توہین محبت

محبت کے بارے میں اب تک بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا ،محبت کرنے والوں کی کہانیاں بھی لکھی جاتی رہیں گی اور محبت کرنے والے کردار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔مجھے کافی عرصہ سے محبت کے اُوپر کسی نہ کسی وجہ سے لکھنا پڑرہا ہے اس بار بھی دو کرداروں کے درمیان محبت کی داستان رقم ہوئی ہے اور اس کو بیان آج کچھ یوں کروں گاکہ اس سے محبت کرنے والے یا اس اس کا دعویٰ کرنے والے کچھ سیکھ سیکھیں۔یہ کہانی حال ہی میں رونما ہوئی ہے اگرچہ اس کا ابھی منطقی انجام نہیں پہنچا ہے مگر محبت کے دعویٰ داروں کا محبت پر انوکھا رویہ آپ سے بیان کرنا ضرورسمجھا تو انکی کہانی پیش کررہا ہوں۔ اس کہانی کے دو مرکزی کرداروں فائزہ (فرضی نام) اورشہاب(فرضی نام)کی کہانی کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک روز شہاب فیس بک پرفائزہ نامی پروفائل پر دوستی کا پیغام دیتا ہے اور یوں انکے درمیان دوستی کا آغاز ہوتا ہے جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے دونوں کے جذبات ایک دوسرے کیلئے دوستی کے رشتے سے زیادہ محبت میں الجھنے لگتے ہیں اور ایک روز شہاب کی طرف سے اظہار محبت ہوتا ہے اور بعد ازں فائزہ بھی اس کا مثبت جواب دے کر محبت کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام درج کر والیتی ہے اورانکی تقریبا روزانہ ہی فیس بک پر گپ شپ لگتی رہتی ہے اور ایک دن یہ موبائل فون پر ایس ایم ایس اور پھر فون کال پر آجاتی ہے اور انکے درن رات یوں ایک دوسرے کی قربت میں گزرنے لگتے ہیں اور محبت میں شدت بڑھتی جاتی ہے۔

ایک روز شہاب فائز ہ سے کہتا ہے کہ مجھے تم سے شادی کرنی ہے تو وہ کہتی ہے کہ میں بہت کمزور سی لڑکی ہوں،اپنے گھروالوں کی عزت کی پروا ہے وہ کیا سوچیں گے کہ یہ خود اپنی شادی کیلئے ہلکان ہو رہی ہے ۔میرے گھر والوں کی بدنامی ہوگی میں انکی نظروں میں ھر جاؤں گی ۔اپنے تمام بہن بھائیوں کا سامنا نہیں کر پاؤں گی۔اسی طرح کی بہت سی باتیں انکے درمیان تین چار مہینوں میں ہوتی رہیں اور تین دفعہ وقتی علیحدگی بھی ہوئی مگر محبت میں طاقت ہوتی ہے وہ پھر اپنا اثر دکھاتی ہے اور یوں دونوں پھرہر بار پاس آگئے ۔فائزہ ایک خواتین کی یونیورسٹی کی طالبہ تھی باشعور تھی اُسے اگرچہ اچھے برئے کی تمیز تھی مگر اس بات سے واقفیت نہیں رکھتی تھی یا نظر انداز کرتی تھی کہ محبت میں محبوت کی قربت ہی سب کچھ ہوتی ہے اور اس کے سہارے ہی زندگی حسین تر ہو جاتی ہے۔مگر وہ شہاب کو فرقان( فرضی نام) جو کہ اس کا قریبی رشتہ دار بھی تھا کی گھر والوں کی شادی کی باتیں بتا بتا کر اُ سے جلایا کرتی تھی یا اس سے دوری کے بہانے تلاش کرتی تھی تاکہ وہ جو محبت میں گرفتار نہیں ہونا چاہتی تھی جسے اس خلفشار کی وجہ سے ذہنی دباؤ ہوتا تھا کہ وہ کیوں محبت میں مبتلا ہوئی ہے ۔دوسری طرف شہاب اپنے محبت کے پاکیزہ جذبے سے سرشار ہوکر اسے اپنانے کا کہا کرتا تھا مگر وہ ان باتوں کو اکثر ہنسی میں اُڑ دیتی تھی یا کوئی ایسی بات کر تی تھی کہ دونوں میں گرما گرمی ہو جایا کرتی تھی۔اس میں تلخی اور تب بڑھتی تھی جب وہ کہتی تھی کہ سلمان(فرضی نام) جو کہ فرقان کا بھائی بھی تھا، اس پر مرمٹا ہے اور وہ اس سے شادی کا خواہشمند ہے وہ اس کے جذبے سے واقف تھی مگر اس سے پوری دوری اختیار نہیں کر پا رہی تھی کہ دونوں کے درمیان رشتے داری تھی،ساتھ ساتھ وہ خود بھی اسے کالز اور ایس ایم ایس کے زریعے تنگ بھی کرتا تھا اور ایک روز اس نے شہاب کی ٹانگیں بھی توڑنے کا فائزہ کو کہا تھا جس سے وہ نرم دل رکھنے کی وجہ سے اس سے لحاظ کر کے کہ رشتہ دار ہے چپ ہوجاتی تھی۔لیکن شہاب کو وہ تمام ترمسائل سے آگاہ کرتی رہتی تھی کہ اس کے دل میں محبت تھی اور خود بھی ایک ہونا چاہتی تھی مگر فطری طور پر کمزور اور کم حوصلہ ہونے کی ہونے کی وجہ سے کوئی حتمی فیصلہ اسکے ساتھ دینے کا نہیں کر پا رہی تھی۔

