سیاسی لیڈران کی بے لگامی آخر کیوں؟

یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی اور بدترین زبوں حالی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب کہ جشن جمہوریت کی تیاریاں شباب پرہیں اور ملک کے باشندگان اس انتظا رمیں ہیں کہ کب جمہوریت کی عید منائی جائے تاہم تقاضاتو یہ تھا کہ ملک کے تمام افراد باہمی اشتراک سے اس کی تیاریوں میں پرزور تعاون پیش کریں لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ کچھ شر پسند عناصر کسی بھی قیمت میں یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی ہو او رملک کے باشندگان اس کی خوشی میں بزم عیش و نشاط آراستہ کریں،اپنی مکروہ ذہنیت کابرملا اور بے دریغ اظہا رکر رہے ہیں ۔امیت شاہ اوروسندھراراجے نے تو پہلے ہی اپنے مکروہ خیالات کا اظہا رکرچکے ہیں او ران پر کسی بھی طرح کی ایسی قدغن نہ لگی جو دو سرے بھگوالیڈران کیلئے سامان عبرت ہو۔ اب ذرا اسی غیر مؤثر اقدام کی تصویر دیکھئے کہ بہا رنوادہ کے پارلیمانی انتخاب کے امیدوار گری راج سنگھ جو بد قسمتی سے بی جے پی کے سایہ عاطفت میں جی رہے ہیں او راسی بھگوا پارٹی کے ٹکٹ پر اپنی کشتی سیاست کی مو جو ں کے حوالے کردیاہے بڑی بیباکی اور دلیری کیساتھ یہ بھگوائی فرمان سنایا کہ ’’مو دی کے مخالفین کو الیکشن کے بعد پاکستان جانا ہو گا ‘‘مو صوف ویسے تو ایک جمہوری ملک کے باشندہ ہیں تاہم ان کا لب ولہجہ کسی تیشہ زن سے کم نہیں یہ ان کے الفاظ ہیں یا پھر پارٹی ہائی کمان کی جانب سے نازل کردہ صحیفہ بھگوائیت ؟مزید طرہ یہ کہ مو دی کے حامی افراد بلکہ مو دی کے پجاریوں کو یہ بھی بشارت دی الیکشن کے بعد غبارآلود مطلع صاف ہو جائیگا کہ’’مودی کے حامیوں کے اچھے دن آئیں گے اورمخالفین کو ملک بدر کرکے پاکستان بھیج دیاجائے گا ‘‘گری راج سنگھ اور وسندھراراجے کی ہذیان گوئی گرچہ مختلف الفاظ پر مشتمل ہیں تاہم د ونوں کے معنی میں یک گونہ اشتراک و تعلق ضرورہے گری راج نے بھی وہی کہا جو وسندھرانے کہا تھا دونوں بھگوالیڈران کا اشارہ او رنتائج کے منتج ہو نے کا وقت الیکشن کے بعد ہے گویا اگر ا س الیکشن میں ہارہو ئی توپورے ہندوستان میں گجرات کی خونچکا ں داستان دہرادی جائے گی ان دو نوں بھگوالیڈران کی باتوں سے یہی اخذ ہورہا ہے لیکن یہ ان کی اپنی سوچ اوراحمقانہ فکر ہے کہ لوگ عقل و خرد سے بیگانے ہوکر ’’ہر ہر مودی ‘‘کا نعرہ بلند کررہے ہیں اور شاید اسی حماقت میں ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ الیکشن کے بعد مخالفین کی گردن مروڑدی جائے گی اوران کا قبلہ بھی بدل دیا جائے گا ۔

