ماسٹر جی

ماسٹر جی‘ پچھلے تیس سال سے‘ گاؤں کے بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ وہ بڑی ایمان داری سے‘ اپنا یہ فریضہ انجام دے رہے تھے۔ جب کبھی بیمار پڑتے‘ تو بیماری کی حالت میں بھی‘ سکول چلے آتے۔ بچوں سے‘ اس طرح محبت کرتے‘ جیسے وہ ان کے اپنے بچے ہوں۔ اگر کوئی بچہ بیمار پڑتا‘ تو اس کا پوچھنے‘ اس کے گھر جاتے۔ بچے بھی ان سے بڑے مانوس تھے۔ یہ ہی نہیں‘ ہر کسی کی غمی خوشی میں‘ شریک ہوتے۔ وہ بچوں کو‘ ناصرف تعلیم کی دولت سے مالا مال کرتے‘ ان کی تربیت کو بھی‘ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اب تو‘ بچوں کے بچے بھی‘ سکول میں داخل ہوچکے تھے۔ بہت سے بچے‘ مڈل اور ہائی سکول دور ہونے کی وجہ سے‘ صرف پرائمری تک‘ تعلیم حاصل کر سکے تھے۔ بیسیوں بچوں نے‘ میٹرک تک تعلیم حاصل کر لی تھی۔

ان سب باتوں کے باوجود‘ ان میں ایک دو عادتیں‘ ہمیشہ سے‘ خراب چلی آ رہی تھیں۔ کئی ایک ناخوشگوار تجربوں کے باوجود‘ انہوں نے اپنی یہ عادت ترک نہ کی تھی۔ کوئی غلط کام کرتا‘ تو منہ پر‘ اور سب کے سامنے ہی‘ ٹوک دیتے۔ وہ اس حوالہ سے‘ بڑے بے لحاظ اور منہ پھٹ واقع ہوئے تھے۔ وہ اس ذیل میں‘ بندہ کوبندہ بھی نہیں دیکھتے تھے۔ وہ بلاطلب‘ مشورہ دینے کا‘ ضرورت سے زیادہ‘ شوق رکھتے تھے۔ لوگوں کے معاملہ میں‘ یوں ہی ٹانگ اڑا لیتے تھے۔ یوں لگتا تھا‘ کہ جیسے اصلاح کا انہوں نے ٹھیکہ لے رکھا تھا۔
ایک مرتبہ‘ شہابا کمہار اور جیرا تیلی‘ کسی لین دین کے مسلے پر‘ الجھ پڑے۔ بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ ماسٹر جی‘ بن بلائے وہاں جا پہنچے۔ لوگ بچ بچاؤ کرا رہے تھے‘ یہ بھی میدان میں کود گیے‘ اور بچ بچاؤ کرانے کے ساتھ ساتھ اپنا لیکچر پلانے لگے۔ شہابا کمہار نے‘ مروت سے ہاتھ روک لیا۔ اس کا بچہ‘ ماسٹر جی کے پاس پڑھتا تھا‘ لیکن جیرے تیلی نے انہیں زور دار دھکا دیا‘ اور وہ دور جا گرے۔ ان کے سر پر چوٹ آئی۔ شہابا کمہار یہ برداشت نہ کر سکا اس نے دوبارہ لڑائی جائین کر لی‘ اور بڑی بے جگری سے لڑا۔ دونوں کو ٹھیک ٹھاک ضربیں آئیں۔ کسی کے کام میں‘ مفت میں پنگا لینے کی کیا ضرورت تھیِ۔

