کیا وہ خواب تھا

ایک ماں کا حقیقت پر مبنی خواب جسکے جگر گوشہ کو عین عالم شباب میں ظالموں قاتلوں نے چھین لیا --

روتی بلکتی تڑپتی ماں نے اسے دور سے ہی پہچان لیا تھا --وہ بھی جیسے منتظر تھا لپک کر دوڑکر اسکے پاس آیا دونوں ایک دوسرے سے وارفتگی سے لپٹے ماں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے مل پائیگی وہ تو اسے ان اتاہ تاریکیوں میں کھو چکی تھی ، ظالموں، قاتلوں نے اسکے جگر کے ٹکڑے کو بے دردی سے چھین لیا تھا-اسپر ایک بے یقینی کی سی کیفیت طاری تھی کاش یہ لمحات امر ہوجائیں اور پھر جدائی مقدر نہ ہو------ وہ اسے دیکھنے اس سے ملنے کے لئے کسقدر تڑپ رہی تھی یہ وہی جانتی تھی-شروع میں تو دونوں جیسے گنگ تھے وہ وارفتگی میں اسے لپٹائے اور چومے جارہی تھی گیارہ برس کی عمر میں باپ کا سایہ آنا فانا جب اسکے سر سے اٹھ گیا تھا تو وہ دونوں ایک جان دو قالب بن گئے کتنا بڑا ہوا لیکن سوتا ماں ہی کے ساتھ تھا دونوں کو ایک دوسرے کے بغیر نیند ہی نہ آتی تھی- بیچ میں تکیہ ڈالدیتا تھا امی یہ آپکا اور یہ میرا سائڈ -- بھائی اور عزیز رشتہ دار چھیڑتے " یار اب بڑے ہوگئے ہو- امی کابستر کب چھوڑوگے" اور پھر وہ اچانک ایسا بڑا ہوا ایک شاندار وجیہ شخصیت کا مالک اور اسدن تو ماں سکتے میں آگئی جب اسنے اپنی ایک ہم جماعت سے شادی کا اظہار کیا اور اپنی بات منواکر ہی چھوڑی ابھی محض منگنی ہوئی تھی اور شادی کی تیاریاں شروع تھیں--

باقی تینوں بھائی بڑے تھے اور وہ سب کا چھوٹا، راج دلارا ، سب کا پیارا، سب کی آنکھ کا تاراتمام عزیز و اقارب بھی اس پر جان چھڑکتے تھے - اسکے دل میں کسی کے لئے نہ کینہ تھا نہ بغض ،عادتیں ایسی دل موہ لینے والی گھر کے ملازموں کا چھوٹوں بڑوں سب کا دوست، سب کا ساتھی سانجھی ---

امی میرا پیزارکھ دیں میں ابھی واپس آکر کھاؤنگا اسنے گھر سے جاتے ہوئے یہ آخری جملہ کہا تھا اور پھروہ واپس آیا تو کس کیفیت میں -------------------------------------

اس ماں کی دنیا بری طرح لٹ گئی تاریک ہو گئی ، درہم برہم، تخت و تاراج ہوگئی --- ماں نہ زندوں میں نہ مردوں میں بس اللہ ہی جتنا بوجھ ڈالتا ہے اسے جھیلنے کا حوصلہ اور سہارا بھی دے دیتا ہے -- ماں کا ایک ہی جملہ تھا
کوئی مجھے بتاؤمین نے کسی کا کیا بگاڑا تھا -میں تو بھلائی کرنے چلی تھی-
میں کسکے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں --تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
حیات بعدالموت کا فلسفہ اسکے ذہن میں بچپن سے گہرا تھا --اکثر کہتا مرنے سے انسان ختم تھوڑے ہی ہو جاتا ہے ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں منتقل ہو جاتا ہے-- زندگی تو جاری رہتی ہے - یہ تو ایک نہ ختم ہونیوالا تسلسل ہے - شاید بچپن میں اپنے والد کی اچانک موت نے اسکا یہ ادراک گہرا کر دیا تھا--
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا
----------------------------------------------------
ماں کے ذہن پرایک دھند سی طاری تھی اور پریشانی بھی کہ یہ ملاقات کہیں ختم نہ ہو جائے اسکے پاس سوالات کا ایک انبار تھا لیکن لگتا تھا الفاظ ساتھ چھوڑ گئے ہیں --
-یہ ایک بہت بڑا پر ہجوم ہال تھا ایک جم غفیر لگا ہوا تھا ایک خلقت آجا رہی تھی جیسے کہ یہ ایک اسقبالیہ ہو یا ایک انتظار گاہ-- اسنے بتایا امی یہ سب لوگ ابھی ابھی آئے ہیں جیسے وہ انتظار میں بیٹھے تھے کہ انکو اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف روانہ کیا جائے گا -
تم ٹھیک تو ہو نا کوئی دکھ۔ پریشانی کوئی تکلیف -- آخر اسنے پوچھ ہی لیا
امی یہاں نہ کوئی دکھ ہے ، نہ کوئی غم میں بہت خوش ہوں بہت آرام ہے میں جو چاہتا ہوں مجھے مل جاتاہے - بس آپ بہت یاد آتی ہیں -- اسنے ماں کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا--
اور جب تم گئے تھے تو کیا ہوا تھا میرے بچے --" امی دو سفید لباس پہنے ہوئے نورانی صورت آدمی آئے انہوں نے کچھ سوال جواب کئے میں نے جواب دیا لا الہ الاللہ محمد الرسول اللہ -اسکے بعد مجھے آرام سے یہاں پہنچا دیا گیا-اور امی میں وہاں رہتا ہوں اسنے بلندی پر ایک خوبصورت عمارت کی طرف اشارہ کیا - نانا اور میں ساتھ رہتے ہیں --
بیٹا نانا کیسے ہیں ؟ امی وہ تو یہاں آکر بالکل جوان ہوگئے ہیں -
ماں کو پورا ادراک تھا کہ یہ عالم جاودانی ہے --
یہاں تو تم پیغمبروں کو بھی دیکھتے ہوگے-- اورکیا یہاں تم لوگ نماز پڑھتے ہو--؟ اسنے اسکا جواب نہ دیا - اتنے میں ایک عورت بڑے سے برتن میں بڑی بڑی پامفرٹ کی طرح تلی ہوئی مچھلیا ں لائیں اسنے ایک مچھلی ماں کو تھمائی--
اسنے لپک کر مچھلی ماں سے لیکر عورت کو واپس کردی ،" امی یہاں تھوڑی دیر کیلئے آئی ہیں اور یہاں کا کھانا نہیں کھا سکتیں--- نہیں نہیں میں یہاں اچکی ہوں -- میں آچکی ہوں ؐیں یہاں سے نہیں جاؤنگی بالکل نہیں جاؤنگی---
اچانک اسکی آنکھ کھلی ماں کا چہرہ آنسوؤن سے تر تھا لیکن کیا وہ خواب تھا---

غم سے نڈھال , دکھ سے چور ماں کو کچھ کچھ سکون آچلا تھا کہ اسکا جگر گوشہ سکون اور اطمینان سے ہے --
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 234378 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More