گری راج کایہ بیان جہاں ایک طرف جمہوریت کوشی محض ٹھہرارہا ہے تو وہیں آرایس ایس کے مخفی عزائم کی مکمل رونمائی بھی ہورہی ہے کہ الیکشن کے بعد صورتحال واضح ہو جائے گی کہ کس کا وجود ہندوستان میں باقی رہتا ہے ویسے افسوس اور حیرت کی کوئی بات نہیں ا س مذکورہ تنظیم کے عزائم ومنصوبے ہی کچھ ایسے ہیں کہ لاکھ چھپائے بھی نہیں چھپتا اور کہیں نہ کہیں اس کا برملااظہا رہو جاتا ہے نفرت کی سیاست او رمذہبی عصبیت کا ناجائز فائدہ اٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا گیا ہے بلکہ تمام ناممکنات کوممکن الحصول کی تصویر زارزار میں پنہاں کرنے کی تمام کو ششیں ازبر کرلی گئی ہیں اوربسااوقات باشندگان ہند ان کا ملاحظہ بھی کرلیتے ہیں او رخدا جانے کب تک یہ سلسلہ چلتارہیگا ،گری راج ویسے وسندھرایادیگر بھگوالیڈران کی طرح نادان نہیں ہیں انھوں نے اشارہ او رکنایہ میں گفتگوکی ہے لیکن یہ بھی کیسی ہوشیاری ہے کہ ان کامشارالیہ بت عریاں کی طرح ظاہر ہوگیا کہ مو صوف کی ہذیان گوئی اورلاف گزانی ان امورکی طرف مشیرہے ۔یہ صد فیصد سچ ہے کہ مودی کے مخالف صرف اورصرف مسلم طبقہ کے لو گ ہیں اور ان لوگوں کی مخالفت کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ اس طبقہ کے افراد مودی کی مخالفت کوکیوں لازمی قرار د ے رہے ہیں اورپھرسب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مودی نے اپنے ایمان و ایقان کا محور بجائے اتحاد و سلامتی کے فرقہ پرستی اور ہندو توا کوقراردیا ہے نیزاس کا مطمح نظر فرقہ واریت پر مبنی ہے جوکہ مسلم طبقہ ہی کیلئے باعث فکر و اندیشہ نہیں بلکہ ہندو ستان کی عظیم جمہوریت کیلئے بھی مہلک او ر سم قاتل سے کم نہیں لہذا اسی خط اورمضبوط بنیاد کے باعث جمہوریت کے قائلین ا س کی مخالفت کررہے ہیں اور تادم کرتے رہیں گے۔ اگر گری راج کے عفریتی تصورات کے بموجب مخالفت درست نہیں اور سراسر خطا ہے تو سچ مانئے ہم ایسی ہزار ہا ہزا رغلطیوں کے ارتکاب میں دریغ نہ کر یں گے بلکہ اس ارتکاب میں اپنی جانوں کو بھی قربان کردینا سعادت اور نیک بختی خیال کر یں گے مودی کی مخالفت ہو گی ،ہو تی رہے گی جب تک سیکولرزم اور جمہوریت کو اس کی نجاست و کثافت سے پاک نہیں قرار دیا جائے اور مکمل طور پر واضح نہ ہو جائے کہ ملک کاوزیر اعظم مودی نہیں ہے ۔