شامو گوجر‘ اور اس کی بیوی کا جھگڑا ہو گیا۔ بات‘ کورٹ کچری تک جا پہنچی۔ انہوں نے‘ معاملہ ادھر ادھر سے معلوم کرایا۔ انہیں بتایا گیا‘ کہ شامو گوجر جھوٹا ہے۔ ماسٹر جی‘ شامو گوجر کے پاس جا پہنچے‘ اور اسے اس کی بات سنے بغیر ہی‘ جھوٹا کرنے بیٹھ گیے۔ اس پر‘ وہ تاؤ میں آ گیا۔ اس نے بلا سوچے سمجھے‘ ماسٹر جی پر‘ اپنی بیوی کا الزام دھر دیا۔ ماسٹر جی‘ اس قسم کی امید نہ رکھتے تھے۔ وہاں دو چار اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ خبر‘ دیکھتے ہی دیکھتے‘ پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ بہت طرح کی باتیں ہوئیں۔ کچھ نے‘ بات کو سچ بھی مان لیا۔ حالاں کہ سرے سے‘ ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔

راجو دودھی‘ ماسٹر جی کی بڑی عزت کرتا تھا۔ جب بھی‘ رستے میں ماسٹر جی اسے ملتے‘ جھک کر سلام کرتا۔ دونوں ہاتھوں سے‘ مصافہ کرتا۔ خوش گوار موڈ میں ہوتا‘ تو ایک گلاس دودھ انہیں بھجواتا۔ ماسٹر جی کے کان میں کسی نے ڈال دیا‘ کہ وہ دودھ میں پانی ملاتا ہے۔ اس الزام کا‘ حقیقت سے دور کا بھی‘ واسطہ نہ تھا۔ وہ تو‘ پانی کو دودھ سے آلودہ کرتا تھا۔ ماسٹر جی باطور خاص‘ اس کے گھر گئے۔ اس حوالہ سے‘ سمجھانے بیٹھ گیے۔ صاف ظاہر ہے‘ اسے غصہ آنا ہی تھا۔ راجو دودھی نے‘ انہیں پانی تک کا نہ پوچھا‘ اور بڑی کرختگی سے‘ چلتا کیا۔ اس کا لڑکا‘ ماسٹر جی کے پاس پڑھتا تھا‘ اسے بھی اٹھا لیا۔ اس کا موقف تھا‘ ہم نے کون سا‘ پڑھا لکھا کر‘ پٹواری بنانا ہے۔ بڑا ہو کر‘ کام تو یہ ہی کرنا ہے۔ پٹواری‘ دودھ میں پانی ملاتا ہے‘ اسے کوئی پوچھتا نہیں۔ راجو تو‘ پانی میں دودھ ملاتا تھا اور ماسٹر جی اسے پوچھنے بیٹھ گیے تھے۔

ماسٹر جی کی ان اوٹ پٹنگ حرکتوں سے شرفا سخت پریشان تھے۔ وہ کئی بار چودھری سے ان کی ان خلاف معاشرت نقل و حرکت کی شکایت کر چکے چکے تھے۔ چودھری دل گردے کا آدمی تھا متواتر برداشت سے کام لے رہا تھا۔ اس دن تو حد ہی ہو گئی۔ ماسٹر جی گرفت میں چودھری کا بڑا بیٹا آ گیا۔ انہوں نے کڑیوں کے شوق کے خلاف پورے دس منٹ لیکچر دیا۔ اتنی دیر جیرے نائی کی بیٹی سکی بچ کر نکل گئی۔ اگر حسن سے چودھری اور اس کے بیٹے لطف اندوز نہیں ہوں گے تو چودھری ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ گاؤں کی عزت رور مشقت کے تصرف کا پہلا حق چودھری اور اس کی اولاد کا ہوتا ہے۔ کمی کمین آخر ہوتے کس لیے ہیں۔
چودھری کے بیٹے کو بڑا تاؤ آیا۔ ہاتھ آیا شکار‘ جھٹکے سے بچ گیا تھا۔ اس نے باپ سے‘ ماسٹر جی کی بداطواری اور چودھراہٹی امور میں‘ بےجا دخل اندازی کی شکایت کر دی۔ بیٹے کے منہ نکلے الفاظ نے‘ چودھری کو چکرا کر رکھ دیا۔ دو ٹکے کا منشی‘ اور چودھراہٹ میں مداخلت‘ بلاشبہ‘ جرم عظیم تھا۔ طاقت کسی قسم کی روک ٹوک اور نکتہ چینی‘ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ سرمد کا یہ ہی قصور تھا نا‘ کہ عصری طاقت دشمن‘ دارا شکوہ سے سلام دعا رکھتا تھا۔ یہ ہی نہیں‘ تنقید بھی کرتا تھا۔ مذہب کا کوئی چکر ہی نہ تھا۔ ہاں علما نے‘ سرمد کے خلاف فتوی دیا یا ان سے لیا گیا۔ ہند‘ کوئی اسلامی ریاست نہ تھا‘ مسلمان تو‘ اقلیتی آبادی تھے۔ غیرمسلم کلمہ‘ اس کے منہ سے نکلنا‘ جرم نہ تھا۔ باغی‘ باغیوں کے دوست یا طاقت کے نقاد‘ طاقت کو خوش نہیں آ سکتے۔

