این آر او، نواز شریف اور حکیم سعید

این آر او ہمارے عدالتی نظام پر ایک ضرب کاری ہے۔ عدالتیں برسوں تک فیصلے نہیں کرتیں، جبکہ انصاف اور فیصلے میں فرق ہے۔ فیصلہ انصاف نہیں ہوتا، فیصلہ فاصلے بڑھا دیتا ہے، فیصلے میں تاخیر اور بھی بے انصافی ہے، وہ جو جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں ان کے لئے این آر او کون لائے گا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سزائے موت کی کوٹھڑیوں میں زندہ بدست مردہ لوگ کئی کئی برس سے انتظار کی سولی سے لٹک رہے ہیں اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ سولی پر لٹک جائیں۔ موت کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے وہ نہ مرتے ہیں نہ جیتے ہیں وہ نجانے کس دنیا میں پڑے ہوئے ہیں۔ انتظار کرنا بھول گئے اور اعتبار کرنا بھی بھول گئے، ایسی حالت میں بھی وہ اندر سے زندہ ہیں۔ ایک قیدی فون پر کہنے لگا کہ میں دس برسوں سے جیل میں فیصلے کا منتظر ہوں، مجھ پر قتل کا جھوٹا مقدمہ ایک ممبر اسمبلی نے بنوایا ہے۔ مجھ پر این آر او کیوں نہیں لگتا، مجھے فوراً جیل سے نکال کر کوئی بڑا عہدہ دلواؤ۔ کوٹ لکھپت جیل میں ایک بہت اچھے دل کے انسان سرور کو جانتا ہوں۔ وہ بے گناہ ہے اور سزائے موت کے لئے آخری آواز سننے کو بے تاب ہے وہ یہ یاد کرتا رہتا ہے کہ جس قتل کے لئے مجھے سزائے موت ملی ہے بلکہ مل رہی ہے وہ تو میں نے نہیں کیا، میں نے ایسا اور کون سا گناہ کیا تھا اسے یاد نہیں آتا۔ ہمارا عدالتی نظام کتنی بدنظمی کا شکار ہے، نامور قانون دان ایڈووکیٹ ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں اس ملک میں پچھلے 63 برسوں سے ایک بھی ایف آئی آر کسی قتل کے مقدمے میں صحیح نہیں لکھی گئی ۔ پولیس کے پاس گواہ بھی مصنوعی اور جھوٹے ہوتے ہیں۔ تو پھر عدالتیں کیا انصاف کریں گی۔

کہتے تھے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بحال ہوں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ بحال ہوئے ہیں تو لوگ مزید بے حال ہو گئے ہیں۔ چیف نے حکم دیا ہے کہ این آر او پارلیمنٹ میں پیش کرو جبکہ عدالت پارلیمنٹ میں اس بدنام زمانہ آرڈیننس کو پاس ہونے کے بعد فیل کر سکتی ہے، تو پھر کالعدم کیوں نہیں کرتی کوئی تو بتائے کہ آرڈر اور آرڈیننس میں کیا فرق ہے۔ عدالتی آرڈر اور انتظامی آرڈر میں کیا فرق ہے۔ ؟ ہمارے ملک میں دو قانون بلکہ کئی قانون کیوں ہیں؟ این آر او بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان مفاہمت کا نتیجہ تھا۔ پہلے معاہدے کے گواہ جنرل کیانی تھے، دوسرے معاہدے کے گواہ کون ہیں۔ مفاہمت اور مزاحمت میں فرق نہیں رہا۔ صدر زرداری اور نواز شریف میں معاہدہ کیا ہے اس میں مخدوم گیلانی اور شہباز شریف کا رول کیا ہے، میثاق جمہوریت، میثاق حکومت بن گیا ہے یہ بھی سوال ہے کہ سیاسی مقدمات کیا ہوتے ہیں۔ دوسرے مقدمات کو غیر سیاسی کہا جا سکتا ہے ہمارے ہاں قانون نہیں ہے مگر وزیر قانون ہے۔ خزانہ خالی ہے مگر وزیر خزانہ ہے غلاموں کی خارجہ پالیسی نہیں ہوتی مگر ہمارا وزیر خارجہ ہے اور یہ بھی کوئی نہیں بتاتا کہ وزیر داخلہ کیوں ہے؟ حکومت کہیں نہیں ہے اور حکمران ہیں۔ ایسے حکمران ہیں جنہیں حکومت کرنا نہیں آتی۔ حکومت اور حکمت میں فاصلے تو تھے اب دیواریں بھی بن گئی ہیں اور دروازوں پر پہرے لگے ہوئے ہیں۔ وہ جو لوٹ مار ہوئی ہے پیسے کھائے گئے ہیں۔ وہ کیسے معاف ہوئے جس طرح بینکوں سے کروڑوں روپے کے قرضے معاف ہوجاتے ہیں اب کرپشن اور لوٹ مار کو قانونی جواز مل گیا ہے۔

