گُفتنی نا گُفتنی:ذکر کچھ چُھپی کتابوں کا(فکاہیہ)

ڈاکٹر غلام شبیررانا
قحط الرجال کے موجودہ دور میں حادثہء وقت نے عجب گُل کِھلائے ہیں ہر بوالہوس نے ملمع سازی کو وتیرہ بنا لیا ہے۔جامہء ابو جہل میں ملبوس ہر ابلہ رواقیت کا داعی بن بیٹھا ہے ۔ادب اور فلسفے کی ابجد سے بھی ناواقف عطائی بڑی بڑی ڈگریاں تو ہتھیا لیتے ہیں لیکن جزیرہء جہلامیں وہ بدستور لمبے ڈگ بھرتے علم دشمنی کی ڈگر پر دندناتے اور ہنہناتے پھرتے ہیں۔ لوگوں کی قدر ناشناسی اور تحسین نا شناس نے اب گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔ خود نمائی کے مرض میں مبتلاجہلاکے سر میں ایک خناس سما گیا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو وہ دانش وری کا سوانگ رچا کر ادبی تخلیق کار کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر سادہ لوح لوگوں کو اُلّو بنا کر اپنا اُلّو سیدھا کریں ۔اسی خبط میں مبتلا ہو کر وہ عقل و دانش سے دُور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی بے بصری اور کو ر مغزی اُس وقت کھل کر سامنے آتی ہے جب وہ کاتا اور لے دوڑا کی مذموم رو ش اپنا تے ہوئے اپنی بے ربط تحریروں کے مسودات کو جو پُشتارہء اغلاط ہوتے ہیں،کتابی شکل میں لانے کے لیے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔اپنی سُستی چُھپانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کاپاپ انھیں کئی پاپڑ بیلنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ یہ ہوائی اُڑا دیتے ہیں کہ تخلیقِ ادب کا شوق تو ان کو ورثے میں ملا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہوا کا رخ نہ پہچانتے ہوئے بیساکھ کے موسم میں بھی اُن کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہوتی ہیں اور وہ تھر کے علاقے سے آئے ہوئے الم نصیب فاقہ کشوں کے مانند تھر تھر کانپتے ہوئے اور مسلسل ہانپتے ہوئے شہرت کی بیساکھیاں تلاش کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔چربہ سازی ،سرقہ اور نقالی کے ہر جوہڑ سے سیراب ہو نے کے بعد ان کے سہو قلم سے نام نہاد ادب کی صورت میں جو کچھ سامنے آتا ہے اُسے پڑھ کر قاری سٹپٹا جاتا ہے اورادبی سٹے بازوں کے نرغے میں اُس کی سِٹی گُم ہو جاتی ہے۔چلتے پھرتے ہوئے یہ مُردے کفن پھاڑ کر کس طرح ہذیان گوئی پر اُتر آتے ہیں اس کا اندازہ ان کی کتابوں کے مسودات سے لگایا جا سکتا ہے ۔آج سے قریب قریب نصف صدی پہلے کی بات ہے کہ ایک عادی دروغ گو ، چربہ ساز ،کفن دُزد اورسارق متشاعربُز اخفش حیوانی جھنگ کے ممتازادیب غلام علی خان چین کے پاس گیا اور اپنی شاعری کی بیاض اور کتاب کا مسودہ دکھا کر اس کا مقدمہ لکھنے کے لیے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اصرار کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’ میں بچپن ہی سے والدین سے چوری چُھپے شاعری کرتا رہا ہوں ۔ یوں تو ہماراپیشہ ء آبا سو پشت سے گدا گری،رسہ گیری اور دادا گیری ہے لیکن میرا مزاج لڑ کپن سے شاعرانہ ہے ۔میں نے بڑے شاعروں کا کلام پڑھ کر اس سے جو اثرات قبول کیے انھیں اپنے اشعار کے قالب میں ڈھالا۔یہ بات درست ہے کہ میری شاعری میں بڑے شاعروں کے خیالات جھلکتے ہیں ۔اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے معمولی رد و بدل کے بعد یہ شعر اپنی بیاض میں لکھ لیے ۔برسوں کی محنت کے بعد میں نے اپنی شاعری کی کلیات لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ رہا کلیات کا مسودہ ،اب کتاب جانے ،آپ جانیں اور مقدمہ جانے ۔میں سب کچھ یہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔ اپنا دلی مدعا میں نے بتا دیا ہے اور سب کچھ آپ کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے ۔‘‘

اس جعل ساز کی بے ربط باتیں اور مدعا کے بارے میں سن کر غلام علی خان چین نے کہا:
