اپنی تہذیب سے نفرت کیوں۔۔۔؟

آج کل ہمارے نوجوانوں اور بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے کی زبانوں سے کچھ عجیب عجیب جملے سننے کو ملتے ہیں؛ ’’مجھے یورپین کلچر بہت پسندہے‘‘ ’’کاش میں فارن میں جاؤں‘‘’’ ہمارے ہاں کیاہے، انگلش ممالک میں جاؤ کہ تہذیب سیکھو‘‘۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ یہ سب غلامیانہ ذہنیت اور غیروں کی ناقص تہذیب سے مرعوبیت کی عکاسی ہے۔ آج جب ہم نے اپنی ثقافت اور تہذیب وتمدن سے رشتہ استوار نہ رکھا اور اسلام دشمن اقوام کے نقش قدم پرچلنے لگے تو ہماری زبانوں سے مذکورہ بالا قسم کے جملے نکلناشروع ہوئے۔ آخرہم سوچتے کیوں نہیں کہ بحیثیت مسلمان ہم ایک بہت بڑی تہذیب وثقافت کے مالک ہیں، ہمارے پاس ایک مقدس نظام تعلیم ہے ، ہم ہی دنیاکی سب سے بہتراور عظیم الشان قوم ہیں، ہمیں اپنے اسلاف سے ورثے میں نہایت ہی اعلیٰ اخلاق واقدار ملے ہیں، ہم ہی آفاقی نظام ودستورکے مالک ہیں، ہمارے پاس ہی ایسے ایسے بزرگوں، پیشواؤں اور آقاؤں کے نام موجودہیں جن کوزبان پہ لانابھی باعث فخرہے، ہمارامعاشرتی نظام تمام تراخلاقی خوبیوں اور اوصاف سے بھراپڑاہے، ہم نے جس رسی کے سراپکڑاہے اس کا دوسراسراعرش الٰہی میں پیوست ہے، ہم سوچتے کیوں نہیں اوراپنے آپ کو بہترماننے کے لیے تیارکیوں نہیں؟ مجھے آج کی سائنسی ترقی اور اس سے مستفیدہونے کاانکارنہیں او رساتھ ساتھ میں گلوبلائیزیشن کے تحت بننے والے قریبی رشتوں پربھی یقین رکھتاہوں لیکن مجھے شکوہ یہ لاحق ہے کہ ہم ان مادیات کی رومیں بہہ کراپنی تہذیب وثقافت کیوں بھلابیٹھتے ہیں، ہمیں مذہبی غیرت اور تصورخودی سے کیوں ہاتھ دھونے پڑتے ہیں؟ ہمارے دلوں میں اپنے وطن اورمذہب سے محبت کیوں باقی نہیں رہتی؟ ہم نے کبھی سوچاہے کہ جس یورپین اور انگلش سوسائٹی سے ہم متاثرہیں اس کے اوصاف کیاہیں! کیاوہ معاشرہ کوئی مستقل تہذیب وثقافت اور اعلیٰ معیار کاحامل بھی ہے کہ نہیں؟ آج جن لوگوں جیسے کپڑے پہنناہم پسندکرتے ہیں، ان جیسے بال رکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے، اپنی گھریلو اور معاشرتی زندگی ان ہی کے بنائے ہوئے سانچے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حتی کہ ان کی زبان کو نعوذباللہ اپنی مقدس ترین کتاب قرآن مجید پربھی فوقیت دیتے ہیں، تو کیاان مادہ پرست قوموں کی پیروی میں جاکر ہماری آنکھیں ان حقائق سے آندھی ہوجاتی ہیں کہ ان کے ہاں جاکر ہماراجسم اندراورباہر سے ان کے رنگ میں رنگ جاتاہے ۔ آسمانی قانون سے عاری لوگ، مادہ پرستی، اخلاقی معیارات کی پستی، کھڑے ہوکرطعام اچک کے کھانا، اسلامی لباس کانام ونشان تک نہ ہونا، ہم جنس پرستی، جانوروں سے شادی، حیاسوز مظاہرے، فحاشی وعریانی، زناکاری، گھریلوطرززندگی کافقدان، ماں باپ اور اولاد سے لاپرواہی، باپ کوبیٹی کاعلم نہیں اور شوہر بیوی سے لاعلم، عشق ومعاشقے، شراب نوشی، خنزیرکاگوشت کھاناوغیرہ کیایہ تمام چیزیں ہمیں اچھی لگتی ہیں۔ اس سے بڑھ کرعصرحاضر کے تناظرمیں دیکھئے کہ ان کے دلوں میں مسلم ثقافت اور مسلمانوں کے خلاف جوتعصب موجود ہے کیااس پرہمیں غیرت نہیں آتی؟ کیامغربی تہذیب کے پجاری آج کے مسلمان نوجوان یہ چاہتے ہیں کہ ان کوسڑک کے کنارے \"Nude Dancers\" کے سائن بورڈز نظرآئے یاگاڑی میں چلتے ہوئے اُن کے ہاتھ میں \"Play With Our Bodies\" جیسے اشتہارات تھمادیے جائیں۔ شایدایک دن یہ مطالبہ بھی ہوجائے کہ ہمارے لیے یہاں بھی مغربی طرزکے ’’مجالسِ حسن‘‘ (Beauty Parlours) بنوائے جائیں۔۔۔ مجھے مغربی ممالک کی بہت ساری خصوصیات کابھی انکارنہیں جن میں قانون کی پاسداری، اصول پسندی، ملاوٹ یادھوکہ فریب سے اجتناب اورحسنِ انتظام کے دیگربہت سارے طریقے شامل ہیں لیکن اس کے مقابلے میں مذہب سے آزادیہ لوگ کس قدربے راہ روی اور بداخلاقی کے راستے پرگامزن ہیں اس کے بیان سے زبان وقلم قاصرہیں اور ایک شریف آدمی کے لیے اس سلسلے میں بولنا، لکھنا اورسننا گوارہ نہیں ہوسکتا۔ ان تمام تربداخلاقیوں اور ناشائستہ کرداروں کے اثرات آج ہمارے مسلم معاشرے پربڑی تیزی سے مرتب ہورہے ہیں، ان سب کچھ میں والدین کابڑاحصہ ہے جنہوں نے اپنی اولادکوبے لگام چھوڑکرکھلی چھوٹ دے رکھی ہے اوردوسری طرف پرنٹ والیکٹرانک میڈیا اور ساتھ ساتھ غلط استعمال کی بناء پرکمپیوٹر، انٹرنیٹ اورموبائل کی زہرآفشانی بھی عیاں ہے، ان باریکیوں پرغورکرتے ہوئے ہمارے نوجوان اور بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے کوسوچ لیناچاہیے کہ ایک منظم سازش کے تحت ہمیں اپنی تہذیب وثقافت سے دور کیاجارہاہے او رہمارے ذہنوں میں مذہب اسلام اور اس کے شعائرسے متعلق شکوک وشبہات پیداکیے جارہے ہیں۔ آج ٹی وی چینلز ، اخبارات اور مختلف رسائل وجرائد میں ایسے ایسے تبصرے اورمضامین سننے اور دیکھنے کوملتے ہیں کہ جس سے صاف پتہ چلتاہے کہ ہماری ذہنیت کیاہے اور ہم کس کے نمائندے بنے ہوئے ہیں۔ نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے لیے شعوری ،لاشعوری یاکم علمی کی بناء پرغلط اندازسے مذہبی مباحثے کیے جاتے ہیں توکبھی تحریک پاکستان کوغلط رنگ میں پیش کیاجاتا ہے ۔۔۔ مجھے اپنی صحافی برادری سے بھی شکوہ ہے کہ ان کواپنے مسلمان اکابرین کے اقوال وارشادات کے بجائے ا نگریزمصنفین و’’مفکرین‘‘ کی آراء نقل کرنے میں زیادہ مزہ آتاہے۔ ہماری دنیاوی واخروی فلاح کے لیے بہتریہ ہوگا کہ ہم اپنے مذہب سے قریب رہیں، وطن عزیز پاکستان سے محبت رکھیں، اپنی تہذیب اور ملکی مصنوعات پرفخرکریں، انگریزداداؤں کے بجائے اپنے مسلمان اسلاف اور پیشواؤں کے نام لینے میں فخرسمجھیں۔
Nizam Uddin
About the Author: Nizam Uddin Read More Articles by Nizam Uddin: 14 Articles with 16315 views Columnist / Reasercher / Story Writer.. View More