محققِ لاہور،محمد عالم مختار حق مرحوم

 لاہور ایک عالم وفاضل، ادیب شہیر اور ایک فردِ عظیم سے محروم ہو گیا

چھ مارچ 2014ءکوداتا کی نگری” لاہور“ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی صاحب کے بعد اُن کے دیرینہ ساتھی اورایک اور علم دوست شخصیت سے بھی محروم ہوگئی،یہ عالم بے بدل،فاضل بے مثال اور کتاب دوست و کتاب شناس محمد عالم مختار حق صاحب تھے، جنہیںحضرت پیر غلام دستگیر نامی نے” مختار حق“ کا تاریخی نام دیا تھا، اُن کا آستانہ فیض بند روڈ پر جھگیاں شہاب الدین میں واقع تھا، جو اب ”شہاب ٹاﺅن“ کے نام سے موسوم ہو چکاہے۔ یہ قصبہ نما محلہ جناب محمد عالم مختارِ حق کی باطنی روشنیوں سے منور تھا ،وہ اِس محلے کی جامع مسجد میں امامت فرماتے اور خطبہ جمعہ میں قرآن کریم کے احکامات، نبی آخر الزماںصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ائمہ کرام کے فیوضِ روحانی سالکانِِ راہِ حق تک پہنچاتے تھے،سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ کریم نے تعلیم کے ابتدائی درجوں میں ہی اُن کے دل میں کتاب کی محبت پیدا کردی اور پھر کتابوں کی جمع آوری، اُن کی حفاظت اور مطالعہ عشق کا درجہ اختیار کرگیا،جو اُن کی زندگی کے آخری لمحات تک قائم رہا۔

محمد عالم مختار حق صاحب کو مطالعے اور کتابیں جمع کرنے کا شوق پروان چڑھنے کی وجہ کاغذ کا وہ ٹکڑا تھا، جو بچپن میں اسکول جاتے ہوئے تیز ہوا سے اڑتا ہوا آیا اور اُن کے سینے سے چمٹ گیا،آپ نے دیکھا تو وہ کسی اخبار کا ورق تھا، جس پر قرآنی آیات اور اُس کا ترجمہ جلی حروف میں چھپا ہوا تھا، س وقت آپ کی عمر زیادہ نہیں تھی، لیکن اتنی بات سمجھ میں آگئی کہ یہ قرآنی آیات کی بے حرمتی ہے،چنانچہ آپ نے ورق کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا،بوسہ دیا، آنکھوں سے لگایا اور تہہ کرکے اپنے بستے میں رکھ لیا، مشیعت ایزدی میں بس قبولیت کا وہی لمحہ تھا جب ربّ کریم نے کم عمر محمد عالم مختارحق کے دل میں اوراقِ مقدسہ، لکھے اور چھپے ہوئے ہی نہیں،بلکہ دستیاب ہر مطبوعہ ورق کو محفوظ کرنے کا جذبہ پیدا کردیا۔

محمد عالم مختار حق جھگیاں شہاب الدین ( جو بند روڈ سے چوک یتیم خانہ کی طرف آنے والی سڑک کے دائیں طرف آباد ہے)میں 4 مارچ 1931ءکو پیدا ہوئے، اُس زمانے میں فصیل سے گھرے ہوئے شہر لاہور کی یہ ایک دور افتادہ بستی شمار ہوتی تھی، جس کے چاروں طرف کھیت تھے، ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی لیکن پرائمری کا امتحان ایم سی اسکول ڈھوان دال سے، مڈل کا امتحان اسلامیہ اسکول ملتان روڈ سے اور میٹرک اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ لاہور سے 1949ءمیں پاس کیا، اِس دوران دینی، علمی اور ادبی کتابوں کے مطالعے اور اپنی لائبریری بنانے کا شوق پیدا ہوچکا تھا، اِس شوق کے تحت ہی انہوں نے دارالعلوم السنہ شرقیہ سے فاضلِ فارسی کی سند حاصل کی۔ لیکن اِس سے قبل وہ محکمہ ڈاک میں ملازمت اختیار کرچکے تھے اور یہ فیصلہ بھی کرلیا تھا کہ کوئی کتاب مانگ کر نہیں بلکہ خرید کر پڑھیں گے۔ آپ سرکاری تنخواہ سے گھر چلاتے اور کتابیں خریدنے کے لیے کتابت شدہ مسودوں کی پروف ریڈنگ کرتے، جسے کتاب کی نظرثانی کا درجہ بھی حاصل تھا، یعنی پروف ریڈنگ کے دوران مصنف کی غلطیوں کی اصلاح بھی کردیتے تھے۔