’’ سچ ہے سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ ۔تمھاری شاعری میں لکھنو کی بھٹیارنوں کا سا لہجہ ہے ،ہر شعر میں ہوس پر مبنی تمنائیں،بد دعائیں، طعنے، کوسنے اور بیزارکُن کٹ حُجتی او رضلع جُگت نے اسے بے حد کم زور بنا دیا ہے۔اس وقت تماری ہئیت کذائی دیکھ کر تم پر کسی مجذوب یا مسخرے کا گمان گزرتا ہے۔مسلسل رومان اور شکستِ دل کے باعث جو تمھاری حالت ہے اس کے پیشِ نظر تو تمھیں اﷲ میاں ہی سمجھے ۔مجھے تو تمھارا مزاج شاعرانہ کے بجائے مجنونانہ سا لگتا ہے ۔اجی یہ کیا !جزئیات کو سمجھنے سے قبل کلیات کی اشاعت کیسے ممکن ہے؟اس شاعری کو چَھپانے کے بجائے اِسے چُھپانے کی فکر کرو۔زندگی کی برق رفتاریوں کے باعث زمانے کے انداز تیزی سے بدل رہے ہیں ۔اب تو خس و خاشاک کے موضوع پر بھی تحقیق کا سلسلہ چل نکلا ہے،کاہ کو بھی کوہ ثابت کیا جا رہا ہے ۔ممکن ہے کچھ عرصہ بعد کوئی محقق متشاعروں پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر کسی جامعہ سے اعلا ڈگری ہتھیانے میں کام یاب ہو جائے اور یہ شعری مجموعہ ’’باقیاتِ بُزِ اخفش‘‘ کی صورت میں موجود ہو۔ تم اپنی پِٹی ہوئی ڈگر پر چلتے رہو اور حساس تخلیق کاروں کی چھاتی پر مونگ دلتے رہو۔اب رہ گیا مقدمہ کا معاملہ تومیاں کان کھول کر سُن لو، میں کیا اور کتاب کا مقدمہ کیا ،اگر یہ کتاب چھپ گئی تو اس جسارت سارقانہ پر مقدمہ یقیناًچلے گا۔ایسی تصانیف کی رونمائیاں بالآخر جگ ہنسائیوں اور تکلیف دہ روسیاہیوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔اس ضعیفی کے عالم میں کسی مُردہ مصنف اور اُس کی بے جان تصنیف کو مقدمہ کا کندھا دینے سے میں معذور ہوں۔وقت خود ہی اس قماش کے مصنفین اور ان کی تصانیف کی آخری رسوم ادا کر دیتا ہے۔‘‘

غلام علی خان چین کایہ ٹکا سا جواب سن کر بُزِ اخفش حیوانی نے یوں ہرزہ سرئی کی :
’’ ہوا کی شدت ،موسم کی حدت اور آسمان کی وسعت کا کبھی غلط اندازہ نہ لگاؤ ۔میرے حریف تو یہ چاہتے ہیں کہ میں لبِ اظہار پر تالے لگا کر اپنے بال و پر نوچ ڈالوں اور قفس میں سسک سسک کر دم توڑ دوں ۔میں کرگس ہوں میرا نشیمن ہمیشہ ریگستانوں، ویرانوں ،قبرستانوں اور کھنڈرات میں رہاہے ۔لوگوں کو اپنی امارت کا نشہ ہے لیکن مجھے اپنے ہنر سے مخمور ہوں اور حاسدوں نے اپنے اسلوب کی جو عمارت کھڑی کر رکھی ہے ،مجھے تو وہ کُٹیا سے بھی حقیر نظر آتی ہے۔تا ہم یہ بات دل کو لگی ہے کہ میرے مجموعہء کلام کا نام ’’باقیاتِ بُزِ اخفش‘‘ ہی ہوناچاہیے۔اس کتاب کے متعلق میں جو کچھ چاہوں لکھوا سکتا ہوں ۔یہاں قلم فروشوں کا کون سا قحط پڑ گیا ہے ۔دنیا دیکھے گی کہ میری شاعری کا مجموعہ ’’باقیات ِ بُزِ اخفش ‘‘میری زندگی ہی میں شائع ہو گا ۔کوئی جلتا ہے یا ہاتھ ملتا ہے تو مجھے اس کی مطلق پروا نہیں۔چند باسی شعر وارد ہوئے ہیں۔ان اشعار میں میری وارداتِ قلب جلوہ گر ہے جب کہ بعض لوگ ان اشعار کو تاثرات کلب پر محمول کرتے ہیں۔
بُزِ اخفش کو کڑی مار کفش کی جو پڑی تھی
جب فرش پہ لیٹا تھا بہت بھنگ چڑھا کے
کاوش ہے سارقانہ
اے دِل کہیں سے اب تو
چربہ ہی ڈھونڈ لانا
بُزِ اخفش کی چوکھٹ پہ ہوا شور ِ جراحت
حجام سبھی بولے کہاں چوٹ لگی ہے
پرکھ پرچول کا نہ ہو خطرہ
چربہ سازی کمالِ فن ٹھہرے
کب کا ترک کیا سارق نے یہاں تک آنا جانا بھی
پھر بھی لازم ہے بُز اخفش اِس دِل کو بہلانا بھی
مصر کے بازار سجے ہیں جلوہء حُسن دکھانے کو
ٹُوٹ پڑے ہیں بُزاخفش اپنی اوقات بتانے کو

