اُلّو کے پَٹّھے

ایک جھوٹ کو چُھپانے کی خاطر یعنی غلط بات یا فعل کو درست ثابت کرنے کے لیے سو چھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ جُھوٹی انا کی غلامی اور حقیقت سے صریح گریز کا ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔ مغرب آج جس حالت میں ہمارے سامنے ہے وہ کئی صدیوں تک اپنائے جانے والے معمولات کا ’’ثمر‘‘ ہے۔

2003 میں ریلیز ہونے والی بولی وڈ مووی ’’گنگا جل‘‘ میں مرکزی ولن سادھو یادو (موہن جوشی) کا بیٹا سُندر یادو (یشپال شرما) شہر کی ایک لڑکی اپوروا کماری (کرانتی ریڈکر) کو ہر حال میں ہتھیانا چاہتا ہے۔ اپوروا کماری کی شادی کہیں اور کی جارہی ہوتی ہے تو وہ دولہا کو قتل کردیتا ہے۔ اِس کے بعد وہ اپوروا کماری کو اغوا کرلیتا ہے۔ اپوروا کماری، اُس کی ماں اور چھوٹے بھائی کو سُندر یادو کے ہاتھوں اِتنی تکلیف پہنچتی ہے کہ ایک دن اپوروا کماری کی ماں غریبوں سے ہمدردی سے رکھنے والے فرض شناس سپرنٹنڈنٹ آف پولیس امِت کمار (اجے دیوگن) کے سامنے روتے ہوئے کہتی ہے، ’’ساری پریشانی اِس منحوس، نامُراد (اپوروا کماری) کے باعث ہے۔ یہ پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہ گئی؟ جی تو چاہتا ہے کہ اِس کا گلا گھونٹ دیں۔‘‘

اہل مغرب کا بھی کچھ کچھ ایسا ہی کیس ہے۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ اگلے وقتوں کی شرافت اور اقدار کو برقرار رکھنا زندگی بھر کا سَودا اور آزمائش ہے تو اپنے آپ کو بدلنے اور حالات کا سامنا کرنے کے بجائے اقدار کا پوٹلا ہی سَر سے اُتار پھینکا۔

جو لوگ آج اہلِ مغرب کی بے مثال مادّی ترقی کو سب کچھ، بلکہ زندگی کا حاصل اور تہذیب و تمدن کا نچوڑ سمجھ بیٹھے ہیں اُن کے لیے اوسوالڈ اسپنگلر کی کتاب ’’دی ڈیکلائن آف دی ویس‘‘ (زوالِ مغرب) چشم کُشا ثابت ہوسکتی ہے جس میں اُنہوں نے اپنی تہذیب کی چمک دمک ہی کو زوال کی سب سے بڑی نشانی قرار دیا ہے۔ مادّی معاملات میں فقید المثال عروج پاتے ہوئے مغرب کی پیش گوئی کرنا کسی مغربی مورّخ اور مفکر کے لیے بڑی آزمائش تھا۔ دنیا حیران ہوئی مگر پھر سمجھ گئی کہ اسپنگلر نے تہذیب کے زوال کی بات کی ہے۔

مغرب کے دورِ جہل میں مذہبی پیشواؤں نے تمام معاملات پر اجارہ داری قائم کرکے بے حساب سِتم ڈھائے تھے۔ غیر جانبدار سوچ رکھنے والے اہلِ دانش اور عوام کا ردعمل مذہبی پیشواؤں کے خلاف ہونا چاہیے تھا مگر نزلہ گرادیا گیا مذہب پر۔ پاپائیت کے علم بردار چونکہ مذہب، روایات اور اخلاقی اقدار کے محافظ ہونے کے دعویدار تھے اِس لیے اُن کی بدنیتی کو مذہب اور اخلاقی اقدار کی خرابی نتیجہ تصور کرلیا گیا۔ اِسی سوچ سے مذہب بیزار رویّے نے جنم لیا۔

