جانوروں کی شادی خوب دھوم دھام سے

شادی ایک ایسا سماجی بندھن ہے۔ جس میں ساری دنیا کے لوگ دلچسپی لیتے ہیں۔ شادی کے اس بندھن سے زندگی میں رونق میلہ ہے۔ اس کی بنیاد پر خاندان پھلتے پھولتے ہیں۔شادی کا بندھن بے حد خوبصورت، پرکشش اور نازک ہوتا ہے، ہر شخص شادی کی تمنا رکھتا ہے سوائے چند کے جو شادی کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ بچے اپنے بچپن میں گڑے گڑیا کی شادی کرکے خوش ہوتے تھے۔ لیکن اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ انسان شادی کے بندھن سے فرار حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن جانوروں کی شادی خوب دھوم دھام سے کر رہے ہیں۔ ہر قوم و مذہب میں شادی کرنے کے مختلف طریقے ہیں، ہندوؤں میں ہونیوالے شوہر اور بیوی آگ کے گرد سات چکر لگاتے ہیں جنھیں ’’پھیرے‘‘ کہا جاتا ہے۔ عیسائیوں میں انگوٹھی پہنائی جاتی ہے، زبانی و کاغذی کارروائی بھی ہوتی ہے، مسلمانوں میں گواہوں کے درمیان ایجاب و قبول اور تلاوت قرآنی کے ساتھ دعائیں کی جاتی ہیں، کہیں میاں بیوی ایک دوسرے کے گلوں میں ہار ڈال کر اس بندھن میں بند جاتے ہیں اور پھر ایک نئی زندگی کا آغاز نئی امیدوں اور نئی امنگ کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اب شادی کے بندھن سے انسان تو گریز کرنے لگے ، لیکن جانوروں کی شادی کی رسم بھی کرتے ہیں اور دھوم دھام سے دعوت بھی اڑاتے ہیں۔
 

دولہا دلہن کون ہیں؟
پیرو میں ہوئی ایک انوکھی شادی میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا ۔ پیرو میں ہوئی شادی کی انوکھی تقریب جس میں دولہا دلہن کے علاوہ باقی سب انسان ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ دولہا دلہن کون ہیں؟ وہ آپ خود ہی پڑھ لیں۔ پیرو کا دارالحکومت لیما جہاں راہوں میں پھول بچھائے گئے دولہے دلہن کیلئے۔ دلہن کی گاڑی آئی اور اس میں سے ایک نایاب نسل کی کتیا اتری۔ جی ہاں،، اور اس کے دولہے میاں کتے صاحب اپنی جیون ساتھی کیلئے پھولوں کی ٹوکری لئے ہوئے آئے۔ تقریب میں ساری رسمیں ادا کی گئیں، دولہا دلہن سے شادی فارم پر دستخط کرائے گئے اور میرج سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ ڈاگی نے بھونک بھونک کر قبول ہے کا اقرار کیا۔ شادی کی تقریب سجانے کیلئے دلہنیا کی مالکہ کے پاس ٹھوس جواز موجود ہے۔ کہتی ہیں کہ " یہ اہم ہے اس لئے کہ اس سے جانوروں کے مالکان کو میل جول کا موقع ملتا ہے۔ بچوں اور بڑوں کیلئے تفریح ہے اور وہ انجوائے کرتے ہیں"لیکن دولہے میاں کے مالک کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شادی کی وجہ محبت ہے۔ "دونوں ایک دوسرے کو کافی عرصے سے پسند کرتے تھے اور ہم چاہتے تھے کہ دونوں ساتھ ہوجائیں۔ سو دونوں کی شادی ہوگئی اور ہم بہت خوش ہیں"۔ شادی کی تقریب میں دولہے دلہن کی برادری سے بھی کچھ لوگ آئے ہوئے تھے۔ بہرحال انجوائے تو سب نے کیا۔ آخر میں رخصتی ہوئی اور دولہا دلہن گاڑی میں اپنے گھر روانہ ہوگئے۔