اپنی بے بصری اور کو ر مغزی پر وہ ہمیشہ خجل رہا کچھ عرصہ بعد یہ خضاب آلود بُڈھا کھوسٹ متشاعر اسّی سال کی عمر میں ایک سولہ سالہ شاطر حسینہ کی زلفِ گرہ گیر کااسیر ہو گیا۔وہ عقل کا اندھا اور گانٹھ کا پُوراعشقی ٹڈااُس طوائف کے دامِ عشق میں یوں پھنسا کہ تمام جمع پُونجی اور اپنی متاع زیست اُس حسینہ پر وار گیااور پھر اس کی بے وفائی کا وار سہہ کر چُپکے سے زینہء ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ عقل ،عشق اور حیاتِ مستعار کی بے بضاعتی کے اس گھمسان میں وہ شدید خلجان میں مبتلا ہو گیااور ہذیان گوئی اور نقصان اس کا مقدر بن گیا۔چشم کا زار رونا اس کا معمول ٹھہرااس کے ساتھ ہی دھرتی کا بوجھ بھی اُتار گیا۔ مال و منال کی بھرمار اور ہوس ِزرنے اُسے قناعت کی دولت سے محروم کر دیا تھا۔ اس ضعیفی کے عالم میں بُزِ اخفش حیوانی کے عشق کو لوگ اُس کے دماغ کا خلل قرار دیتے اور اُسے یاد کر کے اشک بہاتے۔ بُز اخفش حیوانی کا مجموعہء کلام ’’باقیات ِ بُزِ اخفش ‘‘تو نہ چھپ سکا لیکن اس کے نہ چھپپنے کی وجہ سے ردی فروشوں کو بہت نقصا ن برداشت کرنا پڑا۔وہ کتابیں جن کی رونمائیاں بڑی دھوم سے ہوا کرتی تھیں، اب ان کتابوں کے اوراقِ پارینہ بھی ہاتھو ں ہاتھ لیے جاتے ہیں اور تعلیمی اداروں کے باہر خوانچے والے اُن میں پکوڑے بیچتے ہیں۔چربہ ساز،کفن دُزد،سارق اور جو فروش گندم نُما لفاظ حشرات سُخن کی رُوسیاہیاں اب نوشتہء دیوار ہیں۔

ہمارے شہر کے نواح میں ایک جنگل میں ہر منگل کے دن کاٹھ کباڑ اورردی کا ایک بازار سجتا ہے اور جنگل میں منگل کا سماں ہوتا ہے جس میں ردی فروشوں کا دنگل ہوتا ہے ۔ اس پُر اسرار جنگل میں مور خوب ناچتے ہیں اور ان کا ناچ دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ برسات کے مینڈکوں کے مانند اُمڈ آتے ہیں اور خوب ٹراتے ہیں۔ ا س ردی بازار میں کئی مسترد مخطوطات ، مشکوک مقالات ،اوراقِ پارینہ اور ہر قسم کی قدیم و جدید کتابیں سر راہ زمین پر بچھادی جاتی ہیں اور یہ ڈھیریوں کے مول بِک جاتی ہیں۔منوں کے حساب سے کالے حروف پر مشتمل اوراق تخلیق کاروں کی رائیگاں مسافت کا احوال زبان حال سے بیان کر رہے ہوتے ہیں۔میرے پڑوسی فلسفی للو خان کو اس ردی بازار میں جانے کا بہت شوق ہے ۔ وہ کُوڑے کے ڈھیر اور ردی کے ذخائر کھنگالنے کے خبط میں مبتلا ہے ۔ہوس ِزر سے مجبور یہ متفنی جاہ و منصب کے استخواں نوچنے کے لیے ایسے مقامات پر اس سرعت کے ساتھ پہنچتا ہے جیسے کرگس کو کسی مُردار پر جھپٹنے میں کوئی تامل نہیں اور وہ پلک جھپکتے میں مُردار کی ہڈیاں نوچتے دکھائی دیتے ہیں۔چند روزقبل للو خان کچھ مخطوطے وہاں سے چُرا کر لایا ۔ان کا حال ِ زبوں پیش خدمت ہے۔

سب سے پہلے جو مخطوطہ نظر آیا وہ ’’لام لیلا لاکھ داستان‘‘تھا جو بجو گورستانی کی تحریر ہے۔یہ مخطوطہ ایک سو سال پرانا ہے اور اس پر یکم اپریل ۱۹۱۴کی تاریخ درج ہے۔مصنف عجیب کندہء نا تراش ہے اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر وقت نئے اور اچھوتے خیالات کی تراش خراش میں منہمک رہتا ہے مگر یہ بات کالنقش فی الحجر ہے کہ اُس کی جہالت اس کے تخلیقی عمل میں انسانی کھوپڑیوں کی دیوارِ چنگیزی بن جاتی ہے ۔اُس نے مشہور کلاسیکی داستان ’’ الف لیلیٰ ہزار داستان‘‘ کے جواب میں یہ داستا ن لکھی۔ باغ و بہار سے فسانہ ء عجائب تک سب داستانوں کے جواب لکھے گئے۔ معاصرانہ چشمک سے زندگی کی حرکت و حرارت پُوری قوت کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ ادبی معرکے جمود کا خاتمہ کرتے ہیں اور فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے تخلیق کار کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کر کے فکر و عمل کے نئے آفاق تک رسائی کی صورت تلاش کی جا سکتی ہے ۔بجو گورستانی کی یہ کتاب وقت اور محنت کا کوئی صحیح مصرف نہیں لاعلمی اور جہالت کے عذابوں نے مصنف کو سرابوں کی جانب دھکیل دیا ہے ا ور وہ منزل سے نا آشنا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارتا پھرتاہے۔اس کی فرسودہ تحریف کی تعریف کرنا کج فہمی کی دلیل ہے۔ اپنی اس تصنیف’’لام لیلا لاکھ داستان‘‘ کے بارے میں بجو گورستانی نے لکھا ہے:
’’ میرا طریقہ لوگوں سے نرالا ہے لوگ اپنی کتابوں کا پیش لفظ لکھتے ہیں مگر میں اپنی کتاب ’’لام لیلا لاکھ داستان‘‘ کا زبر لفظ لکھوں گااوراس کتاب کے قاری پر ضرب ِ کاری لگا کر زبردستی یہ کتاب پڑھنے کی راہ دکھاؤں گا۔ یہ زبر لفظ لوگوں کو ازبر ہو جائے گا اور وہ پیشوں اور پیش لفظوں کو بھول جائیں گے اورچربہ سا زپیشی کی فکر کریں گے۔ ایک بات ابھی سے زیرِ لب کہتا ہوں کہ کہ میری اگلی کتاب کازیرِ لفظ ہو گا جو اس شہر کے جانے پہچانے سارق غبی کو ہستانی سے لکھوایا جائے گا۔جن لوگوں نے پیش لفظ لکھنااپنا وتیرہ بنا رکھاہے ،انھوں نے تو سب معاملات کو زیر و زبر کر رکھا ہے۔ ان کی طرف پیش دستی ضروری ہے تاکہ زیرِبار زیر دست اُن کی چیرہ دستی سے بچے رہیں۔ پیش بندی کے طور پر مجھے اپنے تخلیقی کام کا احوال حرف حرف بیان کرنا ہے ۔ہر سدھایا ہوا لکھاری خود نمائی میں پیش پیش ہے یہی وجہ ہے کہ حالات کے سدھارنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اِس دُنیا میں بُوم،شپر ،چُغد،کرگس، بجو اور بجوکے عام ہیں،ہر سُو پھیلے فریب کے دام ہیں لیکن سب کے خیال خام ہیں۔ایک داستان جو الف لیلیٰ ہزار داستان کے نام سے موجود ہے ،اُس میں حقیقت مفقود ہے ۔آج اُسی مہمل کتاب کا جواب دینا مقصود ہے۔یہ سچ ہے کہ میں نے پہلی جماعت میں پڑھائی کا سلسلہ چھوڑ دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی قلم بھی توڑ دیا تھا لیکن پہلی جماعت کا قاعدہ مجھے ابھی تک یاد ہے ۔پہلی جماعت کا یہ قاعدہ مجھے بہلو بقال نے پڑھایا تھا جو خود بھی دو جماعتوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔اس قاعدے کے مطالعہ سے آج بھی میر دل بہل جاتاہے لیکن جب کوئی میری شاعری پر تنقید کرتا ہے تو میر دل دہل جاتا ہے ۔کون نہیں جانتا کہ لیلیٰ کا پہلا حرف لام ہے، الف سے لیلیٰ نہیں بل کہ اُلوّبنتا ہے ۔جس داستان کا نام ہی غلط ہو اس میں سچ کہاں سے آئے گا۔میں اگرچہ ان پڑھ ادیب نقاد اور محقق ہوں لیکن یہ بات واضح کرناچاہتا ہوں کہ اس داستان کے جواب میں جو داستان میں نے لکھی ہے وہ دل میں اُتر جائے گی اور تحقیق کا کام تمام کر جائے گی۔لام (ل)سے لیلا یعنی بھیڈو یا مینڈھا بنتا ہے جسے ذبح کر کے اُس کا گوشت ہم بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ یہی لیلا قربانی کے موقع پر ذبح کر کے ثواب حاصل کیا جاتا ہے۔یہ لیلا (بھیڈو)ہی ایک لاکھ داستان کا حوالہ ہے اور پڑھنے والوں کے لیے تر نوالہ ہے۔ہزاروں سال سے لیلاذبح ہو رہاہے اس کا گوشت کھایا جا رہا ہے ۔اس کی خریداری اور پرورش سے جو داستانیں جُڑی ہوئی ہیں ان کی تعدادایک لاکھ سے کم نہیں ۔جب تک دنیا باقی ہے لیلا یعنی بھیڈو کو یاد رکھا جائے گا اور میری داستان ’’لام لیلا لاکھ داستان‘‘ہر فرد کی پسندیدہ داستان قرار دی جائے گی۔جہاں جہاں لیلا (بھیڈو) موجود رہے گا وہاں میری داستان کا مخالف مفقود رہے گا۔لیلا قربانی کے قابل بھی ہے اور بہت کا ر آمد پالتو جانور ہے ۔گُم نام شاعر شپر بیابانی نے میری اس تصنیف کے بارے میں کہا تھا:
یوں تو جُھوٹی ہے ذات بِجُو کی
دل میں لگتی ہے بات بِجُو کی

اس کتاب کا زبر لفظ بلا شبہ زبردست ہے ۔مصنف کی کور مغزی ،بے بصری اور ذہنی افلاس ایک ایک لفظ سے عیاں ہے۔تجزیاتی مطالعہ کے بعد جی چاہا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا جائے لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ برتن میں دودھ سرے سے نا پید تھااور سوائے جوہڑ کے پانی کے کچھ بھی تو نہ تھا۔بھیڑ نے دودھ کیا دیا ساری مینگنیاں ہی بالٹی میں ڈال دیں ۔اس قلم توڑ مصنف نے قاری کو گردن توڑبُخار میں مبتلا کرنے کی جو سعیء ناکام کی ہے وہ بے وقت کی راگنی ہے۔جامہء ابو جہل میں ملبوس ایسے سارق ،چربہ ساز ،کفن دُزداور نقال اپنی جہالت مآبی کے باعث پورے معاشرے کے لیے ظلِ تباہی ثابت ہوتے ہیں۔مصنف نے داستان کے موضوع کے لیے مینڈھا(بھیڈو۔لیلا)پسند کیا ہے جو بھیڑ چال کی مثال ہے۔اتنی بات تو مصنف کو معلوم ہے کہ معاشرتی زندگی کا سدھار ضروری ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ بگاڑ کا سبب کیا ہے۔اس کا جواب واضح ہے کہ کالی بھیڑوں ، خون آشام بھیڑیوں،شپر ،بُوم ،کرگس ،سفید کووں ،گندی مچھلیوں ،طوطوں ،ابن الوقت بگلا بھگت درندوں اور نقال مسخروں نے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔ایسی کتب اور ان کے مصنف تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں اور ان کا نام ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جاتا ہے۔