مذہب بہت سے معاملات میں درست تلقین کرتا تھا۔ زندگی کا جنسی پہلو اِن میں سب سے نمایاں تھا۔ مرد و زن کے اختلاط کی مخالف تینوں عالمگیر الہامی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کا طُرۂ امتیاز رہی ہے۔ پاپائیت کے ڈسے ہوئے اہلِ مغرب نے یہ سمجھ لیا کہ سارا بگاڑ مرد و زن کے اختلاط سے گریز کی تعلیم اور شرم و حیا کی تلقین میں ہے۔ ساتھ ہی یہ تصور بھی تیزی سے پروان چڑھا کہ جب تک مرد و زن کے درمیان سے شرم و حیا اور جھجھک کا پردہ اُٹھا نہ دیا جائے تب تک حقیقی آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔

چار صدیوں سے زائد مدت گزری، اہلِ مغرب نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہر معاملے میں مادر پدر آزادی ہی زندگی کا محور اور مقصد ہے۔ حد یہ ہے کہ جُرم کی راہ پر گامزن ہونے کو بھی آزادی ہی کی ایک شکل تصور کرتے ہوئے ’’نفرت جُرم سے، مُجرم سے نہیں‘‘ کو نظریہ اپنالیا گیا ہے۔ یعنی کوئی کیسا ہی جُرم کر گزرے، دِل کی تسلی کے لیے اُسے تھوڑی سی سزا دے لیجیے اور پھر اُس کی اِصلاح پر مائل ہوجائیے! یہی سبب ہے کہ سزائے موت کو غیر حقیقت پسندانہ تصور قرار دے کر رد کیا جارہا ہے۔ منطق یہ ہے کہ اگر کسی قاتل کو موت کی سزا دے دی گئی تو پھر اُس فکر و عمل کی اِصلاح کیسے کی جاسکے گی!

شرم و حیا بہت سے معاملات میں مانع تھی۔ ترقی کا پہیّہ اچھی طرح گھوم نہیں پا رہا تھا اِس لیے مغرب کے بزرجمہروں نے سوچا آنکھوں سے حیا کا پانی نکال کر پھینک ہی دینا چاہیے۔ اور وہ پھینک دیا گیا۔ پھر کیا تھا، بے حیائی کا طوفان آگیا اور فکر و نظر کی آزادی کے نام پر مادر پدر آزادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر وہ رویّہ اپنایا گیا جس کے ذریعے اخلاقی اقدار کے دامن کو زیادہ سے زیادہ داغ دار اور تار تار کیا جاسکتا تھا۔
آنکھ سے حیا اور دِل سے خوفِ خدا ختم ہوجانے پر جو کچھ ہوا کرتا ہے وہی مغرب میں بھی ہوا۔ ناجائز رشتوں کو پہلے فیشن کا درجہ ملا، پھر عادت کا اور اب یہ طرزِ زندگی کا حصہ ہے۔ تازہ ترین مثال برطانیہ کے دو نوعمر پارٹنرز کی ہے۔ بارہ سالہ لڑکی نے تیرہ سالہ بوائے فرینڈ کے ناجائز بچے کو جنم دیا ہے! اِس فعل پر ’’پارٹنرز‘‘ کو شرمندگی ہے نہ اُن کے ماں باپ کو۔ اور ہو بھی کیوں؟ بازار میں چلتے ہوئے سِکّے کو کھوٹا کون کہتا ہے؟ قابل غور بات یہ ہے کہ قانونی وجوہ کے باعث (!) ’’والدین‘‘ کے نام پوشیدہ رکھے گئے ہیں! بہت خوب۔ یعنی محض نام ظاہر کرنے پر پابندی ہے، ناجائز تعلقات اُستوار کرنے اور اُن تعلقات کا نتیجہ دُنیا کے سامنے لانے پر کوئی روک ٹوک نہیں!