دوسری طرف جب شہاب نے شادی پر زور دیا تو مختلف بہانے بنائے کہ دونوں کی عمر وں میں فرق ہے؟ابھی اس کی پڑھائی مکمل نہیں ہوئی ہے اور ابھی شادی یوں بھی نہیں ہو سکتی ہے کہ اسکی بہنوں کی شادی ہوگی تب جا کر اس کا نمبر آگے گا ؟ مگر پھر بھی وہ اس بات سے ڈرتی تھی کہ کہیں والدین اس شادی سے انکار نہ کر دیں مگر بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اس بات سے خائف تھی کہ والدین کی عزت کا کیا ہوگا وہ تو داغ دار ہو جائے جب انکو پتا چلے گاکہ انکی بیٹی کے کسی کے ساتھ مراسم ہیں اور انہی وجوہات کی بناء پر دونوں کے درمیان آج کل خفگی چل رہی ہے۔ فائزہ اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے جو کہ محبت کرنے والوں کا شیوہ نہیں ہے مگر شاید والدین کی محبت اُ سے ایسا کرنے پر مجبور کر ہی ہے مگر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ انکی محبت کی توہین کر کے ہی تو وہ شہاب کی محبت میں گرفتار ہوئی تھی اگر انکی محبت اس قدرتھی تو وہ کیوں کسی غیر کی محبت میں پھنس گئی اور جب بات شادی تک گئی تو والدین کی عزت کا خیال یا د آیا۔ اس کہانی میں بہت سے باتیں ایسی تھیں جس نے مجھے اس حوالے سے لکھنے پر محبت کیا ہے ۔فیس بک پریوں بھی آج کل بہت سے لوگوں کے اصل چہرے سامنے آرہے ہیں وہ چپ نہیں پا رہے ہیں ۔اس کہانی میں بھی دونوں کرداروں کے چہرے سامنے آئے ہیں کہ ایک طرف شہاب اپنی محبت میں سچائی رکھتا ہے اور دوسری طرف فائزہ محبت کے دعویٰ کے بعد محبت حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے اگرمحبت کے کلیے کو مدنظر رکھا جائے تو محبت میں محبوب کا حصول ہی معراج ہوتاہے ۔

مگر جناب آج کل کے دور میں سب ہی محبت کا دل لگی کے لئے بدنام کر رہے ہیں اور اگر محبت کو پانا ہی نہیں ہے تو آپ اس جذبے سے دور رہیں یا پھر اپنے احساسات و جذبات سے دوسروں کو آگاہ ہی مت کیجئے ۔خاموش محبت ہی آپ کیلئے بہترین ہے کہ آپ خود کرتے رہیں مگر جب آپ اظہار کرلیں تو پھر محبت کے حصول کے لئے کوشش کریں۔محبت اﷲ تعالیٰ سے ہو یا حضرت محمد ﷺ سے ہمیں انکی محبت پانے کے لئے اپنی ذات میں تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں اور ایسے کام کرنے پڑتے ہیں کہ ہمیں انکی خوشنودی حاصل ہوسکے ۔مگر آج کل تو محبوب کی خوشی سے زیادہ مفاد پرستی ہی نظر آتی ہے ،کہیں ہوس کی محبت ہے کہیں حسن کی محبت ہے،کہیں وقت گزاری کر کے محبت جتا کر دیگر فوائد حاصل کئے جاتے ہیں۔سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمیں اس وقت ہی کیوں والدین کی عزت داؤ پر لگی ہوئی نظر آتی ہے جب کوئی ہمارے ساتھ بالخصوص محبت کی شادی کرنا چاہ رہاہوتا ہے۔اسلام بھی بچوں کی شادی کے حوالے سے پسند کو مدنظر رکھنے کا حکم دیتا ہے مگر جناب یہاں بچے بھی اور والدین بھی اپنے فرائض پورا کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اسلام کے نام لیوا ہی اسلام کی تعلیمات کی دھجیاں اُڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔پسند کی شادی کو ہمارے معاشرے میں گناہ کبیر ہ سمجھا جاتا ہے ۔نیز اﷲ اور رسول ﷺ کی محبت کے دعویٰ دار ہیں تو انکے احکاما ت و تعلیمات پر عمل کریں ،بصورت دیگر ان کی حکم عدولی سے اُنکی محبت کی توہین ہم نا چاہتے ہوئے بھی کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی ہے کہ کیا گناہ ہم سے سرزد ہوا رہا ہے۔

