گلشن فاروقی کا ادبی چمنستان

 عملی دنیا میں قدم رکھنے والوں کے لیے زمانۂ طالب علمی کی یادیں بڑی پرکیف اور مسحور کن ہوتی ہیں۔اساتذہ کی صحبت اور ا ن کے شفقت آمیز روئیے، تکرارومذاکرہ کے زمزمے ،مطالعہ وکتب بینی کی خلوتیں،تحریرتقریر کے اعصاب شکن مقابلوں کی گرم جوشیاں، سر پر سایہ فگن امتحانات میں سرخ رو ہونے کے ولولے، یاروں اور دوستوں سے اتار چڑھاؤ کے تلخ وشیریں تعلقات ، کبھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھومنا اور گاہے باہم دست بہ گریباں ہونا، کلاس اور مدرسہ کے عمومی ماحول کی یادیں ذہن پر انمٹ نقوش ثبت کردیتی ہیں۔برسوں بعد اس ماحول کے یار دوست جب ملتے ہیں تو ان پرکیف اور پرلطف یادوں میں کھوجاتے ہیں۔

مولانامحمد احمدحافظ صاحب روزنامہ اسلام کے سینئرکالم نگار ہیں، انہوں نے گزشتہ دنوں اپنے کالم میں مدارس کے فضلاء کو زمانہ طالب علمی کی یادداشتیں قلم بند کرنے کی تحریک دی۔ ہر دور کی اپنی اقدار اور روایات ہوتی ہیں، ماحول اور روئیے ہر عہد کے جداگانہ ہوتے ہیں، ان کو سواد تحریر میں لایا جائے توایک دل چسپ دستاویز بن جائے۔حافظ صاحب نے طالب علمی کی یادداشتیں منظرعام پر لانے میں فضلاء کرام کے جمود کاشکوہ کیا ہے اور بجا کیاہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے بڑے دل چسپ انداز میں ’’احاطۂ دارالعلوم دیوبند میں بیتے ہوئے دن ‘‘نامی کتاب میں اپنی طالب علمی کے واقعات قلم بند کیے ہیں۔ مولانامحمد احمدحافظ صاحب کامدارس کے ادبی خدمات میں ’’اساتذہ درسگاہ میں‘‘کتاب کا تذکرہ عابدی کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اساتذہ درسگاہ میں کے ذریعے عابدی مدارس کے ادبی خدمات میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال چکاہے۔ آج کی تحریر میں حافظ صاحب کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اختصاراًزمانہ ہائے طالب علمی کی ادبی یاد تازہ کی جائے گی۔

جامعہ فاروقیہ کراچی میں درجہ خامسہ میں داخلہ لیا، داخلوں کے ایام میں جداری مجلات شروع سے آخر تک پڑھ ڈالے ، اپنے دوستوں کی تحریریں دیکھ کر عابدی کاادبی حیوان باہر نکلنے کو مچلنے لگا۔ ماہنامہ جداری مجلات کے ایڈیٹروں کی تلاش شروع ہوئی، معلوم ہواکہ ’’طلوع سحر ‘‘کی مجلس ادارت کے امیر جان حقانی اپنے ہم جماعت ہیں، عابدی کو راستہ صاف دکھائی دیا، سال کے پہلے شمارے کے لیے تحریر لکھ کرحقانی صاحب کے حوالہ کی، خوش قسمتی سے پہلی تحریر ہی گلشن فاروقی کے ادبی چمنستان میں جگہ پاگئی ۔ جب تسلسل سے ہرماہ تحریر چھپنے لگی تو’’تعمیر ملّت‘‘کے ایڈیٹرمحمد اعظم جاوید ملک نے نائب ایڈیٹر کے خلعت فاخرہ سے نوازا، اب ہم تھے اور تعمیر ملت، ہر جاننے والے سے ملاقات میں اسی لیلیٰ کی گفتگو کی جاتی، اسے مضامین پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ، مضمون لکھنے کی طرف راغب کیا جاتا، راہ چلتے کسی انہونی پر نظر پڑتی توعابدی کے لب وا ہوتے ’’اس پر بھی ایک مضمون ہونا چاہیے‘‘۔ جب تین چار مرتبہ عابدی کے منہ سے ساتھیوں نے یہی گردان سنی تو منچلوں نے اس کی چڑھ رکھ دی’’اس پر بھی ایک مضمون ہوجائے‘‘۔ ریڑھی والا فروٹ سستے نہیں کررہا، عابدی کے ساتھ فروٹ خریدنے والا ساتھی عابدی کوکندھامارکر کہتا’’اس پر بھی ایک مضمون ہوجائے‘‘،ہوٹل والاچائے ٹھنڈی دیتا، دوستوں کی طرف سے اس پر بھی ایک مضمون ہوجائے کا آوازہ بلند ہوتا۔

