں میں لکھنے کی حد تک تو ٹھیک ہے ویسے اس لفظ کے معنی و مطلب سے سخت اختلاف و انحراف کا مظاہرہ کرتے ہیں ، تبھی تو ںادرا کا چیئرمین بھگاتے ہیں، کرکٹ بورڈ اور پیمرا کا سربراہ بنا وجہ ہٹاتے اور اپنی مرضی کا لگاتے ہیں۔

حکومت کرنے کا کوئی ڈھنگ نہیں ہے ان کو، تجربے کی بات کرتے ہیں کہ ہم باقیوں کی نسبت بڑے تجربہ کار ہیں۔

کیسا تجربہ ؟؟؟

بدمعاشی ، غنڈہ گردی یا گزشتہ دو مرتبہ حکومتی مدت پوری نہ کرنے کا تجربہ؟
میری سمجھ میں تو قطعاً نہیں آتا، پتہ نہیں کس تجربے کی بات کرتے ہیں؟

شائد اس سے مراد فقط سڑکیں بنانے والا تجربہ ہو جس کا فن لگتا ہے اِنھیں شیر شاہ سوری کی طرف سے ودیعت ہے۔

خیر اصل بات یہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن واقعے نے ان کے گنہونے چہرے کے خوفناک و وحشت ناک خدوخال پوری طرح نمایان کر دیئے ہیں۔ ایسے وقت میں جب پاک فوج بھرپور عوامی و سیاسی حمایت کے ساتھ آپریشن ضربِ عضب کا آغاذ کر چکی تھی تو نجانے بیٹھے بِٹھاۓ پنجاب حکومت کو کیا سوجھی جو اِنھوں نے انتہائی حماقت سے کام لیتے ہوۓ طاہر القادری کے گھر پر بذریعہ پولیس چڑھائی کر دی۔ اور ضربِ غضب شروع کردیا۔ ماڈل ٹاؤن میں میدان جنگ کا ماحول بنایا گیا اور مطمع نظر یہ تھا کہ تجاوزات ہٹانے کے بہانے عوامی تحریک کے کارکنوں کو ذرا پھینٹا لگا کر سبق سکھایا جاۓ تاکہ قادری صاحب کے یہ متوالے کسی جلسے جلوس یا دھرنے میں شرکت جوگے نا رہیں اور انکے حوصلوں کو ڈنڈوں، سوٹوں اور گولیوں کی بوچھاڑ سے تہس نہس کردیا جاۓ اور جب اللہ نے طاقت دی ہے تو کیوں نا اُس طاقت کا بے جا اور بیہمانہ استعمال کرکے ڈرایا ، دھمکایا جاۓ۔ بربریت کی داستان رقم طراز کرتے ہوۓ انتہائی سفاکانہ طریقے سے ٩ افراد کو جاں بحق جن میں دو عورتیں بھی شامل تھیں اور درجنوں افراد کو بدترین طریقے سے مار پیٹ اور گسیٹ کر زخمی کردیا گیا۔ افسوس صد افسوس خوتین پر بھی ذرا رحم نہ کیا گیا۔ اس موقع پر ایک نامور شاعرہ حرا رانا خوب فرماتی ہیں کہ
؎ انسانیت کا حال نہ پوچھو کہ اب یہ لوگ
وحشت کی ہر مثال سے آگے نکل گئے

اس آپریشن میں گلو بٹ نامی شخص نے جو کہ ن لیگی کارکن اور پولیس کا معاونِ خاص تھا بطور خاص اپنی خدمات پیش کیں۔ اور خوب دلیری کا مظاہرہ کرتا رہا اور بدلے میں موقعے پر موجود افسران سے دادِ شجاعت بھی پاتا رہا۔ گلو بٹ کا کردار ناصرف پولیس کے اول دستے میں رہ کر لڑنا بلکہ اس کے علاوہ وہ اطراف میں موجود دکانوں سے تالے شالے توڑ کر بوتلیں بھی چراتا رہا وہ یہ نیک کام اپنے لئے نہیں بلکہ آپریشن میں موجود گرمی کے ستاۓ بہادر اہلکاروں کے لئے انجام دے رہا تھا اس عظیم کام کو کرنے میں اور بھی بہت سے اہلکاروں نے حصہ لیا۔ پولیس اہلکاروں نے بڑی بے شرمی سے اپنی پیشورانہ ذماداریوں کا مظاہرہ کیا جسکے لئے وہ کوئی ثانی نہیں رکھتے۔
یوں کہہ لیں کہ "ان سا ہو تو سامنے آۓ "

یقیناً کوئی بھی ان کے ساتھ تقابلی موازنے کیلئے مقابل نا ٹھہرے گا۔ درندگی میں انکا کوئی جوڑ نہیں۔