اگر فائزہ ذرا سی ہمت پکڑ لیتی اور والدین تک رشتہ بھیجوانے کا شہاب کو کہتی تو شاید حالات دونوں کے بہتر ہوجاتے اور دونوں اپنی زندگی سکون سے بسر کر سکتے ، مگر حد سے زیادہ جذباتی پن بھی اکثر انسان کو تاحیات پچھتا وا میں ملوث رکھتا ہے ۔والدین بھی بچوں سے پیار کرتے ہیں اگر وہ انکی پسند جان لیا تو خوامخوہ دوسروں کی یا معاشرے سے زیادہ اپنے جان از بچوں کی خوشیوں کا خیال کریں۔آج کل یوں بھی کورٹ میرج کی شادی کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے اسکی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ والدین انا کے سامنے جھک جاتے ہیں ۔حالانکہ والدین کو بچوں کی شادیاں انکی پسند سے کرنی چاہیں اگر کوئی مناسب بر مل جائے مگر یہاں تو جناب فساد ہو جاتا ہے کہ اس کو جرات کیسے ہوئی ایسی بات کہنے کی اور اسی وجہ سے لڑکیاں اپنے جذبات کو چھپاتی ہیں تاکہ والدین کی عزت قائم رہے مگر ایسا اگر وہ اس حد تک جانے سے قبل ہی سوچ لیں تو کسی دوسرے کے جذبات کو بھی ٹیس نہ پہنچے ،لڑکیاں خو د نازک ہوتی ہیں اور محبت میں گرفتاری کے بعد انکی اپنی زندگی بھی اجیرن ہو جاتی ہے جب انکی شادی کہیں اور ہوتی ہے اور عمر بھر کا شکو ہ ساتھ رہتا ہے۔محبت کرنا گناہ نہیں ہے مگر آپ دوسرے کا دل توڑ کر گناہ مول نہ لیں ،یہ سوچنا غلط ہے کہ دوسرا انکو ایک دن معاف کر دے گا مگر اُوپر والی ذات انصاف کرنے والی ہے وہ ایک دن آپکو پکڑ سکتی ہے۔محبت کی توہین مت کیجئے ،ایسے پاکیزہ جذبے کی اگر آپ قدر نہیں جانتے ہیں تو اس سے دور رہیے ،آپ محبت پانے کی کوشش کریں اگر آپ کا جذبہ سچا ہے تو آپ محبت پا سکتے ہیں ۔محبت انسان کو بیک وقت بزدل اور بہادر بنا سکتی ہے آپ اگر اﷲ پر یقین رکھتے ہیں تو مثبت سوچ رکھیں آپ بہادری کے ساتھی اپنی محبت کو پاسکیں گے ۔لیکن آپ اس بات کا حق نہیں رکھتے ہیں کہ خود محبت میں بہت آگے جا کر کسی کے احساسات و جذبات کو محض اپنے فائدے کیلئے ٹھکرا دیں ،محبت کی توہین کر کے آپ خود کسی کی بھی محبت رکھنے کے حقدار نہیں ہو سکتے ہیں ۔اگر والدین ہی آپ کیلئے سب کچھ ہیں تو پھر آپ ان سے ہی پیار کریں ،مگر جب آپ کسی اور سے کریں گے تو آپ کو بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑے گا۔

اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں ہے کہ محبت کی توہین کرنا چاہتے ہیں یا پھر محبت کے سمندر میں ہمیشہ کیلئے سفر کرنا چاہتے ہیں۔آخری بات میں یہ کہنا چاہوں گاکہ والدین کو اپنے بچوں بالخصوص لڑکیوں کو دوسروں میں کسی بھی حوالے سے وہاں رہنے کیلئے نہیں بھیجنا چاہیے کہ وہاں انکو بہت سے مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے اور وہ اپنی فطری شرم وحیا کی وجہ سے ایسی باتیں ان سے کہنے سے ڈرتی ہیں اور جب پانی سر سے گذرتاہے تو بہت کچھ ہو چکا ہوتا ہے ،اس کہانی میں بھی سلمان کا رویہ بھی اس وجہ سے کچھ حد سے آگے بڑھا تھا کہ فائزہ اسکے گھر اکثر قیام پذیر ہوا کرتی تھی اور وہاں مقیم ہونے کی وجہ سے ہی سلمان کو اس سے محبت کو جنون سوار ہوا تھا ۔اس لئے تمام والدین سے گذار ش ہے کہ اس حوالے سے احتیاط کا مظاہرہ کیا کریں تو بہتر ہوگا ورنہ انکا سر بھی کسی دن جھک سکتا ہے۔محبت کسی سے بھی کسی بھی وجہ سے ہو سکتی ہے مگر آپ اگر محبت کرنے والوں کا ہاتھ پکڑ کی بجائے ان سے دور جانے کی کوشش کریں گے تو یاد رکھئے گا آپ ایک دن تنہا ہونگے اور اس وقت آپ کو احسا س ہوگا کہ آپ نے کسی محبت کی توہین کی تھی تب آپ کے پاس سوائے پچھتاؤے کے کچھ باقی نہ ہوگا۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 480377 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More