نواز شریف نے کہا ہے کہ این آر او قوم کے ماتھے پر بدنما داغ ہے جبکہ صدر زرداری پر سارے مقدمات نواز شریف کے دور میں بنائے گئے۔ ان کا وزیر سیف الرحمن عدالت میں زرداری کے قدموں پر گر کے معافی مانگ چکا ہے اس کی تلافی خود اس نے این آر او کے ذریعے کروا لی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا نام لیا گیا ہے اور اسفند یار ولی کی جماعت کا نام آیا ہے۔ مسلم لیگ ن کا نام بھی آیا ہے، مسلم لیگ ق کا نام نہیں آیا یہ 1999ء کے بعد شریف فیملی کی جلاوطنی کے بعد بنی تھی تب شریف برادران کی سزائیں بھی معاف ہوئی تھیں۔ یعنی این آر او کے بغیر بھی کام چلا لیا جاتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ہم ہر فورم پر این آر او کی مخالفت کریں گے۔

نواز شریف نے بھی مخالفت کی تو پھر این آر او پاس کس طرح ہوگا۔ پاس تو یہ ہو جائے گا نجانے کس طرح ہو جائے گا۔ نواز شریف نے اس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی بھی مخالفت کی ہے۔ پارلیمنٹ میں اس کی حمایت سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے امریکہ این آر او کے حق میں ہے۔ بنوایا بھی اسی نے ہے حالانکہ اس تکلیف کے بغیر بھی کام چل رہا تھا البتہ صدر زرداری اور نواز شریف میں انیس بیس کا فرق ضرور ہے۔ امریکی آئے تو کیری لوگر بل کے لئے آئے ہیں اندر کی بات کسی کو معلوم نہیں ہے وہ این آر او کے لئے بھی کوئی ہدایت کر کے جائیں گے۔

کئی مقتول تو ہیں اور قاتلوں کو معاف کر دیا گیا ہے افسوس ہے مگر گہرا دکھ حکیم سعید شہید کا ہے۔ این آر او کے تحت حکیم سعید شہید کے قاتل بھی فارغ ہو گئے ہیں جبکہ ابھی تک قاتلوں کا پوری طرح علم نہیں۔ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو کس این آر او کے تحت فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ حکیم شہید زندہ جاوید ہیں این آر او والے مر جائیں گے۔ حکیم شہید کے لئے ایک شاندار تقریب ہمدرد فاؤنڈیشن کے تحت سردار صدیقی اور علی بخاری نے کی۔ دعوتی کارڈ پر حکیم سعید شہید کی سعادت مند بیٹی سعدیہ راشد نے لکھا ہے ’’جب ہر شخص سمجھے کہ بس میں ہی وہ شخص ہوں جس کے حکیم سعید کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے اور مجھ ہی سے وہ زیادہ محبت کرتے تھے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے رابطے استوار رکھتے تھے‘‘ ان کے رابطے ہر کسی سے اب بھی استوار ہیں۔ حکیم سعید شہید نے فرمایا ’’دل کو نفرت سے پاک رکھنا چاہئے، دل اس لئے نہیں کہ اس میں کوئی گندی چیز رکھی جائے، دل میں صرف اور صرف محبت ہونا چاہئے‘‘
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 18045 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.