یقینِ مطمئن اور ایمان (پہلا حصہ)

’’ اعصابی نظام ‘‘ زندگی رکھنے والے ہر جاندار ( جن میں انسان بھی شامل ہے ) کے سرمیں ایک کھوپڑی ہوتی ہے۔ اس کھوپڑی میں ملائم اور نرم ونازک مادہ پیدا ہوتا ہے ۔ اس مادے کو ’’دماغ ‘‘کہتے ہیں۔ انسان کا دماغ مکمل ٗ اعلیٰ اور بہترین شکل میں ہے۔انسانی دماغ کائنات کا سب سے بڑا عجوبہ ہے اور کائنات کی پیچیدہ ترین مشین ہے۔

انسانی دماغ کا اوسط وزن تیرہ سو گرام ہے۔ یہ آٹھ انچ لمبا ٗ چھ انچ چوڑا اور چار انچ موٹا ہے۔دماغ تقریباً دوسو مکعب انچ جگہ گھیرتا ہے ۔لہٰذا یہ کوئی بہت بڑا عضو نہیں ہے۔ اس میں تقریباً دس ارب عصبی خلیے ہیں۔ مگرصلاحیتوں اور کارکردگی کے لحاظ سے کائنات میں کوئی اس کا ثانی نہیں ہے ۔دماغ کی اہمیت اور عظمت کو بیان کرنے کے لیے ایک ضخیم کتاب درکار ہے ۔مگر اختصار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے دماغ اور اُس کی صلاحیتوں پر چند سطور قلم بند کی جارہی ہیں۔
اظہارِ ِ فن کی خاطرخالق نے دماغ بنا دیا
مٹھی بھر جگہ میں اُس نے سارا جہاں بسا دیا
کائناتِ لاتصور کی اعلیٰ ترین مشین ہے دماغ
صلاحیتیں دیکھ کر عقل کی جائے پیدائش بنا دیا
کارکردگی میں نہیں کوئی ثانی دماغ کا
ایٹم کا جگرپھاڑ کر اُسے مثلِ آفتاب بنا دیا

٭ دماغ انسانی ’’جسم کا نگہبان ‘‘ ہے۔نگہبان کی حیثیت سے وُہ اعصابی نظام (Nervous System) کے ذریعے جسم کے بیس سے زاید نظاموں سے اطلاعات و پیغامات وصول کرتا ہے اور پھر فوری طور پر اُن کی نوعیت سمجھتا ہے اور حالات اور ضروریات کے مطابق احکامات جاری کرتا ہے۔ یوں دماغ انسان کے جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھتا ہے۔

٭انسانی دماغ کی ایک اہم صلاحیت ’’یاداشت ‘‘ہے کہ وہ اپنے ماضی اور حال کے واقعات ، مشاہدات، تعلیمات،معلومات اور تجربات اپنے مختلف حصوں میں محفوظ کرتا ہے اور بوقت ضرورت اُن کو مہیا اور تازہ کرتا ہے۔

٭ انسانی دماغ کی ایک صلاحیت’’اختیار اور ارادہ ‘‘ پیدا کر تی ہے۔ انسان اِس صلاحیت کی بدولت اپنے سامنے درپیش معاملات،مشکلات، مسائل اور سوالات کا جائزہ لیتا ہے،اُن پر غور و فکر کرتا اور اُن کے حل کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرتا ہے۔

٭انسانی دماغ کی ایک خاص صلاحیت ہے جو انسانیت کا طرّۂ امتیاز ہے۔ اِس صلاحیت سے انسان میں ’’اخلاقی ا قدار‘‘ کا تصور پیدا ہوتا ہے ا ور صحیح و غلط ،جائز و ناجائز،اچھے و بُرے ،حرام و حلال ، رحم و ظلم اورانصاف و بے انصافی میں تمیز کرنے کی خوبی پیدا ہوتی ہے۔