image


کتوں کی شادی
برازیل میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا،برازیل میں کتوں کی شادی کی رسم دھوم دھام سے ادا کی گئی ، اس انوکھی تقریب میں سینکڑوں مہمانوں اور پالتو جانوروں نے بھی شرکت کی۔کتوں کے مالکان نے تقریب پر آٹھ ہزارتین سو پچاس ڈالرخرچ کیے، برونا نامی کتیا نے دلہن بننے سے قبل پالتو جانوروں سے متعلق مخصوص شاپ پر گھنٹوں وقت گزارا، جہاں اسے تیار کیا گیا، اس کو نہلایا گیا جبکہ اس کے بال چاکلیٹ سے بنائی گئی کریم سے دھوئے گئے۔ برونا کی شادی کی تیاری ایک ماہ قبل شروع ہو گئی تھی جبکہ اس کے شادی کے لباس پر تین سو نوے ڈالر لاگت آئی ہے ،برونا کی مالکہ ریکوئل مینڈیس کا کہنا ہے کہ ہم اس جوڑے کے ہنی مون کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔ برازیل دنیا میں پالتو کتوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے برازیل میں تیس ملین پالتو کتے ہیں جبکہ اس فہرست میں امریکہ پہلے نمبر پر ہے جہاں ساٹھ ملین پالتو کتے ہیں۔

image


بیل اور گائے کی شادی
شادی کے موقع پر ہر ملک میں خاندان اپنے اپنے رواج کے مطابق مختلف رسومات ادا کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان رسموں کے انداز بھی بدلتے رہتے ہیں مگر اہمیت کسی بھی دور میں کم نہیں ہوتی۔لیکن کچھ شادیاں ایسی انوکھی ہوتی ہیں کہ انھیں تا دیر یا د رکھا جاتا ہے۔ بھارت میں ہندو مذہب کے پیروکار جہاں گائے اور کئی دوسرے جانوروں کو مقدس سمجھتے ہوئے ان کی پرستش کرتے ہیں وہیں اب گائے ،بیل کی باقاعدہ شادیوں کا بھی اہتمام ہونے لگا ہے۔اسی نوعیت کی ایک شادی حال ہی میں انجام پائی، جس میں دْلہا [بیل] کو پرکاش اور دْلہن [گائے] کو گنگا سے شادی کے بندھن میں باندھا گیا۔اسے بھی شادی کا نام دیا گیا۔ اس منفرد شادی کی تیاری میں تقریبا دو ماہ لگے۔ دس ہزار آسٹریلوی پاؤنڈ کی لاگت سے رچائی گئی شادی کی تقریب میں کم سے کم پانچ ہزار افراد شریک تھے جن کی انواع اقسام کے لذیذ کھانوں سے تواضع کی گئی۔رپورٹ کے مطابق بھارت میں جانوروں کی شادیوں پر بسا اوقات اخراجات 10 ہزار آسٹریلوی پاؤنڈ سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں۔ پرکاش اور گنگا کی شادی میں بھی یہی ہوا ہے۔ اس نوعیت کی شادیوں میں ہزاروں لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی یہ تعداد دس ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ شادی میں شرکت کرنے والے خوشی سے رقص کرتے ہوئے لذیذ کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے صوبہ مدھیا پردیش میں بیوٹی پارلر سے تیارہوکرآنیوالی ایک گائے اور بیل کی شادی کی رسم ادا کی گئی۔ بیل اور گائے کی شادی کی تقریب میں ہزاروں افراد جمع ہوئے جنہوں نے دولہا اور دلہن کا زبردست استقبال کیا گیا۔بیل دولہے کو سر پر پگڑی پہنائی گئی جبکہ گائے دلہن کو اس علاقہ کے قدامت پسند ہندوں نے زیورات اور عروسی لباس پہنایا۔نوجوان ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے رہے۔ اس انوکھی شادی کی تقریب سے قبل گائے کو بیوٹی پارلر سے تیار کرایا گیا، آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پر لپ سٹک لگائی گئی۔ پنڈت نے گائے اور بیل کو منتر پڑھ کر جیون ساتھی بنا دیا ۔