ایک اور فرسودہ مسودہ میری نظر سے گزرا جسے قارئین کی نذر کیا جاتاہے۔ پیلے رنگ کے ردی کاغذ پرلکھا ہوا یہ دیمک خوردہ مخطوطہ ڈیڑھ سو سال پُرانا ہے۔یہ مخطوطہ جسے کرگس بیابانی نے ۱۸۶۴میں مکمل کیااگرچہ معمولی نوعیت کا ہے لیکن اسے آج کے دور میں غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔کرگس بیابانی کے مسودے کا عنوان ’’سرقہ اور چربہ کا جغرافیہ‘‘چونکا دیتا ہے ۔مخطوطے کے آغاز میں کرگس بیابانی نے جو خار افشانی کی ہے وہ اگرچہ نظر انداز کرنے کے لائق ہے لیکن قارئین کے مفاد میں اس اندازِفکر پر کڑی نظر رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

’’لوگ ادب کی تاریخ لکھتے ہیں لیکن آج تک کسی نے ادب کے جغرافیہ پر توجہ نہیں دی ۔میری کتاب ’’سرقہ اور چربہ کا جغرافیہ‘‘اپنے موضوع پر شاید پہلی اور آخری کتاب ثابت ہو گی۔ ایک بے باک لکھاری کی حیثیت سے مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ میں سو پشت سے چربہ ساز اور سارق ہوں۔میرا کلام ہی میر ے اسلوب کا مظہر ہے :
لوگ مجھ کو لکھاری کہتے ہیں
سرقہ ،چربہ سے کیا نہیں ہوتا
مال لوگوں سے وہ ٹھگیں کیوں کر
جن سے کچھ بھی دغا نہیں ہوتا
کفن دُزدی پڑی ہے گُھٹی میں
اس پہ اب دِل بُرا نہیں ہوتا
واہ رے ہذیاں تُجھے ہوا کیا ہے
آخر اِس سرقہ کی سزا کیا ہے
یہ بجا ہے کہ کچھ نہیں چربہ
مفت شہرت ملے بُرا کیا ہے

اس مخطوطے ’’سرقہ اور چربہ کا جغرافیہ‘‘پر شپر کھنڈراتی کی رائے بھی موجود ہے ۔ شپر کھنڈراتی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو دھرتی کا بوجھ بن چُکے ہیں اور جن کی وجہ سے ہر سُو ویرانی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ایسے لوگوں کی وجہ سے اب یہ حال ہے کہ گلشن میں جہاں پہلے سرو و صنوبر کی فراوانی تھی اب وہاں زقوم کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔شپر کھنڈراتی اگرچہ تعلیم کے اعتبار سے کورا ہے لیکن اس کی کور چشمی پر ایک عالم معترض ہے۔ شپر کھنڈراتی نے سرقہ اور چربہ کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے :
’’چربہ ساز اس قدر فربہ اور چربیلے ہوچکے ہیں کہ وہ تو غرور سے پُھول کر کُپا ہو چُکے ہیں جب کہ ادب کے عام قاری جب یہ صورت حال دیکھتے ہیں تو اُن کے ہاتھ پاؤں پُھول جاتے ہیں چربہ ساز اورسارق بھی عجیب ڈھیٹ فرد ہیں کہ جن کو دیکھ کر حقیقی تخلیق کاروں کے چہرے زرد ہیں۔ گُلشنِ ادب میں ان لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں کے باعث فضا مسموم اور زندگی مغموم ہو چُکی ہے۔چربہ اور سرقہ نئے تجربات کی ایک شکل ہے ۔ اس کے ذریعے عالمی ادب کے نئے نئے موضوعات ے واقفیت ہوتی ہے اور جمود کا خاتمہ ممکن ہے ۔چربہ ساز اپنی چرب زبانی سے کام لے کر اپنی جعلی نمودو نمائش کے مواقع تلاش کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔کوئی خرقہ پوش جو تارک الدنیا نہ ہوکبھی بھی کسی سارق کا حلقہ بگوش نہیں ہو سکتا۔سارق کے بارے میں بعض لوگوں کی یہ غیر محتاط رائے کہ یہ بالعموم فہم و فراست ، ذہن و ذکاوت ،شعور و ادراک کے مسلمہ قواعد ،درخشاں روایات اور زندگی کی اقدار عالیہ کا خارِق ثابت ہوتا ہے۔‘‘