٭ انسانی دماغ کی ایک صلاحیت یہ ہے کہ وہ انسان میں’’ جذبات ، احساسات ، ہیجانات اور محسوسات‘‘ پیداکرتی ہے۔ ان میں خوشی،غمی، جوش ،جذبہ ، ولولہ ، خوف ،دلیری ، قوتِ برداشت ، عدم قوتِ برداشت ،بے صبری، غصہ ، محبت ، عشق ، لگاؤ ، نفرت ، دشمنی ، کینہ پروری ، انتقام ، وغیر قابلِ ذکر ہیں ۔

٭ دماغ کی صلاحیت ’’ فطرتی رجحانات‘‘ پید ا کرتی ہیں اور اُن کو کنٹرول کرتی ہیں ۔فطرتی رجحانات میں مذہب سے لگاؤ ، اﷲرب العزت سے عشق یا عدم لگاؤ ، شیطان سے دوستی ،نیکی ، رحم، ایثار ،قربانی ، دوستی ، اخوت ، امن پسندی ، عدل وانصاف ، قانون کا احترام ، قوم اور انسان پرستی اور بدی ، ظلم ، بربریت، لوٹ مار ، دشمنی ، دہشت گردی ، بے انصافی ، قانون شکنی ، طمع ، لالچ ،ہوس، حرص ، ذات وکنبہ پرستی وغیرہ شامل ہیں۔

٭ دماغ کی صلاحیتیں انسان میں’’جنسی خواہشات‘‘ پیدا کرتی ہیں اور اُن کو کنٹرول کرتی ہیں۔
٭ انسانی دماغ کی ایک منفرد اور بہت اہم صلاحیت’’ منصوبہ بندی‘‘ ہے جس کوبروئے کا ر لا کر انسان اپنی بقاء کی ضروریات ، جبلتی اور فطرتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مناسب حکمتِ عملی اور تدابیر اختیار کرنے کے قابل ہوتا ہے۔

دماغ کی مندرجہ بالا اور دیگر صلاحیتوں کو ’’عقل‘‘ کہتے ہیں۔

٭عقل انسان کاسے سب سے بڑا اثاثہ لاثانی دولت ہے ۔انسان پیدائش سے لیکر موت تک جو باتیں سوچتا ہے اور جو کام سر انجام دیتا ہے وُہ سب عقل کی پیداوار ہوتے ہیں۔آج ہمیں جوتمدنی ، ادبی ، علمی۔ اخلاقی ، معاشرتی ، اقتصادی ،سائنسی ، صنعتی ترقی نظر آتی ہے عقل کی بدولت ہے ۔ عقل کی عدم موجودگی میں انسان کسی فعل کا تصور یا اُس کو سرانجام دینے کی کوشش نہیں کرسکتا۔چنانچہ اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عقل کی تعریف پیشِ خدمت ہے۔

عقل کی تعریف
’’عقل دماغ کی صلاحیتوں اور کارکردگی کا نام ہے؛ دماغ حواس اور اعصابی نظا موں کے ذریعے جو پیغامات وصول اور محسوس کرتاہے، اُن وصول کردہ پیغامات کو یادداشت کی شکل میں محفوظ کرتا ہے ،اپنے اِردگردکے ماحول اور معاملات پر غور و فکر کرتاہے، جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے تدابیر اختیار کرتا ہے، تخلیق کرتا ہے اور احکامات جاری کرتا ہے ،یہ سب مل کر عقل کہلاتے ہیں۔‘‘
عقل کی تعریف پیش کرنے کے بعد ہم دوبارہ دماغ پر بات کرتے ہیں۔ دماغ اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کا مظاہرہ اُس وقت کرتا ہے جب اُسے اپنے جسم کی صورتِ حال اور اُس کے ساتھ پیش آنے والے معاملات کی معلومات ملتی ہیں اور اِردگرد کے ماحول میں موجود اشیاء اور واقعات کے بارے میں پیغامات اور اطلاعات مہیا ہوتے ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ دماغ
کو مذکورہ مطلوبہ معلومات ،پیغامات اور اطلاعات کس طرح ملتی ہیں جبکہ وہ خود ایک بکس نما کھوپڑی میں بندہوتا ہے جس کی دیواریں اتنی مضبوط ہڈی کی بنی ہوئی ہیں کہ باہر سے روشنی ، آواز یا کوئی دوسرا پیغام براہِ راست دماغ تک نہیں پہنچ سکتے۔

