انسانوں کی بستی سے انسانیت کہاں گئی؟

(لیپہ ویلی میں حادثے کا شکار ہونے والی نوجوان لڑکی کی داستان جسے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملے کی بے حسی نے جیتے جی ماردیا)

آزادکشمیرمجموعی طورپرپہاڑی سلسلوں پر مشتمل ایک پرخطر علاقہ ہے‘سڑکوں کی حالت بھی قابل رفتارنہیں۔یہاں آئے روز ٹریفک حادثات میں بیسیوں افرادزندگی کی بازی ہارجاتے ہیں کئی ایک ایسے لوگ بھی زندگی بھرکے لئے معذورہوجاتے ہیں جوپہلے خودکئی کئی معذوروں ،بے سہاروں اورلاچاروں کے کفیل تھے مگروقت اور حالات اور زمانے کی بے رحمی نے آج انہیں دوسروں کادست نگربناکررکھ دیاہے۔ایساہی ایک سانحہ لیپہ ویلی کی ایک نوعمر لڑکی کے ساتھ پیش آیاجوزندگی کی تمام تررعنائیوں سے لطف اٹھارہی تھی لیکن ایک حادثے نے اس کی زندگی عذاب بنادی ،اس دلخراش حادثے کے بعد اسے جن لوگوں سے واسطہ پڑا‘ان کے بے رحم غیرانسانی رویے نے اسے انسان اور انسانیت سے متنفرکرکے رکھ دیاتھا۔اس بارے میں اس باہمت لڑکی نے ایک تقریب میں اپنی تقریراور بعدازاں ایک تفصیلی ملاقات کے دوران بتایا،وہ کہتی ہیں کہ ” میں بی ایس سی کے امتحانات سے فارغ ہوکر کافی خوش تھی۔گرمیوں کاموسم تھا اور اس موسم میں ہمارے گاﺅں وادی لیپہ کی ہریالی حقیقتاًجنت کا نظارہ پیش کرتی ہے۔میں نے امی سے کہاکہ اس مرتبہ ہم گرمیوں کا پوراموسم گاﺅں میں ہی گزاریں گے۔امی راضی ہوگئیں۔چندروزبعد ہم نے گاﺅں جانے کا پروگرام بنالیا۔ آخروہ دن آہی گیا‘جب ہم گاﺅں جانے کے لئے گاڑی پر سوارہوئے ۔ابوبھی ساتھ تھے ۔میں گاﺅں جانے کی خوشی میں بہت ہشاش بشاش تھی۔گاڑی فراٹے بھرتے ہوئے جارہی تھی۔تقریباًدو گھنٹوں کے بعدہم ریشیاں پہنچ چکے تھے۔وہاں سے ہم ویلی جیپ میں سوارہوئے کیوںکہ آگے عام گاڑی پر سفرکرناناممکن ہے۔ریشیاں سے آگے لیپہ تک سڑک اس قدر خراب حالت میں ہے کہ خداکی پناہ،برتھواڑ گلی سے جائیں یا موجی سے راستہ ہردوطرف سے انتہائی ناقابل رفتارہے۔موجی کے راستے 90سے زائدایسے خطرناک موڑآتے ہیں کہ ہر موڑپر خوف کے مارے سانس رک جاتاہے،موڑمیں ڈرائیورجب گاڑی کو آگے لے جاکر Reverseکرتاہے تو بسااوقات مسافروں کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور وہ کلمہ طیبہ کا وردکرنے لگ جاتے ہیں۔حیرت اس بات کی ہے کہ اسی خطرناک روڈپر بعض ڈرائیوراس قدرRufڈرائیونگ کرتے ہیں کہ مسافرپریشان ہوجاتے ہیں،لیکن کیاکریں،سفرتو کرناہے،اگرکوئی منع کرے تو آگے سے ”ڈرپوک “ کے طعنے سن کر اُسے الٹا شرمندہ ہی ہوناپڑتاہے۔ہماری گاڑی بھی کبھی تیز کبھی آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔سارے مسافر آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔اس ویلی کا لیپہ اور ریشیاں کے درمیان غالباً سب سے بلند مقام پنجال اور برتھواڑ گلی ہی ہے‘ہردومقام ایسے گھنے جنگل میں آتے ہیں جہاں کئی جگہوں پر سورج کی شعاعیں بھی زمین پر نہیں پڑتیں۔