image


خاتون کی سانپ سے شادی
یہ قصہ تو تھا جانوروں سے جانوروں کی شادی کا ، لیکن ایک انوکھا واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک بھارتی خاتون نے سانپ سے شادی کرلی ہے۔ اس ہندو خاتون نے 2 ہزار ’باراتیوں‘ کے موجودگی میں ایک سانپ سے شادی کی۔ اس نام نہاد شادی کا اہتمام ہندو رسم ورواج کے مطابق کیا گیا۔ اڑیسہ کے ضلع خردہ کے اٹالہ گاؤں میں 30سالہ بمبالہ داس ریشمی ساڑھی اوڑھ کر پورے ایک گھنٹے تک شادی کی تمام رسومات کے دوران سانپ کے ساتھ بیٹھی رہیں جبکہ پنڈت اپنے منتر پڑھتارہا۔ سانپ خاتون کے گھر کے قریب ہی ایک چیونٹیوں کے ’ گھر‘ میں رہتاہے۔بمبالا کا کہنا تھا کہ وہ سانپ سے بول نہیں سکتی لیکن دونوں ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں ، وہ جب بھی دودھ ڈالتی ہے تو یہ (کوبرا) پینے آتا ہے۔خاتون کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ سانپ کے قریب جاتی ہے لیکن کبھی سانپ نے اْسے نقصان نہیں پہنچایا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق جب خاتون نے سانپ سے شادی کے ارادے کا اظہار کیا تو اہل علاقہ نے خاتون کی حوصلہ افزائی کی اور اِسے علاقے کے لیے اچھا شگون قرار دیا۔ ہندو مذہب میں اکثر افراد سانپوں کو پوجا بھی کرتے ہیں، ان کو دودھ وغیرہ پلاتے رہتے ہیں لیکن شادی کا یہ واقعہ انوکھا ہے۔