جواب یہ ہے، خالقِ کائنات نے دماغ کو مطلوبہ معلومات حاصل کرنے اوراحکامات جاری کرنے کے لیے دماغ کو دو نظام مہیا کیے ہیں۔پہلا ’’نظامِ اعصاب‘‘ (Nervous System )ہے اور دوسرا ’’ نظامِ حواس ‘‘ (System of Senses ) ۔ قارئین ان دو نظاموں کو تفصیل سے بیان کرنے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں مگر ہم دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کریں گے۔

نظامِ اعصاب‘‘(Nervous System )
اعصابی نظام دماغ کو بیرونی دنیا اور جسم کے متعلق معلومات اور پیغامات مہیا کرنے کے لیے قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ سب سے اہم عطیہ ہے۔یہ اعصابی نظام ار بوں خلیوں ( Cells ) پر مشتمل ہے ۔ان خلیوں کو اعصاب یعنی نیورونز(Neurons)کہتے ہیں۔یہ نیورونز آپس میں ایک زنجیرکی کڑیوں کی طرح مربوط ہیں جن کے ذریعے دماغ اور سپائینل کورڈ (Spinal Cord)کو تمام معلومات اور پیغامات مہیا ہوتے ہیں اوروہ جو احکامات جاری کرتے ہیں وہ بھی ان ہی نیورونز کی وساطت سے جسم کے مختلف حصوں تک پہنچتے ہیں ۔

نظامِ حواس (System of Senses )
دماغ کوبیرونی دنیا کی مطلوبہ معلومات ، پیغامات اور اطلاعات ’’حواس ‘‘کے ذریعے اعصابی نظام کے راستے سفر کرتی ہوئی پہنچتی ہیں۔ حواس جمع ہے حاسہ کی، جس کا مطلب ہے محسوس کرنے اور سمجھنے کی قوت ۔اس طرح حواسِ کا مطلب سمجھنے کی قوتیں ہے۔انگریزی زبان میں حواس کوسنسز( Senses)کہا جاتا ہے۔حواس کے سلسلے میں بڑا کام ہو چکا ہے ۔جدید ماہرینِ نفسیات حواس کی تعداد پندرہ کے قریب بیان کرتے ہیں جن میں بصارت ، سمع ، ذائقہ ، شامہ ، لامسہ ، ٹمپریچر ، دباؤ ، درد ، حرکی ، سکونی ، حشوی وغیرہ شامل ہیں لیکن فی الحقیقت بنیادی حواس پانچ ہیں اور ان کے پھیلاؤ سے دوسرے تمام حواس پیدا ہوتے ہیں۔ پانچ حواس یہ ہیں قوتِ باصرہ یعنی دیکھنے کی قوت، قوت سامعہ یعنی سننے کی قوت،قوتِ شامہ یعنی سونگھنے کی قوت، قوتِ ذائقہ یعنی ذائقہ معلوم کرنے کی قوت اور قوتِ لا مسہ یعنی جسم سے محسوس کرنے کی قوت۔دماغ اپنی صلاحیتیں پوری طرح بروئے کار لانے کے لیے حواس خمسہ (خامسہ کا مطلب ہے پانچ ) کی قوتوں کا محتاج ہے۔ اگرحواس خمسہ کی کوئی قوت پیدائشی نقص ، بیماری ، حادثہ یا عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے خراب ہو جائے تو دماغ کی اُس سے وابستہ حصے کی کارکردگی اسی نسبت سے متاثر ہوجا تی ہے۔مثلََا اگر آنکھوں یا اُس کے اعصابی سسٹم میں پیدائشی ، بیماری، حادثہ یا زیادہ عمر کی وجہ سے خرابی پیدا ہو جائے تو’’ اوکسی پیٹل لوب‘‘ میں پیغامات کم پہنچیں گے یا بالکل ہی نہیں پہنچیں گے جس کی وجہ سے ’’اوکسی پیٹل لوب‘‘ میں تصویرنہیں بنے گی یا دھندلی بنے گی اور انسان کی نظر کمزور یا خراب ہو جائے گی۔یہ اصول قوتِ سامعہ، قوتِ شامہ، قوتِ ذائقہ اور قوتِ لامسہ کے نظاموں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔اپنے مطلوبہ موضوع کی طرف آنے سے پہلے حواس کی تین اہم خصوصیات بیان کرناناگزیر ہے-