اسی باعث یہاں تقریبا ًساراسال گلیشئیرموجودرہتے ہیں۔ جب ہم برتھواڑ گلی کے مقام پرپہنچے تو اچانک ڈرائیور نے زور سے آوازلگائی ”سارے کلمہ پڑھو،گڈی داٹائی راڈکھل گیااے“بس دوسرے ہی لمحے ہم سب سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں زخموں سے نڈھال پڑے تھے۔میں وہ منظربیان نہیں کرسکتی،کہ اس لمحہ کیاقیامت پرباہوئی تھی۔زخمیوں کی چیخ وپکارتھی اورمددگاراللہ کے سواکوئی نہیں تھا۔میں بے ہوش ہوچکی تھی‘اس لیئے مجھے کوئی خبرنہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا۔میں نے ہسپتال میں آنکھ کھولی۔مجھے لگ رہاتھا جیسے میرے جسم کا آدھے سے زیادہ حصہ میرے وجودکے ساتھ ہی نہ ہو۔میراجسم ”بے حس “ہوچکاتھا۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میری اس ” بے حسی “کی کیاوجہ ہے۔پھرمجھے کا فی عرصے بعد معلوم ہواکہ میری ریڑھ کی ہڈی شدید متاثرہوئی ہے اور میں Spynel Card Enjouryکے باعث بے حس وحرکت ہوں۔جب مجھے اپنے اس حد تک Disable ہونے کی خبرملی تو میں نے اس حادثے کو اللہ رب العالمین کی آزمائش سمجھ کر قبول کرلیااور صبروحوصلہ مندی سے علاج معالجے کی طرف متوجہ ہوگئی۔لیکن مجھے اس وقت اچانک انتہائی شدید صدمہ پہنچااور میرے زخم پھر تازہ ہو گئے جب مجھے یہ پتاچلاکہ اگر مجھے بروقت مناسب طبی امدادمل جاتی،ہسپتال کا عملہ مجھے ایمرجنسی کیس ڈکلئیرکرکے فوراًڈاکٹرزکو کال کرتااورمجھے طبی امدادینے سے پہلے شناختی کارڈاور باقی Formeliteseپوری کرنے میں وقت ضائع نہ کرتا۔ڈاکٹرزاپنی دو دوگھنٹے کی Tea Breakeسے کچھ وقت مجھے دے دیتے ، میرے جسم سے نکلنے والا خون ضائع نہ ہوتاتو میں اس قدر خطرناک Desease سے بچ سکتی تھی“۔اس حادثے اور ہسپتالوں کے عملے کے نارواسلوک کے بعد مجھے معذورافرادکی بحالی کے مختلف مراکزمیں جاناپڑالیکن مجھے علاج کی سہولت ملنے کے بجائے زمانے کے ناخداﺅں کی جانب سے ذہنی وقلبی تکلیف کے سواکچھ نہیں ملا۔مجھے ”لاعلاج “قراردیاجارہاتھااورمیں زندگی سے نفرت کرنے لگی تھی ۔اس مایوسی کی آخری حدوں کو چھونے والی کیفیت میں مجھے مظفرآباد میں ایک غیرسرکاری تنظیم المصطفیٰ ویلفیئرسوسائٹی کے ادارے ”مسلم ہینڈزادارہ برائے بحالی جسمانی معذوراں“ کے بارے میں معلوم ہواتومیں اس ادارے میں بھی توکل کرکے چلی آئی۔ آج اللہ تعالیٰ کاشکرہے کہ میں خودکو کافی بہتر محسوس کررہی ہوں۔چندماہ کی فزیوتھراپی کے بعد مجھے احساس ہواکہ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیواواقعی اُس نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کررہے ہیں۔میں سمجھتی ہوںکہ ”المصطفیٰ“ایک نئی زندگی کا نام ہے جس نے نہ جانے کتنے مایوس لوگوں کو نئی زندگی کی آس دلاکران کے لئے جینے کی امیدپیداکی ہے۔(اس واقعہ کے کردارتبدیل کرکے پیش کئے گئے ہیں)-
 

