حامد میر اور سید منور حسن ایک صفحہ پر

یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے روزنامہ جنگ کے ایک اینکر سلیم صافی کے پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں خود آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ علماء حضرات سے پوچھ کر بتائیں کہ اس معاملے میں ان کی کیا رائے ہے دوسرے دن اسی بڑے اخبار میں منور حسن کے نام سے خبر شائع ہوتی ہے کہ انھوں نے امریکی بمباری، ڈرون حملوں میں مارے جانے والے افراد اور طالبان کے لوگوں کو شہید اور امریکی حمایت میں لڑنے والے وہ فوجی جو طالبان سے جنگ میں مارے جائیں شہید نہیں ہیں کہا ہے ۔ حالانکہ منور صاحب نے صرف اپنی رائے ظاہر کرکے اس پر ایک سوال اٹھایا تھا ،اور اس کی وضاحت خود سلیم صافی نے بعد میں اپنے ایک مضمون میں کی تھی اور کچھ اسی طرح کی ملتی جلتی بات حامد میر نے بھی اپنے ایک آرٹیکل میں لکھی تھی،لیکن ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے کئی روزتک اپنے ٹاک شوز کا موضوع بنائے رکھا مزید یہ کہ اس پر آئی ایس پی آر نے بھی اپنا ایک پریس نوٹ جاری کیا تھا اس وقت تو ایسا محسوس ہو رہاتھا کہ جیسے سارا میڈیا ایک طرف اور منور حسن ایک طرف ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ تمام صحافی، دانشوراور اینکرز حضرات ایک دوسرے سے بڑھ کر فوج کی محبت میں رطب اللسان تھے اصل موضوع کو ایک کنارے رکھ کر محض ایک فٹ نوٹ پر سارا طوفان برپا کیے رکھا اصل بحث تو یہ ہونی چاہیے تھی کہ امریکی حمایت میں لڑنے والے اور امریکا کی مخالفت میں لڑنے والے دو گروہوں کے مسئلہ کو ہم کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔یعنی یہ کہ جڑکو چھوڑ کر پتوں پر بحث شروع کردی گئی ،جماعت کی طرف سے وضاحتیں بھی آئیں لیکن سب ایک ہی راگ الاپ رہے تھے کہ منور حسن معافی مانگیں جب کے منور حسن نے کسی ادارے کو اس کے زیر انتظام کسی ایجنسی کو یا کسی شخصیت کا نام لے کر کوئی بات نہیں کی تھی،اس کے باوجود ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ اکثر صحافی حضرات اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں اس عنوان پر عدم توازن کا شکار نظر آرہے تھے ۔اب جو 19 اپریل بروز ہفتہ ملک کے مایہ ناز صحافی ،مولانا مودودی کے دوست عظیم دانشور وارث میر کے بیٹے جناب حامد میر پر کراچی کی شاہراہ فیصل پر اس وقت قاتلانہ حملہ کیا گیا جب وہ کراچی ائیر پورٹ سے جیو کے دفتر جارہے تھے ۔جیو میں بریکنگ نیوز نشر ہوئی اس کے بعد سے جیو پر اس حوالے سے خصوصی پروگرام ٹاک شوز کی شکل میں اتوار کی رات تک چلتے رہے جس میں جیو چینل کے علاوہ دیگر چینلز کے اینکرز،صحافی اور دانشور حضرات اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگوں نے اس واقع کی مذمت کرتے ہوئے اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اس کا تجزیہ کیا لیکن ایک خاص بات یہ کہ ابتدا ہی سے جیو نے اس خبر کے فوری بعد حامد میر کے چھوٹے بھائی عامر میر کے حوالے سے یہ خبرمع تصویر جاری کی کہ حامد میر نے اپنے ایک بیان میں یہ کہا تھا کہ اگر میرے اوپر کوئی حملہ ہوا تو فوج سے وابستہ ادارہ آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام اس کے ذمہ دار ہوں گے ۔اب پوری نہیں تو صحافی برادری کی اکثریت اسی لہہ پر کورس گا رہی ہے بالکل اسی طرح جس طرح اب سے چند ماہ قبل منور حسن کی مخالفت اور فوج کے حق میں یک زبان تھی اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک نجی چینل کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ " سینئر صحافی حامد میر پر حملہ شرپسند عناصر نے کیا ،ڈی جی آئی ایس آئی پر الزامات بے بنیاد افسوسناک اور گمراہ کن ہیں ،پاک فوج اور آئی ایس آئی پر الزامات ناقابل برداشت ہیں ۔حکومت کے قائم کردہ کمیشن کا خیر مقدم کرتے ہیں ،مکمل تعاون کریں گے ،ڈی جی آئی ایس آئی کی تصاویر چلانے اور الزامات لگانے پر قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں ،آئین اور قانون کے مطابق قانونی چارہ جوئی کریں گے انھوں نے کہا کہ حامد میر پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور ان کی صحتیابی کے لیے دعاگو ہیں ۔