حواسِ خمسہ کی تین اہم خوبیاں
حواس کی پہلی خوبی یہ ہے کہ وہ تندرست حالت میں، ہمیشہ صحیح ، درست اور قابل یقین پیغامات مہیا کرتے ہیں ۔دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ ہر انسان کو ایک جیسی معلومات مہیا کرتے ہیں ،مثلََا مینار پاکستان ایک پاکستانی دیکھے ،امریکن یا جاپانی دیکھے، مینارِ پاکستان سب کو ایک جیسا نظر آئے گا۔اسی طرح ایک تقریر جو ریڈیو پر نشر ہو رہی ہو، وہ ہر سننے والے کو ایک جیسی سنائی دے گی۔چینی کی مٹھاس، پھولوں کی خوشبو ہر ایک شخص کو ایک جیسی محسوس ہوتی ہے۔حواس کی تیسری خوبی یہ ہے کہ ان کے مہیا کردہ پیغامات نا قابل تغیر ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر قوتِ باصرہ دماغ کو یہ معلومات مہیا کرے کہ سامنے کرسی پڑی ہے تو انسان اپنی مرضی سے کرسی کو میز نہیں دیکھ سکتا۔اسی طرح وہ مٹھاس کو کڑواہٹ سے، خوشبو کو بد بو سے اور گرم کو ٹھنڈے سے نہیں بدل سکتا۔

یقینِ مطمئن
اب میں وُہ بات کرنے لگا ہوں جس کے لیے اب تک سب کچھ لکھا گیا ہے یعنی میں یہ بیان کرنے لگا ہوں کہ ’’یقینِ مطمئن ‘‘کیا چیز ہے ۔ جب دماغ حواس کی قوتوں کی مہیا کردہ معلومات ، پیغامات اور اطلاعات کے ذریعے اردگرد کے ماحول میں اشیاء دیکھتا ہے، باتیں سُنتا ہے، کھانے پینے کی چیزیں چکھتا ہے، بُویں سونکھتا یا چیزیں محسوس کرتا ہے تو وُہ اُنہیں بالکل درست تسلیم کرلیتا ہے کیونکہ دماغ کو معلوم ہوتا ہے کہ حواس کبھی غلط پیغام نہیں دیتے ۔ چنانچہ دماغ مزید شہادت یا ثبوت کی ضرورت محسو س نہیں کرتا ۔اگر کوئی شخص دماغ کی تسلیم کردہ نتائج کے خلاف بات کرے یا گواہی دے تو وُہ اُسے فوراََ رد کر دیتا ہے۔مثلاََ اگر آپ کا دماغ قوتِ بصرہ کے ذریعے یہ دیکھ رہا ہے کہ سامنے کرسی پڑی ہے اور میں یہ کہتا ہوں کے آپ کے سامنے میز پڑا ہوا ہے تو آپ فوراََ میری بات کو غلط قرار دے دیں گے۔اسی طر ح اگر میں اذان کی آواز سُن رہا ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ گانا لگا ہوا ہے تو میں فوراََ آپ کی بات مسترد کردوں گا، اعلیٰ ہذا لقیاس۔چنانچہ جب دماغ حواس کی قوتوں کے ذریعے کوئی بات تسلیم کر تا ہے اور مکمل اور ناقابلِ تردید سمجھتا ہے تو یہ یقینِ مطمئن کی حالت ہے اورانسان کہتا ہے کہ جو کچھ اُس نے دیکھا ہے،سُناہے ،چکھا ہے،سونگھا ہے یا محسوس کیا ہے اُس پر اُسے یقینِ مطمئن ہے۔