اس مخطوطے کے مطالعہ سے آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں۔سرقہ سے قاری کو جو چرکا لگتا ہے اُس کے اندمال میں کئی ماہ و سال لگ جاتے ہیں۔سرقہ کرنے والا ستم گر کسی کی حرف گیری کی مطلق پروا نہیں کرتا۔وہ اپنی بے کمالی کو اہلِ کمال کی بھونڈی نقالی کوسرقہ اور چربہ کے دبیز پردے میں چُھپا نے کی کوشش کرتا ہے۔سارق کے سر میں یہ خناس سما جاتا ہے کہ وہی عقلِ کُل ہے ۔وہ کوشش کرتا ہے کہ وہ زیرک تخلیق کار کی فکری تونگری اور تخلیقی کامرانی کو اپنی جانب سرکا لے۔اس کے بعد وہ نہایت ڈھٹائی سے عظیم ادب پاروں کے ارفع معائر کو اپنے سر کا تاج بنا کرملمع سازی کے ذریعے اپنی جعلی حیثیت پر اِتراتا ہے اور ہر جگہ خوب ہنہناتا ہے۔محقق نے تمام چربہ ساز اور سارق لوگوں کو آئینہ دکھایا ہے اور ان کا کچا چٹھا پیش کیا ہے۔مخطوطہ کے مصنف نے وہ ہاتھ دکھایا ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں اُگا دی ہے ،رائی کا پہاڑ اور کونپل کو چھتنار بنا دیا ہے۔

ایک اور مخطوطہ ’’اُردو کے ان پڑھ نثر نگار‘‘بھی محقق کے ہتھے چڑھ گیاہے جو چُو لستان میں مقیم سدا بنجر نامی ایک محقق کے سہوِ قلم کا شاخسانہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محقق نے جب دیکھا کہ تخلیق ادب کی چُولیں ڈھیلی ہو رہی ہیں اور اِن کی ٹُھکا ئی کا وقت آگیا ہے تو اس موضوع پر اپنے تخیل کی شادابی سے بزمِ ادب کو کِشتِ زعفران بنانے کا قصد کیا۔اس تحقیق سے سارق عناصر کے فسد کا اہتمام کیا گیا ہے ۔اپنی کتاب میں محقق نے اُردو کے دو سو کے قریب جیّد جاہل اور ناخواندہ نثر نگاروں کے ساتھ اپنی ادھوری مُلاقاتوں اور پُوری یادداشوں کااحوال بیان کیا ہے ۔وقت کے اس حادثے کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ یہ سب جاہل اوچھے ہتھکنڈے اور ہر قسم کی سیڑھیاں استعمال کر کے اپنی جہالت کا انعام بٹورنے میں کام یاب ہو گئے۔ اپنی کتاب کے اس مخطوطے کے آغاز میں مصنف سدا بنجر نے لکھاہے:
’’آج سے کوئی دو سو سال قبل لکھنو کے ایک محقق فدا خنجر نے ایک تحقیقی کتاب لکھی جس کا موضوع ’’اُردو کے ان پڑھ شعرا ‘‘تھا۔اس کتاب میں مصنف نے اُردو کے ایک سو سے زیادہ شعرا کی حیات اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالی جو بالکل ان پڑھ تھے اور جن کا نام اور کام تاریخ کے طوماروں میں دب گیا تھا۔ فدا خنجر نے بلا شبہ اچھا کام کیا لیکن یہ صرف شاعری کی حد تک تھا اس میں نثر کو نظر انداز کر دیا گیا۔ قدیم نثر نگاروں تک تو میری رسائی نہیں کیونکہ وہ اب عالمِ بالا کے مکین ہیں۔قدیم اور جدید اہلِ قلم میں ایک واضح فرق ہے وہ یہ کہ قدیم لوگ اپنی جہالت کا بر ملا اعتراف کرتے تھے اور اُن کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ تخلیقِ فن کے مرحلے میں سخت محنت ،ریاضت ،تجربے ،مشاہدے اور مطالعہء کائنات کے ذریعے کوئی نئی چیز پیش کی جائے تا کہ قارئینِ ادب اُن کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم کر سکیں۔ اس طرح ان کی محنت عیاں ہو کر ان کی جہالت کو نہاں کر دیتی تھی ۔جدید دور کے جیّد جاہل اپنی جہالت کو چُھپانے کے لیے کئی پاپڑ بیلتے ہیں۔وہ ڈگریوں سے مرعوب کرتے ہیں مگر ان کی بڑی بڑی ڈگریاں بھی اُن کی جہالت کو چُھپانے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ قدیم زمانے کے انگوٹھا چھاپ ادیبو ں کی ریاضت ،فکری تونگری اور جگر کاوی اُن کی علمی بے سروسامانی کو چُھپا لیتی تھی لیکن جدید دور کے بزعم خود اعلا تعلیم یافتہ لوگوں کی بے سرو پا باتیں اور بے ربط تحریریں چیخ چیخ کرفریاد کرتی ہیں کہ یہ تو جہالت سے بھی آگے نکل جانے والی منزل ہے ۔ذہنی افلاس ،فکری کجی اور اظہار ِ خیال کی استعداد کی تہی دامنی ان کی جہالت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ اس امر کی پُوری کوشش کی گئی ہے کہ اُردو کے ان پڑھ نثر نگاروں کی جسارت سارقانہ ،چربہ سازی اور مکر کے تمام حربے سامنے لائے جائیں۔اب میں (سدا بنجر)اُردو کے قدیم محقق فِدا خنجر کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا اُس کے نا مکمل کام کی تکمیل کے لیے دشتِ خار میں کُود پڑا ہوں ۔جن جہلا نے اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیا اُن کا کچا چٹھا جلد سامنے لایا جائے گا۔‘‘