image


جہیز میں ٹیوب لازمی
منگل تھانڈا کے لوگوں کی زندگی ٹیوب پر منحصر ہے۔ لیکن ایک اور بھی عجیب قصہ ہے، بھارت کے ایک گاؤں کا ۔بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے وارنگل ضلع میں ایک چھوٹا سا دور افتادہ گاؤں منگل تھانڈا ہے۔ اس گاؤں میں جب شادی ہو تو غریب سے غریب خاندان کو بھی ایک چیز لازمی طور سے جہیز میں دینی پڑتی ہے اور وہ ہے ٹرک کے ٹائر کی پرانی ٹیوب ۔اس منفرد تحفے یا جہیز کی وجہ یہ ہے کہ اس گاؤں کا راستہ ایک ندی نے روک رکھا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو اگر کوئی چیز لینے کے لیے باہر جانا ہوتا ہے تو وہ ٹیوب کے سہارے ہی ندی پار کرتے ہیں۔ منگل تھانڈا پہنچنے کا راستہ اتنا خراب ہے کہ وہاں گاڑی سے پہنچنا ممکن نہیں۔ اس گاؤں کو دنیا سے جوڑنے کا دوسرا راستہ ایک ندی ’واٹّے واگو‘ نے روک رکھا ہے۔ اس لیے اس گاؤں کے ہر خاندان کی زندگی ٹرک کی ٹیوب پر ٹکی ہوئی ہے جسے یہ لوگ ایک کشتی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔منگل تھانڈا لمباڈا قبائل کا ایک ایسا گاؤں ہے جو اپنے راشن، سکول، ہسپتال، بینک اور دوسری تمام بنیادی سہولیات کے لیے دریا کے اس پار واقع سرپلّ گاؤں پر منحصر ہے۔اس گاؤں میں ہر گھر کے آگے ٹیوب لٹکی ہوتی ہے گویا وہ ان کی موٹر گاڑی ہو۔وہاں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ٹیوب ہے جسے اتنی ہی اہمیت حاصل ہے جتنی کے ڈوبتے ہوئے انسان کے لیے ایک لائف جیکٹ کی ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے ہر ماں باپ کو اپنی بیٹی کے جہیز میں ایک نہیں، بلکہ دو ٹیوب دینے پڑتے ہیں۔ ایک بیٹی کے لیے اور دوسرا داماد کے لیے تاکہ وہ محفوظ طریقے سے دریا پار جا آ سکیں۔جب میں اس گاؤں میں گیا تو ہر گھر کے باہر ایک ٹیوب ایسے رکھی تھی جیسے کوئی گاڑی رکھی ہو، یا کوئی جانور بندھا ہو۔گاؤں کے ایک نوجوان تیجاوت نوین نے بتایا ’ٹیوب کے بغیر تو شادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پرانے ٹیوب کی قیمت تین سو سے پانچ سو روپے ہوتی ہے جبکہ نئی ٹیوب نو سو روپے میں ملتی ہے۔ میری شادی ہو گی تو میں بھی اپنی سسرال سے ایک ٹیوب مانگوں گا۔‘ان لوگوں کی زندگی ٹیوب پر اس قدر منحصر ہے کہ جب ایک نئی نویلی دلہن کویتا اپنے مائکے آئی تو لوگ ان سے زیادہ ان کی ٹیوب کی خیر خبر لے رہے تھے۔ایسا نہیں ہے کہ گاؤں کے لوگوں نے اپنی پریشانیوں کے لیے کہیں فریاد نہیں کی جب بھی انتخابات آتے ہیں تو ہر امیدوار سڑک اور پل کا وعدہ کرتا ہے لیکن انتخابات کے بعد اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔ لیکن اب کی بار گاؤں والے سنجیدہ ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات کی آہٹ بڑھ رہی ہے، گاؤں والوں کا غصہ بڑھ رہا ہے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر اس سے پہلے پل یا سڑک کی تعمیر نہیں ہوئی تو وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں گے اور گاؤں کے 250 ووٹ کسی کو بھی نہیں ملیں گے۔

image


مینڈکوں کی شادی
بھارت میں توہم پرستی بہت ہے، کچھ عرصے پہلے مدھیہ پردیش میں خشک سالی سے تنگ کسانوں نے مون سون کی بارش کی دعا کا انوکھا طریقہ اپنایا اور مینڈکوں کی شادی کروا دی، شادی کی تقریب دھوم دھام سے منائی گئی۔ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں شادی کی تقریب ہوئی۔ اس انوکھی شادی میں دولہا اور دلہن انسان کے بجائے دو مینڈک تھے۔ تقریب میں کسانوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا۔ شادی کا مقصد مون سون بارشوں کے لئے دعا تھی۔ شادی میں خواتین نے بھنگڑے ڈالے۔ بھارت میں مون سون شروع نہ ہونے وجہ سے کسان فصل کی کاشت حوالے سے پریشان ہیں۔

image


کتا اور ہرن دوست
بھارت میں تو شادی کا رواج ہے لیکن مغرب میں تو گرل فرینڈ رکھی جاتی ہے، جس میں رنگ و نسل کی کوئی قید نہیں ہے، سو یہ رویہ جانوروں نے بھی اپنایا ہے، سچ کہتے ہیں کہ دوستی میں رنگ اور نسل کی کوئی قید نہیں ہوتی ، اس لیے تو کتا اور ہرن دوست بن گئے ہیں۔یہ ہرن اور کتا اپنی دوستی کو پختہ کرنے کیلئے کافی وقت اکٹھے گزارتے ہیں۔ایک امریکی وائلڈ لائف ایکسپرٹ نے گھنے جنگل میں اس جوڑی کی تصویر اتاری جو اب انٹرنیٹ پر بہت معروف ہوچکی ہے۔لگتا ہے انسانوں کی مسلسل قتل و غارت گری سے نصیحت پاکر اس کتے اور ہرن نے ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے تاکہ وہ جانوروں کیساتھ ساتھ انسانوں کیلئے بھی مثال بن سکیں۔