آئی ایس آئی ایک باوقار اور معتبر ادارہ ہے اس پر الزامات سے پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ایک چینل نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر کو بار بار دکھایا انھوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام اور میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جس نے اس پروپیگنڈے کی پر زور مذمت کی اور پاک فوج کے ساتھ روایتی محبت کا کھل کر اظہار کیا۔ـانھوں نے کہا کہ اب حکومت نے تین ججوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دے دیا ہے ،ہم حکومت کا ہی ادارہ ہیں ہم یقین دلاتے ہیں کہ کمیشن کی ہر طرح سے مدد کریں گے تاکہ واقع کے اصل مجرموں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے ۔انھوں نے کہا کہ فوج کی موجودہ قیادت کو پوری طرح حالات کا ادراک ہے اور آزادی صحافت اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کوشاں ہیں اور دفاع وطن کا فریضہ ادا کرتی رہے گی چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں ،اس طرح کے بے جا الزامات ملکی دفاع کو کمزور کرنے کے مترادف ہیں اور ان کو بھی بند ہوناچاہیے"

حامد میر یقیناَایک بڑے اور باہمت صحافی ہیں اور چاہے یہ ہمت انھیں جنگ اور جیو سے وابستگی کی وجہ سے ہی ملی ہو لیکن ان کے دشمن کوئی ایک نہیں ہو سکتے ہمیں یاد ہے بلکہ خود اپنی آنکھوں سے وہ پروگرام دیکھا تھا جس میں حامد میر نے بڑے جذباتی اندازمیں یہ کہا تھا کہ ہم ولی بابر کے قاتلوں کو اسی مقام پر سزا دلوائیں گے جہاں اسے قتل کیا گیا ہے ۔جیو کے رپورٹر ولی خان بابر کو لیاقت آباد کی مین شاہراہ پر قتل کیاگیا تھا اور پھر اس کے بعد اس ہائی پروفائل کیس کے گواہوں اور سرکاری وکیل کے رشتہ داروں سمیت 8افراد کو قتل کیا جا چکا ہے اسی طرح سلیم شہزاد کو ٹھکانے لگایا گیا حامد میر پوری قوت سے صحافی برادری کا کیس اٹھاتے تھے ولی خان بابر کے کیس کا انھوں نے اور ان کے ادارے نے بھر پور تعاقب کیا اور اس کے قاتلوں کو انجام تک پہنچایا ۔پچھلے دنوں حامد میر صاحب بنگلہ دیش بھی گئے تھے اور وہاں پر انھوں نے خطاب بھی کیا تھا ہوسکتاہے ان کے خطاب کی پوری کیسٹ آئی ایس آئی کے پاس موجود ہو اس لیے کہ وہاں پر کسی ایسے پاکستانی کو ہی ایوارڈ سے نوازا جاسکتا ہے جس نے1971میں قیام بنگلا دیش کے حوالے سے پاک فوج کے کردار کا اس انداز میں ذکر کیا ہو جو ہال میں موجود لوگوں کو پسند آیاہو پھر اس کے کچھ عرصے بعد پاک فوج سے تعاون کے جرم میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی گئی ۔حامدمیر اپنے آپ کو سچ اور حق لکھنے والاکہتے ہیں آج جس طرح ملک کے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ان کے حق میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئی ہے اسی طرح یہ تمام معززین ان نکات پر بھی حامد میر کا ساتھ دیں جن کا وہ مطالبہ کرتے رہے ہیں مثلاَ پرویز مشرف کو غداری کی سزا دلوانا،مسنگ پرسنز کے لیے آواز اٹھانابلوچستان کے حقوق کی بات کرنا آج ایک بڑے اخبار نے اپنے صفحہ اول پر وضاحت جاری کی ہے کہ ہمارا کسی ادارے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم نے تو حامد میر کے خاندان اور ان کے بھائی کی بات کو آگے بڑھایا ہے اور اپنے ساتھ کام کرنے والے ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کریں گے ۔جسطرح ملک کا کوئی ادارہ آئین اور قانون سے بالا تر نہیں ہو سکتا اسی طرح کویہ میڈیا گروپ چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اسے بھی کچھ قوعد و ضوابط کی پابندی اختیار کرنی ہوگی کہ اگر کسی اور چینل کے صحافی یا کارکن پر کوئی آزمایش آئے تو اسے اسی طرح ان کا ساتھ دینا ہوگا جس طرح آج وہ حامد میر کے لیے سب سے تعاون کا طلبگار نظر آتا ہے ۔آخر میں ہم دعا کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ حامد میر کو جلد ازجلد شفا عطا فرمائیاور ہمارے ملک کو نت نئی آزمایشوں سے محفوظ رکھے۔آمین
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 39673 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.