یہ مخطوطہ ’’ اُردو کے ان پڑھ نثر نگار‘‘بہت عجیب و غریب کیفیات کا مظہر ہے۔اس میں عجیب تو کم ہیں لیکن غریب زیادہ ہیں۔ایسے لوگوں کی مفلسی کا کیا ٹھکانہ کہ جو اپنی فکری عسرت اور تنگ دامنی کا نوحہ بیان کرنے کے بجائے جعل سازی کے ذریعے ایک پل کی شہرت ِ فراواں میں کھو کرنہ صرف ضمیر کے مجرم بنتے ہیں بل کہ معاشرے میں عزت واحترام سے بھی ہاتھ د ھو بیٹھتے ہیں۔جو شخص بھی ان کی اصلیت کا پتادیتا ہے یہ سادیت پسندی کے مریض اُس کے درپئے آزار ہوجاتے ہیں۔یہ کھسیانی بلی کے مانند کھمبا نوچنے لگتے ہیں اورحق گوئی و بے باکی کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کوئی ان کے سامنے ڈٹ جائے تو یہ ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایسے حمار جلد ہی دولت اور منصب کے خُمار سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ان جہلا کی ہستی تو حباب کی سی ہے حرفِ صدات کا ایک ہی جھونکا اس حباب کو نیست و نابود کر دیتاہے ۔یہ ننگ زمانہ لوگ عبرتوں کا فسانہ اور مکر کا شاخسانہ بن جاتے ہیں اورایک حرف تک لکھنے کی استعداد نہ رکھنے والے ان جہلا پر لوگ پر تین حرف بھیجتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جہلا کی جہالت کے باعث گلشنِ ادب میں کلیاں شرر بن گئی ہیں اور تما م منطر نامے گہنا گئے ہیں۔ دِل زدگاں کا خیال ہے کہ ان جہلا کی نحوست سے ہر طرف ذلت و تخریب اور خست و خجالت کے کتبے آویزاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ جہلا اپنی مذموم روش کی اصلاح اورموہوم صلاحیتوں کی جُستجو پر بالکل توجہ نہیں دیتے لیکن اپنی کوتاہیوں ،عیوب ،پہاڑ جیسی غلطیوں کی تردید اور مسلمہ صداقتو ں کی تکذیب کی فکر میں مسلسل ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔محقق سدا بنجر کی ایسے لوگوں سے ملاقاتوں کا یہ احوا ل فکری وبال ور اقدار کے زوال کا لرزہ خیز اعصاب شکن نوحہ ہے ۔یہ ملاقاتیں یقیناً ادھوری ہیں اور ان میں متعددضروری باتیں بھی ان کہی رہ گئی ہیں لیکن ان کا اپنا حسن ہے۔پیہم اور مکمل ملاقاتیں دلچسپی اور تجسس کھو دیتی ہیں لیکن بے ربط اور نا مکمل ملاقاتیں اپنا حُسن و جمال ،دل کشی اور جاذبیت برقرار رکھتی ہیں۔ایک فلسفی ناصف نقال جس نے اپنے بارے میں یہ مشہور کر رکھا تھا کہ وہ عالمی ادبیات اور فلسفے کا نباض ہے ۔اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے اس شخص سے اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے سدا بنجر نے لکھا ہے:
’’ سوچا تھا کہ آج ناصف نقال سے آسٹریاکے نامور شاعر اور ناول نگار رینر ماریا رِل کے (Rainer Maria Rilke)جس کا عرصہ ء حیات پیدائش :چار دسمبر ۱۸۷۵ وفات:اُنتیس دسمبر۱۹۲۶ ہے کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی جائے گی ۔میں اُس کے کمرے میں داخل ہوا تو یوں محسوس ہوا جیسے راجا اندر کے اکھاڑے میں پہنچ گیا ہوں ۔ناصف نقال کے کمرے میں حسین و جمیل دوشیزاؤں کا جُھرمٹ تھا۔یہ مسخرا ان حسیناؤں میں گِھرا خوب ہنہنا رہا تھا۔ اُس کی اہلیہ شباہت جو نیم عُریاں لباس میں ملبوس تھی ،اُس سمیت سارے مست بند ِ قبا سے بے نیاز مے گلفام سے اپنی تشنگی بُجھا رہے تھے ۔مجھے بہت رنج ہوا کہ اس قدر بلندمنصب ہر کس قدر پست شخص نے غاصبانہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔مُجھے دیکھتے ہی ناصف نقال اور شباہت چونکے اور ناصف نقال کفن پھاڑ کر غرایا:
’’جلدی سے انٹرویو کا آغاز کرو ۔ تم دیکھ رہے ہوکہ آج میں بے حد مصروف ہوں ۔رات میں نے ارسطو کا تصورِ طربیہ لکھا ہے ۔‘‘
’’ارسطو کا تصورِ طربیہ آپ نے لکھا ہے ؟‘‘میں نے تعجب سے کہا ’’خود ارسطو نے تو کوئی تصور طربیہ نہیں لکھا؟‘‘
’’بے کار باتیں نہ کرو ‘‘ناصف نقال بولا ’’ یہ راز کی بات ہے ارسطو ،افلاطون ،سقراط ،بقراط اور ہیگل سب مجھ سے لکھواتے ہیں ۔میں دُنیا کا سب سے بڑا ادیب او ر عظیم فلسفی ہوں ۔خیر چھوڑو ان باتوں کو میں خود نمائی اور خود ستائی کے خلاف ہوں ۔تم سوال کرو میں جواب دوں گا۔‘‘