اگر آپ ساری بات کو کوزے میں بند کرنا چاہیں تو یہ کہہ لیں ’’کہ انسان جو کچھ حواس کے ذریعے دیکھتاہے،سُنتا ہے ،چکھتا ہے،سونگھتا ہے یا محسوس کرتا ہے اُس پر اُسے یقینِ مطمئن ہوتا ہے چناں چہ وُہ تصدیق کے لیے مزید کوئی شہادت یا گواہی طلب نہیں کرتا۔ ‘‘

ایمان
انسان جو چیزیں اورباتیں حواس کی قوتوں کے ذریعے دیکھتاہے،سُنتا ہے ،چکھتا ہے،سونگھتا ہے یا محسوس کرتا ہے اُس پر اُسے یقینِ مطمئن ہوتا ہے ۔ مگر کئی اجسام، چیزیں ، باتیں اور واقعات وغیرہ ایسے ہیں جو انسان کے حواس کی قوتوں میں نہیں آتے اور دماغ اُن سے نا آشنا ہوتا ہے مگر پھر بھی اربوں انسان (کئی اسباب کی بناء پر) اُن اجسام اور چیزوں کے موجود ہونے کو تسلیم کرتے ہیں، باتوں کو درست سمجھتے اور واقعات کے ظہور کومانتے ہیں۔ اس طرح تسلیم کرنے،درست سمجھنے اور ماننے کو ایمان لانا کہتے ہیں۔مثال کے طور پر فرشتے، حوریں،جنات، شیطان، بدروحویں ،چڑیلیں، مرنے کے بعد زندہ ہونے، یومِ حساب وغیر ہ حواس کی قوتوں کے دائرے میں نہیں آتے مگر پھر بھی اربوں انسان اُن کے وجود اور واقع ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔

اگر آپ بات کو کوزے میں بند کرنا چاہیں تو یہ کہہ لیں ’’حواس کی شہادت کی بجائے مختلف اسباب (جن کی وضاحت اگلی سطور میں کی جارہی ہے) کی بناء پر کسی جسم، چیز، بات یا واقعہ وغیرہ کو تسلیم کرنے کوایمان لانا کہتے ہیں۔ ‘‘

ایمان کے اسباب
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے ،اکثر بنی نوع انسان ایسے اجسام،چیزوں،باتوں اور واقعات وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں جو اُن کے حواس کی قوتوں کے دائرے میں نہیں آتے ہیں۔اس طرح ایمان رکھنے کے کئی اسباب ہیں ۔مگر ان میں تین اسباب بہت اہم ہیں اور اُنہی کو بیان کیا جارہاہے۔ پہلا سبب ’’قیاس ‘‘ ہے، دوسرا سبب ’’ دلیل ‘‘ ہے اور تیسرا سبب ’’ عقیدت ‘‘ ہے۔اب ہم مذکورہ بالااسباب کو تفصیل سے زیر بحث لائیں گے۔