ماسٹر جی کو‘ چودھری نے ڈیرے پر بلا لیا۔ ماسٹر جی وہاں آئے۔ وہاں کچھ لوگوں کو‘ پتہ بازی کرتے دیکھ لیا۔ ان کا دماغ گھوم گیا۔ انہوں نے‘ ادب آداپ بجا لانے کی بجائے‘ پتہ بازی اور اس کی پشت پناہی پر‘ چودھری ہی کو لیکچر پلانا شروع کر دیا۔ وہاں امام مسجد صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ ماسٹر صاحب کی یہ حرکت‘ کھلی گستاخی تھی۔ چودھری صاحب کا کلیجہ دیکھیے‘ سب پی گیے۔ ماسٹر صاحب کی بڑی عزت کی گئی۔ ان کی چاٹی کی لسی سے‘ تواضح کرکے‘ رسمی سی دو چار باتیں کرکے‘ رخصت کر دیا گیا۔ ماسٹر جی‘ چودھری کے رزق پر‘ کلہاڑا چلا گیے تھے۔

اس بات کو‘ دو ماہ گزر گیے۔ پھر ایک دن‘ پتا‘ چلا کہ ماسٹر جی مذہب کی توہین کے مرتکب ہوئے‘ اور ان کا یہ جرم‘ ناقابل معافی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ ماسٹر جی جوتوں‘ تھپڑوں اور ٹھوکروں کی زد میں آگیے تھے۔ ان پر چھتروں کی بارش کرنے والے‘ ان کے بہت سے چہتے شاگرد بھی تھے۔ کہاں تک برداشت کرتے‘ آخر انسان تھے‘ چل بسے۔ ان کی لاش‘ مسجد کی سڑھیوں پر‘ لاوارث پڑی تھی۔ انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے‘ مذہب کے خلاف کچھ نہیں سن سکتا۔

اس بات کو عرصہ گزر چکا ہے۔ چودھری کا بڑا بیٹا‘ چودھری ہے۔ قہقہوں اور ٹھٹھوں میں ملبوس‘ ماسٹر جی کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ مرحوم سراج‘ جو پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا‘ کے حوالہ سے‘ یہ بھی سننے میں آتا ہے‘ کہ ماسٹر جی کی گستاخ آنکھوں نے‘ امام مسجد صاحب کو‘ حجرے میں‘ ایک لڑکے کے ساتھ‘ رویتی فعل میں مصروف‘ دیکھ لیا تھا۔ اصل حقیقت کیا ہے‘ آج بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔ تاہم اس بات پر سب متففق ہیں‘ کہ ماسڑ جی مذہب دشمن تھے۔ ان کے ساتھ جو ہوا‘ عین حق‘ انصاف اور مذہب بچاؤ کے تحت ہوا۔ ہر مذہب دشمن کے ساتھ یہ ہی ہونا چاہیے۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 174143 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.