image


بندروں کی شادی
اڑیسہ والوں نے بندروں کی شادی میں خوشی محسوس کی۔ اور بندروں کو شادی کے بعد آزاد کر دیا۔مشرقی بھارت میں دو بندروں کی شادی ایک بڑی تقریب میں تین ہزار سے زیادہ دیہاتیوں نے شرکت کی۔اڑیسہ کے ایک گاؤں میں ہونی والے اس شادی کی تقریب میں بندریا کو پانچ میٹر لمبی ساڑھی اور پھلوں کے زیور پہنائے گئے تھے۔اس میں شریک مہمانوں کی تواضح چاولوں، دالوں، سبزیوں، مچھلی اور مٹھائیوں سے کی گئی۔ہندو عقائد میں بندر کو مقدس مقام حاصل ہے اور اس کی تعظیم کی جاتی ہے۔ تاہم اڑیسہ میں جس جوڑے نے ان بندروں کا اپنایا اور ان کی شادی کا اہتمام کیا ان کا کہنا تھا کہ وہ انہیں پالتو جانوروں کی طرح پسند ہیں۔دولہا جو ایک تین سالہ بندر تھا اسے موسیقی کی دھنوں پر رقص کرتے اور آتش بازی چھوڑتے باراتیوں کے ہجوم میں ایک مندر میں لے جایا گیا۔مندر پہنچنے پر خواتین نے روائیتی ہندو انداز میں بارات کا استقبال کیا جبکہ پجاری نے ان کی شادی کی رسومات ادا کیں۔پجاری دتری داس کا کہنا تھا کہ بندروں کی شادی کا ان کا یہ پہلا تجربہ تھا لیکن انہوں نے اس کے دوران وہ تمام رسومات ادا کیں جو وہ انسانوں کی شادی میں ادا کرتے ہیں۔خواتین نے دلہن جموری کو بالکل دلہن کی طرح تیار کیا اسے سرخ رنگ کی ساڑھی پہنائی اور اسے خوشبو لگائی۔دولہا اور دلہن کو مہمانوں نے تحائف بھی دیئے اور ان میں ایک مقامی تاجر کی طرف سے دیا گیا سونے کا ہار بھی شامل تھا۔بندریا کی مالکہ مامینہ نے کہا کہ انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اپنی بیٹی کی شادی کر رہی ہوں۔ انہوں نے کہا وہ یہ سوچ کر سخت رنجیدہ ہیں اب وہ شادی کے بعد ان کا گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔یہ دونوں بندر جنہیں ان کے مالک شادی سے پہلے باندھ کر رکھتے تھے شادی کے بعد آزاد کر دیئے گئے۔ شادی کے بعد ان دونوں کو اسی مندر میں ایک درخت سے جھولتے ہوئے دیکھا گیا۔

image


بچی جسے جانوروں نے پالا
انسان اور جانور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔انسانوں اور جانوروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، پہلے اگر انسان کے کسی عمل سے دوسرے کو تکلیف پہنچتی تو عموماً اْسے جانور سے تشبیہہ دی جاتی ہے، لیکن اب جانور مہذب اور انسان نے جانوروں والی خو بو اپنالی ہے۔ اگر کوئی جانور، کسی جنگل، بیابان یا پھر ٹوٹی پھوٹی عمارت میں کسی بے آسرا انسانی بچے کو دیکھے اور پھر نہ صرف اْس کی حفاظت کرے بلکہ ایک ماں کی طرح اْس کی پرورش کا فریضہ بھی انجام دے، تو عقل اِسے تسلیم نہیں کر تی، کیوں کہ اس طرح کے کردار ٹارزن اور کنگ کانگ کی فلموں کی حد تک تو قابل فہم ہیں، مگر اِن پر یقین بڑی مشکل سے آتا ہے۔لیکن گذشتہ کچھ برسوں میں بالخصوص اور ماضی بعید میں بالعموم، کچھ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ کسی بچے یا بچی کو کْتے، بلیوں، بندروں یا پھر بھیڑیوں نے نہ صرف تحفظ فراہم کیا، بلکہ اْن میں سے کئی بچوں نے جانوروں کے ماحول میں زندگی کے چند سال بھی گزارے ہیں۔ ان واقعات کو نہ صرف دنیا بھر کے نام ور اخباروں نے جگہ دی بلکہ کچھ واقعات پر دستاویزی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

1۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں گذشتہ برس 28 اکتوبر کو ایک کتاب کے حوالے سے خبر شائع ہو ئی۔ یہ کتاب ’’ماریانا چیپمین‘‘ نامی خاتون کی زندگی پر لکھی گئی ہے، جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اْسے اپنی زندگی کے ابتدائی چند سال، مجبوراً جنگل میں بندروں کے ساتھ گزارنا پڑے تھے۔ کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ماریانا جب تین یا چار برس کی تھی تو اْسے اغواء کر لیا گیا تھا۔ اغواء کار ا غلطی سے اْٹھا لائے تھے یا پھر کوئی وجہ ہوئی ہوگی، بہرحال اغوا کاروں نے اْسے راستے ہی میں چھوڑ دیا۔ یہ کولمبیا کا ایک گھنا جنگل تھا، جس میں بندروں کا بسیرا تھا۔یہ بچی ڈیڑھ سے دو برس تک اس جنگل میں رہی اور اس دوران اْس نے بندروں سے خوراک حاصل کرنے، درختوں پر چڑھنے کے طریقے سیکھے۔ ایک درخت کے تنے میں بنے سوراخ کو وہ اپنے گھر کے طور پر استعمال کر تی تھی۔ اْس کے بال، ناخن جانوروں کی طرح بڑھ گئے تھے، یہاں تک کہ پورا حْلیہ بندروں کی طرح کا بن چکا تھا۔ایک دن چند شکاریوں کا اس جنگل سے گزر ہوا۔ بچی اْن کے پاس گئی اور ٹوٹی پھوٹی زبان میں اور اشاروں کی مدد سے درخواست کی کہ وہ اْسے جنگل سے باہر نکالیں۔ شکاریوں نے بچی کو ٹرک میں ڈالا اور شہر کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن ٹرک جب شہر کے قریب پہنچا تو وہ خوف زدہ ہو گئی اور چھلانگ لگا کر بھاگ گئی۔ بعد ازاں وہ چند اوباش افراد کے ہتھے چڑھی، جنہوں نے اْسے اپنے ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ وہ وہاں سے بھی بھاگ گئی اور کئی برسوں تک دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بالآخر وہ بریڈ فورڈ پہنچی، جہاں اْس کی ملاقات جون چیپمین نامی ایک شخص سے ہوئی، جس سے 1977 میں اس کی شادی ہوگئی۔ ماریانا کی دو بیٹیاں ہیں۔ اس کی کہانی کو کتابی شکل دی گئی ہے۔ کتاب کا نام ’’دی گرل ودھ نو نیم‘‘ ہے۔ ماریانا اور اس کا خاندان اس کتاب کے ذریعے دنیا کو جنوبی امریکا میں انسانی اسمگلنگ کی ہول ناکیوں سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کتاب کو پہلے ہی دنیا کے سات ممالک میں شائع کیا جاچکا ہے اور برطانیہ میں اسے رواں برس اپریل میں شائع کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس ماریانا کی کہانی پر دستاویزی فلم بھی بنائی جارہی ہے۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

A wedding is one of the most important and special moments in one's life, even if it is a wedding for animals.Sounds outlandish? But they do happen around the world. Like Dogs barked "I do" in Peru, as canine companions were given the chance to marry any pooch who peked their fancy.