500 سال پہلے مغرب کے معاشرے بھی ہماری ہی طرح ’’دقیانوسی‘‘ اور ’’پس ماندہ‘‘ تھے۔ پھر اُنہوں نے سوچا حرام و حلال اور جائز و ناجائز کے چَکّر میں رہے تو ’’آگے‘‘ نہیں بڑھ سکیں گے۔ پاؤں میں اخلاقی اقدار کی ’’زنجیریں‘‘ تھیں اور گلے میں مذہبی تعلیمات کا ’’طوق‘‘ پڑا ہوا تھا۔ اِن زنجیروں اور طوق سے گلو خلاصی ناگزیر تھی۔ مذہب کی بات کرنے والوں سے بیزاری کے اظہار کی خاطر مذہب ہی کو طاقِ نسیاں پر سجادیا گیا اور مذہبی صحائف چمکدار اور قیمتی کپڑوں میں لپیٹ کر ’’محفوظ‘‘ کردیئے گئے۔ اِس کے بعد کون تھا جو کسی کو روکتا؟ شخصی آزادی کا گھوڑا تین صدیوں سے سرپٹ دوڑ رہا ہے اور ہر اُس خیال، رویّے اور عمل کو روند رہا ہے جس میں معقولیت کی ہلکی سی بھی رَمق پائی جاتی ہو۔ اِس بے لگام آزادی نے عجیب و غریب فکر کو جنم دیا۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ تمام اخلاقی حدود و قیود سے نکلے بغیر ترقی کرنا تو دور کی بات ہے، اُس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ پہلے مشترکہ خاندان کا نظام اِس مفروضے کی بھینٹ چڑھا اور خونی رشتوں کا تقدس پامال ہوگیا۔ پھر شادی کے ادارے ہی کو داؤ پر لگا دیا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ مشترکہ رہائش کے نتیجے میں دو تین بچوں کی پیدائش کے بعد یعنی ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لینے اور مطمئن ہو جانے پر رسمی کارروائی یعنی شادی بھی کرلی جاتی ہے!

خصوصی قوانین کے ذریعے شخصی آزادی کو اس حد تک تحفظ فراہم کیا گیا ہے کہ اب ماں باپ اپنے بچے کو ڈانٹ بھی نہیں سکتے۔ بچہ شکایت کردے تو ماں باپ کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑتی ہے۔ اِس روش کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ مرد و زن نے شادی کے ادارے کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ جب اولاد پر کوئی حق ہی نہیں تو پھر اُس کے معاملے میں ذمہ دارانہ رویہ کیوں رکھا جائے؟ شادی کے بندھن میں بندھے بغیر بچے پیدا کئے جاتے ہیں اور اُنہیں پالنے کی ذمہ داری ریاست کے کاندھوں پر ڈال دی جاتی ہے! ماں باپ جو کچھ ٹیکس کی شکل میں ریاست کو دیتے ہیں اُسی کی مدد سے بچے کی پرورش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

بے حیائی اگر ذاتی معاملہ ہو تو کسی کو کیا اعتراض؟ مگر یہ سب تو منصوبے کے تحت ذہنوں میں ٹھونسا اور ٹھوکا جاتا رہا ہے۔ بے حیائی کا سیلاب اب ہمارے گھروں میں داخ ہوچکا ہے۔ کَچّے ذہنوں کو بہت میٹھے اور سُریلے انداز سے باور کرایا جارہا ہے کہ زندگی تو صرف اپنی مرضی کے مطابق گزارنی چاہیے۔

سنی لیون اِس وقت بولی وڈ کی مشہور اداکارہ ہے۔ یہ واحد اداکارہ ہے جو خالص مُخربِ اخلاق (پورن) فلموں سے مین اسٹریم سنیما میں آئی ہے۔ کینیڈا میں بسے ہوئے سِکھ ماں باپ کی اِس بیٹی نے جب ساری اخلاقی حدیں پار کرکے پورن فلموں میں کام کرلیا تو ماں باپ ’’ناراض‘‘ ہوئے۔ جب ’’فرماں بردار‘‘ بیٹی نے وضاحت کی تو باپ نے ناراضی ختم کرتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، جو تمہارا جی چاہے وہ کرو۔ مگر جو کچھ بھی کرو، ہمیشہ اچھی طرح کرو!‘‘ یہ ہوتا ہے ایک دوسرے کو قبول کرنے کا کلچر!