جداری مجلات کل پانچ تھے، دوعربی اور تین اردو زبان پر مشتمل ، عربی والے معہداللغۃ العربیہ کی کلاسز کی نگرانی میں ہوتے ، ایک درجہ ثالثہ اور دوسرا درجہ خامسہ کی، اردو مجلات کسی ’’درجہ بندی‘‘کے پابند نہیں تھے۔ جداری مجلات میں متنوع سلسلے اپنی بہار دکھارہے ہوتے۔خطوط درخطوط، گلشن فاروقی کاانتخاب ہی کیوں، محفل ادب اور اساتذہ کے انٹرویوز وغیرہ۔

جامعہ فاروقیہ میں دوپہر اورشام کاکھاناطلبہ کودیاجاتا، صبح کاناشتہ طلبہ اپنی مدد آپ کے تحت کرتے،کچھ خود تیار کرتے اور ایک بڑی تعداد باہر واقع کوئٹہ والوں کے ہوٹلوں کارخ کرتی، ہوٹلوں کو وجہ ترجیح اچھے ناشتہ پر نہیں، ’’اچھے اخبار‘‘ پر دی جاتی، جس ہوٹل میں زیادہ اخبار ہوتے طلبہ اسی کارخ کرتے۔ ہوٹل مالکان طلبہ کے مزاج شناس تھے، وہ طلبہ کیذوق کے تمام مقبول روزنامے چائے پراٹھوں کے ساتھ ٹیبل پر چن دیتے ۔ روزنامہ اسلام، جنگ، ایکسپریس، امت وغیرہ تمام پر ’’طالبان‘‘ قابض ہوتے اور انہی طلبہ ساتھیوں میں گردش کرتے جن کے پاس پہلے سے اخبار ہوتا، زید اسلام کے مطالعہ سے فارغ ہوکر عمر کوتھماکر اس سے جنگ اچک لیتا، جسے عمر کسی دوسرے ساتھی کوتھماکر اس سے ایکسپریس ہتھیالیتا۔نیا آنے والاان سرگرمیوں کوبے بسی سے تکتے ہوئے چائے کا گھونٹ زہر پی کر رہ جاتا۔اس دوران اگر کوئی استاذتشریف لاتے تو ان کی تواضع میں طلبہ چائے سے پہلے اخبار پیش کرتے ۔ انہی معلو تھا کہ اگر ناشتہ ہی کرناتھا تو استاذ محترم گھر یاکمرے میں یہ فریضہ بطریقۂ احسن انجام دے سکتے تھے۔

’’تعمیر ملت‘‘میں خامہ فرسائی کیطبع آزمائی سے عابدی کوشہ ملی، دورہ حدیث کے سال کبار اساتذہ کرام کے انٹرویوز، دوران درس سنائے گئے دل چسپ واقعات کوقید تحریر میں لاکر کتابی صورت میں شائع کرنے کاداعیہ پیداہوا۔ کس بے سروسامانی میں اس کام کا بیڑا اٹھایااور کیا کیا پاپڑبیلنے پڑے ، یہ ایک الگ داستان ہے۔ استاذمحترم مولانا عبدالستار صاحب امام بیت السلام مسجداورمفتی حبیب حسین صاحب سابق استاذ جامعہ فاروقیہ کراچی کی نظر کرم سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے امتحان سے قبل ، انتہائی عجلت میں کتاب منصہ شہود پرآئی۔

دینی مدارس کے پڑھے ہوئے علماء وفضلاء میں ایسے بیسیوں ممتاز اہل قلم ہیں جن کی ادبی کاوشوں اور زندہ وجاوید تحریروں کوبجاطور پر ادبی آبرو کہاجاسکتا ہے۔ اردو ادب کے جو سالانہ گوشوارے مرتب ہوتے ہیں، ان میں اردو کی تمام اصناف ادب میں شائع ہونے والی کتابوں کی فہرست پیش کی جاتی ہے ۔افسوس یہ ہے کہ اس فہرست میں اہل قلم علماء وفضلاء کی ادبی مطبوعات کونظر اندازکردیاجاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی مطبوعات عصری اداروں میں پڑھنے والے قارئین کی دسترس سے دور کردی ہیں اورنکاسی کے جدید تقاضوں کو اپنانے کی کوشش نہیں کی کہ کس طرح ہمارا ادبی سرمایہ ایک مخصوص دائرے سے نکل کر عام قاری کے ہاتھ لگے ۔ فضلائے کرام’’ احاطہ دارالعلوم دیوبندمیں بیتے ہوئے دن‘‘جیسی ہلکی پھلکی تحریریں لکھنے میں بخل سے کام لے رہے ہیں جو ہرطرح کا ذہن رکھنے والوں کے لیے کشش کا باعث ہوتی ہیں، جس کی طرف ناول اور افسانہ کاقاری بھی کھنچتاچلاجاتا ہے۔ گزشتہ چندسالوں میں دینی مدارس کے فضلاء کی کثیرتعدادادب وصحافت کی طرف مائل ہوئی ہے، جن کی تحریریں مختلف جرائد ومجلات میں دکھائی دیتی ہیں، ان قدیم وجدید فضلاء کرام کی خدمت میں گزارش ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک نظر ادھر بھی۔

Ibrahim Hussain Abdi
About the Author: Ibrahim Hussain Abdi Read More Articles by Ibrahim Hussain Abdi: 60 Articles with 57737 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.