میں نے کہا’’آج ہم رِل کے ۔۔۔۔‘‘
’’ میں دُنیا کا سب سے بڑا ماہر لسانیات ہوں ۔تلفظ کی غلطی میں برداشت نہیں کر سکتا‘‘ناصف نقال نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا’’کان کھول کر سُن لو یہ لفظ ہے رَل کے ۔یہ پنجابی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مِل جُل کر ۔‘‘
میں سمجھ گیا کہ ناصف نقال اس موضوع پر بالکل کورا ہے پھر بھی میں نے سوال کو دہرایا ’’آسٹریا اور ہنگری کے ادیب رِل کے۔۔۔۔‘‘
’’میں نے ابھی کہا ہے کہ یہ لفظ رَل کے ہے اور تم نے رِل کے رِل کے کی رٹ لگا رکھی ہے۔‘‘ناصف نقال نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا’’لفظ ہنگری کا مطلب ہے بُھوکا ۔اگر بُھوکے ادیب رَل مِل کے کھاتے ہیں تو کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟‘‘
اس دوران چائے اور بسکٹ رکھتے ہوئے شباہت نے کہا:
’’ تمھار ا تلفظ بہت غلط ہے یہ لفظ آسٹریا (آ۔س ٹ ر ی ا )نہیں بل کہ آ سڑیا (آ۔س ڑ ی ا )ہے۔ جس کا مطلب ہے جلنے والے آ ۔ لوگ سچ کہتے ہیں لا علمی بھی بہت بڑی نعمت ہے ۔تمھارا تلفظ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔چلو چھوڑو جی! اب رَ ل کے چائے پی لیں ۔یہ بُھوکے اور جلے ہوئے لوگوں کا ذکر کہاں سے آ گیا ؟‘‘
چائے کے گھونٹ زہر مار کرتے ہوئے میں نے پھر موضوع کی جانب آنے کی کوشش کی ’’دراصل میں رینر ماریا رِل کے۔۔۔۔۔‘‘
’’ہیں!تینوں کس نے ماریا اے لوکاں نال رَ ل کے ؟‘‘ناصف نقال اور شباہت نے بہ یک آواز کہا’’ہم اُس کی ہڈی پسلی ایک کر دیں گے رَل کے ۔اتنی مار کھا کر تم ہوش و حواس کھو بیٹھے ہو، وہی بگلے کی ایک ٹانگ وہی تلفظ کی غلطی ۔ایک بار کہہ دیا ہے کہ یہ لفظ ہے رَل کے ۔مطلب ہے مِل کر انگریزی میں کہہ سکتے ہیں کہCombined۔گھر پر میری بیوی شباہت اور میں رَل کے کام کرتے ہیں۔میں صبح سویرے اُٹھ کر گھر کے آنگن میں جھاڑو دیتا ہوں،اس کے بعد گھر کی جھاڑ پھونک میں مصروف ہو جاتا ہوں۔روزانہ ہوٹل سے کھانا میں لاتا ہوں لیکن یہ کھانا ہم رَل کے کھاتے ہیں۔اب کچھ سمجھے رَل کے کا مطلب ۔یاد رکھو آئندہ میرے سامنے تلفظ کی غلطی کبھی نہ دہرانا ۔‘‘
شباہت نے کہا ’’میری شاعری میں بھی اس لفظ ’’ رَل کے‘‘ کا کئی مقامات پر ذکر آیا ہے ۔لیکن تم ہو کہ ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑ گئے ہو اور اس لفظ رَل کے کو غلط رِل کے ادا کر رہے ہو ۔ اب لسانیات سے تمھاری بے تعلقی کا مداوا کیسے ہو۔ اب تم سب رَل کے میرا کلام سُنو اور سر دُھنو۔میں نے اپنے پنجابی کلام کو عام فہم بنانے کے لیے اس کا ترجمہ بھی کر دیاہے۔ارشاد کیا ہے:
اج کپڑے سُکاواں گے
پیار دے پینڈے چناں
اسیں رَل کے مُکاواں گے
ترجمہ:
آج کپڑے سُکھائیں گے
عشق کے دُکھ ساجن
ہم مِل کے نبھائیں گے
رَل مِل کے دُکھ جھیلو
میک اپ میں کر لوں
اب لہسن تم چِھیلو
’’اس کے ساتھ بے کار بحث نہ کرو ‘‘ناصف نقال نے دانت پیستے ہوئے کہا’’ کیسے کیسے لوگ ہمارا وقت ضائع کرنے آ جاتے ہیں۔ہمیں رَل کے ان کو راہِ راست پر لانا چاہیے ۔اچھا تم اپنی پسند کے اشعار سناؤ۔اس کے ساتھ ہی تمھاری ملاقات کاوقت ختم ہو رہا ہے ۔‘‘

ان لوگوں کی بے سروپا گفتگو سن کر میرا سر چکر ا رہا تھا ۔میرا شک یقین میں بدل گیا کہ یہ شخص اوراس کی اہلیہ مثنیٰ اور عقل سے تہی ہیں۔میں نے اپنے کاغذ سمیٹے اور باہر جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا ۔
’’جاتے جاتے اپنی پسند کے دو شعر تو سناتے جاؤ‘‘ناصف نقال بولا ’’کیا تمھیں کسی اُردو شاعر کے دو شعر بھی یاد نہیں ؟‘‘
میں نے کہا ’’محسن بھوپالی کے یہ شعر آپ کی نذر ہیں ‘‘
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اِس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رِندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 609109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.