اس حیوانیت و درندگی کے دوران بہت سے ناقابلِ تلافی جانی نقصان کے علاوہ تحریکِ منحاج القرآن سیکرٹیریٹ کے باہر کھڑی درجنوں گاڑیوں کو توڑ پھوڑ کر کے نکارہ کردیا گیا۔ اطراف کی املاک کو نقصان پہنچایا گا، دوکانوں کے تالے توڑکر قوم کے محافظوں نے خوب لوٹ مار کی اور مزے لے لے کر بوتلیں پیتے رہے اور آپریشن کے لئے تازہ دم ہوتے رہے۔ ملبہ بنانے کا کام بلڈوزر اور کرین نے کیا۔ آپریشن میں بکتر بند گاڑی سے بھی مظاہرین پر فائرنگ کی گئی۔

بالکل بے ڈھنگی ، لفنگی، ننگی اور اندھی بدمعاشی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ظلم و بربریت کی ایک نئی داستان رقم کی گئی۔ غیر آئینی ، غیر جمہوری اور غیر انسانی طرز عمل اپنایا گیا جسکی مثال کسی آمرانہ دور میں بھی بمشکل ملے۔

اس ساری صورت ِحال کے بعد وزیر اعلٰی پنجاب کا دل بھی خون کے آنسو روتا ہے اور نہایت قابلِ غور امر یہ ہے کہ حسبِ روایت کسی کو فارغ نہیں کیا اور نا کوئی تبادلہ عمل میں آیا۔ بلکہ ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا گیا جو کہ تمام واقعے کی چھان بین کرے گا۔

دوسری طرف عوامی تحریک کے قائد جناب طاہر القادری صاحب نے اپنے ایک لنک میں براہ راست وزیر اعلٰی پنجاب کے علاوہ وزیر اعظم اور پوری کابینہ کو اس واقعے کا ذمادار ٹھہرایا ہے۔

اندر کی خبر میڈیا میں نشر ہو رہی ہے کہ وزیر اعلٰی صاحب نے حسبِ سابق و روایت آپریشن کرنے والے افسران کو فارغ کرنے کی کوشش پر اُنھیں اب کی بار بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑا، پولیس افسران نے برطرفی کو زیادتی گردانتے ہوۓ کہا کہ اگر ہمیں فارغ کیا گیا تو ہم کمیشن کے سامنے کہہ دیں گے کہ آپریشن کرنے کے احکامات ہمیں پنجاب حکومت نے جاری کیے تھے۔

دراصل اس قسم کی کاروائی یا آپریشن کوئی بھی پولیس افسر تنہے تنہا کسی حکومت کو لاعلم رکھ کر ہر گز نہیں کر سکتا اور وہ بھی کسی عام شخص کے خلاف نہیں بلکہ ایک سیاسی و مزہبی جماعت کے سربراہ کے گھر پر، قطعاً ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وزیر اعلٰی صاحب کے پڑوس میں اتنی بڑی کاروائی چل رہی ہو اور جناب کو کان وکان خبر نا ہو یا کسی نے اس آپریشن کے بارے اعتماد میں نا لیا ہو۔ سب کو سب خبر تھی اور دانستہ اتنی بڑی نالائقی کرکے سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح معاملہ رفعہ دفعہ ہو جاۓ اور یہ بلا کسی صورت ایک دفعہ سر سے ٹل جاۓ۔
؎ اب پچھتاۓ کیا ہو، جب چریاں چگ گئیں کھیت

اس سلسلے میں پہلا قربانی کا بکڑا بنایا گیا وزیر قانون پنجاب رانا سناءاللہ کو، لیکن قادری صاحب نے اس قربانی کو ناکافی قرار دیاہے در حقیقت یہ قربانی ہے بھی نا کافی، اصل ذمہ داری عائد ہوتی وزیر اعلٰی پنجاب پر جو کہ اگر بے خبر تھے تو بھی نا اہل ثابت ہوتے ہیں کہ وزیر اعلٰی ہوتے ہوۓ بھی ماتحت اداروں کی اس قسم کی کاروائی/ آپریشن سے لاعلم رہے اور اگر واقعی میاں صاحب نے دانستہ طور پر خود آپریشن کا حکم دیا تاکہ عوامی تحریک کے کارکنوں کو سبق سکھاۓ جاۓ تو ساری اور سب سے بھاری ذمہ داری صرف اور صرف وزیر اعلٰی پنجاب پر آتی ہے۔
 
Imtiaz Ali
About the Author: Imtiaz Ali Read More Articles by Imtiaz Ali: 26 Articles with 18800 views A Young Poet and Column Writer .. View More