image


مذکورہ لڑکی نے اپنی کہانی میں اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی جو مختصر داستان سنائی ہے ۔یہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کا فی ہے۔اس چھوٹے سے پیراگراف پر غورکیاجائے تو ہمیں چند اہم نکات نظرآتے ہیں ۔رانیہ نے سادہ مگر آسان پیرائے میں سفرکی مشکلات اور حادثات کے اسباب اورپھرطبی امدادنہ ملنے سے ہونے والے جانی نقصان کا ذکر کیاہے ۔یہ وہ باتیں ہیں جو اس روٹ پر معمول کا حصہ نظرآتی ہیں۔لیپہ ویلی کا 8اکتوبر 2005ءسے پہلے یا بعدکا ریکارڈ اٹھاکر دیکھ لیں ،اب تک کے درجنوں حادثات میں معمولی فرق ہوگا۔حادثات میں ایک ہی واضح فرق ہوسکتاہے،یہ کہ کچھ لوگ برفباری کے دوران جب گاڑی پر زمینی سفر نہیں ہوسکتا،پیدل جاتے ہوئے گلیشئیرزکی زد میں آکر جابحق ہوئے یا پھر اس طرح کے حادثات کا شکارہوئے جس کا ذکر رانیہ نے کیاہے۔لیپہ ویلی کی خطرناک روڈ پر سفرکرتے ہوئے ایک سو سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں‘درجنوں اپاہج ومعذوراورکئی زندہ لاش کی مانند بسترمرگ پر موت کے انتظارمیں کربناک زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔ان میں سے کئی ایک اپنے خاندانوں کے واحدکفیل تھے جن کے یتیم بچوں اور بیوہ کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔یہاں ضمنا ًیہ ذکربھی ضروری ہے کہ ”ریشیاں سے لیپہ ٹنل “کے لئے انٹرنیشنل فرم کی دو،اڑھائی کروڑروپے کی لاگت سے سے تیارکردہ فزیبلٹی اور پھر معتمرالعالم الاسلامی کی جانب سے فنڈزفراہم کرنے کے اعلان پرعملدرآمدکے لئے حکومتی سطح سے مخلصانہ کارروائی کی جائے تو لیپہ کے کم وبیش پچاس ہزارافرادکوآئے روزپیش آنے والے ایسے دلخراش سانحات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات مل سکتی ہے۔آج بھی ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کو چند ہزارروپے کے لئے رسواکیاجاتاہے اور زخمیوں کوعلاج معالجے میں کوئی قابل ذکر معاونت فراہم نہیں کی جاتی ،حالانکہ یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ ایسے افرادکو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی بجائے نہ صرف یہ کہ ان کامکمل علاج کرائے بلکہ ان افرادکے زیرکفیل خاندانوں کی کفالت بھی کرے۔ ہسپتالوں میں تعینات چوکیدارچپڑاسی سے لے کرپیرامیڈیکل سٹاف اورڈاکٹرزسے سربراہان ادارہ تک ہر ایک فردکی اخلاقی تربیت کی جائے ،تاکہ ان کے غیرذمہ دارانہ روئے اور لاپرواہی سے کسی انسان کی ہستی بستی زندگی بربادنہ ہو۔
 

image

چندروزقبل ہمارے ایک جاننے والے کے دوست مڈل سکول کے ہیڈماسٹرنے باتوں باتوں میں ازخوداس بات کا اعتراف کیاکہ وہ سکول نہیں جاتا،وہ صرف سیاست کرتاہے اور کوئی اس کچھ نہیں بگاڑسکتا۔وہ کہتاہے کہ ڈی ای او،اے ای او،ڈائریکٹرسمیت تمام آفیسران بالا کو معلوم ہے کہ کون سکول جاتاہے اور کون سکول نہیں جاتامگران میں اتنی جرات ہی نہیں کہ وہ کسی کو معطل کرسکیں،اس لیئے کہ خودانہیں حرام کھانے کی عادت ہوچکی ہے وہ کسی سکول کا وزٹ کرتے ہی نہیں۔ہسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں توسکولوں میں اساتذہ نئی نسل سے کھلواڑکررہے ہیں،کسی بھی ادارے میں چلے جائیں،آوے کا آواہی بگڑاہواہے۔کسی کو کو کوئی پوچھنے والاہی نہیں۔آج عنان اقتدارہویاتعلیمی ادارے،ہسپتال ،تھانہ کچہری‘سرکاری وغیرسرکاری ادارے ہوں یابازار،کوئی بھی مقام ہو ،حرص وہوس اورنفس کاپجاری انسان مادی ترقی کے لئے جتنی تیزی سے آگے بڑھ رہاہے اور انسانوں کی آبادیوں میں جس قدراضافہ ہورہاہے اسی قدر انسانیت ناپیدہوتی جارہی ہے،ہماری دانست کے مطابق انسان کابتدریج انسانیت سے دورہوتے جاناکسی بڑے سانحے سے کم نہیں۔احساس ذمہ داری اورانسانیت نام کی کوئی چیزباقی رہی ہی نہیں۔
خداتجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
ترے بحرکی موجوں میں اضطراب نہیں
 
Safeer Ahmad Raza
About the Author: Safeer Ahmad Raza Read More Articles by Safeer Ahmad Raza: 44 Articles with 42661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.