قیاس
جب انسان لامحدودکا ئنات، اُس میں موجود ناقابلِ شمار اجسام اور اُس کا بے عیب اور مکمل نظام کو دیکھتا ہے:زمین پر موجود پہاڑ، دریا، سمندر ،صحرا،جنگلات،لاتعداد اقسام کے جاندار اور سب سے بڑھ کر اپنے وجود کامشاہدہ کرتا ہے تو اُس کی حسِ تجسس جاگ اٹھتی ہے اور وُہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ یہ سب کچھ کس نے پیدا کیا، کب پیدا ہوا کیا، کس طرح پیدا ہوا وغیرہ وغیرہ۔ مگر اُس کی عقل ،حواس کی قوتوں کی موجودگی کے باوجود ،ان سوالات کا دینے کے قابل نہیں ہوتی۔کیونکہ انسانی حواس کی قوتوں کی صلاحیتیں محدود ہیں۔ وُہ صرف اُن چیزوں ،باتوں اور واقعات وغیرہ کی اطلاعات اور معلومات دماغ کو مہیا کرسکتیں ہیں جو اُن کے سامنے موجود ہیں یا وقوع پذیر ہو رہے ہیں ۔مگر وُہ ہستیاں،اجسام، چیزیں،باتیں اور واقعات جو اُن کے سامنے موجود نہیں یا ماضی میں پیدا ہوئے تھے اُن کا احاطہ کرنے اوراُن کی اطلاعات اورمعلومات دماغ کو منتقل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں ۔ایسے مواقع پر جب حسِ تجسس مزید بڑھتی ہے اور انسان حقیقت معلوم کرنے کے لیے زیادہ بے تاب ہوتا ہے تو عقل حسِ تجسس کی تسلی اور بے تابی کو کم کرنے کے لیے قیاس کا نسخہ تجویز کرتی ہے۔عقل قیاس لگاتی ہے کہ ناقابلِ تصورکائنات، اُس میں موجود بے شماراجسام اور اُس کا مکمل اور بے عیب نظام اور پھر زمین اور اُس پر موجود تمام چیزیں اور سب سے بڑھ کرانسان کو پید ا کرنے والی کوئی ٖہستی یا طاقت ضرور موجود ہے ۔عقل ہر اُس موقعے پر قیاس کا نسخہ استعمال کرتی ہے جہاں حسِ تجسس حقیقت معلوم کرنا چاہتی ہے مگر حواس کی قوتیں کااستعمال ممکن نہیں ہوتا ۔ لیکن قیاس کی اپنی افادیت ہے۔ اس سے حسِ تجسس کو ایک حد تک جواب ملتا جس سے اُس کی ایک مخصوص حد تک تسلی ہو جاتی ہے۔
چنانچہ قیاس ایمان کی منزل کی طرف پہلا قدم ہے۔

دلیل
جب قیاس پر تنقید ہوتی ہے اور اُس کے صحیح ہونے کا ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو عقل اپنے قیاس کو درست ثابت کرنے کے لیے دلیل کا سہارا لیتی ہے۔دلیل کیا چیز ہے؟ مصنّف کے خیال میں دلیل منطقی اور واقعاتی ثبوت ہوتی ہے۔ ثبوت یا شہادت کے لحاظ سے دلیل کی قدرو قیمت حواس کی قوتوں کے برابر نہیں ہے لیکن دلیل قیاس کو ایمان کی منزل کی طرف لے جانے میں اہم کردارادا کرتی ہے۔مثال کے طور پر ،کائنات کس نے پیدا کی ہے؟حواس کی قوتیں خاموش ہیں ، عقل قیاس لگاتی ہے کہ کسی عظیم اور طاقتور ہستی نے پیدا کی ہے اور اپنے قیاس صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرتی ہے کہ اتنی وسیع اور ناقابلِ تصور کائنات جس میں بے شمار اجسامِ فلکی ہیں اورجس کا نظام بے غیب ہے، خودبخود پیدا نہیں ہوسکتی۔عقل مزید دلیل دیتی ہے کہ جدید سائنس بھی کہتی ہے کہ ہر چیز کی تخلیق اور واقعہ وقوع پذیر ہونے کے اسباب ہوتے ہیں۔ بلا اسباب کوئی چیز پیدا نہیں ہوسکتی اور کوئی واقعہ پیش نہیں آسکتا۔دلیل کی افادیت اور اہمیت پر روشنی ڈالنے کے لیے دوسری مثال یہ ہے کہ فرض کریں کہ ایک شخص ہاتھ میں خنجراور کپڑے خون آلود ایک ایسے کمرے سے نکلتا ہے جس میں اندر جانے اور باہر آنے کا صرف ایک ہی دروازہ ہے اور بھاگ جاتا ہے۔جب کمرے کے اندر جا کر دیکھا گیا تو فرش پر ایک عورت کی خون میں لت پت لاش پڑی ہے ۔ کیا ہوا ؟عورت کو کس نے قتل کیا ؟ کسی شخص نے قتل ہوتے نہیں دیکھا لہٰذاحواس کی قوتوں کی شہادت موجود نہیں۔