جناب محمد عالم مختار جامع مسجد شہاب نگر کے پیش امام بھی تھے،عموماً دیکھا گیا ہے کہ لکھنے پڑھنے والے افراددینی فرائض کے معاملے میں قدرے سست واقع ہوتے ہیں، لیکن محمد عالم مختار حق دینی فرائض پر بڑی سختی اور سنجیدگی سے عمل کرتے تھے، وہ محلے کی مسجد میں اعزازی طور پر امامت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے، انہوں نے نصف صدی تک نہ اس مسجد کو چھوڑا اور نہ مسجد نے انہیں چھوڑا۔ خوبی قسمت دیکھئے کہ انہیں انتقال کے بعد بھی آخری آرام گاہ اُسی مسجد سے متصل ملی۔محمد عالم مختار حق اُن خاصانِ خدا میں تھے جو دین میں اخلاق کی اہمیت کو سمجھتے اور زندگی کے ہر پہلو پر اخلاقی رویئے کو کبھی ترک نہیںکرتے تھے، وہ نہ تو کبھی اپنی دین داری اور عبادات کا تذکرہ کرتے اور نہ ہی دوسروں کو بد عملی کی وجہ سے تحقیر کی نظر سے دیکھتے تھے، اُن کی شخصیت میں غرور نام کو بھی نہیں تھا،،وہ ایک روشن خیال دانشور تھے، جن کا مطالعہ ادب وسیع تھا۔ محمد عالم مختار حق صاحب کیلئے مسجد میں امامت، دینِ اسلام کی تبلیغ کا وسیلہ تھا، انہوں نے اپنے خاندان کی کفالت کیلئے ڈاک کے سرکاری محکمے میں ملازمت اختیار کی اور 6 جون 1992ءکو ڈائریکٹر اکاﺅنٹس کے دفتر سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنی پنشن پر گزر اوقات کرنے لگے۔

کتابوں کی خریداری کا سلسلہ زندگی کے آخری دور تک جاری رہا،اِس وقت اُن کی لائبریری میں چودہ ہزار سے زائد قیمتی کتب موجود ہیں۔ دیگررسائل اور انگریزی کتب اِس کے علاوہ ہیں، خطاطی کے نادر نمونے بھی انہوں نے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں،اُن کے گھر کے تین کمرے ہر موضوع کی الگ الگ الماریوں سے بھرے پڑے ہیں۔ دور دور سے علم کے پیاسے آتے ہیں اور اُن کے نادر کتب خانے سے استفادہ کرتے ہیں۔بلامبالغہ آج تحقیقی کام کیلئے جو نادر و نایاب کتابیں اُن کے کتب خانے میں موجود ہیں وہ لاہور کی سرکاری لائبریری میں بھی دستیاب نہیں ہوں گی۔محمد عالم مختار حق صاحب کی لائبریری میں موضوعاتی اعتبار سے قرآنیات کا ذخیرہ سب سے گراں قدر ہے، دو صد سے زائد قرآن کریم کے نسخے، تراجم اور تفاسیر موجود ہیں، ایک پوسٹر پر پورا قرآن مجید لکھا ہوا دیکھنے کی سعادت آپ کو یہاں میسر آسکتی ہے ۔ لائبریری میں موجود”الفی“ قرآن کا ہر ورق الف سے شروع ہوتا ہے،یہاں ایک ایسا قرآن پاک بھی موجود ہے جس کاایک پارہ صرف دو صفحات یعنی ایک ورق میں لکھا ہواہے۔ غالب اور علامہ اقبال پر لکھی ہوئی کتابیں اور اُن کے دیوان بھی اِس لائبریری میں موجود ہیں۔

اِس لائبریری میں ہندوستان سے ضیاءالدین ندوی، ایران سے علی بیات، مصر سے ڈاکٹر حازم محمد احمد، جاپان سے ٹیسٹویو کوچی، امریکہ سے مسٹر بیوکر اور علی گڑھ سے ڈاکٹر عطا خورشید تشریف لا چکے ہیں۔

جبکہ پاکستان کے جن ممتاز ادیبوں نے اِس لائبریری اور اُس کے منتظم کی سنہری لفظوں میں تحسین کی اُن میں جناب مشفق خواجہ، محمد طفیل (مدیر نقوش)، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر انور محمود خالد، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر وحید قریشی( جنھوں نے محمد عالم مختار حق کو ”محقق لاہور“ کا خطاب بھی دیا تھا )جیسے بے شمار لوگ شامل ہیں۔درحقیقت محمد عالم صاحب نے اپنی ذاتی محنت اور کوشش سے اپنے گھر میں بڑا نادر اور بے مثل کتب خانہ بنایاہے، یہ کتب خانہ کیا ہے گویا علم کی ایک ایسی سبیل ہے جس سے وہ گزشتہ نصف صدی سے تشنگانِ علم کو سیراب کرتے رہے۔ ویسے تو ذاتی کتب خانے تو اور بھی ہوںگے لیکن اِس کتب خانے کی خاص بات یہ ہے کہ اِس سے فیض اٹھانے والوں کو کبھی محمد عالم مختار حق صاحب نے انکار نہیں کیا، بلکہ اُن کی فیاضی اور علم دوستی کی یہ نادر مثال ہے کہ وہ خود اِس کتب خانے کی نادر کتابیں، رسائل، نوادر خطاطی و دیگر چیزیں یہاں آنے والوں کو بخوشی دکھاتے بھی تھے اور اگر ضرورت ہو تو اُس کے عکس بھی فراہم کرتے تھے۔