ہمارے آپ کے گھروں میں بھی دیکھے جانے والے انڈین پروگرام ’’بگ باس‘‘ کے بگ باس یعنی سلمان خان نے سنی لیون کو ’’اہل خانہ‘‘ کے سامنے پیش کیا۔ لڑکیاں (اسکرپٹ کے مطابق) آپس میں کُھسر پُھسر کرنے لگیں تو سلمان خان نے پوچھا کیا بات ہے۔ ایک لڑکی نے نظریں جھکاکر شرمانے کی عمدہ اداکاری کرتے ہوئے سنی لیون کی طرف اشارا کرکے کہا کہ یہ تو پورن اسٹار ہیں۔ اِس پر سلمان نے ’’بڑے بھائی‘‘ کی طرح پیار بھرے لہجے میں ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’’بھئی، وہ اِن کا کام ہے!‘‘

لیجیے، قصہ ہی ختم ہوگیا۔ ’’سَلّو بھائی‘‘ کے الفاظ میں چُھپا ہوا پیغام یہ ہے کہ جس طرح اور بہت سے کام ہیں اِس طور پورن فلموں میں کام کرنا بھی محض ایک کام ہے جسے قبول کرلینا چاہیے۔ کَچّے ذہنوں کو دیا جانے والا یہ پیغام کِتنا پُختہ ہے اِس کا اندازہ لگانے کے لیے آئن اسٹائن ہونا لازم نہیں! ایک پورن اسٹار کو جواں سال لڑکیوں کے لیے آئیڈیل بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ اور یہ وہ پورن اسٹار ہے جو پورن فلموں میں ’’شوہر‘‘ ڈینیل کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے اور برملا کہتی ہے کہ اُس کا شوہر اور بھائی دونوں بہت ’’معاون‘‘ ہیں!

مغرب کی اداؤں پر فِدا ہوجانے والے ہمارے پڑوسی بھی تمام حدوں سے گزرتے جارہے ہیں۔ کمل ہاسن اور ساریکا کی مثال واضح ہے جنہوں نے اپنی تین بیٹیاں بڑی ہونے پر شادی کی! 1987 میں اداکارہ نینا گپتا کا ویسٹ انڈین کرکٹر ویوین رچرڈز سے ناجائز تعلق قائم ہوا جس کے نتیجے میں نینا نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ وہ بیٹی اب جوان ہوچکی ہے۔ نینا نے اپنی اِس قبیح حرکت پر کبھی خفیف سی بھی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اپنی بیٹی کو بے غیرتی کے کارخانے کی فخریہ پیشکش کی حیثیت سے دُنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ میڈیا کے ذریعے اِس ’’کلچر‘‘ کو اب ہماری جھولی میں ڈالا جارہا ہے۔

اہلِ مغرب نے کچھ پانے کے لیے سب کچھ کھو دیا۔ اور اِس پر ملال بھی نہیں۔ اپنی مستی میں مست ہو رہنے کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے۔ بہ قول جون ایلیا ؂
میں بھی بہت عجیب ہوں اِتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں!

مغرب میں اُلّو دانش کی علامت ہے۔ تو پھر دانش کی اِس علامت کے پرستار اُلّو کے پَٹّھے ہوئے! اُلّو کو تو کچھ نہیں ہوا مگر اُس کے پَٹّھے اکڑے ہوئے ہیں۔ یہ اکڑن شرم و حیا اور غیرت کے تیل کی مالش سے دور ہوسکتی ہے۔ مگر اب یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شرم و حیا کے تیل کا اہتمام اور مالش کا فیصلہ کئے جانے تک پَٹّھے رہیں گے یا نہیں!

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 480716 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More