اس مقام پر عقل دلیل پیش کر تی ہے کہ قتل اُس شخص نے کیا ہے جو ابھی ابھی کمرے سے نکل کر بھاگ کر فرار ہوا ہے۔عقل اپنی دلیل کی صداقت کے حق میں مندرجہ ذیل اثبات پیش کرتی ہے:
٭کمرے میں لاش کے پاس کوئی دوسرا آدمی موجود نہیں جس پر شک کیا جاسکے؛
٭کمرے میں آنے اور جانے کا صرف ایک ہی دروازہ ہے اور
٭کمرے سے نکل کر جو شخص فرار ہوا ہے اُس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر تھا اور اُس کے کپڑوں پر خون کے دھبے تھے لہٰذا قاتل یہی شخص ہے۔
ایسی دلیل کو منطقی یا واقعاتی ثبوت/شہادت بھی کہتے ہیں اور انگریزی زبان اور پاکستان کے قانون میں "Circumstancial Evidence "
کہتے ہیں۔

دلیل ایمان کی طرف دوسرا قدم ہے ۔
عقیدت
جب ایک جلیل القدر اور عظیم انسان پیدا ہوتاہے تو اُس کی صداقت، دیانت اور بلند کردار کی شہرت اپنے علاقے میں پھیلتی ہے ۔لوگ اُس کا احترام اور عزت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔پھر اُس کی شہرت کی خو شبو دوسرے شہروں اور علاقوں میں پہنچتی ہے جس سے اُس کی مقبولیت میں مزیدا ضافہ ہوتا ہے۔اور پھر ایسا وقت آتا ہے کہ خلقِ خدا اُس کو احترام اور محبت کا حق دار سمجھتی ہے۔اور جب احترا م اور محبت عروج پر پہنچتے ہیں تو ’’عقیدت‘‘کا روپ دھار لیتے ہیں۔ جب لوگوں کو کسی عظیم شخصیت سے عقیدت ہو جاتی ہے تووُہ اُس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو بالکل سچ اور حقیقت سمجھتے ہیں اور اُس کے احکامات پر عمل کرنا فرض تصور کرتے ہیں اور راہِ نجات خیال کرتے ہیں۔

مصنّف سمجھتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ’’ ایمان ‘‘ کی بات مکمل کی جائے۔ جب قیاس ،دلیل اور عقیدت یک جا ہوجاتے ہیں اورکسی ہستی، جسم، چیز،بات یا واقعہ کی تصدیق کرتے ہیں تو حواس کی قوتوں کی شہادت کے بغیربھی عقل اُن کے وجود اور وقوع کو سچا،صحیح اور درست تسلیم کرتی ہے ۔اوراس تصدیق کا نام ’’ ایمان ‘‘ ہے۔

یقینِ مطمئن بمقابلہ ایمان
Rana Saeed Ahmad
About the Author: Rana Saeed Ahmad Read More Articles by Rana Saeed Ahmad: 14 Articles with 22860 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.