ہم خود اِس بات کے شاہد ہیں کہ جب ہم نے پیرزادہ اقبال احمد فاروقی صاحب کی وساطت سے اپنی کتاب ”تحریک تحفظ ختم نبوت سیدنا صدیق اکبر تا علامہ شاہ احمد نورانی“ کے سلسلے میں محمد عالم مختار حق صاحب سے رابطہ کیا تو حضرت نہ صرف ہم سے عملی تعاون فرمایا بلکہ مزید کوشش و جستجو کیلئے ”کھوکر لائبریری “کا راستہ بتایا، اِس حوالے سے ہمارے نام حضرت کا ایک خط آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔ لوگ جب اُن سے پوچھتے کہ آپ کے بعد اِس کتب خانے کا کیا ہوگا۔؟تو فرماتے کہ آخر لوگ انتقال کرکے دنیا سے جاتے ہی رہتے ہیں، لیکن اُن کی زندگی میں کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ آپ کے بعد آپ کے بنگلے کا کیا ہوگا، کوٹھی کا کیا ہوگا، کار اور دیگر چیزوں کا کیا ہوگا۔؟ یہ بات کتابوں کے بارے میں ہی کیوں پوچھی جاتی ہے۔؟محمد عالم مختار حق صاحب کا کتابوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ سید منور علی شاہ صاحب(امریکہ) سے فرمایا ”شاہ صاحب اگر ممکن ہوتا تو یہ کتابیں میں اپنے ساتھ قبر میں لے جاتا۔“

کہتے ہیں مولانا غلام رسول مہر جب زندہ تھے تو محمد عالم مختار حق کو روزانہ ایک خط لکھتے تھے، اُن کے خطوط کے دو مجموعے محمد عالم مختار حق نے اپنے گراں قیمت حواشی سے چھاپے ۔ ”مشفق نامے“ کے عنوان سے مشفق خواجہ کے خطوط کا سب سے پہلا مجموعہ بھی محمد عالم مختار حق نے ہی شائع کیا تھا، اب تک اُن کی 26 تالیفات منظر عام پر آچکی ہیں۔جب محمد طفیل مدیر ”نقوش“ نے ”رسول نمبر“ چھاپنے کا منصوبہ بنایا توآپ کے مشوروں سے خوب استفادہ کیا اور جب ”نقوش کا رسول نمبر“ چھپا تو اُس دور کے صدرِ پاکستان جنرل ضیاءالحق نے مختار حق صاحب کی اِس نمبر کی ترتیب و تدوین اور الفاظ خوانی کی خدمات کے اعتراف میں سعادت حج پر روانہ کیا۔جبکہ محمد عالم مختار حق کی خطاطی پر حکومت پنجاب نے انہیں 2008ءمیں گولڈ میڈل بھی دیاتھا۔

محمد عالم مختار حق صاحب کا دورِ آخر کا اہم کارنامہ عالم اسلام کے نامور محقق اور عالم ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم کی منتشر تحریروں کی ”نگارشات ڈاکٹر محمد حمیداللہ “ کے عنوان سے تین جلدوں میں ترتیب و تدوین ہے،وہ ہمیشہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم کی تحریروں کے حصول کیلئے کوشاں رہتے تھے اوراُن کی دیرینہ خواہش تھی کہ اِس سلسلے کی چوتھی جلد بھی ترتیب پا جائے ۔ اُن کے علمی اور تحقیقی کارناموں کی تفصیل قدرے طویل ہے،البتہ اُن کی مطبوعہ کتب کی مختصر فہرست میں”خطوطِ مہر،اقبالیات ِ مہر،گنجینہ مہر(2 جلدیں)،مشفق من خواجہ من،مشفق نامے، فکرِ فاروقی،مکتوبات ڈاکٹر مختار الدین احمد بنام پیرزادہ اقبال احمد فاروقی،نگارشات ِ ڈاکٹر محمد حمیداللہ (3جلدیں) شامل ہیں۔

قارئین محترم ! جناب محمد عالم مختار حق کی علمی، ادبی اور دینی خدمات کا یہ ایک مختصر اجمالی جائزہ ہے، وہ 83 برس کی عمر میں بھی دین حق کی خدمت میں مصروف تھے اور ادبی کام پوری لگن سے مصروف تھے کہ 6 مارچ کی شب باتیں کرتے کرتے سو گئے، نصف شب چھاتی میں گھٹن محسوس ہوئی اور ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ہی محمد عالم مختار حق خالقِ حقیقی سے جاملے ۔ یوں لاہور ایک عالم وفاضل،ادیب شہیر اور ایک فردِ عظیم سے محروم ہو گیا تھا۔آج محمد عالم مختار حق صاحب اِس دنیا میں نہیں ،مگر امید ہے کہ اُن کے لائق فرزند اور بڑے صاحبزادے محبوب عالم صاحب جو گزشتہ چالیس برسوں سے اُن کے مشیر و معاونِ علمی بھی رہے ہیں، اپنے والد محترم کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کا سامان کریں گے۔

M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 315 Articles with 307908 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More