تقدیس جمہوریت کی بحالی اور اس کی ضمانت اسی وقت لی جا سکتی ہے جب کہ ملک بیرونی اور خارجی مکروہ عناصر سے یکسر پاک نہ ہوجائے اوریہ بھی اطمینان نہ کر لیا جائے کہ ملک کے اندر شرپسند عناصر اپنے خوابوں کامحل تیا ر نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی اس کیلئے کو ئی سازش کی جارہی ہے یہ زریں اصول اپنی جگہ، حیرت واضمحلال تویہ کہ کچھ شرپسندنے مذہب کی آڑ میں منافرت اورمذہبی عصبیت کی تخم ریزی کرکے اس کو مضبوط تناور درخت بنادیا ہے ملک کے افراد بارہا ان مذکو رہ اصولوں کی دھجیاں بکھرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں اور تقسیم کے پرالم سانحہ کے بعد اس کا جوسلسلہ شروع ہوا ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے لاکھ کو ششیں کر لی گئیں مگر نتیجہ صفر ہی رہا کبھی آر ایس ایس نے تو کبھی دوسری بھگواتنظیمو ں نے اس کی قبا چاک کی ۔الغرض جمہوریت او ر اس کی حرمتوں کو متواتر پامال کیا جاتارہا کبھی اس فعل قبیح سے اجتناب واحتراز کی خاطر کو ئی مثبت پیش رفت نہ کی گئی گجرات سانحہ سے لیکر مظفرنگر تک ہربار ایسا ہی ہوا اور تمام فرقہ پرست عناصر نے وہی کیا کہ جس کا تقاضا بھگواپرست تنظیمیں کرتی ہیں ۔گری راج سنگھ کا یہ بیان ویسے کو ئی نیا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہوتارہا ہے کہ ایک خاص طبقہ کو نشانہ بناکر ہندوستان بدر کی باتیں کی جاتی رہی ہیں مسلمانو ں کو بھی اس کے سماع کی عادت پڑچکی ہے لیکن ایسا تو نہیں کہ یہ چند کروڑنہتے مسلمان پتھر ہیں اور اپنی تمام سابقہ حمیت اور موروثی جذبات سے عاری ہو چکے ہیں؟ یہ صرف اور صرف خلل دماغی کے کچھ بھی نہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ قبل از وقت اپنے شکست کی خفت کو مٹانے کیلئے اس طرح کی ہذیان گوئی میں مبتلا ہیں یہ بھی بی جے پی حرماں نصیبی ہی ہے کہ ایک طرف راج ناتھ مسلم قائدین سے مل کر آپسی پژمر دگی اورتناؤ کی کیفیت کے ازالہ کی فکر میں ہیں توان کے رفیق کا راپنی بو الہو اسی کے باعث اس پرناکامی کی مہر لگارہے ہیں آخر کیسی افتاد ناگہاں ہیں کہ کچھ اپنے ہی بی جے پی کی مٹی پلید کرنے میں لگے ہیں اور صرف راج گری ہی کیو ں ہو دوسرے افراد نے بھی ماضی میں اس کو انجام دے چکے ہیں۔امیت شاہ ،وسندھرااورگری راج نے جو کچھ بھی کہا کیا وہ الیکشن کمیشن کے مقررہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہے ؟اور الیکشن کمیشن کا یہ اقدام غیر مؤثر کسی خاموش طوفان کی سمت مشیر نہیں ہے گری راج کو آخر اجازت کیو نکر مل گئی کہ وہ اشتعال انگیزی کرتے رہیں اورپورا ہندو ستان بشمول الیکشن کمیشن خامو شی کیساتھ مجبور سماعت رہے ؟اگر ایسا ہے تو ہمیں افسوس ہی نہیں بلکہ ہماراوہ اعتماد جو الیکشن کمیشن پر قائم تھا کمزور ہوا ہے اور نت نئے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔

ملک بدر کی دھمکی کس بنیاد پر جارہی ہے ؟کیا مسلمان اس ملک کے غدا رہیں ؟کیا ان چند کروڑ مسلمان نے اپنے خو ن جگر سے ملک کی آبیار ی میں حصہ نہ لیا ؟ کیا ملک میں اس قدر’’ مو دی توا ‘‘کی دیوانگی اور جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ ہر بن مو سے مودی کی لغو محبت کا اظہار ہو ؟آخر ا س ملک میں کیا ہو رہا ہے کہ آج بھی ایک فرقہ دو سرے فرقہ کو غدارکہتا ہے کیا ا س سے ’’مو دی تو ا’‘‘کی کشتی ساحل سے مل سکے گی ؟ یہ تمام سوالات ہیں لیکن ا سکا ایک ہی نقطہ جواب ہے کہ یہ اپنی شکست قبول کر لیناہے اور یہ ایسا ہو بھی کیوں نہیں کہ اب ان کی کشتی عین منجدھارمیں پھنس چکی ہے اور جب تک اہل ایمان مدد کونہیں آئیں گے کشتی اپنی حالت میں بدستو ررہے گی ۔

Iftikhar Rahmani
About the Author: Iftikhar Rahmani Read More Articles by Iftikhar Rahmani: 35 Articles with 23579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.